”یار تو کیوں ایسا کرتا
ہے؟؟“فواد کمپیوٹر پر چیٹ کرتے بہرام سے استہزائیہ ہوا،وہ ہنوز نظریں کمپیو
ٹر اسکرین پر جمائے تیزی سے اُنگلیاںچلا رہا تھا۔
”بہرام!“چند منٹ تک وہ اُسے دیکھتا رہالیکن وہ پوری طرح چیٹنگ میں مگن
تھااسلئے ایک بار پھر اُسے مخاطب کرتے ہوئے بولا
ابے رُک بڑی انٹرسٹنگ(intersting)بات ہورہی ہے!!!بہرام نے اسکی طرف دیکھے
بِنا کہا۔
”لعنت ہے تیری انٹرسٹنگ intersting))با توںپر!!“فوادبھنا کربولاپراُس پر
کوئی اثرنہیںتھاوہ پہلے سے بھی زیادہ دلچسپی سے چیٹنگ میں کسی لڑکی سے
بیہودہ سے سوالوںمیں لگا ہواتھا۔
”ابے دیکھ !سا لی کیسے مری جا رہی ہے!!“بہرام نے اس کی طرف بغیر دیکھے
تمسخرانہ مسکراہٹ سے کہا،وہ خود سے اپنے الفاظ سے ایسی
سیچویشنsituation))پیدا کرتا کہ سامنے والی چاہے کتنی اسٹرونگ کردار کی
ہوتی،اس کی باتوں کے جال میں آجاتی،وہ انجوائے منٹenjoyment))میں بہت آگے
چلا جاتا،جہاںجذبے لفظوں سے بھی دھڑکنے لگتے ہیں۔کسی کے جذبوںسے کھیل
کراُسے بے پناہ لُطف حاصل ہوتا تھاپھر کتنے دن تک اپنے فرینڈزمیں اس لڑکی
کی درگت بناتا،مذاق اُڑاتااور اس کی باتوںپرخُوب قہقہے لگاتا۔فواد اوربہرام
دونوں رُوم میٹ تھے اور MBAٰٰایم بی اے کرنے اسلام آباد آئے ہوئے تھے دونوں
ایک دوسرے سے بالکل برعکس تھے،شخصیت،عادتیں،زندگی گزارنے کافلسفہ اوراسٹیٹس
لیکن اس کی باوجود دونوں کی دوستی میں یہ فضول اور بوگس چیزیں مانع نہ تھیں۔
یہی وجہ تھی کہ بہرام اس کے سامنے کُھلی کتاب تھااسے بہرام کی ہر حرکت کی
خبر تھی اُن کاموں کاعلم تھا جوشاید کسی کے گُمان میں بھی نہ ہو کہ بہرام
جیسا سوٹڈ بوٹڈ،چارمنگ پرسنلیٹی والا کر سکتا ہے گرل فرینڈز،نائٹ
پارٹیزاورفلرٹ گرل فرینڈز کا جُھرمٹ ہمہ وقت اس کے آس پاس رہتاتھا کبھی
کبھی تو وہ خود مُشکل میں گھِرجاتا کہ کس کو لے جانا ،کسے نہیں!!روپیہ پیسہ
کی ریل پیل کا بے دِریغ استعمال کرنے میںوہ عار محسوس نہیں کرتاتھا بلکہ اس
کا اپنا بنایا ہوا فلسفہ تھاجہاں”نوٹینشن“کا جملہ جلی حروف میں لکھا ہوا
تھااس کے لئے زندگی funتھی اورfunکی بھی اس کے نزدیک کوئیlimitsنہیں
تھیںفواد کے لئے یہ سب funنہیں تھابلکہ معاشرتی اقدار کا جنازہ تھاجو وہ
اپنے کاندھوں پرکبھی نہیں اُٹھانا چاہتا تھاوہ دوسرے لڑکوں سے بھی مختلف
نہیں تھا کوئی بھی چیز اسے نمایاں نہیں کرتی تھی اسے شوق بھی نہیں تھا خود
کو نمایاں کرنے کی خواہش بھی نہیں رہی تھی ناکل ناہی آج دوستی صرف دوستی
رہے تو اچھا ہے،دوستی کے نام پرآجکل نئی نسل جو گھناﺅنا کھیل کھیلنا چاہتی
ہے وہ سراسر پستی کا گاڑھ ہے ایسی پستی جس سے نکلنے میں قوموں کوصدیاں لگتی
ہیںوہ آج پھرمنہ کھولے مسلمان کو کھا نے لگی ہے فواد کواپنی کلاس میں بیٹھی
الٹرا ماڈرن لڑکیاںخود سے،مذہب سے بے زار سی لگتی تھیں،ورنہ وہ کبھی خود
کونمایاں نا کرتیں ایسی لڑکیوں کی طرف دیکھنا تو کجانظر اُٹھانا وہ اپنی
توہین سمجھتا تھا شاید وہ گاﺅں سے تعلق رکھتا تھا اسلئے اسے انٹرسٹ تو کبھی
کسی لڑکی میں نہیں رہا تھا لیکن حبہ طا ہر اِسے اچھی لگتی تھی،اچھی لگتی
تھی وہ نقاب کے ہالے میں،پردے میں سمیٹے اپنے وجود کو،وہ بہت پُروقار اور
قابلِ تعظیم لگتی تھی بس اُسے حبہ طا ہر کا یہ انداز اچھا لگتا تھاوہ کسی
سے زیادہ فرینک نہیں تھی فواد نے ایک باراس کی طرف سرسری نگاہ کی تھی پھر
اسکی طرف آنکھ نہیں اُٹھائی یہ احترام اس کی شرافت کا تھا ”الّو دیکھ کیا
کہہ رہی ہےاگر میں نا ملاتو زہر کھالے گی!ہاﺅ اسٹرینج!!یہ لڑکیاں کیا اتنی
ہی ”فول “ہوتی ہیں!!“
فواد نے ایک نظرکمپیوٹر اسکرین کودیکھا پھر بہرام شاہ کو،جولڑکیوں کی
فلینگز سے کھیل کراس طرح خوش ہوتا تھا ،جیسے کوئی اُڑتے پرندے کو پنجرے میں
جکڑ کرخوش ہوتا ہے!!!
