کاش تم میرا کہنا مان لیتے

سیٹھ سیف الدین کا شمار اپنے شہر کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا تھا ۔ وہ اپنے علاقے اور رشتہ داروں میں سخاوت اور خوش اخلاقی کی وجہ سے بے حد مقبول تھا۔ لوگ اس کے بارے میں ہمیشہ یہی کہا کرتے تھے کہ ہم نے آج تک کسی بھی ضرورت مند کو اس کے دروازے سے خالی ہاتھ جاتے ہوئے نہیں دیکھا۔

ایک دن سیٹھ سیف الدین کا سب سے اچھا اور بچپن کا دوست انعام اللہ اس سے ملنے آیا تو اس نے سیٹھ سیف الدین کے چہرے سے اندازہ لگایا کہ وہ بے حد پریشان ہے ۔ وہ بہت حیران ہوا کہ سیف الدین تو بہت ہی خوش مزاج انسان ہے آج ایسی کیا بات ہوگئی کہ سیف الدین اتنا پریشان نظر آرہا ہے۔ اس نے جب اس سے معلوم کیا تو سیف الدین نے اسے بتایا کہ میرا بیٹا شہریار مجھ سے کار لینے کی فرمائش کر رہا ہے۔ تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ آج کل شہر کی سڑکوں کا کتنا برا حال ہے اور ٹریفک کا رش بھی بہت بڑھ گیا ہے ۔ یہ حالت دیکھتے ہوئے میرا دل نہیں چاہ رہا کہ اسے گاڑی دلاﺅں۔

انعام اللہ نے کہا بھائی اگر شہر یار گاڑی کی ضد کر رہا ہے تو کوئی بات نہیں اب وہ اتنا بڑا ہوگیا ہے اسے گاڑی دلا دی جائے، شہر میں ہزاروں لوگ روزانہ موٹر سائیکلوں اور کاروں میں سفر کرتے ہیں۔بس اسے یہ سمجھا دو کہ اسے گاڑی ایک شرط پر دلائی جائے گی کہ وہ بہت احتیاط سے گاڑی چلائے ۔ زیادہ تیز رفتاری سے گاڑی نہ چلائے ۔ سیٹھ سیف الدین نے کہا انعام بھائی بات دراصل یہ ہے کہ یہ اس عمر میں نوجوانوں میں جوش بہت زیادہ ہوتا اور آج کل کے نوجوان دوسروں کو تیز گاڑی چلاتے دیکھ کر جذبات میں آکربے قابو ہوجاتے ہیں اور ان کے دیکھا دیکھی خود بھی تیز رفتاری سے گاڑی چلانے لگتے ہیں ، بس یہی سوچ کر ڈر لگتا ہے کیونکہ اس تیز رفتاری اور لاپرواہی کہ وجہ سے روزانہ ایکسڈنٹ کے واقعات دیکھنے میں آتے ہیں۔

انعام اللہ نے کہا ارے یار کچھ نہیں ہوگا ، تم شہر یار کو اس کی پسند کی گاڑی دلادو،بس اس کو یہ نصیحت کردینا کہ بیٹامیں تمہیں اس شرط پر گاڑی دلاﺅں گا کہ تم بہت احتیاط سے گاڑی چلاﺅ گے ۔ شہر یار بہت سمجھ دار لڑکا ہے وہ ضرور تیز رفتاری سے گریز کرے گا۔ سیٹھ سیف الدین اپنے بیٹے شہر یار سے بہت محبت کرتا تھا اس کا خیال تھا کہ جوں جوں وہ بڑا ہوتا جائے گاتو وہ اس کے سارے کاروبار کو سنبھال لے گا۔چنانچہ اس نے انعام اللہ کے کہنے اپنے ڈرائیور سے کہا کہ شہر یار کو اچھی طرح سے ڈرائیونگ سکھا دے ، کچھ ہی عرصے میں شہریار کار چلانا سیکھ گیا۔سیٹھ سیف الدین نے اپنے بیٹے کو ایک بڑا سرپرائیز دینے کا فیصلہ کرلیا اور شہر یار کو لے کر شہر کے ایک بینک آیا جو لوگوں کو مناسب شرائط پر کاریں اور لینڈ کروزر فراہم کر رہا تھا۔ انھوں نے کاغذی کاروائی مکمل کرنے کے بعد کار کی چابی شہریار کے حوالے کردی۔ آج باپ نے اپنے پیارے بیٹے کی خواہش پوری کردی تھی ساتھ ساتھ اسے یہ نصیحت بھی کی کہ بیٹا جب بھی گاڑی میں بیٹھنا سب سے پہلے سیٹ بیلٹ ضرور باندھنا اور ہمیشہ تیز رفتاری سے گریز کرنا۔

