امام حسین ؓ کی شہادت کا پیغام پیش کرنے کے لیے ہر سال ان
گنت مجالس کا انعقاد ہوتا ہے اور بے شمار مضامین لکھے جاتے ہیں لیکن مشیت
ایزدی اس کو عملاً نشر کرنے کا بھی اہتمام کرتی ہے۔ امسال اس کے دو نمونے
عالم ِ انسانیت کے سامنے آئے ۔ ایک فلسطین کی سرزمین پر غزہ میں اور دوسرے
افغانستان کے اندر ساری دنیا نے اس کا مشاہدہ کیا۔ امام حسین ؓ کی شہادت کا
ایک اہم پیغام یہ ہے ظالم کے آگے ڈٹ جاو۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:’’ لوگ
اگر ظالم کو دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو اللہ تعالی کا عذاب ان پر
بھی آئے گا یعنی صرف ظالم پر نہیں بلکہ ظلم کا تماشہ دیکھنے والوں اور ظلم
پر خاموشی اختیار کرنے والوں پر بھی عذاب آئے گا‘‘۔ اسی تعلیم پر عمل کرتے
ہوئے امام اعظم ؓ نے تاریخ انسانی کی عظیم ترین قربانی پیش فرمادی۔
امامِ حسین ؓ نے اپنے نانا جان کی اس نصیحت پر بھی عمل کرکے دکھا دیا کہ
:’’ جو شخص منکر کو دیکھے تو اسے ہاتھ سے ( بزور قوت ) بدل دے او جو شخص یہ
نہ کر سکے وہ زبان سے نا پسندیدگی کا اظہار کرے اور جس شخص کے لئے یہ بھی
ممکن نہ ہو وہ دل سے برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے‘‘ ۔ یہ
بہت اہم حدیث ہے اس پر گفتگو تو بہت ہوتی ہے مگر جب عمل کا وقت آتا ہے تو
بیشتر اوقات رخصت کی راہ اختیار کی جاتی ہے ۔ دل میں برا سمجھنے پر اکتفا
کرلیا جاتا ہے لیکن امام حسین ؓ نے بے مثال عزیمت کا مظاہرہ فرماتے ہوئے
بصد شوق و رضا اپنے اہل خانہ سمیت اپنی جان عزیز کا نذرانہ پیش کردیا۔
معروف شارحِ حدیث اما م نووی نے اس کی شرح میں لکھا ہے کہ : ’’وقت کا
حکمراں اگر ظلم پر کمر بستہ ہو اور ظلم و جو ر کا پہلو بہت نمایاں ہو اور
زبان سے روکے جانے پر بھی وہ اپنے کرتوت سے باز نہ آئے تو یہ ارباب حل
وعقد کی ذمہ داری ہے کہ اسے اقتدار سے بے دخل کرنے پر متحد ہوں خواہ اس کے
لئے انھیں ہتھیار ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے اور جنگی اقدامات ہی کیوں نہ کرنے
پڑیں‘‘۔امامِ حسین ؓ کی سیرت اس تعلیم کا عملی نمونہ ہے۔
امامِ معظم ؓ کے موقف کی تائید مختلف علماء اور مفسرین نے اپنے اپنے انداز
میں کی ہے مثلاًعلامہ ابن حزمؒ فرماتے ہیں کہ :’’شاہان حکومت اگر خیانت اور
غلط کاری کے مرتکب ہوں تو ان کے خلاف بغاوت واجب ہے، کیوں کہ یہ لوگ اللہ
اور رسول سے جنگ کرنے والے ہیں، زمین میں فساد برپاکرنے کیلئے کوشاں ہیں ،
یہ وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کے جان ومال کا نقصان کرتے ہیں، اور معصوم لوگوں
کے قتل سے بھی دریغ نہیں کرتے یہ اپنے عیش وآرام کے لئے او ربیت المال کو
دولت سے بھر دینے کے لئے مسلمانوں تک پر جزیہ عائد کرتے ہیں، اور مسلمانوں
سے جزیہ وصول کرنے کے ظلم پر یہودیوں کو مقرر کرتے ہیں‘‘۔ یزید نے ان میں
سے آخری بات کے علاوہ ہر جرم کا مرتکب تھا اس لیے اس کے خلاف علمِ بغاوت
بلند کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت تھی۔ امام حسینؓ کی شہادت کا ایک پیغام یہ
ہے کہ ؎
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
جبر و استبداد کے خلاف اپنی جنگ میں مومن ظاہری ذرائع و وسائل پر ہی بھر
وسا نہیں کرتا بلکہ اللہ پر توکل کرکے میدان جنگ میں کود جاتا ہے۔ اس کے
لیے افرادکی تعداد یااسلحہ کی اہمیت ثانوی ہوتی ہے۔ یہی جذبۂ حسینی ہے جو
غزہ کے مٹھی بھر مجاہدین کو اسرائیل کے خلاف سینہ سپر کردیتا ہے۔ وہ اپنی
بے سرو سامانی کے باوجود اسرائیل کی غاصب حکومت کو جنگ بندی کی پیشکش کرنے
پر مجبور کردیتے ہیں اور ظالم حکمراں کو حماس کی شرائط پر صلح کے لیے راضی
ہونا پڑتا ہے۔ امسال رمضان المبارک میں چشم فلک نے یہ نظارہ کیا اور محرم
الحرام کے اندر افغانستان میں دنیا نے دیکھا کہ کس طرح مجاہدین اسلام نے
