صبرو استقامت کا انعام

انسانی زندگی میں صبرو برداشت،ایثار ،عفو در گزر ،احسان اور قناعت بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔دنیا کی ساری عظیم شخصیتیں اس جوہر ِ عظیم سے آراستہ تھیں ۔ جتنا کسی کا ظرف ہو گا، قلبی وسعت ہو گی اتنا ہی اس کا دل ان خصائص کی آماجگاہ ہو گا۔انسان اپنی جلد بازی اور متلون مزاجی سے بہت سے اعلی مقامات کھو دیتا ہے جس کا اسے خو د بھی ادراک نہیں ہوتا۔جلد باز اور حریص ؂انسان کو علم ہی نہیں ہوتا کہ اجرو ثواب کی کتنی عظیم الشان جنت اس کی منتظر ہے جسے وہ اپنی کوتاہ نگاہی اور انتقامی روش سے ضائع کررہا ہے ۔تاریخ کے اوراق ایسی بے شمار مثالوں سے بھرے پڑے ہیں جہاں انسان فاتح ہونے کی بجائے شکست سے ہمکنار ہو جاتا ہے کیونکہ و ہ صبرو برداشت کا دامن چھوڑ دیتا ہے ۔ مشکلات انسانی عظمت کیلئے بمنزلہ نعمت ہو تی ہیں لیکن انسان تجزیہ کرنے سے قاصر ہو تا ہے ۔کسی بھی انسانی ذات میں جب انتقام ،بغض، کینہ ،حسد اور دشمنی گھر کر جاتے ہیں تووہ شخصیت اپنی آفادیت کھو دیتی ہے۔ انسان کی عظمت اس کے احسان،نیکی، در گزر اور عفو کی اعلی روش میں پو شیدہ ہوتی ہے جبکہ انانیت،ضد،ہٹ دھرمی اور منتقم المزاجی سنہری جذبوں کو کچلنے کیلئے ہمہ وقت تیاررہتی ہے لیکن عظیم انسان ان منفی جذبوں سے خو د کو پاک اور صاف رکھتے ہیں ۔ بقولِ اقبال (سبق پڑھ پھر صداقت کا ، عدالت کا شجاعت کا ۔،۔ لیا جائیگا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا)۔

میری نظریں اس وقت سفرِ طائف پر مرکوز ہیں اورایک ایسا منظر دیکھ رہی ہیں جس نے میری روح کو زخمی کر دیا ہے۔سردار الانیاءﷺ کے ساتھ اوباش نوجوانوں کے سلوک سے میری آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہیں۔ ایسا وحشیانہ سلوک تو کوئی بد سے بد ترانسان کے ساتھ بھی روا نہیں رکھتا چہ جائیکہ ایسا ہتک آمیز سلوک انسانِ کامل اور محبوبِ خدا حضرت محمد ﷺ جیسی ہستی کے ساتھ روا رکھا جائے۔ایک ایسی ہستی جو وجہِ تخلیقِ کائنات بھی ہو اوررحمتۃ للعالمین بھی ہو تو اس اس کا استقبال پھولوں کے ہاروں اور تہنیتی نغموں سے ہونا چائیے تھا، اس کے سامنے دیدہ و دل فرشِ راہ ہونے چائیں تھے ،اس پر جانیں نچھاور ہو نی چائیں تھیں لیکن طائف کے لوگوں نے گل پاشی کی بجائے جس بربریت کا مظاہرہ کیا اسے دیکھ کر انسان خود پر قابو نہیں رکھ سکتا۔چشمِ تصور سے دیکھئے کہ محسنِ انسانیت ﷺ کاچہرہِ پر نور زخمی تھا ، پاؤں سے لہو رس رہا تھا اور نائلینِ مبارک خون سے تر برتر تھے ۔ سنگ وخشت کی بارش سے بچنے کی خاطر سرکارِ مدینہ ﷺ اپنے ہاتھ رخِ انور کے سامنے لاتے تو ان کوششوں میں ان کے دستِ مبارک بھی زخمی ہوجاتے ۔کوئی بے کسی سی بے کسی تھی،کوئی بے بسی سی بے بسی تھی کہ کوئی ڈھال بننے کیلئے بھی موجود نہیں تھا۔ آقائے دو جہاں ﷺ اوباشوں کی سنگ باری سے تڑپ رہے تھے لیکن ابتلاؤ آزمائش کی جان لیوا گھڑیوں میں بھی صبرو برداشت کی انتہا دیکھئے کہ آقائے دو جہاں ﷺ کی زبان پر کوئی حرفِ شکائت نہیں۔ سنگ باری سے بچنے کی خاطر حضور ﷺنے ایک باغ میں پناہ لی تو خون آلود پیشانی کو دیکھ کر باغ کے مالک کا دل بھی پسیج گیا۔،۔