”تم نے اُس سے وعدہ کیا ہوگا بہرام!!“فواد عجیب سی تکلیف میں استہزائیہ ہوا۔
ٓ”آف کورس وعدہ کیا تھا،پر اس کا مطلب یہ تو نہیں تھا کہ وہ”فول“اسے سچ مچ
کا مسئلہ بنادے!مجھے اس قسم کی تھرڈ کلاس ،بِیچ لڑکیوں سے نفرت ہےاور گرل
فرینڈزرکھنے اورانجوائے کرنے کی چیزہوتی ہیں!!“بہرام نے ساری
گندگی”ہی“لڑکیوں پر ڈال دی تھی اور خود بالکل صاف شفاف ہوگیا ۔
”تمہیں کیا ملتا ہے کسی کی لائف سے کھیل کر،کسی کی فلینگز کو روند کر!“فواد
کو ایسا لگا جیسے وہ لڑکی اس کے سامنے بیٹھی رو رہی ہے جس کی آنکھوں میں
تکلیف آنسووں کی صورت اس کی رُخساروں کوبھُگو رہی ہو۔
”ابے الّو!اٹس اونلی فن!جَسٹ فن!!فواد یہ لڑکیاں بہت چالاک ہوتی ہیں خود سے
چاہتی ہیں کہ لڑکے انہیںadmir کریں،ان کے آگے پیچھے گھومے،اسلئے میں انہیں
اس طرح ٹریٹ کرتا ہوںفول گرلز!!!“فواد کے لہجے کی کاٹ کی پرواہ کئے بنا وہ
اپنی تھیوری بتا رہاتھا،بہرام فواد سے کتنا فرینک ہے ؟اس کا اندازہ فواد کو
بھی نہیں تھاوہ اپنے باطن کو اس کے سامنے یوںبیان کرتا تھا جیسے سامنے کوئی
اور نہیں وہ آپ کھڑا ہےآج تک فوادکو کوئی ایسا شخص نہیں ملا تھا جو اپنے
کردار سے،اپنے ہر خیال سے اور اپنی سوچھ کے ہرپہلو سے اپنے دوست کو آشنا کر
دے۔بہرام جوںجوں اپنے باطن سے پردہ اُٹھاتا جا رہا تھا فواد کی سوچھ میں
تناﺅ سا آ رہا تھا اُسے افسوس ہوتا تھاکہ اُس نے دوست بھی بنایا توایسے شخص
کو جس کی نظر میں کسی کی کوئی عزت نہیں جس کے لئے ہر چیز فن سے شروع ہو کر
فن پر ختم ہوتی ہے جو زندگی کو فن سے زیا دہ کچھ نہیں سمجھتا۔جس کا ہر روپ
چُونکا دینے والا اور بے حد عجیب تھا۔
”بہرام اس لڑکی سے شادی کر لو،پلیز یار!!“فواد یوں ری کوئسٹ کر رہا تھا
جیسے اس لڑکی سے اسے کوئی تعلق ہو،پر اس کے لئے تو وہ لڑکی ہی تھی جو اکثر
نا دانیوںسے ہار جاتی ہے،جذبوں کی سچائی کو پرکھے بِناان پر ایمان لے آتی
ہے۔
”اِیڈیٹ!ڈَفر!!!شادی اور میں کبھی نہیں،نیور!!“
اس بار وہ فواد کی بات پر قہقہہ لگا کر یوں ہنسا جیسے اس نے چاند کی جگہ
سورج کو رکھنے کی بات کر دی ہوناممکن کو ،ممکن کرنے کو کہہ دیا ہو۔
کیوں؟؟فواد کا لہجا اب سرد ہونے کے ساتھ تلخی لئے ہوئے تھا ۔وہ چیٹنگ کرتے
اس کی باتوں کے اُتار چڑھاﺅ کو سمجھ رہا تھا لیکن تاحال توجہ چیٹنگ پر ہی
تھی،اس کی باتوں کا جواب بھی وہ ساتھ ساتھ دے رہا تھا،
”کیوں؟ “کا کیا مطلب؟؟بھئی میں آزادی کو انجوائے کرنا چا ہتا ہوںبیوی،بچے
”آئی ہیٹ اِٹ!!!“بہرام نے نفرت سے جھرجھری لی جیسے یہ بے حد فضول چیزیں ہوں۔
”پھر تم یہ سب کیوں کرتے ہو،ڈیٹنگ، نائٹ پارٹیز،ڈرنک اور وہ اکثر راتوں کو
بھی“ فواد کی کہتی زبان یکدم رُکی تھی لیکن بہرام اس کی پوری بات سمجھ چکا
تھا اور اس پر مسکرا رہا تھا۔
”وہ سب فن ہے!!خوبصورتی میری کمزوری ہے اور حسن تو دل میں مستی برپا کر تا
ہے یو نویہ رنگ و سرور زندگی ہے جس کا دوسرا نا م فن ہے!!“اب وہ کِی بورڈ
پر مسیج ٹائپ کر کے اس کی طرف متوجہ تھا فواد کے سوال سے تھوڑی سے اُکتا ہٹ
تو اسے ہورہی تھی لیکن وہ دوستی میں بڑا فراخ د ل واقع ہوا تھا۔دوست کے ہر
سوال کا جواب وہ فرض سمجھ کر دیا کرتا تھا دوستوں کی معمولی معمو لی باتوں
کو اہمیت دینے والا ،زندگی کو فن سمجھتا تھا ۔
”اور تم اپنے فن اور مستی میں کسی کی زندگی کو برباد کر دو،کیا یہ فن
ہے؟؟“فواد کو بہرام کی بات سخت ناگوار گزری تھی اس کا اثر اس کے لہجے میں
بھی جھلک رہا تھا۔
”مستی صر ف مستی ہوتی ہے جسٹ فن!اس میں کسی کا کچھ نہیں جا تااور آج تم
کیوںجرح کر رہے ہویا ر!تمہیں پتہ تو ہے سب چیزوں کااِٹس مائی ہوبی !!“
بہرام اب شایداس کو جواب دینے سے کترا رہا تھا یا پھر وہ اس نوعیت کے بوگس
ایشو کو مزید ڈسکس نہیں کرنا چا ہتا تھا۔
”میں نے بہرام تم سے سوال کیا ہے جراع نہیں اور نا ہی تمہیں پا بند کیا ہے
جواب کا“فواد سپاٹ سے انداز میںبولا۔
”ابے او !یہ تو ایک دَم پٹری سے کیوں اُتر جا تا ہے یار ہوں یاروں کاکبھی
کسی کو ناراض نہیں دیکھ سکتا اورتجھے تو کبھی بھی نہیں،اور جہاںتک کسی کی
زندگی کو برباد کرنے کی بات ہے توجگر!جسے اپنی عزت کا ،اپنی زندگی کی فکر
نہ ہو،ان لڑکیوں کے لئے تواپنا اور میرا جِی جلا رہا ہے!!“
بہرام ایسا شو نہیں کر رہا تھا وہ حقیقتاََ دوستی میں جان دینے والا تھا
فواد کو تو وہ اپنا ہمزاد کہتا تھا،اب فواد سوچھ میںتھا کہ”واقعی جواپنی
عزت خود ڈوبو نا چا ہے اس کو کوئی کیسے روک سکتا ہے“
”تم یہ سب چھوڑ نہیں سکتے آئی مِین اپنا فن !!“فواد نے سوچا لڑکیوں کو تو
نہیں بہرام کو تو سمجھایا جا سکتا ہے نا تبھی اِک کمزور سی آس تھی ۔
سبحان اللہ!فواد میاں کیا کہنے ہیں جناب آپ کے!!بہرام اس کی بات پرطنز سے
ہنسا تھافواد کو بھی ایک لمحے کو خودپر احمق ہونے کا گُمان گزرا۔
”ابے میرے پنڈو دوست!لڑکیاں خود سے چاہتی ہیں کہ ان سے فلرٹ کیا جائے،ورنہ
کوئی پا گل تو نہیںتا لی دونو ہاتھ سے بجتی ہے یہ الگ با ت ہے ہم لڑکے
انہیں تب تک گھیرتے ہیں جب تک وہ لائن پر نا آجائیں بعد میں جب وہ گلے پڑتی
ہیں تو ہمارے پا س ہزار بہانے ہوتے،ذمہ داریاں ہیں،بہنوں کی شادیاں کر نی
ہیں جاب نہیں وغیرہ وغیرہ“فواد سوچ رہا تھا کہ اگر بہرام اتنا سمجھدار ہے
تو ایسا کیوں کرتا ہے اگر یہ لڑکیوں کی فطرت اور نفسیات سے اتنی اچھی طرح
واقف ہے توپھر کیوں ان کی با نہوں میں سر رکھتا ہے۔
”پھر بھی بہرام تم یہ گناہوں بھری زند گی چھوڑ دوتمہیں میری قسم!!“فواد اٹل
سے لہجے میں سے بولا ۔وہ حیران تھا کہ آج تک اس کے والدین نے اسے کسی چیز
سے نہیں روکا،کسی عادت کو،کسی چیز کو کبھی چھوڑنے کا نہیں کہا تھااور نا ہی
وہ کسی کے کہنے پر اپنی عادتیں ترک کرنے کا قائل تھاوہ جتنا آزاد خیال تھا
اتنی ہی اپنی شخصی آزادی کو عزیز رکھتا تھا ہر چیز سے بڑھ کرفواد نے اسے
اِک عجیب سی صورتحال سے دوچار کر دیا تھاایک طرف اسکا وہ دوست تھا جسے وہ
اپنا ہمزاد کہتا تھادوسری طرف اس کی ذات تھی جسے کوئی پابندی ،کوئی روک ٹوک
کبھی گوارا نہیں تھی۔یہاں تو سوال ہی فطرت بدلنے کا تھاجو شاید ناممکن تھا
اس کی عادتیں اتنی پختہ تھیں کہ وہ فطرت میں رچ بس گئیںتھیں اور فطرت کو
بدلا نہیں جا سکتا!!بہرام کوفواد کی بات پر گہراشاک لگا۔
”فواد تمہیںمیری خوشی سے زیادہ اُن لڑکیوں کا خیال ہے جوخوداپنی نسو انیت
کاپرچار کرتی ہیں،چند میٹھے بولوں پر اپنا آپ سونپنے کوتیار ہو جاتی
ہیں،کسی کے جھوٹے وعدوں پرہر حد سے پھلا نگ جا تی ہیںجنہیں اپنا خیال نہیں
ہے اُن کے لئے تم نے مجھے کتنی بڑی آزمائش میںڈال دیا اپنی قسم دے کر!!اوہ
گاڈ!!“
وہ کمپیوٹر ،چیٹنگ سب چھوڑ کربُری طرح پریشانی کی زَد میں تھالیکن بات
دوستی کی آگئی تھی جسے وہ سب سے زیادہ اہمیت دیتا تھا اور فواد سے زیا دہ
اسے دوٹکے کی لڑکیاں کیونکر عزیز ہوتیںجو اس کی ایک کال پر اپنے ماں باپ کی
آنکھوں میں دھول جھونک آتی تھیں اسلئے وہ ہا ر چکا تھا اپنی فطرت کو دوستی
کے آگے!!لیکن یہ سب انتہا ئی غیرمعمولی تھا بہرام کے لئے ایک صدمہ،ایک شا
ک،ایک بے یقینی بہرحال اس کے اعصاب سے جھلک رہی تھی اُسے پتہ تھا کہ دوستی
کے لئے وہ جو قدم اُٹھا چکا ہے اس پر قائم رہنا اتنا ہی مُشکل ہے جتنا کسی
سے جینے کا حق چھین کر اُسے ،جینے کا کہا جائے!!!