شہر یارآج بہت خوش تھا آج اس کی دلی خواہش پوری ہوگئی تھی ۔ وہ خوشی سے سرشار تھا۔ سارے دوستوں نے اسے نئی گاڑی کی مبارک باد دی اور کہنے لگے یار نئی گاڑی کی خوشی میں تو تمہیں ڈنر دینا پڑے گا صرف مٹھائی سے کام نہیں چلے گا۔سارے دوستوں کے ساتھ مل کر یہ طے پایا کہ کل رات کو سی ویو پر ڈنر کریں گے۔

رات کے ساڑھے نو بجے شہر یار اور اسکے دوست کھانا کھانے کے لئے نکلے ۔ کچھ دوست اسکی گاڑی میں بیٹھ گئے اور باقی دوست دوسری کار میں بیٹھ گئے جو شہر یار کا کلاس فیلو حامد لایا تھا ۔جوں ہی یہ دونوں گاڑیاں مین روڈ پر پہنچیں ان میں ریس شروع ہوگئی۔ آج شہر یار اور اس کے دوست نے جو فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا سیٹ بیلٹ نہیں باندھی تھی۔یہ گاڑیاں تیز رفتاری کے ساتھ سی ویو کی طرف رواں دواں تھیں کہ اچانک شہر یار کی گاڑی کے سامنے ایک موٹر سائیکل سوار آگیا جسے بچانے کی کوشش میں اس نے فل سپیڈ پر چلتی ہوئی گاڑی موڑنے کی کوشش کی ۔ تیز رفتار گاڑی کنٹرول سے باہر ہوگئی اور قلابازیاں کھاتی ہوئی انڈر پاس کی دیوار سے جاٹکرائی ۔ شہر یار نے چونکہ سیٹ بیلٹ نہیں باندھی تھی لہٰذا وہ اپنی سیٹ سے اچھل کر انڈر پاس کی دیوار سے جا ٹکرایا۔ فرنٹ سیٹ پر بیٹھا ہوا شہر یار کا دوست جو اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔ شہر یار انتہائی زخمی حالت میں ایک لاش کی طرح پڑا ہوا تھا ۔اس کے باقی دوست اس ایکسیڈنٹ میں معمولی زخمی ہوئے ۔وہ یہ سمجھے کہ شہر یار بھی اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے دوست کے ساتھ مر چکا ہے۔لیکن جب انھوں نے قریب جاکر اسے دیکھاتو اس سا نس چل رہی تھی اور وہ زخموں کی تکلیف سے کراہ رہا تھا ۔اس کے دوستوں نے وہاں سے گزرنے والی ایک گاڑی کو روکا اور اس میں اسے ڈال کر ایک پرائیوٹ ہسپتال میں گئے جنہوں نے یہ کہہ کر کہ یہ پولیس کیس ہے علاج کرنے سے انکار کردیا ۔

سیٹھ سیف الدین کو جب تک شہریا ر کے ایکسیڈنٹ کے بارے میں اطلاع ملی وہ کومے میں جاچکا تھا۔انکے اثر رسوخ کی بنا پر آخر اسے ایک ہسپتال میں داخل کرلیا گیا ۔سیٹھ سیف الدین تین دن تک آئی سی یو کے باہر اپنے ہر جاننے والے کو فون کرکے اپنے بیٹے کی زندگی کے لئے دعا کی بھیک مانگتا رہا۔سیٹھ سیف اللہ کا دوست انعام اللہ اسے روزانہ یہی تسلی دیتا رہا کہ ان کے بیٹے کو کچھ نہیں ہوگا۔چوتھے روز جب انعام اللہ نے سیٹھ سیف الدین کو فو ن کیا تو فون اٹینڈ ہوتے ہی اسے سیف اللہ کی غمناک آواز آئی ”انا للہ و اناا لہ راجعون“۔ انعام بھائی شہر یا ر کی زندگی اور موت کی کشمکش ختم ہوگئی وہ ہمیں چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے چلا گیا۔

آج سالانہ امتحان کا رزلٹ آیا تھا۔ شہر یار اور اسکے تمام دوستوں نے انٹر کے امتحان میں اچھے نمبروں سے کامیابی حاصل کی تھی۔لیکن ایک باپ قبرستان کے سناٹے میں اپنے بیٹے کی قبر پر بیٹھا سسکیا ں لے رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ میرے پیارے بیٹے کاش تم میرا کہنا مان لیتے اور سیٹ بیلٹ باندھ لیتے۔
M. Zamiruddin Kausar
About the Author: M. Zamiruddin Kausar Read More Articles by M. Zamiruddin Kausar: 97 Articles with 323103 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.