اِمام اور اِنعام

تخت وتاج کیلئے کشت وخون کو انقلاب کہنا درست نہیں ،انقلاب انسان کی سوچ اور نظام کی تبدیلی کانام ہے،لہٰذادین فطرت اسلام اورسراپارحمت حضرت محمدؐکے سواکوئی ا س انقلاب کے معنی اورمعیار پرپورانہیں اترتا ۔اِسلام کے ظہور اورسرورکونین ؐ کے نورسے اندھیرا روشنی میں تبدل ہو گیا،جہالت کے بادل چھٹ گئے ،مغلوب غالب آگئے جبکہ آقااورغلام کافرق مٹ گیا ۔اسلام معاشرے کوتقسیم نہیں کرتابلکہ انسانوں کے درمیان تقویٰ کی بنیاد پر تفریق اورتعظیم کادرس دیتا ہے ورنہ اسلام کی آمدسے قبل جابراورمجبورمیں فرق نہیں تھا۔حضرت محمد ؐ کابتایاراستہ بلاشبہ کٹھن ہے مگراس کے سوادوسراکوئی راستہ نہیں جو اصلاح اور فلاح سے ہمکنار کرے ۔جولوگ بھی اس راہ حق پرچلے وہ سرفرازہوئے اور تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑگئے ۔جوبھی سچے دل سے اس راہ حق پر چلے لوگ اس کی راہوں میں وفاؤں کے گلاب بچھادیتے ہیں ۔ حضرت ابو انیس صوفی محمدبرکت علی ؒ کاآج دنیا بھرمیں جونام اوراعلیٰ مقام ہے وہ بجاطورپراس کے مستحق ہیں کیونکہ جوبھی دین الٰہی کی آبیاری اورسر بلندی کیلئے ''امتحانات'' سے گزر ے کامیابی اس کامقدربن جاتی ہے ۔ صوفی محمدبرکت علی ؒ نے انتھک محنت اورمحبت سے اپنے عقیدتمندوں کے نیم مردہ اورشرمندہ قلوب کو ذکرالٰہی اوردرو د وسلام کی ضرب سے زندہ اور زنگ سے پاک کردیا ۔ پچھلے دنوں چودھری عظمت علی کے ڈیرے پرایک ایمان افروزمحفل ذکر میں آپ ؒ کی تصنیف''تذکرہ حسین شہزادہ کونین ؑ''کے چنداوراق کامطالعہ کرنے کی سعادت ملی ۔آپ ؒ کی تحریرکے اسلوب میں ایک خاص تاثیرہے جس سے کتاب کا قاری اس واقعہ کاایک جیتا جاگتا کرداربن جاتا ہے۔اس کتا ب کاوہ باب جومحفل میں پڑھتے ہوئے مجھ سمیت دوسرے شرکاء کی آنکھوں کابندٹوٹ گیا وہ آپ کے ذوق مطالعہ کی نذرکررہا ہوں ۔