”تھینگس بہرام شاہ تھینگس یار!مجھے پتہ تھا کہ تو کبھی میری کسی بات سے ،کسی
دلیل سے نہیں قا ئل ہو گا،کبھی میرے کہنے سے اپنا بوگس لائف اسٹائل چینج
نہیں کرے گاسوری مجھے یہ راہ اختیار کرنی پڑی!!“فواد اِسے ٹوٹتے دیکھ رہا
تھا اور اچھی طرح اس کی ذہنی حالت کو سمجھ سکتا تھا کہ وہ کس قدر کٹھن لمحے
سے دوچار وہ کبھی اس قسم کا لا ئف اسٹائل کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا،اسے
رینگتی ،مجبور اور بندشوں والی زندگی جینے سے نفرت تھی سخت نفرت!بہرام نے
اپنی آنکھوں کواثبات سے جھپکا یا جیسے سا رے الفاظ کہیں رہ گئے ہوں فوادکے
ہا تھوں کو اپنی گرم مُٹھیوں سے ہولے دَبا کر وہ کمرے سے نکل گیابہرام کو
لگا جیسے یکدم کسی نے اس کے پَر اپنے قبضے میں لے لیے ہوںوہ اُڑنا چا ہے
بھی تو دوستی کی قسم اسے جکڑلے گی!!آج پہلی بار وہ اپنی اسپورٹس کار کے
بغیر نکلا تھابغیر منزل کے تعین کے، لیکن کوئی چیز اسے اعصابی طور پر مضطرب
کر رہی تھی کہ وہ نہیں رکھ پائے گا دوستی کا بھرم!!اس کے موبائل کی رنگ ٹون
مسلسل بج رہی تھی اُسے پتہ تھا کہ اربیلا ہے آج انہیں ڈانس پارٹی میں جا نا
تھا پھر پتہ نہیں کیا کیا پروگرام تھا آزادی،خوبصورتی اور ڈرنک کے ساتھ
زندگی کو انجوائے کرنے کی پلاننگ وہ کتنی دیر تک اربیلا سے کرتا رہا تھاوہ
زند گی کے سرور میں ہر حد سے گزر جانے والے کو اب حدوں کی زنجیر پہنا دی
گئی تھی لاشعوری طورجنت میں رہنے والے کو یکدم شعور نے حقیقت کے جلتے دوزخ
میں ڈال دیا تھا۔وہ اپنی سوچوں میں نہ جا نے کتنی دُور نکل آیا تھا اب اس
کا موبائل بھی شاید اس کی طرح خا موش ہوگیا تھا اِک ایسی خا موشی جو کبھی
اس نے نہیں چاہی تھی کیونکہ وہ ایک پَل بھی خا موشی سے نہیںبیٹھ سکتا تھا
اس نے اپنے اِردگرد بہت ساری دلکش تتلیاں جمع کر رکھی تھیں کہ ان کے الویلی
شو خیاں،مدہوش کرنے والے قہقہے، دلنشین شرارتیں اس کے آس پاس رہتی تھیں کہ
وہ زندگی کو خا موش دیکھ نہیں سکتا تھالیکن اب اسے ان تمام چیزوں سے الگ
تھلگ ہو کر خا موش آواز کی طرح جینا تھا جسے نہ تو کوئی سُن سکتا ہے ناہی
کچھ سُنائی دیتا ہے!!!
ڈارلنگ کہاں ہو تم ؟ میں کب سے تمہیں کال کررہی ہواس کے بعد اِن بکس میں
اربیلا کے کئی مسیچز تھے بہرام نے سرسری طورپرپڑھے تو اسے فواد پرڈھیروں
غصہ آیا ،اِک عجیب سا کرّب اسے اپنی رگوں میں دوڑتا ہوا محسو س ہوا ،اس
لمحے اس کا دل چاہا کہ”وہ دوستی پر لعنت بھیج کر زندگی کی طرف لوٹ جاے“اگلے
لمحے اس نے دوبارہ اِن بکس کھولا اور اربیلا کے مسیچز کوغور سے پڑھنے لگا
کہ وہ اسے کتنا مِس کرتی رہی ہو گی، اس بار اسے خود سے گھن آئی،اربیلا نے
اسے بتا یا تھا کہ ڈانس پارٹی اس نے عدیل تیمور کے ساتھ انجوائے کی،اس نے
سوچا جو لڑکی ایک پارٹی اس کے بغیر نہیں رہ سکی وہ کیوں اس کے لئے فواد
جیسے دوست کو اور اس کی دوستی کو چھوڑے۔
اربیلا کا میسچ اس نے ایک بار پھر پڑھا لکھا تھا”بہرام قسم سے تمہارے بغیر
پارٹی کا بالکل مزہ نہیں آیا بَٹ پھر عدیل تیمور نے مجھے جوائن کر لیا تھا
ورنہ“اس سے آ گے کیا لکھا تھا بہرام نے نہیں پڑھا لیکن وہ سار ی بات سمجھ
چکا تھااربیلا کے لئے ڈھیر وںنفرت اُمنڈآئی تھی۔
”عدیل تیمور“کا نام آتے ہی اس نے نفرت سے جھرجھری لی،وہ انتہائی اوباش
کردار کا مالک تھا خباثت میں وہ شیطان سے کسی طور کم نا تھا ”اس کا مطلب ہے
اربیلا“اوہ گاڈیو بیچ!!اس نے عدل تیمور کے بجائے اربیلا کو گا لی دی کیونکہ
وہ ہزار بار اسے اپنی وفاداری کا یقین دلا چکی تھی لیکن وہ بھی کھوکھلا تھا
ہماری کلاس میں سب کچھ کتنا مصنوعی ہوتا ہے!!اس لمحے شدتوں سے اسے اپنی
سابقہ زندگی سے عجیب سی نفرت نما شرمندگی ہو رہی تھی حالانکہ اس لمحے سے
قابل وہ کبھی اپنی عادتوں اور چیزوں سے بے زار نہیں ہوا تھاآج بہت کچھ زمین
سے با ہرنکلنے کے ساتھ بہت سی سوچیں ،عادتیں اسی زمین میں دفن ہورہی تھیں
یہ دن اب تک کی زند گی کا دشوار ترین دن لگ رہا تھا ایسا جیسے کوئی نئی فصل
کی تیاری کے لئے سارے کھیت میں ہل چلا دےسب کچھ اُکھڑنے لگے!!اور ہل کے
پنجوں سے زمین کا سا را وجود چھلنی چھلنی ہو جا ے!!بہرام شاہ کا بھی اسی
زمین جیسا حال تھا جو ازسرِنو تیار ی کے مراحل سے گزرتی ہے۔ اربیلا کے
مسیچز کو دوبارہ پڑھنے سے پہلے وہ خود کو قید میں محسوس کر رہا تھا کہ
دوستی کی باڑنے اسے آزادی سے ،زندگی سے لطف کشید کرنے سے روک دیا ہو۔
اب اسے لگ رہا تھا کہ وہ جیسے ابھی ابھی آزاد ہوا ہو!!
