ماما پارسی

میں اس راستے سے ہزاروں دفعہ گذرا پر مجھے محسوس نہیں ہو پایا تھا کہ وہاں کوئی قدیم عمارت بھی بنی ہوئی ہے انسان کا ذہن وقت کے ساتھ بدلتا رہتا ہے اگر کوئی شخص مسلسل علم اور تجربات کا مسافر ہو تو ہر گذرتے دن کے ساتھ اس کا علم بڑھتا رہتا ہے اور کئی نئے تجربات سامنے آتے رہتے ہیں کافی وقت ہوا ہے میں سکھر میں اب نہیں رہتا بہرحال! چند دن پہلے میرا سکھر آنا ہوا میں شام کے وقت کار میں کہیں جارہا تھا تو اسی جگہ سے گذرنا ہوا جس کی میں بات کرنے لگا ہوں۔ میں نے ایک پرانی عمارت دیکھی جس پے 1923 لکھا تھا اور ساتھ میں بلکل اوپرزرتشت کی تصویر بنی ہوئی تھی مجھے احساس ہوا کہ یہ پارسیوں کی عبادتگاہ ہے مجھے شوق پیدا ہوا کہ میں اس کے اندرجاؤں اور اس کی تصویر لوں کیونکہ میں تمام مذاہب کی عزت کرتا ہوں مجھے دنیا کہ تمام مذاہب سے دلی لگاؤہے میں اکثر ایسی جگہوں پے جانے کا بہت شوق رکھتا ہوں جو کہ بہت قدیم اور تاریخی مقام رکھتی ہوں ۔ کچھ وقت پہلے تھر کی طرف سفر کرنے کا موقع ملا ہم نے وہاں انسانی تاریخ کہ قدیم مندر دیکھے ان مندروں کے اندر جانے کا بھی موقع ملا اور میں نے کوشش کی کہ کسی بھی طرح مندروں کی عظت کو نقصان نا پہنچے ہم نے بڑے ادب کے ساتھ وہاں حاضری دی ۔ ہندو اور پارسیوں کا سندھ سے اور اس خطے سے تاریخی رشتہ رہا ہے انہوں نے سندھ کی خوشحالی میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا خاص طور پر کراچی کو بنانے میں ہندو اور پارسیوں کا اہم کردار رہا ہے پارسیوں پے میں ضرور ایک تاریخی ریسرچ کرکہ تحریر لکھوں گا ۔بہرحال! میں نے فیصلہ کر لیا کہ ماما پارسی کی جگہ کے اندر جاکہ اسے دیکھوں گا اور اگر ممکن ہو سکا تو فون سے کچھ تصاویر بھی لوں گا دو دن گذرے میں نے جانے کا ارادہ کر لیا دوبہر 3 بجے میں گھر سے نکلا اور سیدھا ماما پارسی کی جگہ آ پہنچا کار میں نے سینٹ سیوئر چرچ اسکول کہ نزدیک کھڑی کردی کیونکہ اس طرف رش کم تھا اور میری گاڑی قدرے محفوظ رہتی میں نے اپنے ساتھ ایک کارڈ بھی لیا جو کہ کراچی کی ایک یونیورسٹی کا بنا ہوا تھا جہاں میں ایم ایس کی تعلیم حاصل کرتا ہوں میں سوچ میں گم تھا گاڑی سے اترا چشما پہنا ، ماسک پہن کہ اپنی منزل طرف نکل پڑا جو کہ 2 منٹ کی واک پے تھی اسی وقت میرے ذہن میں مختلف خیالات آرہے تھے کہ ضرورت پڑنے پے یونیورسٹی کا کارڈ بھی دکھاوں گا اور یہ بھی کہوں گا کہ میں ایک رائٹر ہوں اور پارسیوں پے کچھ لکھ رہا ہوں تو اس لئے یہاں دیکھنے آیا ہوں کیونکہ یہ پارسیوں کی قدیم عمارتوں میں سے ایک عمارت ہے انہی خیالوں میں گم تھا کہ وہاں