اللہ اورآخرت کامعاملہ بظاہرغیبی دنیاسے تعلق رکھتاہے
مگرحقیقت یہ ہے کہ وہ فطرت انسانی کاایک لازمی حصہ ہے-انسان کی فطرت اللہ
اور آخرت کے معاملہ کو ایک معلوم صداقت کے طورپر جان لیتی ہے۔اصل یہ ہے کہ
اللہ کی معرفت کے دودرجے ہیں-ایک عقلی اوردوسرا فطری ۔اللہ اورآخرت کے
وجودکوعقلی سطح پرماننااس معرفت کاصرف ابتدائی درجہ ہے جبکہ اللہ اورآخرت
کے وجودپرفطری سطح پریقین کرنااس کاانتہائی درجہ۔اللہ اورآخرت کے معاملہ
میں عقلی دلائل کے استعمال کامقصدصرف یہ ہوتاہے کہ انسان کے اوپرسے شک کے
پردے کوہٹادیاجائے۔انسان کواس مقام تک لایاجائے جہاں وہ اللہ اورآخرت کے
معاملہ کوکم از کم امکانی صداقت اورنظریہ کے طور پرقبول کرلے۔جب آدمی اس
حالت تک پہنچ جائے تووہ اس قابل ہوجاتاہے کہ اس نظریہ کولینے کیلئےاس کی
فطرت کے دروازے کھل جائیں اوروہ اس کوایک فطری سچائی کے طورپرپہچان
کراپنالے۔
ہرانسان کے پاس وہ آنکھ موجودہے جواللہ اورآخرت کودیکھ سکے مگراس آنکھ کے
اوپرکنڈیشننگ کاپرده پڑاہواہے۔منطقی دلیل یہ کام کرتی ہے کہ وہ اس کنڈیشننگ
یا اس ذہنی رکاوٹ کوتوڑکراس مصنوعی پرده کوفطرت کی آنکھ سے ہٹادے۔اس کے
بعدانسان اللہ اورآخرت کوصاف دیکھنے لگتاہے۔اب انسان بظاہرنہ دکھائی دینے
والے اللہ کے وجودپراسی طرح کامل یقین کرلیتاہے جس طرح ایک بچہ اپنی ماں کے
وجودپرکامل یقین رکھتاہے حالانکہ اس نے کبھی اپنے آپ کوماں کے پیٹ سے نکلتے
ہوئے نہیں دیکھا۔
اللہ اورآخرت کامعاملہ صرف اس وقت تک منطقی بحث کاموضوع رہتاہے جب تک کہ
آدمی کے ذہن کامصنوعی پرده ہٹانہ ہو۔غوروفکریا منطقی استدلال کے ذریعہ جب
یہ پرده ہٹ جائے توانسان اپنے اللہ کوخوداپنی داخلی معرفت کے تحت پہچان
لیتاہے۔اب اللہ اس کیلئےتمام معلوم چیزوں سے زیاده معلوم واقعہ بن جاتاہے۔
منطقی دلیل کاکام صرف یہ ہے کہ وہ انسان کوفطرت کے دروازے تک پہنچادے۔فطرت
کا دروازه کھلتے ہی انسان اللہ کواس طرح پالیتاہے جیسے کہ وہ پہلے ہی سے اس
کوجانتاتھا۔
انسان کی آنکھ پرپٹی بندھی ہوئی ہوتوضرورت ہوتی ہے کہ سورج کے وجودکواس
کیلئےدلائل سے ثابت کیاجائےلیکن جب آنکھ کی پٹی ہٹا دی جائے تواس کے بعد
سورج کوماننے کیلئےاسے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔یہی معاملہ اللہ
کاہے۔اللہ کاشعورانسان کی فطرت میں آخری حدتک سمایاہواہے اصل ضرورت صرف
فطرت کا پرده ہٹانے کی ہے۔دلیل کے ذریعہ جب فطرت کاپرده ہٹادیاجائے توانسان
اللہ کو اس سے زیاده پقین کے ساتھ دیکھنے لگتاہے جتناکہ ایک کھلی آنکھ والا
آفتاب کو۔ پروفیسرفلپ ہٹی نے اپنی کتاب،ہسٹری آف عربس کے(صفحہ 130)میں قرآن
کاتذکره کرتے ہوئے لکھاہے کہ قرآن کے سب سے زیاده پراثرحصے وہ ہیں جوآخرت
کے معاملات سے بحث کرتے ہیں۔
جن غیرمسلموں نے قرآن پڑھاہے وہ عام طورپراسی قسم کے تاثرکااظہارکرتے ہیں
مگرعجیب بات ہے کہ مسلمانوں کوسب سے کم جو چیزقرآن میں ملتی ہے وہ یہی آخرت
ہے۔مسلمان ہرچیزقرآن میں پالیتے ہیں مگراسی چیزکونہیں پاتے جوقرآن میں سب
سے زیاده بلکہ ہر صفحہ پرپھیلی ہوئی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ غیرمسلم عام
طورپرخالی الذہن ہوتاہے۔وہ صرف یہ جاننے کیلئے پڑھتاہے کہ قرآن میں جو کچھ
لکھاہے وہ کیاہے۔چنانچہ جوکچھ قرآن میں لکھاہے وہ اس کوکسی کمی بیشی کے