ہوس اور نفس کی قید سے ابھی اس کا وجود رہا ہو اہو!!
حسن و شراب کے اثر سے ابھی ابھی اس کی آنکھیں کُھولی ہوں!!
زندگی کا خمار ابھی ابھی ٹوٹا ہو!!
حقیقت کا آئینہ دیکھ کر وہ خود ہی ندامت سے چور چور ہورہا تھا اسے خود سے
کراہیت تو محسوس ہو رہی تھی مگر کہیں اِک انوکھا اور میٹھا سا اطمینان بھی
اس کی روح وجسم کو سرشاری بخش رہا تھا اگر چہ یہ اک ہلکا سااحساس سا تھا جو
ابھی پوری طرح بیدار بھی نہیں تھا لیکن کہیں آس پاس تھا ضرور!لوگوں کا ہجوم
آہستہ آہستہ ختم ہوگیا،سڑک ویران ہوچکی تھی،کبھی اس گہری ویرانی اور تاریکی
میں کوئی زناٹے بڑھتی گاڑی بھی گزرتی توخا موشیوں میں کی وسعت میں زیادہ
مُخل نہ ہو پاتیخا موشیاںتا ریکی اور کسک کے ساتھ آزادی!
ان سب میں اُلجھتا ہوا اِک نفس،اِک ہوس کا مرتا مجسم!اس سے نبردآزما ایک
احساس،ایک بیدار ہوتا اطمینان!
تا ریکی خاموشی اندھیرا،گہرا اور بہت گہرا اندھیرا!بے سرور سی چاندنی بڑی
دلربائی سے اس تماشے پر مُسکرارہی تھی۔
سوچوں کا تکرارروح وجسم کی جنگ اور پھیلتا ہوا اضطراب!کُھوکھلی،بے مقصد سی
بے کلی!!بہرام نے نظر اُٹھا کر آسمان کو دیکھا وہاں بھی چپ تھی،گہری اور
سلگا تی چپ،تاروں کی چلمن میں بھی وہ رونق،وہ دلکشی نہیںتھی جواکژراتوں کو
حسین کر دیتی ہے،ڈھلتا چاندبھی تھا جو اب گہرے بادلوں کی اُوٹ سے ذرا کا
ذرا نظر آ رہا تھا،بہرام کی نظروںمیں آج سے پہلے کبھی اتنی اُفسردگی
اوراُفتا دگی نہیںسمائی تھی،رات اور گہری ہوگئی تھی سڑک پر اب مکمل سکوت
چھا رہا تھا،اس سکوت کو کوئی چیز توڑ نہیں پا رہی تھی ،ہر چیز تاریکی اور
خا موشی میں گُم تھی ہر طرف رات کی چادر تَن چکی تھی۔بہرام کو اپنے اطراف
کی تاریکی سے زیادہ ،تا ریکی اپنے اندر محسوس ہو رہی تھی۔ایسی تاریکی جس نے
اُسے حیات کے اصلی مقصد سے ہی بے بہرہ کر دیا تھا ،ایک ایسی تا ریکی جس میں
اصل صرف دنیا کی زندگی ہی تھی،اصل بھی ایسی کہ جس کا کوئی اعتبار نہیں اب
وہ با قاعدہ اپنی سابقہ زندگی پر تمسخر سے مُسکرایا،اس کے دل میں کوئی کسک
مسلسل کروٹ بدل رہی تھی ۔
اصل سے کتنی دور رہا میں
کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میںتھا کہ میں جسے funکہتا ہوں وہ تو”جنگ“ہےنیکی
اور بدی کی جنگہ وس اور نفس کی جنگ خرد اور جنوں کی جنگ آگ اور پانی کی
جنگ!!میری زندگی رونقوں،خوشیوں،خواہشوں اور خوشبووں کے بھنور میں مدہوش تھی
اور میں کتنا خوش تھا بے فکر تھااپنی ”کل“سے لاعلم اپنے آج میں بدمست!!
میری کل؟؟؟وہ اضطراب اور گھبراہٹ سے خود سے مخاطب ہو ا۔
گھبراہٹ کل کی نہیں تھی بلکہ اس آج کی تھی جس نے آنے والے کل کی اُمید کو
کم کردےا تھاایک اچھی کل کی خواہش وہ کیونکر کر سکتا تھا جبکہ اس نے اپنی
آج کو کسی اچھے عمل میں صرف نہیں کیا تھا
اچھا عمل؟؟پہلی بار اس نہج پر سوچ رہا تھا اس میں کوئی خامی نہیں تھی لیکن
جو funکے نام پر وہ کرتا رہا تھا اس سے کسی کو نا سہی،اس کی اپنی ذات کو تو
بظاہر نا سہی لیکن نقصان بہرحال پہنچا تھا اور یہ احساس اسے بیتے کل کی
رنگین راتوں میں لے گیا جب وہ صرف اپنے نفس کے ہاتھوں میں تسکین کی اصل لذت
سے بے خبر تھا!
اُف خدایا!!دونوں ہاتھوں سے اپنے کُھولتے سر کوتھامے وہ بلآخر سڑک پر
اُکڑوں بیٹھ گیاتکلیف اس کے چہرے سے ظاہر تھی مضطرب دل اس کے سینے میں دھک
دھک کر رہا تھا اور وہ جسم کی نہیں روح کی اذیت جَھیل رہا تھاروح جب احتساب
کرتی ہے تو جسم کا رواں رواں اپنی بنیاد سے اُکھڑ کھڑا ہوتا ہےنائٹ کلبس کے
ساتھ وہ سب یاد آرہا تھا جو وہ انجوائے منٹ کے نام پر ہروہ کام کر نے میں
فخر محسوس کر تا تھاجو اس لمحے اسے پَھن پھیلائے کاٹ رہے تھےاب جب احساسِ
گناہ کا جھونکا لہومیں گردش کرتا شعور کی کھڑکیاں کھول رہا تھا تو تکلیف جو
تھی سو تھی لیکن اسے خود سے گِھن آ رہی تھی ایک کراہیت آمیز گِھن!تعفن نے
اس کے دماغ کی سب نسیں ڈھیلی کر دیئں تھیں۔
اس نے معلوم کے شر یعت کیا ہوتی ہے؟اس کے دل کے روزن سے کوئی کہہ رہا تھا
کہ”بہرام تم شریعت کی فکر کرتے ہو،تم تو انسانی اور اخلاقی قدروں سے بھی
گئے گزرے ہو!!“ایک ایسے انسان جو بے لگا م جانور کی طرح جینے کوfunکہتا
ہے!!“بہرام اس آواز پر اور پژمردگی کاشکار ہو بیٹھا تھا،پہلی بار تنہائی
ملی تھی اور فرصت کے ساتھ خود احتسابی کا موقع ملا تھا۔
دنیا کی وسعتوں پر رات چھا ئی ہوئی تھی
خا موشی کا جلوہ تھااور بہرام شاہ کی چلتی سانسیں تھیںجو کبھی گہری سرد تو
کبھی آہ کی صورت آس پاس کی چُپ کا سینہ چاک کرتی تھیں اسکا اپنا سینہ تو تپ
رہا تھا وجود سُن تھا۔
اللہ اکبراللہ اکبر!رات کے اندھیرے میں روشنی کی کرن پھو ٹتے ہی ہر جانب سے
یہ صدا گونج رہی تھی،رات دیر تک کشمکش میں الجھے رہنے کے بعد خدا کو اس کی
آہ وزاری اور خود احتسابی پسند آئی تھی سڑک پروہ کسی بے سروسامان مسافر کی
طرح سو رہا تھا،پہلی بار اسے اتنی اطمینان کی نیند آئی تھی حالانکہ اے سی
اور نرم بستروں کے بناءسونا اس کے لئے تصور میں بھی مشکل تھا وہ فٹ پاتھوں
پر سونے والوں پر حیران ہو تا تھا کہ انہیں نیند کیسے آ جا تی ہے آج زمین
کا بچھونا کم وخواب سے زیادہ آرام دہ لگا تھا۔اللہ اکبر مؤذن نے تیسری بار
خوش الحانی سے کہا۔تیسری صدا اسے نیند سے کھینچ لائی صبح کا پھیلتا دلکش ،پاک
اُجالا!!بہت دلکش منظر جو روح کوشاد کر دے،ایسا اُجالا جو ہرپستی کو،ہر
تاریکی کو صاف کردی اللہ اکبر مؤذن نے پھر پکارااور وہ آنکھیں مسلتا اُٹھ
بیٹھا وہ خود حیران تھا کہ زند گی میں پہلی بار اتنی جلدی اس کی آنکھ کُھلی
تھی اور جب کوئی غفلت کی نیند سے جاگے تو یہ اللہ کا بہت بڑا فضل ہوتا ہے
اور شاید اس کی نئی صبح اس کو اسی فضل کی نوید دے رہی تھی!!حیرانگی اس کے
چہرے سے عیاں تھی کہ رات کا سفر طے ہوچکا تھا!!
