سجاد باقر رضوی 14اکتوبر 1926ء کو ہندوستان کے ضلع
اعظم گڑھ ( یو ۔پی)کی تحصیل پھول پور کے گاؤں چمانواں میں سید علی سجاد کے
گھر پیداہوئے ۔ انہوں نے باقاعدہ تعلیم الہ آباد سے شروع کی ۔یو۔ پی بورڈ
آف انڈیا سے 1942ء میں میٹرک کا امتحان اور1944ء میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان
پاس کیا۔جبکہ 1946ء بی اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد قیام پاکستان کے وقت
ہجرت کرکے آپ اپنے خاندان سمیت کراچی چلے آئے اور یہاں مسلم لاء کالج سندھ
یونیورسٹی سے 1951ء میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی ۔کراچی یونیورسٹی ہی سے
1953ء میں بی اے آنرز اور 1956ء میں ایم اے انگریزی کا امتحان پاس کیا کہ
یونیورسٹی میں آپ کی دوسری پوزیشن تھی ۔ 1966ء میں آپ نے پنجاب یونیورسٹی
لاہور سے ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کی ۔1985ء میں آپ کراچی یونیورسٹی سے
اردو ادب میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب رہے ۔آپ کے مقالے کا
عنوان "طنزو مزاح کے نظریاتی مباحث اور کلاسیکی اردو شاعری 1857ء تک "تھا۔
1956ء سے 1963ء تک آپ گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور میں شعبہ
انگریزی کے لیکچرار مقرر ہوئے ۔یکم جون 1970ء کو انہیں اورینٹل کالج پنجاب
یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ انگریزی مقرر کیا گیا ۔ بعد ازاں یہیں
پر آپ کو شعبہ اردو میں منتقل کردیا گیا ۔ 1988ء میں آپ ریٹائر ہوگئے ۔ریٹائرمنٹ
کے بعد آپ کو پروفیسر کے عہدے پر ترقی دے دی گئی ۔ 1990ء تک وقتافوقتا
وزٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے آپ اورینٹل کالج لاہور میں تشنگان علم کی پیاس
بجھاتے رہے۔ آپ اندازا 23برس تک شعبہ تدریس سے وابستہ رہے ۔اگر یہ کہا جائے
تو غلط نہ ہوگا کہ پروفیسر سجاد باقر رضوی جدید اردو ادب کی ہمہ جہت شخصیت
تھے ،آپ جیسے صاحب علم و دانش کم کم ہی دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں ۔آپ کے
شعری مجموعے "تیشہ لفظ "کے دیباچے میں بیسویں صدی کے ممتاز شاعر ناصر کاظمی
نے آپ کو "شہری فرہاد "قرار دیا تھا ۔
آپ نے نثری و شعری ادب میں لازوال خدمات انجام دیں ۔انگریزی ادب کی شاہکار
تحریروں اور ناولٹ کے خوبصورت اردو تراجم کیے اور تنقید ادب جیسے مشکل
موضوع پر مبسوط اور جامع تصانیف رقم کیں ۔ بطور استاد اورینٹل کالج ان کے
بیشمار شاگرد آج بھی اردو ادب میں بڑا معتبر نام اور مقام رکھتے ہیں ۔آپ کے
نامور شاگردوں میں ایک نام پروفیسر احمد عقیل روبی کا بھی ہے جنہوں نے
پاکستانی ادب کے ساتھ ساتھ یونانی ، روسی اور فرانسیسی ادب کو بھی پاکستان
کے تعلیمی اور تحقیقی اداروں میں اردو زبان میں متعارف کرایا۔بطور خاص خاکہ
نگاری میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا ۔پروفیسر احمد عقیل روبی ہمیشہ اپنی
کامیابیوں کا کریڈٹ اپنے استاد پروفیسر سجاد باقر رضوی کو دیا کرتے تھے۔
آپ کی قابل ذکرتصانیف درج ذیل ہیں ۔ نثر =(تہذیب و تخلیق ، مغرب کے تنقیدی
اصول ، وضاحتیں ، معروضات) شاعری =(تیشہ لفظ ، جوئے معانی )۔تراجم =(جدید
امریکی ناول نگار ، داستان مغلیہ ، افتاد گان خاک ، حضرت بلال ؓ، بدلتی
دنیا کے تقاضے )متفرق کتب =( غالب ذاتی تاثرات کے آئینے میں ، قائد اعظم
محمد علی جناح معمار پاکستان )
پروفیسر سجاد باقر رضوی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کی علمیت ، قابلیت
اور ادبی خدمات کا اعتراف، کیمبرج یونیورسٹی سے شائع ہونے والے گزٹ who is
who in poetry میں ان کا سوانحی خاکہ اور تصانیف کی فہرست شامل کرکے کیا
گیا ہے۔ اسی طرح شگاگو ( امریکہ ) سے شائع ہونے والے گزٹ ہو از ہو ان دی
ورلڈ میں بھی آپ کو شامل کیا گیا ہے ۔جوبلاشبہ آپ کی عظمت کی انمٹ دلیل ہے
۔دنیائے تدریس و ادب کی یہ شاہکار شخصیت 13اگست 1992ء اس دنیائے فانی سے
رخصت ہوئی۔ان کی آخری آرام گاہ قبرستان ماڈل ٹاؤن جی بلاک میں واقع ہے ۔
|