کشمیر کو دُنیا کی جنت بھی کہا جاتا ہے‘ اس خطہ ارضی کو
کشمیر کیوں کہتے ہیں؟ اس حوالے سے اسلامی اور سائنسی مورخین کی مختلف آ راء
ہیں:پنڈت کلہن نے راج ترنگنی میں کشمیر کی وجہ تسمیہ بیان کی کہ جھیل ستی
سرمیں سے پانی کے اخراج کے بعد اس خطہ کا پہلا حکمران”کشپ“ تھا۔کشپ کی وجہ
سے اس کو ”کشپ مر“ کہا جانے لگا۔اور بعد میں کثرت استعمال کی وجہ سے یہ
کشمیرہو گیا۔Greeksنے اس خطہ کشمیر کو Kasperiaبھی کہا ہے۔ ایک روایت یہ
بھی ہے کہ بنو اسرائیل کے کچھ قبائل وسط ایشیاء سے افغانستان اور گلگت سے
ہوتے ہوئے کشمیر میں آکر آباد ہوئے۔کشمیر کی خوبصورتی سے بے حد متاثر ہوکر
اسے شام سے تشبیہ دِی۔شام سے مماثلت کے باعث اس کو ”کا اسیر“ کہنے لگے۔”کا“
کا مطلب جیسا اور”اسیر“ کا مطلب شام یعنی وہ علاقہ جو شام کی طرح کا ہے۔”
land look like syria A “Charles Elison Batesنے اپنی کتاب Gazetter of
Kashmir A میں لکھا ہے کہ لفظ”Kashmir”دو الفاظ”Kas”اور”Mir”کا مرکب
ہے۔”Kas”کا مطلب“Light”اور میر کا مطلب”Ocean“ہے یعنیLight of oceanعلم و
آگہی کی روشنی کا سمندر۔G.M.D.Sufiکے مطابق جھیل ستی سر سے پانی کے اخراج
کے بعد اس کو Kasamiraدکھایا گیا‘G.M.D.Sufi نے کشمیر کی ایک اور وجہ تسمیہ
بھی بتائی ہے۔کہ لفظ”Kashmir“دو الفاظ کا”Kash“اور”Mir“کا مرکب ہے۔”Kash”کا
مطلب ندی نالے اور”Mir“کا مطلب پہاڑیعنی ندی نالوں اور پہاڑوں کی سر
زمین۔Ka میں ”پانی“ کا مطلب ہے اور”Shimir“خشک کرنے کا مطلب ہے۔
کشمیر”ایک زمین پانی سے desiccated“ کے لیے کھڑا ہے۔ ایک نظریہ کشیپ - میرا
یا Kashyapmir یا Kashyapmeru‘ ”سمندر یا Kashyapa کے پہاڑ“ ‘بابا قدیم
جھیل Satisar کے پانی سوھا ہونے کے ساتھ قرضہ ہے جو کے ایک سنکچن ہونے کا
کشمیر لیتا ہے جو بھی ہے‘ کشمیر کے سامنے تھا یہ دوبارہ حاصل کیا گیا تھا۔
Nilamata پران کا نام کشمیرا میرا ”جو سمندر جھیل یا بابا Kashyapa کے پہاڑ
کا مطلب دیتا ہے۔
سنسکرت میں Mira‘ اوقیانوس یا حد کا مطلب یہ اما کی صورت گری ہو کرنے پر
غور کر رہی ہے اور یہ دُنیا آج جانتی ہے کہ کشمیر ہے۔ کشمیریوں‘تاہم‘یہ
کشمیر سے صوتی لحاظ اخذ کیا گیا ہے جس Kashir‘ کال کریں۔ قدیم یونانیوں
Kasperia طور پر یہ کہا۔ Hecataeus کے Kaspapyros (بازنطین کے apud اسٹیفن)
اور ہیروڈوٹس کے Kaspatyros(3.102، 4.44) کے ساتھ نشان دہی کی گئی جس میں
Kashyapa- پورہ۔ کشمیر بھی بطلیموس کی Kaspeiria سے مراد ملک ہونے کا خیال
کیا جاتا ہے۔ cashmere کے موجودہ دور میں کشمیر کے ایک قدیمی ہجے ہیں اور
بعض ممالک میں یہ اب بھی اس طرح سے ہجے ہیں۔ سامی نژاد کے ایک قبیلہ‘ Kash
کی نامزد کیا گیا ہے‘کہاجاتا ہے کاشان اور کاشغر کے شہروں‘نہ کیسپیئن سے
Kashyapi قبیلے کے ساتھ الجھن میں قائم کیا ہے کے لیے۔ زمین اور لوگوں کی
Kashir 'جس سے 'کشمیر'بھی وہاں سے حاصل کیا گیا تھا کے طور پر جانا جاتا
تھا۔
جب کہ مسلم تاریخ دانوں کے مطابق جب حضرت سلیمان علیہ السلام کے تخت کا
گزرکرہ ارض کے اس خطہ سے ہوا تو ”جھیل ستی سر“ کو دیکھ کر حضرت سلیمان نے
اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس جھیل کا پانی خشک کر کے اس خطہ پر آبادی کا
قیام ممکن بنایاجائے۔وہاں پر موجود ”کشف“ نامی جن جو کہ ”میر“ نامی پری کا
عاشق تھا نے اس شرط پر جھیل سے پانی کے اخراج کی ذمہ داری قبول کی کے اس کے
بعد”کشف“کی شادی”میر“سے کروائی جائے۔ جب ”کشف“ نے جھیل کو کاٹ کر پانی کا
اخراج کر دیا تو اس کی شادی”میر“سے کر دی گئی۔اس نسبت سے اس دلفریب خطہ
کشمیر کو عاشق و معشوق کی محبت میں ”کشف میر“کا نام دیا گیا۔جو بعد میں