حیران تو آج آسمان بھی تھاکہ آج بہرام شاہ نہیں ،ایک معصوم انسان جاگا
تھا!!کوئی خاص قوت اسے آواز کی سمت بڑھنے پر مجبور کر رہی تھی ابھی کچھ دور
ہی چلا تھا کہ آس پاس کی آبادی سے لوگ مسجد کی طرف آنا شروع ہوگئے،وہ
سرشاری سے اس جگہ کی طرف بڑھ رہا تھا جہاں فلاح کے لئے دن میں پانچ وقت
پکار اُبھرتی ہے لیکن وہ تو عیدین کوبمشکل جاتا تھادکھاوے کے لئے کہ وہ
مسلمان ہےمسلمان کیسا ہوتا ہے یا مسلمان کو کیسا ہونا چاہیئے ؟اس نے کبھی
سوچا ہی نہیں تھا وہ تو ایسا مسلمان تھا کہ آنکھ کھولتے ہی اس نے سنا تھا
کہ وہ”مسلمان“ہے کیونکہ اس کے ماں باپ نے بھی ےہی سنا تھا اور ان کی طرح یہ
بھی خود کو مسلمان کہنے لگالیکن کبھی اس سے کسی نے نہیںکہا تھا کہ مسلمان
کلمہ پڑھ لےنے کا نام نہیں ہوتا نا ہی جمعہ ،عید پر مسجد کا رُخ کرنے والا
ہی مسلمان ہوتا ہے۔مسلمان کون ہوتا ہے؟؟؟ایک خیال کوندا تھاکم ازکم میں تو
مسلمان نہیںتھامیں نے توآج تک خود کوصرف کہنے کی حد تک مسلمان جانا ہےکوئی
مجھ سے جب میرا مذہب پوچھتا ہے تو میں جھٹ سے کہہ دیتا ہو ”اسلام“اور بچپن
سے اب تک ڈوکومنٹس میں مذہب کے خانے میں میں لاپروائی سے اسلام لکھتا رہا
ہوں ایک انوکھا سا غرور بھی مجھے ہوتا تھا کہ میں ہندووں،یہودیوں اوردیگر
مذاہب کے ماننے والوں سے بہتر ہوں کیوں؟؟اس سے مجھے کیا واسطہ قرآن میں نے
اس وقت کے بعد بھُولے سے بھی نہیں کھُولا جب مولوی صاحب نے کہا تھا ”تم نے
قرآن پڑھ لیا“حالانکہ میں نے توزبر،زیر اور پیش کی آوازوں کوپڑھا تھاقرآن
کی عبارت سے آشنائی بھی وقت نے مٹا دی کہ وہ پھر خوبصورت کپڑے میں لپٹا ،طاق
میں پڑا رہا جس سے گرد بھی میڈ سلطا نہ اُتارا کرتی تھیں وہ نہایت عقیدت سے
پہلے قرآن کو آنکھوں سے چُو متی ،پھراپنے سفید ململ کے ڈوپٹے کے پَلو سے
بڑی محبت واحترام سے آہستہ آہستہ گرد کو صاف کرتی جاتی اور میں حیرت سے
میڈسلطانہ کو دیکھتا کہ وہ کس والہانہ پن سے قرآن کو چُوما کرتی تھیں ےہ تب
کی بات ہے جب میں نے کلاس فور کا امتحان دیا تھا اور فر فرانگریزی بولنے
لگا تھا ممّا اور پاپا میری ذہا نت پر خوش تھے اور مجھ میں عجیب سا تکبر
آتا گیا پھر میں ہوسٹل میں رہنے لگا جہاں میری سرشت کی لگامیں ڈھیلی ہوتی
چلی گئیں،میں جب چھٹیوں میں گھر جاتا تو عجیب سی کٹھن محسوس کرتا ،میری عمر
کم تھی لیکن میں نے اپنی عمر سے آگے جھانکنا شروع کر دیا تھااور” جب کوئی
اپنی حدوں کو پھلا نکتا ہے تو زمین کی کشش ِثقل بھی اسے آزاد کر دیتی ہے
اور جو اس کشش سے نکل گیا وہ کسی بلیک ہول کا ہو رہا“جدید سا ئنس بلیک ہول
کے بارے اتنا بڑے وثوق سے کہتی ہے کہ ایسی جگہ جہان گُپ اندھیرا ہے ہر چیز
جس میں اپنا وجود کھُوکر تاریکی کا حصہ بن جاتی ہےمیں بھی بلیک ہول میں
تھانہیں!!میں خود ایک بلیک ہول تھا !!!اس نے اپنی بات کی خود ہی نفی کرتے
ہوئے آگے قدم بڑھا ئے اور دو چار لوگ بھی اس سے آملے،وہ بھی اس کی طرح مسجد
جا رہے تھے،اچانک اس کی سر شاری عجیب سے ملال میں بدل گئی خوف سے اس کے سرخ
سفید چہرے پر وحشت طاری تھی وہ سوچ رہا تھا کہ مسجد میں کتنے لوگ ہونگے!اور
مجھے تو!!!اس کی سوچ گھبرائی اور وہ خود اس سے کہیں زیادہ گھبرایا ہوتھا۔
ڈر؟؟؟ڈر رہا تھا کہ اسے توٹھیک سے وضو کرنا بھی نہیں آتااور وہ کس سرخوشی
میں اس طرف کو قدم بڑھا رہا تھا جہاں جانے والوں کو بڑے دعوے سے محتاج کہتا
تھا کہ لوگ اپنی محتا جی کو مسجدوں کا رُخ کرتے ہے کسی نہ کسی کو خدا سے
کچھ نہ کچھ چاہیئے ہوتا ہے اور کوئی نہ کوئی مجبوری اس کے خیال میں لوگوں
کو مسجدوں کا رُخ کرنے پر اُکسا تی ہے ورنہ اگر سب کو،سب کچھ مےسّرہوتو
کبھی مسجدوں میں جھانکے تک نا!!آج وہ خود مسجد کی طرف چلا تھا تو بے خودی
اور جذب کا عالم تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ بھی مانگنے والوں کی صف
میں آکھڑا ہے سب اس کے سا منے تہہ دست ہیںشاہ وفقیر سبھی خالی ہاتھ اس سے
ما نگتے ہیں،لیکن مجھے تو نماز بھی نہیں آتی!!(وہ خود سے مخاطب ہوا)۔
”چلو صاحب زادے دیر ہو رہی ہے جماعت کو!!“
ڈر کی وجہ سے مجھے پتہ بھی نہیں چلا کے میں چلا نہیں رہا ،بلکہ میرے قدم
جامد سے ہو گئے ہیں پیچھے سے آنے والے ایک باریش بزرگ کی آواز نے میرے جامد
قدموں کو رواں کر دیا۔ایک ڈھارس سی لگا مجھے وہ باریش شخص،میں نے اسے فولو
کرتے ہوئے وضو کیا اور نماز کا مجھے نہیں آتی تھی ،میں اسی شخص کی طرح
اُٹھنے اور بیٹھنے لگا!مجھے پتہ تھا کہ میں نماز نہیں پڑھ رہا ،لیکن میں جو
عاجزی میں کر رہا تھا وہ”رب“ ضرور جانتا تھاکہ وہ ظاہر کو نہیں نیےتوں کو
دیکھتا ہے،عمل کو نیت سے پرکھتا ہے!ایسی کیفیت،ایسا سرور مجھے پہلی بار ملا
تھاخود سے لاتعلقی کا نشہ پہلی بار میری رگوں میں گرمی پیدا کر رہا
تھا!ایسی حرارت کہ میرے وجود کے اَنگ اَنگ میںبجلیاں جل بجھ رہی تھیں۔نماز
کے بعد سب نے ہاتھوں کو اس ہستی کے آگے پھیلا دیا جس کے با رے میں ،مَیں نے
سنا تھا کہ وہ اللہ ہے اور سب کی مرادیں بَرلانے کی طاقت وصلا حیت رکھتا ہے
جب میں نے ہاتھ اُٹھائے تو پتہ نہیں کیوں ،میری زبان گنگ ہو گئی ،میرے حلق
میں الفاظ گول گول ہوکر پھنس گئے اور پھر آنکھوں سے دل کا ملال بہنے
لگا!!آنسوبہتے رہے،میں روتا رہاکہ اس لمحے یہی میرے بس میں تھا اور جب
معلوم ہوکہ بس یہی وہ جگہ ہے جہاں سب کو،سب کچھ ملتا ہے تو گردن کے خم ٹوٹ
جاتے ہیں اور میری گردن میں تو کو ئی بہت بڑا سَریا تھاجس نے مجھے نفس کی
فولادی زنجیروں میں جکڑ رکھا تھا اور آج راز کُھلا کہ ”کل“گناہ گاروں
اُڑھنا بچھونا آگ کیوں ہوگا!!