ٍ قومیں پیداہوتی اورمٹ جاتی ہیں ۔بستیاں آبادہوتی اورویران ہوجاتی ہیں۔تہذیبیں نکھرتی اوردھندلاجاتی ہیں ۔شخصیات پیداہوتی اورمرجاتی ہیں ۔داستانیں مرتب ہوتی اورمحوہوجاتی ہیں ۔یہ عمل ابتدائے آفرینش سے جاری ہے اورمسلسل جاری رہے گا۔لیکن ایک داستان الم ہے ،جوتاریخ کے صفحات میں آج بھی اسی طرح روشن اورتابندہ ہے جس طرح آج سے تیرہ سوسال پہلے تھی ۔امتدادِزمانہ کی گردش اورانقلابات روزگارکی ہزاروں گردشیں اس داستان الم کونہ مٹاسکیں اورنہ رہتی دنیا تک مٹاسکیں گی ۔کیونکہ اس داستان عظیمہ کولکھنے والی مقدس شخصیت نے اسے اپنے خون جگر سے لکھا اوردشت کرب وبلا کے دمکتے ہوئے ذروں نے اس تحریر کواپنے سینوں میں محفوظ کرلیا ۔تاریخ عالم کے صفحات اس داستان عظیمہ کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہیں ۔اگرکسی میں حوصلہ ہے تواس آفتاب کے سامنے اپنا دیاجلاکرتودکھائے ۔حضرت بی بی فاطمہ ؓ کے جگرگوشے نے اپنے ناناکے مقدس دین کے احیاء کیلئے قربانی کاجوبینظیر معیارقائم کیا ،کوئی اس کی مثال توڈھونڈ لائے ۔قتیل جادہ حق وصداقت نے کمال صبرواستقامت سے ان آزمائشوں کوطے کیا جواﷲ ربّ العزت نے اپنے ابدی پیغام میں متعین کی اور ارشاد فرمائی ہیں۔اﷲ پاک قرآن مجید میں فرماتا ہے،''اﷲ تمہیں آزما ئے گا۔وہ حالت خوف وہراس ،بھوک اورپیاس ،نقصان جان ومال اورہلاکت اولاد واقارب میں مبتلا کرکے تمہارے صبرواستقامت کوآزمائے گا۔پس اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہے ان لوگوں کیلئے جن کے ثبات واستقامت کایہ حال ہے کہ جب مصائب میں مبتلا ہوجاتے ہیں تواپنے تمام معاملات ''اناﷲ واناالیہ راجعون''پڑھ کر اﷲ تعالیٰ کے سپردکردیتے ہیں''۔