پہنچ گیا جس کے لئے میں آیا تھا ایک بڑا سا گیٹ تھا کالے رنگ کا پر پرانا تھا شاید کوئی 15 سال پورانہ ہوگا گیٹ آدھا کھلا ہوا تھا میں اندر داخل ہوا تو مجھے ایک ٹھیلانظر آیا اس میں چھولے یا فروٹ چاٹ کا سامنا پڑا ہوا تھا یا عین ممکن ہو کہ کچھ اور ہو پر جو بھی تھا پر تھا کھانے کا سامان اور اس کے ساتھ دو لڑکے بھی تھے دونوں لڑکے مجھے مذہبی معلوم ہورہے تھے ہلکی سے داڑھی اور ٹوپی پہن رکھی تھی دونوں نے ۔ پان یا چھالیہ کہارہے تھے ان کا لباس ان کا چہرہ اور چال سے یہ اندازا لگایا جاسکتا تھا کہ یہ لڑکے کسی دینی گھرانے سے تعلق رکھتے ہوں پر زیادہ کٹر مذہبی تو نہیں تھے پر اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ مولوی گھرانے کے لوگ ہیں انہوں نے مجھ سے اپنا ٹھیلا آ گے پیچھے کرتے پوچھا کہ کیوں آئے ہو؟ شام کا وقت تھا شاید اس وقت یہ ٹھیلا لگانے کی تیار کرہے تھے بہرحال! میں نے ان کے پوچھنے پے جواب دیا کہ میں یہاں وزٹ کرنے آیا ہوں اور پارسیوں پے تحقیقی مکلامہ لکھ رہا ہوں اور میں نے اپنا یونیورسٹی کا کارڈ بھی دکھایا کہ میں میڈیا کا اسٹوڈنٹ ہوں اور میڈیا میں ایم فل کر رہا ہوں۔ ان میں سے ایک نے ہنستے ہوئے کہا کہ اس کے لئے تو آپ کو کوئٹہ جانا پڑے گا! میں سمجھہ نہیں سکا !میں نے حیرت سے دیکھا اسے اس نے کہا کہ یہ جگہ جن کی ہے وہ کوئٹہ میں رہتے ہیں اور آپ کو یہاں گھومنے کے لئے ان سے اجازت لینی پڑے گی۔میں یہ سن کے حیران رہہ گیا اور مجھے غصہ بھی آنے لگا کہ محض گھومنے کے لئے مجھے اتنی فارمیلٹیز کرنی پڑیں گی جبکہ یہ تاریخی جگہ خستہ حال میں پڑی ہوئی ہے اور یہاں تک یہ لوگ اس عظیم اور نایاب جگہ کی صفائی تک نہیں کر رہے۔ میں نے اس لڑکے کو کہا کہ کوئی پیپر ہے تہمارے پاس جس میں اس جگہ کے مالکوں کی طرف سے یہ لکھا ہو کہ جو بھی یہاں وزٹ کرنے آئے گا اسے نہیں چھوڑنا سوا ہماری اجازت کے اتنے میں ایک لڑکا اندر چلا گیا اور میں جگہ کو دیکھتا رہا میرے الٹے ہاتھ پے پارسیوں کا فائر ٹیمپل تھا اور سامنے ایک عمارت بنی ہوئی تھی اس عمارت کے باہر اوپر کی طرف لکھا تھا " خان بہادر مارکر پارسی" جو کہ کافی حد تک خراب ہو چکا تھا پر اسے آسانی سے پڑھا جاسکتا تھا اور بلکل اوپر ایک لعل کلر کی تختی لگی ہوئی تھی جس میں سفید کلر کے اردو فونٹ سے لکھا تھا " پارسی فائر ٹیمپل" جو کہ باہر روڈ سے دور سے بھی دیکھی جاسکتی تھی اور یہ عمارت کی طرح قدیم نہیں ہوسکتی تھی کیونکہ وہ تختی کافی نئی لگ رہی تھی جو کہ شاید کچھ وقت پہلے لگائی گئی تھی۔ وہاں موجود دوسرے لڑکے نے بتایا کہ یہاں ہماری فیملی ہے جو کہ فائر ٹیپمل والی جگہ پے رہتی ہے وہاں میں نے بہت سارے گھر دیکھے اور مجھے محسوس ہوا کہ یہاں کئی خاندان رہتے ہونگے اور عین ممکن ہے کہ آپس میں رشتدار ہی ہوں ۔ میں دونوں عمارتوں کو غور سے دیکھا تا رہا اور نظروں کو تیز کر کہ عمارتوں کو اندر سے دیکھنے کی کوشش بھی کی پر مجھے کچھ خاص نظر نہیں آسکا البتہ اتنا اندازہ ہو ہی گیا کہ عمارت کہ اندر صفائی نامی کوئی چیز نظر نہیں آئی ایک عمارت کے نچلے حصے میں بہت ساری ٹوٹی ہوئی لکڑیاں نظر آئیں اس کے ساتھ ساتھ مٹی اور کچرا بھی پڑا ہوا دکھائی دیا۔ دونوں عمارتوں کے بیچ اور گیٹ کے نزدیک مجھے دو گائیں بیٹھی نظر آئیں میں نے لڑکے سے پوچھا یہ تم لوگوں کی ہیں اس نے کہا ہاں! اور ہنستے ہوئے بولا اور کس کی ہوگئیںقربانی کی عید آرہی ہے ظاہر ہے اس میں انسان قربانی تو کریگا ۔ اتنے میں وہ لڑکا جو اندر گیا وہ واپس آیا اور اپنے ساتھ ایک ادھیڑ عمر آدمی ساتھ لایا میں نے اسے ساری بات بتائی اس نے خوش اصلوبی کے ساتھ میری بات سنی اور مزید بات چیت بھی کی اس نے کہا کہ آپ یہاں کھڑے کھڑے دیکھ سکتے ہیں عمارتوں کو پر مکمل وزٹ نہیں کرسکتے اور نہ فوٹو نکال سکتے ہیں ایک تو یہاں ہماری فیملیز رہتی ہیں دوسرہ آپ کو عمارتوں کے اصل مالکوں سے اجازت لینا ہوگی جو ککوئٹہ میں رہتے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ یہاں کب سے ہیں؟ انہوں نے کہا میں پیدا ہی یہاں ہوا ہوں میں نے مزید پوچھا کہ ان عمارتوں کہ اصل مالک یہاں سے کب چلے گئے تھے؟ کیا کوئی مذہبی فسادات ہوئے تھے؟ اس نے مذہبی فسادات کو ایک دم سختی سے مسترد کرکہ کہا نہیں نہیں مذہبی فسادات کہاں! گو کہ وہ اپنے لہجے میں یہ بات نظر انداز کرنے کی کوشش کرہا تھا کہ 1947 کے وقت یا اسے پہلے مذہبی فسادات بھی ہوئے تھے اور اس کے نتیجے میں چند لوگوں کو فائدہ پہنچا تھا جبکہ اکثریت کو نا قابل تلافی نقصان کا سامنا کر نا پڑا تھا بہرحال! اس شخص نے جالی والی کالے رنگ کی ٹوپی پہنے رکھے تھی اور دو دن شیو نہ کرنے سے جتنی داڑھی نکلتی ہے اتنی داڑھی رکھی ہوئی تھی اور مونچھیں کاٹی ہوئی تھیں اور شاید ماتھے پے نماز کا نشان بھی تھا اس شخص کا رنگ مجھے گندمی نہیں لگا بلکہ وہ سانولے رنگ کا شخص تھا۔ اس نے مزید بتایا کہ اس عمارت کے مالک 1990 کی دہائی میں یہاں سے چلے گئے تھے ۔ اس نے بولا کہ مقامی افسر یہاں آتے ہیں اور کبھی کبھی یہ پلاٹ اور عمارتیں خریدنے کی بات بھی کی جاتی ہے جبکہ مالک اسے بیچنا نہیں چاہتے اس نے مزید کہا کہ "ہم بیشک یہاں رہ رہے ہیں کئی سالوں سے پر مالک تو اصل وہی ہیں نہ چاہے 100 سال کیوں نہ گذر جائیں" اس شخص کا کہنا تھا کہ یہاں لوگ آکے کہتے ہیں کہ ہم نے یہاں قبضہ کیا ہوا ہے ۔ مجھے وہاں لڑکوں نے اور اس آدمی نے نہیں بتایا کہ اصل مالکوں نے انہیں ہی کیوں یہاں رہنے کے لئے جگہ دی ہے اور یہ لوگ کوئی رینٹ دیتے ہیں یا نہیں۔ اس شخص نے میرے سوال کہ بدلے کہا کہ آپ یہاں دور سے عمارتوں کو دیکھ سکتے ہیں پر اندر نہیں جاسکتے اور نہ فوٹو لے سکتے ہیں وہ شخص مجھے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا تھا کہ گویا یہ عمارتیں انہوں نے کسی کی امانت کے طور پر رکھی ہوئی ہیں اور وہ امانت کا بہت اچھے طریقے سے خیال کر رہے ہیں۔لیکن جو منظر مجھے دکھائی دیا وہ کچھ اور تھا وہاں عمارتیں بلکل ختم ہوچکی تھیں اور اندر کی صفائی کا نظام نہ ہونے کہ برابر تھا سب سے بڑی بات یہ کہ دو جانور بیٹھے تھے جنہیں یقینن قربانی کے لئے لایا گیا تھا اب کیا کسی اور مذہب کی عباتگاہ کے سامنے اپنے مذہب کے کسی بھی حکم پے عمل کرنا اخلاقی طور پر جائز ہے؟ قربانی کے جانور کو کسی اور مذہب کے عبادت گھر کے سامنے باندہ دینا امانت کا خیال کرنا ہے ؟ بہرحال میں باہر چلا آیا اور کار کی طرف جانے لگا تو خیال آیا کہ سامنے جو ہوٹل ہے وہاں بیٹھ کہ چائے بھی پیتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ کیا کروں کسے کہوں کہ مجھے عمارتیں گھومنے دئی جائیں۔ مجھے یاد آیا کہ جب میں سکھر کالیج میں پڑھتا تھا تو میرا ایک دوست تھا جن کا یہ ہوٹل اپنا تھا اور وہ یہاں خود کام بھی کرتا تھا اور پڑھتا بھی تھا سوچا شاید وہ اگر یہاں مل جائے تو کام بن جائے کیونکہ یہ ہوٹل عمارتوں کے سامنے ہے تو ضرور یہ لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہونگے۔ میں نے چائے کا کہا اور اس لڑکے کا بھی پوچھا پر شاید وہ لڑکا اپنے خاندان سے خفا تھا اور ہوٹل میں کئی دنوں سے نہیں آرہا تھا بحرحال! چائے آگئی اور میں سامنے عمارتوں کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ کیسے وقت بدلتا ہے کبھی یہ راستہ میرا گھر ہوا کرتا تھا میرا سب کچھ یہاں تھا تعلیم سے لیکہ ہر چیز سکھر سے وابستہ تھی اس روڈ سے ہمارا فلیٹ بھی نزدیک تھا۔ میں نے غور کیا کہ سامنے جو سبزی والا ہے اور مرغی والا بھی یہ دونوں تو بہت پرانے ہیں میں اپنی امی کے ساتھ اکثر یہاں سے گوشت اور سبزی لیا کرتا تھا اور یہ سبزی اور گوشت کا کاروبار ان کا ہی تھا جو ان عمارتوں کو امانت کے طور رکھے ہوئے ہیں۔ پہلے یہاں محض مرغی اور سبزی کی کاروبار تھا پر اب اس کے ساتھ ساتھ آلو چسو کا بھی ٹھیلا لگ چکا تھا اور ایک تیسرا اٹھیلا بھی ہے جو وہ دونوں لڑکے لگانے کی تیاری کر رہے تھے۔ مجھے عمارتوں کو دیکھ کہ بلکل بھی یہ نہیں لگا کہ یہ لوگ واقعی امانت کے طور پر اس عمارتوں کو سمجھ رہے ہیں کیونکہ ان کے خود کی مطلب کی ہر چیز وہاں موجود تھی جس کا پارسی مذہب سے دور سے بھی کوئی واستہ نہیں اور ہر وہ انسان آرہا تھا اور جارہا تھا جو کہ نہیں جانتا کہ دوسرے مذہب کی عظمت کا کیسے خیال کیا جاتا ہے۔ بہرحال میں نے دور سے اس لڑکے کو بلایا جو پہلے مجھے سےعمارت کے اندر مل چکا تھا۔ میں نے چائے کا پوچھا کہ آپ چائے لوگے؟ اس نے کہا نہیں! میں نے محبت سے پوچھا کہ بھلا پانی یا جوس چلے گا ؟ اس نے کہا کہ نہیں نہیں بہت شکریہ! میں نےپوچھا کہ اس جگہ کے مالک آپ سے رابطے میں رہتے ہیں؟ کہا کہ ہاں! اور وہ ہر سال یہاں آتے ہیں اور دیکھ کہ چلے جاتے ہیں۔ وہ لڑکا جلدی میں تھا میرے ساتھ بیٹھ نہیں سکا اتنی دیر شاید ان کا ٹھیلا لگانے کا قت ہو چکا تھا اس نے مجھ سے ایک دو ہی سوال کئے تھے کہ آپ یہاں سکھر میں پیدا ہوئے ہو؟ آپ ابھی کراچی سے آئے ہو؟ اب آپ سکھر میں نہیں رہتے وغیرہ ۔وہ چلا گیا اور میں وہاں کچھ دیر اور بیٹھا رہا پھر تھوڑی دیر بعد ایک اور لڑکا اسی گیٹ سے نکلا اور سیدھا اسی ہوٹل میں موجود فرج سے بوتل نکال کہ کولڈ ڈرنک پینے لگا اور کائونٹر پے پیسے رکھ کہ چلا گیا۔اب وہ مجھے دیکھنے آیا تھا کہ میں کیا کر رہا ہوں اور ابھی تک وہاں موجود ہوں یا چلا گیا ہوں یا وہ واقعی کولڈ ڈرنک ہی پینے آیا تھا یہ حتمی طور پر میں نہیں کہہ سکتا۔مجھے وہاں بیٹھے بیٹھے یاد آیا کہ جب میں سکھر میں مستقل رہتا تھا تو ان لڑکوں سے میں نے امی کے ساتھ سبزی اور گوشت لیتا تھا کیونکہ ان کا انہی عمارتوں کے باہر مرغی اور گوشت کا کارو بار تھا اور شاید اب بھی ہے۔ میں نے وہاں کم سے کم اتنا تو دیکھا کہ وہاں ایسا کچھ نہیں تھا کہ جسے لگے کہ ان عمارتوں کو امانت کے طور پر سمجھا جاتا ہے وہاں صفائی کا کوئی انتظام نہیں تھا اور وہاں موجود عبادت گاہ کو رہائشی جگہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا اور یہ مجھے وہاں موجود دو لڑکوں میں سے ایک نے بتایا کہ یہ پارسیوں کا عبادت گاہ تھی اور اب وہاں ہماری فیملی رہتی ہے ۔اب یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان کے پاس مالکوں کی طرف کوئی لکھی ہوئی اجازت ہے یا نہیں اور کیا انہیں انہی عمارتوں کے باہر کاروبار کرنے کی بھی اجازت دی گئی ہے کہ نہیں یہ کچھ نہیں کہا جاسکتا اور مالکوں نے کیوں انہیں اجازت دی ہے کہ یہ لوگ یہاں رہیں اور جو چاہیں کریں اور آیا ان لوگوں کا جو یہاں رہ رہے ہیں ان کا ان عمارتوں کے مالکوں سے کوئی رشتہ ہے یا نہیں یہ بھی نہیں کہا جاسکتا ۔ ممکن ہے کہ رہنے والے لوگوں کے پاس کچھ ہو تحریری طور پر جو وہاں کئی سالوں سے رہ رہے ہیں ، جہاں یہ عمارتیں موجود ہیں ۔ 1923 میں سکھر کا یہ علاقہ بلکل دریا سندھ کے کنارے پے تھا پر آج دریا کافی آگے چلا گیا ہے 1947 کے بعد یہاں کہ حالات بہت خراب ہوچکے تھے اور جو دوسرے مذاہب کے لوگ تھے ان کے اندر ایک خوف پیدا ہوگیا تھا اور بہت سارے خاندان اپنی جان بچا کہ یہاں سے چلے گئے تھے اور یہی کیفیت ضرور ماما پارسی کے گھر والوں کی بھی رہی ہوگی ورنہ اپنا گھر کون کس کو ایسے حوالے کرکہ چلا جاتا ہے۔ایک دوسری بات جس کا امکان ہے کہ ایسا بھی ہوسکتا تھا وہ یہ کہ جیسے مجھے اس ادھیڑ عمر آدمی نے کہا کہ وہ یہاں ہی پیدا ہوا ہے تو اس بات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ 1947 کے وقت کچھ لوگ ہندوستان سے ہجرت کرکہ آئے ہوں اور یہاں انہیں پناہ ملی ہو اور بعد میں جب پارسی لوگ یہاں سے کسی فساد کے سبب چلے گئے ہوں تو ہجرت کرنے والوں میں سے کسی نے اس جگہ کے لئے سرکاری طور پر کلیم کیا ہو اور پھر ایسے ہی معملا چلتا رہا ہو ہوسکتا ہے کہ اس جگہ کو لیکہ آج بھی سرکاری یا عدالتی مسئلا چلتا ہو اور اس جگہ اور یہاں رہنے والوں کا معملا عدالت میں موجود ہو یا پھر یہ جگہ اب اتنی پرانی ہوچکی ہے کہ اسے قومی ورثہ تسلیم کیا جاچکا ہو اور مسئلا آکہ یہاں کہ مکینوں کی وجہ سے رک گیا ہو کیونکہ یہاں کہ مکین لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم تو ہندوستان سے ہجرت کر کہ آئے تھے اور ہمیں رہنے کے لئے جگہ دینا یہ ریاست کا کام تھا یہ بھی عین ممکن ہے کہ اس جگہ کہ اصل مالکوں کا سب اس زمین سے کوئی واستہ نہ ہو اور وہ اپنی اس جگہ کو بھول چکے ہوں کیونکہ جس حالت میں یہ عمارتیں ہیں اسے لگتا نہیں کہ اس کے مالکوں اپنی عمارتوں میں کوئی دلچسپی ہے ۔ اب یہ بات تو مقامی سرکار نمائندہ ہی بتا سکتا ہے کہ اصل بات اور اصل مسئلا کیا ہے ، پر ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ امانت کو اسیے نہیں رکھا جاتا۔بہرحال! میں اسی سوچ میں تھا کہ مجھے گرمی کی شدت کا احساس ہوا کیونکہ اس وقت دن کے 3 بج رہے تھے اور جولائی کا مہینہ تھا میں اٹھا اور باہر سے ان عظیم اور خوبصورت عمارتوں کی دو تصویریں لیں اور وہاں سے چلا گیا۔
 

Shaharyar Rehman
About the Author: Shaharyar Rehman Read More Articles by Shaharyar Rehman: 8 Articles with 5728 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.