میرے رونے سے،میرے نجاست زدہ دل کی زمین دُھلتی رہی ،نکھرتی رہی اور سنورتی
رہی!!جب مسجد سے سب نمازی نکل گئے اور صبح کی چلملاتی،سنہری اور اجالی دھوپ
نے اپنی بانہوں میںدن کولیا تو وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا،ایک بارپھر اس
نے اپنی ہاتھوں سے کی پشت سے آنکھوں کی نمی کورگڑا اور اپارٹمنٹ کی طرف چل
دیا۔تھکن کے بعد آسودگی کامزہ جوتھا سواپنی جگہ لیکن اب آسودگی کو اپنے عمل
سے ،آسودہ کرنا اور قائم رکھنا باقی تھا!
”بہرام کدھر گیا تھایار!!یار ساری رات کروٹیں بدلتے اور دُعا کرتے گزاری ہے
میںنے!!!“فواد نے فکرمندی سے کہا،پریشانی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔اسے چپ پا
کر وہ پھر گویا ہوا۔
”تجھے پتہ ہے کہ میں کتنا پریشان تھاکہ کہیں تم میری وجہ سے!“
ڈر تو ہم انسانوں کی سرشت میںہے،کبھی دوستی کا تو کبھی زندگی کا،کبھی عزت
کا، کبھی معاشرہ کا، کبھی لوگوں کی باتوں کاکہ وہ کیا سوچ رہے ہیں ہمارے
بارے میں!!ڈر ہوتا ہے کہ کہیں ہماری کُھوکھلی انا کابھرم نہ ٹوٹ جائے،کہیں
کوئی ہماری fustrationsکابھیت نا جان جائے اسلئے ہم تہہ در تہہ چھپتے چلے
جا تے ہیں!!اور اپنے اوپر اتنے لبادے اور غازے مل لیتے ہیں کہ ہماری حیثیت
کٹ پتلی جیسی رہ جا تی ہے جو لوگوں اورسوسائٹی کے خوف سے ناچتی ہے اور ہاتھ
پاﺅں مارتی ہے!!ہم میں اتنے ڈر ہیں ایک ڈر نہیں ہے ہم انسانوں میں!!
وہ ڈرہے اللہ کاآخرت کا موت اور پھر جی اُٹھنے کا!!بہرام فواد کی بات پر
سوچ کر رہ گیا۔
”کہیں نہیں تھا چلتا چلتادور نکل گیاتھابس نہیں دور نہیںبلکہ!!“وہ کچھ
کہناچاہ رہا تھالیکن جملہ نامکمل چھوڑکراپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا،وہ تمام
پوسڑنوچنے لگا جن کو دیکھ کر اس کے اندر کی ہوس بھڑک اٹھتی تھی،جس میںفلمی
ایکٹریسوں کے جسموں برہنگی کو دیکھنے والا،جذبوں کی برہنگی سے کیسے بچ سکتا
تھا اور نفس کی لذت کوتونظارہ ہی چاہیے ہوتا ہے فواد نے اس کو لاکھ کہا تھا
کہ بہرام یہ بیہودہ اور برہنہ پوسٹر کمرے کی دیواروں سے ہٹاﺅ ،یہ نظر کو
گناہ کی لذت کی طرف مائل کرتے ہیںلیکن وہ کسی طور پوسٹروں کو اُتارنے کو
رضا مند نہیں ہوتا تھا اب نفرت سے پوسٹروں کو پھاڑتا وہ اسے حیران کر رہا
تھا جب پوسٹر اُتار چکا تو اپنے پاﺅں تلے روندتا واش روم میں چلا گیا ،فریش
ہو کر جب وہ باہر آیا توفواد گرم گرم ناشتہ رکھے اس کا منتظر تھا۔ٹاول کو
بیڈ پر پھینک کر وہ اس کے مقابل آ بیٹھا اور پراٹھے کا نوالہ توڑنے
لگا،فواد توس پر جیم لگانے میں مصروف تھا۔
”فواد؟؟“میں نے سراسیمگی سے اسے پکارا اور منہ سے نوالہ کھینچ لیا۔
”ہوں“وہ مصروف سے انداز میں بولا۔
میںتھوڑا جھجک رہا تھا”تم کھاناکھانے سے پہلے کیا پڑھتے ہو؟؟“فواد نے چائے
کا سِپ لیتے ہوئے تعجب سے میری طرف دیکھا،اور دھیمی سے مسکراہٹ سے کہا”بسم
اللہ!“
میں نے آہستگی سے بسم اللہ کہا اور نوالہ میں میں ڈال لیا،فواد کے منہ سے
ہنسی کا فوارہ پھوٹ پڑا،میں اس کی حرکت پر استعجابیہ نظروں سے اسے دیکھنے
لگا تو وہ اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے بولا۔
ابے بسم اللہ سے مراد”بسم اللہ الرحمن الرحیم“تھا!!اس نے اپنی ہنسی کے آگے
توس کا پُل باندھا بَٹ وہ پھر بھی اندر ہی اندر ہنس رہا تھااور میں نے اسے
اتنی زندہ دلی سے ہنستے پہلی بار دیکھا تھا،دوسرے نوالے پر میں نے پوری بسم
اللہ پڑھی۔
”بہرام!!سب خیریت تو ہے ناں؟“فواد مجھے تہذیب سے کھاتے دیکھ کرایک بار پھر
چونکا اس کا چونکنا بنتا تھا کہ میںجس بے پروائی سے کھانے کا عادی تھایہ
وہی جانتا تھا،آدھا نوالہ ادھر آدھا اُدھر
ہوں! میں نے سنجیدگی سے اسے کہا پھر دیر تک میں اس سے بنیادی باتیں پوچھتا
رہا جو میرے علم میں نہیں تھیں مجھے تو غُسل بھی ٹھیک سے نہیں آتا تھایہ
بات ابھی ابھی مجھے پتہ چلی تھی جب فواد مجھے غسل کی سُنتیں اور فرض کا بتا
رہا تھا!
”فواد کتنا جانتا ہے مذہب کو!“میں اس کی اسلام سے متعلق معلومات سے مرعوب
ہو چکا تھا ،اس کی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ وہ ایک متوسط گھرانے سے تعلق
رکھتا تھاجہان مذہب کو سجا کر سونے چاندی کے تابوتوں میں نہیں رکھا جاتا!!