ایسی دشمن طاقت کو زیر کردیا کہ جن کا اس سے کوئی موازنہ ہی نہیں تھا۔ اس
کے باوجود اسوۂ حسینی کو زندہ کر کے طالبان نے کمال شجاعت کا مظاہرہ کیا
اور طاغوتِ وقت کے آگے جھکنے سے انکار کردیا بقول شاعر ؎
دشت میں خونِ حسین ابن علی بہہ جائے
بیعتِ حاکمِ کفار نہ ہونے پائے
افغانستان میں ایک طرف جدید اسلحہ سے لیس اشرف غنی کی تین لاکھ فوج تھی جس
کی تربیت پر امریکہ نے ۸۸ بلین ڈالر خرچ کیے تھے جبکہ طالبان کے بے
سروسامان مجاہدین کی تعداد صرف ۷۰ ہزار ہے۔ اس کے باوجود ان پر قرآن مجید
کی یہ آیت صادق آگئی کہ :’’بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے
اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے‘‘۔
زمینی فوج کے علاوہ ہوائی دستہ جنگ میں بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس
معاملے میں تو معجزہ ہوگیا کہ جہاں اشرف غنی کی حکومت کے پاس ۱۶۷ لڑاکا
طیارے تھے وہیں طالبان کے پاس ایک بھی نہیں تھا ۔ اس لیے آخری مرحلے میں
بمباری کرکے ۲۰۰ مجاہدین کو شہید کردیا گیا مگر یہ سفاکی ان کی پیش قدمی کو
روکنے میں ناکام رہی۔ مادی دنیا میں انسانی و مادی حربی وسائل کے ساتھ دھن
دولت کی فراوانی کو بھی بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو
اشرف غنی کے خزانے میں جہاں ۵ء۵ بلین ڈالر تھے اور وہیں طالبان کے پاس صرف
۶ء۱ بلین ڈالر تھے۔ عالمی برادی کی حمایت کا اپنا کردار ہوتا ہے وہ بھی
ساری کے ساری طالبان کے خلاف تھی۔
مغرب کے جنگی ماہرین ان اعدادو شمار کے سبب تین حصوں میں منقسم تھے ۔ کچھ
لوگوں کا خیال تھا افغانستان خانہ جنگی کا شکار رہے گا اور طالبان کبھی بھی
اقتدار میں نہیں آسکیں گے ۔ بعض لوگوں نے طالبان کی کامیابی کے لیے ۹۰ دن
کا وقت دیا تھا لیکن جب فتحمندی کا آغاز ہوا تو فوراً یہ مقدار ایک تہائی
گھٹ کر ۳۰ دن پر آگئی لیکن وہ بھی غلط نکلی اور ۳۰ گھنٹوں میں سارا کھیل
سمٹ گیا۔ ان ماہرین سے اتنی فاش غلطی اس لیے ہوئی کہ انہوں نے اپنا سارا
حساب کتاب مادی وسائل کی بنیاد پر کیا تھا۔ ایمان کی قوت ، جذبۂ شہادت اور
اللہ کی نصرت کا اس میں کہیں عمل دخل نہیں تھا جبکہ ارشادِ ربانی ہے کہ
:’’اللہ تمہاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں، اور وہ
تمہیں چھوڑ دے، تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرسکتا ہو؟ پس جو سچے
مومن ہیں ان کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے‘‘۔ قیامت تک کے لیے جب بھی
شیطان لعین اہل ایمان کو مخالفین کی قوت و حشمت سے مرعوب کرکے مقابلے سے
روکے گا تو امامِ حسینؓ کا اسوہ حسنہ ان کے لیے اسی طرح مہمیز بن جائے گا
جیسے اس بار بن گیا۔
معرکۂ کربلا میں ویسے تو رب کائنات نے امام حسین کو ایسی عظیم فتح سے
نوازہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی لیکن اس کے باوجود ظاہر ی کامیابی سے
محروم رکھا ۔ اس کی حکمت پر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ
اگر امام معظم ؓ کو جنگی فتح بھی حاصل ہوجاتی تو میدان کارزار میں حق کی
خاطر لڑنے اور شکست سے دوچار ہونے والے لوگ ہمیشہ اس احساسِ جرم کا شکار
رہتے کہ وہ ناکام ہوگئے۔ امامِ حسین کی شہادت میں یہ پیغام بھی پنہاں ہے کہ
اللہ کی راہ میں اپنا سب کچھ لٹا دینے کے باوجود فتح سے محروم رہ جانا
دراصل ناکامی نہیں ہے ۔ واقعہ کربلا اس حقیقت کا جیتا جاگتا ترجمان ہے کہ
اگر مالِ غنیمت اور کشور کشائی نہ ملے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اس لیے
کہ شہادت ہی مقصودِ حقیقی ہے۔ امام حسین کی شہادت کا یہ پیغام قیامت تک
مختلف واقعات کی صورت نشر ہوتا رہے گا اور ظلم و جبر کے خلاف سینہ سپر
مجاہدین اسلام کی ترغیب کا سامان کرتا رہے گا ؎
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
|