مالک نے اپنے غلام عداس کو آوز ددی اور اسے طشتری میں انگور کے خوشے دے کر سرکار دوجہاں ﷺکی خدمت میں بھیجا۔غلام نے آپ ﷺ کو پھل پیش کئے جسے آپﷺ قبول فرمایا۔کچھ دیر آرام کرنے کے بعد آپ ﷺ نے مکہ مکرمہ کی ر اہ لی اور یوں قریش کا اٹھا یا گیا فتنہ بے پناہ اذیتوں کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچ گیا ۔ایک دفعہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓنے آقائے دو جہاںﷺ سے پو چھا تھا کہ کیا احد سے بڑاسانحہ بھی کبھی آپ کی زندگی میں گزرا ہے ؟ تو سرکارِ دو عالمﷺ نے فرمایا تھا کہ وہ اذیتیں جو تیری قوم نے مجھے سفرِ طائف میں دی تھیں وہ بلا شبہ میری زندگی کے سب سے زیادہ اذیت ناک، کربناک اور درد انگیز لمحے تھے۔ بہر حال کرب و بلا کا وقت گزر گیا اور تھوڑی مدت کے بعد طائف اسلام کے دامن میں آ گیا ۔مارنے والے حلقہ بگوشِ اسلام ہو گے ،جو ظا لم تھے وہ پا بہ زنجیر سامنے کھڑے کر دئے گے ، جھنیں زعم ِ طاقت تھا وہی مجرمین کی طرح سر جھکائے منجمد ہو گے ،جو خدا بننے کے دعویدار تھے وہی غلام بنے ایستادہ ہو گے ،جھنیں اپنی طاقت پر ناز تھے،ان کی کمانیں ٹوٹ کر بکھرگئیں ، جھنیں اپنے بتوں پر ناز تھا ، ان کے سارے بت اوندھے منہ گر پڑے، جو لات منات اور حبل کے چرنوں میں چڑھا وے چڑھاتے تھے وہی ان سے منکر ہو گے،جو خود کو توانا سمجھتے تھے وہی کمزور و ناتواں نکلے،جھنیں اپنی سرداری پر گھمنڈ تھا ان کا گھمنڈ خاک میں مل گیا، جو خود کو بہادر اور جری سمجھتے تھے وہی کمزو رو ناتواں نکلے اور جو اسلحہ اور ہتھیاروں کو اپنی کائنات سمجھتے تھے انھیں ہتھیار پھینکنے پڑے اور اسی ا انسانِ کامل ﷺ سے عفو در گزر کی بھیک مانگنی پڑی جسے چند سال قبل لہو لہان کر کے اپنی بستی سے نکالا تھا۔اقبال کی نوائے دل سنئیے اورو جد میں آ جائیے ۔(عشق دم ِ جبرائیل ،عشق دلِ مصطفے ۔،۔ عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام)

سفرِ طائف کے دوران طائف کے پہاڑوں نے جو منظر دیکھا تھا وہ اب بھی ان کے ایک ایک ذرے میں اسی طرح موجود ہو گا ،ان کا دل اب بھی دہل رہا ہو گا،ان کے ریشے اب بھی درد کی ٹیسیں محسوس کر رہے ہوں گے ، بے چینی و بے قراری ان کے ایک ایک انگ سے جھلک رہی ہو گی،اگر ان کی آنکھیں ہو تیں تو وہ خون سے تر بتر ہو گئی ہوتیں ، اگر ان کی زبان ہوتی تو روحِ ارضی کا کلیجہ ان کے نوحہ سے پھٹ جاتا ،ہجر شجر ان کی روداد سن کر سدا خزاں رسیدہ ہو جاتے ، کلیاں مسکانا بھول جاتیں اور چرند پرند کھانے سے خود کو روک لیتے۔