”نننمنماز!“میرے لئے یہ سب کسی دلچسپ معمہ کی طرح تھا جس کا ہر نیا رُخ
مجھے آگہی کے ساتھ خوشی دے رہا تھامیرے اس سوال پر وہ حیران نہیں ہوابلکہ
خوش تھا کیونکہ میں اسی روپ میں ڈھلنے کی رہ پوچھ رہا تھاجس میں ڈھل کر ہر
انسان مکمل ہو جاتا ہے”اصل کی طرف کا راستہ جلدی ملے یا دیر سے،نا ملنے سے
بہت بہتر ہوتا ہے“پھر دوپہر تک وہ مجھے ارکانِ اسلام ،بنیادی اصولوں کے
بارے میں مجھے کسی اسکالر کی طرح بتاتا رہا،میری محویت کا یہ عالم تھا کہ
میں جو ہر ایک ،دو گھنٹے بعد بیئر کا گلاس لینے کا عادی تھا مسلسل پانچ
گھنٹے تک مجھے ہلکا سا احساس بھی نہیں ہواکہ مجھے بیئر کا گلاس لئے ایک رات
اور آدھا دن ہونے کو ہے۔
اگر کسی چیز کی طلب تھی تو وہ” آگاہی وشعور“کی تھی!آج اتوار تھا اسلئے ہم
سارا دن اکھٹے رہے ورنہ فواد میری گرلز فرینڈز کی آمد سے خائف رہتا تھا اور
دن کا بیشتر حصہ لائبریری میں کتابوں کی ہم راہی میں گزارتا تھامیں نے
ہوسٹل کے بجائے اپارٹمنٹ اسلئے ہی خریدا تھا کہ ہوسٹل میں وارڈن کی چِک چِک
مجھے برداشت نہیںٰ تھی،فواد کو میں زبردستی اپنے ساتھ لے آیا تھا کہ پنڈو
صحیح بَٹ تھا میرا ہمزاد!!درمیان میں کتنی بار وہ میری عادتوں کی وجہ سے وہ
ہوسٹل بھاگا ،میں مناکرلے آتا کہ اب نہیں اور وہ اتنا الّو کہ ہر بار میری
بات پر یقین لے آتا اور اپنا بوریا بستر میرے اپارٹمنٹ میں سمیٹ آتادو دن
بعد جب پھر میری روٹین وہی ہوتی تو وہ پھر اکڑ کھڑا ہوتاہم دونوں کو ایک
دوسرے سے لاکھ گلے شکوے ہوتے وہ مجھے کہتا ”بہرام دیکھ باز آجا ورنہ میں
ہوسٹل شفٹ ہوجاﺅں گا“
”طوفانِ بدتمیزی کی حد ہوتی ہے“وہ الٹراماڈرن لڑکیوں کامیرے اپارٹمنٹ میں
آنے اور ہلہ گلہ کرنے پرنخوت سے کہتا۔
”یار فواد تو بھی کب بڑا ہوگا!“میں اس کی باتوں کا مذاق اُڑاتااور کسی نا
کسی طرح اسے اپنے ساتھ رہنے پر قائل کر لیتا،وہ سدا کا الّو تھا میری بات
کو ہرگز نہیں مانتا تھا،سو خرابیاں گنواتا،لیکن انکار کے باوجود رُک جاتاوہ
رہتا میرے ساتھ تھا لیکن اس کی اپنی الگ دنیا تھی ،صبح صادق اُٹھنا،مسجد
جاناوغیرہ وغیرہ فواد کی وجہ سے مجھے بھی کبھی کبھی کوفت ہوتی دوستی میں
اخلاص ہو تو سمندر کے کنارے بھی دور دور رہ کر ایک ہوتے ہیں،دوستی میں بڑی
طاقت ہوتی ہے بس دوستی کا وجود ضروری ہے!!آگ اور پانی میں کبھی دوستی نہیں
ہو سکتی لیکن دونوں ایک دوسری کی الٹ ہونے کے باوجود ایک سکّے کے دورخ ہیں
جہاں آگ لگی ہو وہاں پانی چاہیئے ہوتا ہے اور جہاں پانی برس رہا ہوتو وہاں
دل چاہتا ہے کہ آگ کی ہلکی ہلکی تپش مل جائے،دھوپ کا کوئی کونا ہی میسر آ
جائے!!یہی حال فواد کا اور میرا تھا۔آج کا دن میری اور فواد کی دوستی کا
مضبوط ترین دن تھا۔میرا دل گھائل تھا ہاتف غیب سے کوئی آواز تھی جو مجھے
کہہ رہی تھی”وہ اپنی رحمت سے جس کو چاہتا ہے خاص کر لیتا ہے اور اللہ بڑے
فضل کا مالک ہے“یہ آواز کسی سر گوشی کی طرح رات تک میرے کانوں میں اُبھرتی
رہی،مجھے خود خبر نہیں کہ میرے اندر جو ہوس و نفس کی آگ تھی وہ کیسے سرد ہو
گئی،کیسے میرے نفس نے میرے وجود کو چھوڑ دےا!!نفس کچھ نہیں ہے اپنی جگہ
انسان کی نیتوں کا جلتا دوزخ ہے نیت میں ذرا سی لغزش انسان کے سارے عمل کو
جَلا کر راکھ کر دیتی ہے اور راکھ اگر نفس کی فتح کی ہو تو انسان کہیں کا
نہیں رہتاانسان کا خمیر نیت کا جتنا وضو کرتا ہے اتنا ہی ستھرا ہوتا ہے
”میرا خمیر چاہے جتنا برا سہی میری نیت اب وضو کر لے تو میں بھی ستھرا اور
اجلا ہو سکتا ہوں!!“میں نے سوچا اور کروٹ بدلی تاکہ فواد کے ساتھ صبح بیدار
ہوسکوں!!وہ سوچکا تھا ۔
اگلے دن جب میں یونیورسٹی کی کولی ڈور سے گزر رہا تھا تو اربیلا اپنی نار
وادا کے ساتھ اس سے مخاطب تھی۔
”جان!پرسوں تم ڈانس پارٹی میں نہیں آئے اور کل بھی تم نے اپنا سیل آف کر
رکھا تھامیں نے بہت بار ٹرائی کیا بٹ پاور آف تھا!!“
مصنوعی خفگی سے کہتی وہ میرے اتنی قریب ہوگئی کہ اس کی سانس واضح طور
پرمجھے سنائی دے رہی تھی میں گھبرا کر یوں پیچھے ہٹا جیسے مجھے زبردست کرنٹ
لگا ہو۔
”آر یو آل رائٹ بہرام!!“میر ی اس اچانک حرکت پر وہ مسکرائی اور اک ادا سے
بولی ۔میں اپنا کونفیڈنس لوز نہیں کر رہا تھا بلکہ مجھے اربیلا کے چست لباس
سے عیاں ہوتے جسم اور اس کی بے باکی سے خوف آرہا تھامیں پہلی بار کسی لڑکی
کی طرف دیکھنے سے شعوری طور پر خود کو روک رہا تھا ورنہ میں چُن چُن کر
خوبیاں گنوایا کرتا تھایہ سب کیوں تھا لیکن کوئی قوت مجھے روکے ہوئے تھی۔
”چھوڑو کلاس شروع ہوچکی ہوگی!!“میں اس سے نجات چاہتا تھا لیکن وہ کسی سائے
کی طرح میرے ساتھ لگی جا رہی تھی میں نے کہا اور کلاس کی طرف قدم
بڑھایا،پیچھے سے اربیلا نے ہمیشہ کی طرح میرے بازوں کو فلمی انداز میں اپنے
سیلو لیس بانہوں میں ڈالا،میں اس بار پہلے سے بھی زیادہ سٹپٹا کر اُچھلا،
اسے اب کی بار میری یہ حرکت خاصی نا گنوار گزری اور وہ غصہ سے بولی:بہرام
یہ کیا بد تمیزی ہے؟ ہم روز تو ایسے ہی چلتے ہیں کم آن!!اربیلا نے کہتے
ہوئے دوبارہ اس کا ہاتھ پکڑنا چاہا۔
مجھے یہ سب آچھا نہیں لگ رہا!!میں نے بلآخر صاف کہہ دیا ،وہ چونکی تھی
حیرانگی نے اس کی آنکھوں مزید بڑا کر دیا تھا۔
”کیاکیا اچھا نہیں لگ رہا تمہیں؟؟“وہ غصہ سے ہنکاری۔
”تمہارا ساتھ،تمہاری بے باکی تمہاری قربت سے مجھے گٹھن ہو رہی !!“میں سوچھ