اب میدان کربلاکی سمت آئیے اورقرآن مجید کے آئینہ میں اس بہت بڑے سانحہ کامنظرملاحظہ کیجئے ۔خوف وہراس کایہ عالم ہے کہ حد نگاہ پھیلے ریگزاروں میں خاندان رسالت ؐ کایہ مختصر مگر مقدس قافلہ درندہ صفت سفاک انسانوں میں گھراہوا ہے ۔سورج کی گرم شعاعیں پڑتی ہیں توزمین کے ذرات شرارے بن جاتے ہیں ۔دشمن کے نیزوں اوربھالوں کی چمک سے آنکھیں چندھیائی جاتی ہیں ۔بے نیام تلواریں اس مقدس قافلہ پرکوندی پڑتی ہیں ۔ہرنگاہ سفاک ،ہرآنکھ گستاخ اوربیباک دکھائی دیتی ہے ۔شرکے اس طوفان بدتمیزی میں کسی ایک زبان سے بھی خیر اورمروت کی آوازسنائی نہیں پڑتی ۔شریرلشکر کے گھوڑوں کی ہنہناہٹ سے رات کے اندھیرے اوربھی خوفناک بن جاتے ہیں ۔سلامتی کے تمام دربند ہیں لیکن کچھ پاک وجود ہیں جوایسے ماحول میں بھی اﷲ پاک کی بارگاہ میں جھکے ہوئے معبود برحق کی حمد وثناء بیان کررہے ہیں ۔
بھوک اورپیاس کایہ عالم ہے کہ فرات کے کنارے گھوڑوں کیلئے آزاداورکشادہ ہیں لیکن دوش رسول ؐ کاسوار،جوانان جنت کاسردار،مسافر کرب وبلا ،مظلوم نینوا،اپنے قبیلے کے ساتھ پانی کے ایک ایک قطرے سے محروم ہے ۔اہل بیت کے خیموں سے العطش العطش کی صدائیں بلند ہورہی ہیں ۔ننھے بچے پیاس کی شدت سے نڈھال ہوئے جارہے ہیں لیکن یذیدکاحکم ہے کہ امام حسین ؑ اوران کے اہل بیت تک فرات کے پانی کی ایک بوند بھی نہ پہنچنے پائے ۔وہ دیکھو ! حضرت عباس ؓ علمدار مشکیزہ کندھوں پرڈالے کس جرأت وپامردی سے لڑتے بھڑتے فرات کے کنارے پہنچنے میں کامیاب ہوگئے کہ پیاسے بچوں کابلکنادیکھا نہیں جاتا....مشکیزہ بھرلیا ہے ،چونکہ خود بھی پیاسے ہیں چاہا کہ پیاس بجھالی جائے لیکن یہ کیا اپنے چُلّومیں پانی بھرکرپھرکیوں اچھال دیا .....ہاں وفاداری ،صبرواستقامت اوررفاقت کی پاسداری پیاس کی شدت پرغالب آگئی ہے.....حضرت امام حسین ؑ اوران کے بچے پیاسے ہیں ،باوفا،باصفا ،باحیاء اورباپردہ بیبیاں پیاسی ہیں ،حضرت سکینہ ؓ پیاسی ہیں ،بیمار حضرت عابدؓ پیاسے ہیں ،زہرائے ثانی حضرت زینبؓ کے لخت جگر حضرت عونؓ اورحضرت محمدؓ پیاسے ہیں،ایسے میں حضرت عباس ؓ کے حلق سے یہ چُلّوبھرپانی کس طرح اترسکتا ہے ۔پانی چلومیں بھرکراچھال دیا اورمشکیزہ سنبھال ،عَلَم تھامے ،خیمہ گاہ سادات کی طرف روانہ ہوگئے ۔دشمن نے یلغار کی ،گھمسان کارن پڑگیا ہے ۔وہ دیکھو حضرت عباس ؓ کادایاں بازوکٹ کردورجاپڑا ،لیجئے ان کابایا ں بازوبھی کاٹ دیا گیا ،مشکیزہ تیروں سے چھلنی ہوگیا ،دانتوں میں تھاماہوا عَلَم بھی گراجارہا ہے ۔اس سے پہلے کہ امام حسین ؑ بھائی کی مددکوپہنچیں ،صدق وصفاکایہ پیکر حق رفاقت اداکرکے جام شہادت نوش کرگیا ۔خیموں سے اب بھی تسبیح وتہلیل کی صدائیں بلندہورہی ہیں۔نقصان جان ومال اورہلاکت اولاد اوراقارب کی تفسیر جو نواسہٗ ـ رسول ؐ نے میدان کربلا کے سینے پرتحریر کی ،اس کی مثال کون پیش کرسکتا ہے ۔

ذراقدم آگے بڑھائیے ،میدان کارزارکارنگ بھی قابل دیدہے جہاں ہرطرف خون شہیداں بکھراپڑاہے ۔بے برگ وگیاہ صحرا اس گل پاشی سے رشک چمن بناہواہے گویاجگہ جگہ لالہ ٗ صحرائی اُمڈپڑے ہیں ۔اے خاک ِ کربلا ! اپنی اِس سُرخروئی پرنازکرکہ تُو خونِ مقدس کی امین بنی ۔نواسہٗ رسول ؐ کے غیوراورنڈرجانثاروں نے تیرسے سینوں پرتاریخ کے انمٹ نقوش بناڈالے ہیں ۔حبیب بن طاہرؓ ،حُر بن یزید،بربربن حصین ،عبداﷲ بن الکلبی ،مسلم بن عوسجہ ،زہیر بن القین ،حظلہ بن اسعد کے لاشے جرأتوں اورعظمتوں کی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔یہ محترم خاتون اُم وہب کاجسدخاکی بھی اِدھر پڑا ہے ،جواپنے شہید شوہرعبداﷲ بن الکلبی کے چہرے سے گردصاف کررہی تھیں کہ کسی شقی القلب کی تلوار نے انہیں وہیں کاٹ کرڈھیر کردیا۔ٹھہر اے چشم فلک مجھے ان شہیدوں کوہدیہ ٗ عقیدت اورسلام ِشوق پیش کرنے دے ،میرے پاؤں ڈگمگا رہے ہیں ،مجھ میں ابھی آگے بڑھنے کی طاقت ہے اورنہ کسی دلخراش منظر کودیکھنے کی تاب۔تُونے اِس دھرتی پرلاکھوں قافلے لٹتے دیکھے ہوں گے ،لاکھوں مظلوم قتل ہوتے دیکھے ہوں گے ۔شایداسی لئے تیری آنکھیں پتھر ہوچکی ہیں کہ ان سے اشک جاری نہیں ہوتے ۔لیکن بتاتوسہی.....تونے کسی کو جرأ ت وپامردی سے آگے بڑھ کر موت کویوں گلے لگاتے دیکھا ،کسی نے یوں رسم وفانبھائی ؟اوریوں حق رفاقت اداکیا،کسی نے یوں بے سروسامانی میں ،بھوک اورپیاس کی شدت کے باوجودایسی جرأت اورشجاعت کامظاہرہ کیا اِدھرگنتی کے چندنفوس ہیں ،اُدھرہزاروں کالشکرہے!

