آزادی کا جذبہ موت کے خوف سے سرد نہیں ہوتا۔حریت کی فکر
نہ قید کے ڈر سے ختم ہوتی ہے اور نہ ہی تشدد کا صدمہ آزادی کی ٹرپ ختم کرتا
ہے ۔برصغیر پاک وہند کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ ملک مسلمانوں کے لیے بہت
ضروری تھا اور اس ملک کے لیے مسلمانوں نے جو قربانیاں دیں تاریخ میں اس کی
کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔آج پاکستان کے 75ویں یوم آزادی کے موقع پر جو
آنکھوں نے دیکھا وہ من وعن تو لکھنے سے قلم قاصر ہے مگر پھر بھی مجھے ہے
حکم اذاں ۔ماہ اگست شروع ہوتے ہی انارکلی سے ملحقہ بازار قومی پرچم اور جشن
آزادی کے جھنڈے ،جھنڈیوں،بیجز،ٹی شرٹس ،باجوں اور دیگر اس سے متعلقہ سامان
سے سج جاتا ہے تیرہ اگست کی شب سے ہر طرف باجے بجنے لگتے ہیں ۔یہ واقعی ہی
خوشی کا دن ہے کہ ہمیں ایک آزاد یاست ملی، مگر ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ اس
آزادی کے پیچھے کتنی قربانیاں ہیں ؟۔ہم اس مقدس لہو کے مقروض ہیں جنکا
نذرانہ دیکر ہم نے یہ "پاکستان"حاصل کیا ہے۔چودہ اگست دوپہر دو بجے کسی
دوست کو ملنے کی غرض سے باہر نکلا تو قومی پرچم کے مقدس لباسوں میں ہاتھوں
میں باجے تھامے تقریباً بانسریاں نکلیں موٹر سا ئیکلوں پر سوار عجیب الخلقت
مخلوق کو دیکھاجو ایک دم موٹر سائیکلوں کو گھوماکر ادھر سے ادھر کررہے تھے
۔کچھ منہ میں سے پان کی پچکاریاں دوسروں پر پھینک رہے تھے تو کچھ سگریٹ کے
کشوں سے لطف اندوز ہورہے تھے ۔سب سے زیادہ تکلیف جو بات تھی وہ اس ملک قوم
کی بیٹیاں نیم عریاں لباسوں میں قومی ترانوں پر خوشی کا اظہار کررہی تھیں
جبکہ دوسری طرف قوم کا سرمایہ نوجوان انکے جسموں پر نظریں گھاڑے ہوئے تھے
۔مغل پورہ سے تھوڑا ساپیچھے ریلوے پھاٹک کے ساتھ گول گپوں کی ریڑھیوں پر
میں نے کئی لوگوں کو انکی فیملی کے ساتھ بے ہودہ مذاق ،حرکات کی وجہ سے
گھتم گھتا ہوتے دیکھا۔سب سے پہلی بات توان جاہلوں کو پوچھنا چاہیے جو خود
کو نام نہاد مذہبی سکالر،صوفی ازم کے علمبردارکہہ کر پردہ کا مذاق اڑاتے
ہیں اور کہتے ہیں کہ دل کا پردہ ہونا چاہیے تو کوئی کہتا ہے گلے میں عشق
نبی ؐ کا پٹا ہو تودوپٹہ شوپٹہ کی کیا ضرورت ہے ۔اناﷲ واناالیہ راجعون۔آج
ان خواتین اور قوم کی بیٹیوں سے عرض کرنا ہے جوکہتی ہیں کہ مرد ہمیں غلط
نگاہ سے دیکھتے ہیں ان پر آوازیں کستے ہیں اور انکی اس معاشرے میں عزتیں
محفوظ نہیں انکو تحفظ حاصل نہیں ،آئے دن ریپ کیسزز میں اضافہ ہورہا ہے تو
انکی بڑی وجہ بھی یہ بنت ِحوا خود ہیں سب سے پہلے اس حوا زادی نے شعائر
اسلام کا مذاق اڑایا اسلام کے احکامات کو قید وقیود قرار دیکر آزادی کا
نعرہ بلند کیا اور پہلی آزادی پردہ سے تھی اور کسی شاعر کی زبان سے ۔سبھی
مجھ کو کہتے ہیں نیچی رکھ نظر اپنی ۔کوئی ان سے نہیں کہتا،نہ نکلو یوں عیاں
ہوکر۔کیا ہمارے قائد اعظم محمد علی جناح ؒنے اس آزاد ریاست کے حصول کے لیے
دن رات انتھک محنت کی تھی ؟کیا اس آزاد ریاست کا خواب حکیم الامت حضرت
علامہ اقبال ؒ نے دیکھا تھا ؟افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہم نہ اس وطن عزیز کی
قدر کرپائے اور نہ اس تحفہ ٔالٰہی کے حصولِ مقصد پر چل پائے ۔آج نصف صدی سے
زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بھی ہمیں وہ احساس پریشان نہیں کرتا کہ آیا
پاکستان کے حصول ِ مقصد کیا تھا؟ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے ہم نے بے حد وحساب
قربانیوں کو یکسر بھلا دیا ہے۔اگر ایسا نہیں توپھر کم ازکم ان قربانیوں کا
کوئی ثمر دکھائی دیتاعوام میں؟معاشرے میں ؟یاپھر حکمرانوں میں لیکن یہاں سب