وہ منظر جسے دیکھ کر جبرائیل علیہ السلام کی پرواز تھم گئی ہواس منظر کو اس کائنات کا کوئی بھی ذ ی روح کیسے برداشت کر سکتا ہے؟خالقِ کائنات نے اپنے محبوب کے ساتھ اس وحشیانہ سلوک پر اس بستی کو نیست و نابود کرنے کا حکم بھی صادرکیا لیکن یہ الگ بات کہ سرکارِ دو عالم کی رحمتۃ للعالمینی نے اپنے رب کو بستی کی تاراجی سے روک لیا ۔درد و الم سے لبریز سانحہ کی انتہا میں ربِ ذولجلال نے سرکارِ دو عالم ﷺ کو لامکاں میں معراج کا مژدہ سنا دیا ۔ صبرو استقامت کا انعام ہمیشہ عظیم الشان ہوا کرتا ہے لہذا محبوبِ خدا ﷺ کے مقام ِ بلند کا تعین کرنا دنیا کے کسی بھی انسان کے بس میں نہیں۔بقولِ شاعر(خدا کی عظمتیں کیا ہیں، محمد مصطفے ﷺ جانے ۔،۔ مقامِ مصطفے ﷺ کیا ہے محمد ﷺ کا خدا جانے ) معراج النبی واقعہ طائف سے پیدا شدہ زخموں ،رنجشو ں اور آلائم پر مرحم لگانے کا نام ہے ۔کتنا بڑا انعام تھا صبرو برداشت کا لیکن ہم پھر بھی برداشت اور صبر کا دامن چھوڑ کر دشمنیوں اور انتقام پر اتر آتے ہیں ۔ اتنے بڑے واقعہ کے ردِ عمل پر حضور ﷺ کی زبانِ مبار ک سے جوالفاظ ادا ہو ئے تھے ان سے افشا ہو تاہے کہ مقامِ نبوت کیا ہوتاہے اور خدا پر نبی کا ایمان کتنا قوی ہو تا ہے۔ایسا ایمان جو آگ کے شعلوں، سنگ باری اور طوفانی لہروں میں بھی مانند نہیں پڑتا اور جسے سنگین سے سنگین حالات بھی ڈگمگا نہیں سکتے۔فریادِ نبی ﷺ ملا خظہ کیجئے ۔(اپنی قوت کی کمی، اپنی بے سر و سامانی اور لوگوں کے مقابلے میں اپنی بے بسی کی فریاد تجھی سے کرتا ہوں۔تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔درماندہ بے کسوں کا پروردگار تو ہی ہے۔تو ہی میرا مالک ہے ۔آخر تو مجھے کس کے حوالے کرنے والا ہے۔کیا اس حریفِ بے گانہ کے جو مجھ سے ترش روئی روا رکھتا ہے یا ایسے دشمن کے جو میرے معاملے پر قابو رکھتا ہے۔لیکن اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں ہے تو پھر مجھے کچھ پرواہ نہیں ۔بس تیری عافیت میرے لئے زیادہ وقعت رکھتی ہے۔میں اس بات کے مقابلے میں کہ تیراغضب مجھ پر پڑے یا تیرا عذاب مجھ پر وارد ہو تیرے ہی نو رو جمال کی پناہ طلب کرتا ہوں جس سے ساری تاریکیاں روشن ہو جاتی ہیں اور جس کے ذریعے دین و دنیا کے جملہ معاملات سنور جاتے ہیں۔مجھے تو تیری رضا مندی اور خوشنودی کی طلب ہے ۔بجز تیرے کہیں سے کوئی قوت و طاقت نہیں مل سکتی)خدا کی رضا کے سامنے جھکنے کا انعام لامکاں میں دیدارِ ِ خداوندی تھا ۔ امیر خسرو نے اس ملاقات کاجودلنشیں نقشہ کھینچا ہے اسے پڑھئے اور وجد میں آ جا ئیے ۔ (خدا خود میرِ مجلس بود اندر لا مکاں خسرو ۔،۔ محمدﷺ شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم )۔لامکاں میں اس رات خدا میرِ مجلس تھا اور محمد ﷺ شمع محفل تھے۔،۔
 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 446806 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.