بغیرپا لیتاہے مگرمسلمانوں کامعاملہ اس سے مختلف ہے۔مسلمان زیاده ترثواب
یافخرکے جذبے کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ کچھ لوگ قرآن کوسب سے زیاده مقدس کتاب
سمجھ کربس اس کی”تلاوت”کرتے ہیں تاکہ اس کاثواب انہیں مل جائے۔اس کے بعدکچھ
لوگ وہ ہیں جوقرآن سے فال نکالنے کاکام لیتے ہیں ۔اب جس کے ذہن میں سوشلزم
سب سے بڑی چیزہے وہ قرآن میں سوشلزم کوپڑھنے لگتاہے۔ جس کے ذہن میں سائنس
کی اہمیت ہے وہ قرآن کی عظمت کوسائنس کی صورت میں پالیتاہے اسی طرح جس کے
ذہن میں سیاست اورقانون کی اہمیت ہے۔وہ قرآن میں جوسب سے اہم بات دریافت
کرتاہے وہ سیاست اورقانون ہوتی ہے-حقیقت یہ ہے کہ قرآن آخرت کی کتاب ہے۔
قرآن اس لئے آیاہے کہ وہ آنے والے دن سے پہلے آنے والے دن کے بارے میں
لوگوں کوخبردارکردے۔قرآن مادی صورسے پہلے لفظی صورہے جولوگ لفظی صور سے جاگ
جائیں وہ کامیاب ہیں۔جولوگ مادی صورسے جاگیں گے ان کیلئے ان کاجاگناکچھ کام
نہ آئے گا ۔
آخرت کامسئلہ چونکہ غیب سے تعلق رکھتاہے اس لیے اس کی صحیح شناخت عقل سائنس
اورفلسفہ سے ممکن ہی نہیں،ہزاروں لوگوں نے اسے عقل کے راستے سے
جانناچاہالیکن عقل چونکہ ہرمسئلے میں دورائے پیش کرتی ہے اس لیے تمام بڑے
فلسفی تشکیک میں مرے۔ شروع دن سے تمام فلسفیوں کاکیس ایک ہی تھا،اسی حقیقت
کی تلاش۔ماضی قریب کے مشہورترین برطانوی فلسفی برٹرینڈرسل کامعاملہ بھی یہی
تھا۔تمام عمرکی غوروفکر/مطالعہ کے باوجوداس سچائی کودریافت کرنے میں ناکام
رہا،دوسرے فلسفیوں کاکیس بھی یہی ہے مگر دوسرے فلسفیوں نے اس حقیقت کابہت
کم اعتراف کیا،جبکہ برٹرینڈرسل کاکھلے لفظوں میں اس حقیقت کا اعتراف ان کی
خود نوشت سوانح عمری میں صفحہ395پردیکھاجاسکتاہے:
“جب میں اپنی زندگی کاجائزه لیتاہوں تومجھے ایسامحسوس ہوتاہے کہ میری زندگی
ضائع ہوگئی۔میں ایسی باتوں کوجاننے کی کوشش کرتا رہا،جن کوجانناممکن ہی
نہیں تھا۔میری سرگرمیاں بطورعادت جاری رہیں۔میں بھلاوے میں پڑارہا۔جب میں
اکیلاہوتاہوں تومیں اس کوچھپا نہیں پاتاکہ میری زندگی کاکوئی مقصدنہیں، اور
مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ نیامقصدحیات کیاہے،جس میں میں اپنی بقیہ
عمرکووقف کروں ۔ میں اپنے آپ کوکامل تنہائی میں محسوس کرتاہوں،جذباتی
اعتبارسے بھی اورمابعدالطبیعیاتی اعتبارسے بھی،جس سے میں کوئی مخرج نہیں
پاتا”۔
مابعدالطبیعاتی امورکاصحیح علم عقل فلسفہ وسائنس کے ذریعے حاصل کیاجاناممکن
ہی نہیں،اسی لیے اللہ نے اس کیلئےایک نئے ذریعہ علم وحی کومتعارف کروایا،
انسانوں ہی میں سے ہی پاک اورصفات والے لوگوں کومنتخب کیاگیااورفرشتوں کے
ذریعے ان پروحی بھیجی گئی۔ کائنات اورانسان کی مقصدیت،آغازوانجام کے سارے
فلسفے کوکھول کربیان کیاگیا۔ان سب امورکے متعلق اسلام کی پیش کی گئی تفصیل
و توجیہہ اتنی معقول ہے کہ آج تک کوئی اس کامعقول ردنہیں کرسکااورنہ اس کے
مقابلے میں کوئی بہتر توجیہہ پیش کرسکاہے،متبادل طریقوں سے حقیقت ڈھونڈنے
والے سارے ناکام ہوگئے،انہوں نے ساری زندگی کی تلاش کے بعد یہ توجان لیا کہ
عقل انسانی کے ذریعے اس حقیقت تک پہنچناممکن نہیں،متبادل مذہبی سورس
اورتفصیل وتوجیہہ کوپھربھی اہمیت نہ دی اورشک میں ہی دنیاسے چلے گئے۔
|