کثرت استعمال کی وجہ سے کشمیر بن گیا۔
ہندو نقطہ نظر سے”جھیل ستی سر“ چاروں اطراف سے برف پوش پہاڑوں اورگھنے
جنگلوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔اس جھیل میں ایک آدم خور جن”جلد بھو“ رہتا تھا۔جو
ستی سر کے کنارے موجود لوگوں کو تنگ کرتا تھا اور شدید نقصان پہنچاتا
تھا۔جلد بھو کے ظلم کی داستان جھیل کے اطراف سے لے کر بھمبر اور راجوری کے
علاقوں تک بھیلی ہوئی تھی۔اس آدم خور جن سے لوگ مقابلہ کی سکت نہ رکھتے تھے
اور بہت مایوس تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اسی دوران برہما کا پوتا ”کشپ رشی“عبادت
کی غرض اور معابد کی زیارت کے سلسلے میں جھیل ستی سر کی طرف آیا۔کشپ رشی
زہد و تقوی کی وجہ سے شہرت کی بلندیوں کو چھو رہا تھا۔جب کشپ رشی کی آمد کی
اطلاع بونیر کے علاقہ راجوری میں ہوئی تو ویاں کے باسیوں نے اس کو ”جلدبھو“
کے ظلم وستم کی داستان سناتے ہوئے اس سے چھٹکارے کی التجا کی۔کشپ رشی کو ان
مظلوم لوگوں پر ترس آیا اور جلد بھو کو انجام تک پہچانے کی ٹھان لی۔کشپ رشی
نے برہما کی آشیر باد سے بارہ مولاکے قریب سے اپنے آلہ جکھرسے پہاڑی کو کاٹ
کر پانی کا اخراج کیا۔ جھیل کے خشک ہونے کی صورت میں زمین نمودار ہوئی جس
کے نتیجہ میں دیو ہیکل جن جلدبھو انجام کو پہنچا۔
اسطرح طوفان نوح کے تقریبادو تین سو سال کے بعد زمیں نمودار ہوئی۔کہا جاتا
ہے کہ دریا دیوکے زمانے میں اس خطہ کا کوئی اور نام تھا۔لیکن جب اس جھیل سے
کشپ رشی نے پانی نکالاتو اس نسبت سے اس کو کشپ میر کا نام دیا گیاجو کثرت
استعمال سے کشمیر بن گیا۔جھیل کی خشکی کے بعد اس کے قرب وجوار سے چھ
برگزیدہ برہمن لا کر آباد کیے۔اس طرح موجودہ کشمیر کی بنیاد پڑی اوریہاں
موجودہ اقوام کشمیر کا آغاز ہوا۔ایک روایت یہ بھی ہے کہ کشپ رشی کی بیگم کا
نام میر تھا۔جب کشپ اور میر نے اس خطہ میں رہنے کا فیصلہ کیاتو اس کو کشپ
میر کہا جانے لگا۔جو بعد میں اختلاف لہجہ کے باعث کشمیر ہوگیا۔
3880ق م کو طوفان نوح نازل ہوا جس کے باعث تمام ملک میں پانی پانی ہو گیا۔
بارہ مولا کے قریب ایک پہاڑ گرا اور مخرج آب بند ہوا جس کے نتیجے میں تمام
آبادی غرق ہو گئی اور کشمیر نے ایک تالاب جھیل کی صورت اختیارکر لی۔ جس طرح
بری حالت میں یہ گل زمین رشک چمن تھی ویسے ہی بحری حالت میں کبھی یگانہ دہر
ہوئی۔ اکثر رشی اور مہاتما اس کے کناروں پر آ کر عبادت کرتے تھے۔جب ’ستی
مہادیو‘ کا گزر یہاں سے ہوا تو ان کی یہ جگہ بہت پسند آئی۔اس خطہ کی
دلفریبی اور حسن رعنائی سے متاثر ہو کر ستی مہادیو نے اس کو سیر و تفریح کے
لیے چنا جس کی وجہ سے اس جھیل کو ”ستی سر“ کا نام دیا گیا۔وقت کی ضرورت کو
مدنظر رکھتے ہوئے لوگ اس جھیل کر سیر و تفریح کے لیے آتے رہے ہیں۔سیر و
تفریح سے لطف اندوز ہونے کے لیے یہاں پر کشتیاں بھی چلاہی جانے لگی۔ان
کشتیوں کو باندھنے کے لیے جھیل ستی سر کے کنارے موجود پتھروں میں سوراخ کیے
گئے جن کے آثار آج بھی پائے جاتے ہیں۔جھیل ستی سر سے پانی کا اخراج ہوا اور
یہ خطہ کشمیر معرض وجود میں آیا۔”نیلہ مت پوران“کے مطابق وادی کشمیر
کو”جھیل ستی سر“ کے نام سے جانا جاتا تھا۔محمد الدین فوق کے مطابق کشمیر کی
ایک وجہ تسمیہ یہ بھی بتائی جاتی ہے۔کہ شاستری زبان میں ”کم“پانی
اور”شمیر“نکالنے کو کہا جاتا ہے۔چونکہ جھیل ستی سر سے پانی کا اخراج ہوا اس
وجہ سے اس کو ”کم شیر“ کا نام دیا گیا جو بعد میں کشمیر ہو گیا۔موجودہ
کشمیر کے جغرافیائی اور طبعی خدوخال کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے۔کہ سر زمین
کشمیرندی نالوں اور پہاڑوں پر مشتمل ایک خطہ ہے۔
|