عاری ہیں۔پاکستان بننے کے بعد ہم نے شہدا ء کی قربانیوں کو فراموش ہی نہیں
کیا حصولِ مقصد بھی بھلا یا اس کے ساتھ ساتھ ان لاکھوں مسلمانوں کو بھی
یکسر بھلادیا جنہوں نے پاکستان کے قیام کے لیے ان گنت قربانیاں دیں
۔پاکستان کا مقصد کیا؟’’لالہ الااﷲ ‘‘یہ وہ نعرہ ہے جو قیام پاکستان کی
بنیاد بنا یعنی پاکستان کا قیام اس لیے ہی تھا کہ یہاں اسلامی تعلیمات
،شریعت محمدی اور احکام الٰہی کے مطابق ہر فرد کو زندگی گزارنے کی آزادی
ہوگی ۔وطن میں شریعت کا نظام ہوگا اور امن کا بول بالا ہوگا لیکن آج
پاکستان کے ہرباسی کی آنکھ ایسا نظام دیکھنے کو ترس گئی ہے۔یہاں قتل وغارت
،ظلم وستم اور انارکی تو بڑھی لیکن نہ امن کا پودا پروان چڑھا اور نہ عدل
وانصاف کو پھلنے پھولنے دیا گیا ،شریعت محمدی تو دور کی بات یہاں تواسلام
کا نام لیواؤں کی زندگی بھی اجیرن بنادی گئی ہے۔انتہائی افسوس اور حیرت سے
کہنا پڑتا ہے کہ جس انگریز کی غلامی سے نجات کے لیے ہمارے آباؤ اجداد نے
آزادی کی قیمت چکائی ،آج بھی ہم اسی انگریز کے غلام ہیں اور یہ غلامی بڑھی
ہی ہے کم نہیں ہوئی بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہم انگریز کے ساتھ ساتھ دوسرے
عیسائی ممالک کے رحم وکرم پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔آج ہمارے
لیے ان کی تہذیب ،تمدن ،قانون اور اطوار سے چھٹکارا ممکن ہی نہیں۔قبل
پاکستان مائیں ہندوؤں،سکھوں،فرنگیوں کے ہاتھوں اپنی بیٹیوں کی عزتوں کے لٹ
جانے کے ڈرسے رات رات بھر نہیں سوتی تھیں اور آج مائیں
وڈیروں،جاگیرداروں،سرمایہ داروں اور سیاست دانوں کے ہاتھوں بیٹیوں کی عزتوں
کے لٹ جانے کے ڈر سے نہیں سوتیں ۔قانون توآج بھی چوہدریوں،سرداروں،وڈیروں
کے در کا غلام ہے پھر ’’آزادی‘‘کس چیز کا نام ہے ؟غریب ماں وباپ کے سامنے
آج بھی ایک بھی بااثر باپ کا بیٹا اسکی بیٹی کی عزت کو تار تار کردیتا ہے
اور ماں وباپ کو تھانے دار الٹا اس درندے سے معافی مانگنے کا حکم دیتا ہے
اور اس بوڑھے ماں وباپ کو انصاف تو نہیں ملتا البتہ اپنی دوسری بیٹی کی عزت
سے بھی ہاتھ دھونا پڑتاہے ۔آخر میں عدم گواہ ہونے کی وجہ سے عدالت اس وحشی
کو باعزت بری کردیتی ہے ۔آج بھی خاوند کے سامنے اسکی بیوی کا گینگ ریپ کیا
جاتا ہے اور اس کو انصاف کے لیے سربازار آنا پڑتا ہے اور انصاف پھر بھی
نہیں ملتا ۔آج بھی کسی غریب کو اسکے بنیادی حقوق روٹی ،کپڑا ،مکان ،تعلیم
اور طبی سہولیات میسر نہیں آج بھی باپ غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنے بچوں
کو اپنی قسم دیکر زہر پلا دیتا ہے ۔آج بھی امراء شہر کے کتے سرکاری گاڑیوں
میں گھومتے ہیں اور غرباء شہر کے بچے کوڑا کرکٹ میں سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں
۔کیا آزادی کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہر سال چودہ اگست کو مقدس قومی پرچم کے
لباس پہن کر ہاتھوں میں قومی پرچم کو تھام کر اور قوم کی بیٹیاں نیم عریاں
کپڑے پہن کر ناچ گا کراور اغیار کی ثقافت کو فروغ دیکر سمجھتے ہیں ہم نے
آزادی کی قیمت چکانے والوں کا حق ادا کردیا ہے ؟نہیں بلکہ ہم آج انکی روحوں
کو تڑپا رہے ہیں ۔اس دن تو ہمیں اﷲ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوکر سجدہ شکر
ادا کرنا چاہیے اور اپنے محسنوں کی قربانیوں کو یادکرکے انکے بلند درجات کے
لیے دعا کرنی چاہیے آج جن کی بدولت ہم ایک آزاد ریاست میں ’’سانس‘‘لے رہے
ہیں ۔بصورت دیگربقول نثار ناسک ۔مجھ کو آزادی ملی بھی تو کچھ ایسے ناسک
۔جیسے کمرے سے کوئی صحن میں پنجرہ رکھ دے۔
|