آوازآئی،یہیں مت ٹھہرجانا! سینے کوتھام کرقدم ذراآگے بڑھا ،وہ دیکھ کچھ دور دوسروں سے الگ تھلگ ایک لاشہ پڑا ہے ،اسے شناخت کرنے کی کوشش کر!مگراس کا سرتن سے کاٹ لیا گیا ہے اورلاشے کوگھوڑوں کی ٹاپوں سے یوں رونداگیا ہے کہ پہچان مشکل ہے ۔ہڈیاں پسلیاں ٹوٹ ٹوٹ کرخمیدہ ہوچکی ہیں ۔جسم سے لباس نوچ کردہکتی ریت پرنیم برہنہ ڈال دیاگیا ہے ۔لیکن دیکھو....اس تمام تربرہنگی اوربیچارگی کے باوجود لاشے سے ایک عفت ،رفعت، عظمت ،عصمت اورحشمت پھوٹی پڑتی ہے ۔یہ باوقاراوربارعب جسدخاکی یقیناکسی شہزادے یاکسی سردارکاہے ۔سنوسنو!یہ کیسی آوازہے صحراؤں کی وسعتوں اورخاموشی کوچیرتی ہوئی خلاؤں میں ابھررہی ہے ،جس نے کربلا کی فضاؤں میں ارتعاش پیداکردیا ہے ،پرندے بھی سہم گئے ہیں اور ہوابھی تھم گئی ہے ۔دھوپ کی رنگت زردپڑگئی ہے ۔غورسے سنواوراس کے ایک ایک لفظ کوذہن میں محفوظ کرلوکہ مستقبل کامورخ ان الفاظ سے تاریخ کوکچھ نئے عنوان دے گا۔لوگو!میرا حسب نسب یادکرو۔سوچومیں کون ہوں ،پھراپنے اپنے گریبان میں منہ ڈالواوراپنے ضمیرکامحاسبہ کرو!خوب غورکرو،کیا تمہارے لئے میراقتل کرناورمیری حرمت کارشتہ توڑنارواہے؟کیا میں تمہارے آقااوراﷲ تعالیٰ کے محبوب پیغمبر محمدؐ کی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ اورآپ ؐ کے غم زادحضرت علی ؓکابیٹانہیں ہوں؟کیا سیّد الشہداء حضرت حمزہ ؓ میرے باپ کے چچا نہیں تھے۔سیّدناامام حسین ؑ کی شجاعت اورشہادت پربہت کچھ لکھا گیا اورمزیدلکھاجاتارہے گا لیکن پھر بھی کمی رہ جائے گی۔انسانیت کی تاریخ میں سیّدناامام حسین ؑ کااعلیٰ وارفعٰ مقام راہ ِحق میں بینظیر استقامت ،یذیدیت وشیطانیت کیخلاف جرأ تمندانہ وآبرمندانہ مزاحمت اورقابل رشک شہادت کابیش قیمت انعام ہے۔

 

Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 140 Articles with 90393 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.