کے رہ گیا ۔
کچھ بھی نہیں میں نے بے دلی سے کہا مجھے پتہ تھا کہ اتنی جلدی میں ان چیزوں
سے الگ تھلگ نہیں ہو سکتا جو میری ذات سے میں خود جوڑتا رہا تھا،اپنی ہر
عادت سے مجھے گھن آرہی تھی پر عادتیں کہاں میرے بے زار ہو نے سے میرا پیچھا
چھوڑنے کو تیار تھیں،اربیلا شاک میں تھی،شاک کچھ نہیں ہوتا ہے ہماری لائف
کا ریورس گیر ہوتا ہے جس پر ہم ہلکے سے جھول سے جاتے ہیں تیزی سے چلتی بس
ایک جھٹکے سے رُکے تو مسافروں کی جو حالت ہوتی ہے ایسی ہی اربیلا کی
تھی۔میں جتنا بھا گتامیری بنائی زندگی میرے پیچھے پیچھے چلی آتی کبھی گرلز
فرینڈز کی صورت تو کبھی ان لو گوں کی صورت جن کے ساتھ میںfunکرتا تھا ان سے
بچ بھی جاتا تو وہ سب میری آنکھوں میں کسی فلم کی طرح چلنا لگتا جومیں کرتا
رہا تھا۔انٹرنیٹ نے بھی میری زندگی کو غلط سمت میں ڈالا تھا،کتنی بیہودگی
سے میں اپنی سوچ کو تباہ کرکے خود کو ہوس و نفس کی تابعدار بناتا رہا،نفس
پرستی بت پرستی سے غلیظ فعل ہے۔میں نے اپنی نظروں میں بیہودہ سے بیہودہ
منظر بھر رکھے تھے کہ اب ان مناظر سے چھٹکارا مشکل ہورہا تھا وہ سب مناظر
موقع ملتے ہی آنکھوں میں آ سماتے جومیں کل تک بہت مزے سے دیکھتا تھاوہ سب
سائٹس جن پر اچھے اچھے عابد ایمان کھو جاتے میں دن میں ہزاروں باران کا وزٹ
کیا کرتاا فسوس حیوانیت کی زندگی جی رہے تھے تم ہوس کی بھوک نے تمہیں حیوان
بنا ڈالا تھا!!کوئی میرے اندر زور سے چیخ رہا تھاآواز اتنی بلند تھی کہ میں
بے اختیار چلا اٹھا۔ ”نہیں اب نہیں!!“
تین ماہ میںمَیںنے خود کو ،اپنی ہر عادت کو بدل ڈالا،اس کے با وجود میں اک
عذابِ مسلسل میں تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ مجھے شدت سے ادراک تھا کہ میں
کتنا گِرا ہوا انسان تھاجو کسی جانور کی طرح کھا ،پی اور جی رہا تھا بغیر
کسی پا بندی کے!
مجھے خود سے گندگی کی بُو آتی تھی،اسی گندگی جو شاید میرے توبہ کے آنسو سے
بھی نہیں دُھل سکی تھی فواد مجھے بارہاں سمجھا چکا تھا کہ ”بہرام بھول جاﺅ
اس کوجو اَب تمہاری سوچ،زندگی کا حصّہ نہیں رہاجو تمہارے عمل سے نکل چکا
ہےتوبہ ہر گناہ کو،ہر گندگی کو مِٹا دیتی ہےیقین کرو!“
”لیکن فوادمممیں تو بہت بُرا ہوںبہت!“میری آواز روند جاتی ،آنسووں سے میری
شرٹ کا گریبان بھیگ جاتا ،فواد کے گلے لگ کر بھی مجھے سکون نہیں ملتا ۔فواد
مجھے تسلی دیتالیکن میری تشفی نہ ہوتی
بہرام مت رُو یارتو روتا ہے تو زندگی بھی تیرے ساتھ رونے لگتی ہے میرے
آنکھوں میں سیلاب اور شدت سے بہنے لگتااس سے پہلے کبھی میں رویا نہیں
تھا،لیکن کب تک اب رونا ہے اور ماضی کا بوجھ جو بہرام نے funہی funاتنا
بڑھا لیا کہ اب اُٹھانا محال تھا۔وہ خود تو کہیں غرق ہوگیا اپنے گناہوں کی
قبر میں مجھے زندہ اتار کرعجیب بات ہے گناہ لذت اور تاثیر میں اتنا سحر
انگیز ہوتا ہے کہ نفس کو لاکھ کوئی کہے،سمجھائے لیکن وہ نہیں مانتا مجھے
فواد نے کتنا سمجھایا تھا کہ ”بہرام چھوڑ دے یہ روش،یہfunکچھ نہیں رکھا ان
میں یہ سیراب کی طرح ہے جب کبھی تمہاری آنکھ کھولے گی توشاک میں پڑے رہ جاﺅ
گےاور میں اب گذشتہ تین ماہ سے ایسے ہی شاک میں ہو ں کہ مجھے یقین ہی نہیں
کہ ”کہیں میں ہوں بھی کہ نہیں!“میں معلق ہوں کہاں اس کا مجھے خود بھی نہیں
پتہ!!
”بہرام یارتو ناشکری کر رہا ہے اللہ نے تجھ پر اپنا خاص فضل کیا ہے ،تجھے
وہاں سے روشنی کی رہ دکھائی ہے جہاں سینوں پر مہر لگ جاتی ہے اور ان پر کسی
کا وعظ اثر نہیں کرتاتجھے تو میری دوستی کی قسم نے اتنی گہرائی تھا ستھرا
کر ڈالا کہ میں بھی خود کو کم تر سمجھ رہا ہوں!!“
میں نے فواد کی طرف پرنم آنکھوں سے دیکھا ،شائد میں یقین کررہا تھا کہ میں
کہاں کھڑا ہو ۔وہ میری نظروں میں پوشیدہ سوال سمجھ گیا۔
”بُرائی توعمل میں تھی اب تمہارا عمل بدل گیا ہے تو بُرائی بھی خودبخود مٹ
گئی ٹرائی ٹو انڈر اسٹینڈ پلیز !“ایک بار پھر وہ میرے شولڈر کو تسلی سے
تھپتھپاتے ہوئے بولا۔پر میں کیسے اس عمل کو بھول سکتا تھا جو چوبیس سال تک
میں نفس کی اطاعت میں انجام دیتا رہا تھابغیر کسی ڈر کے،بغیر کسی خوف کے
فائنل ایگزائم کے بعد فواد اپنے گاﺅں چلا گیا اور مجھے طویل ہوسٹل لائف کے
بعد اپنے گھر جانا تھاجہاں کی دنیا بہت روشن تھی بہت دلکش جہاں کے کی
روشنیوں میں تاریکی کا شور تھا مجھے اب وحشت ہوتی کہ میں وہاں مِس فٹ
رہونگا گھٹن سے میری سانس بند ہونے لگتی کہ یہ وہی زینہ تھا جس کی سیڑھیاں
چڑھ کر میں پستی کی سب سے اونچی منزل تک جا پہنچا تھا۔
اب بھی میں غلام ہوں لیکن اُس ذات کا جس کی غلامی میں ہر آزادی فنا ہونے
میں فخر محسوس کرتی ہے جہاں صرف ایک ذات کو حکمرانی ہے جو آزاد اور خود
مختار ہے!!میری واپسی پر سب خوش تھے ،گھرمیں خوب ہلہ گلہ تھا میری ماڈرن
ماں ساڑھی کا پلوسمیٹے گرینڈ پارٹی کا پروگرام بتا رہی تھی اپنے سوشل امیچ
کا انھیں بہت خیال تھا آخر ان کی سوسائٹی میں بہت جان پہنچان تھی۔میرے طرف
سے نو رسپونس کو وہ میرے موڈ کا نام دے رہی تھیں لیکن ماما نہیں جانتی تھیں
کہ بہرام کا اب کوئی موڈ نہیں رہامیرے بدلے روئے پر سب میں اندر ہی اندر چہ
مگوئیاں بھی ہو رہی تھیں میں پابندی سے مسجد جارہا تھا میرے کلین شیو چہرے
پر ڈارک براﺅن سنہری بال بڑھ رہے تھے،پینٹ شرٹ کی جگہ سادہ کرتہ شلوار نے
لے لی تھی اور یہ لا شعوری طور پر ہوتا جا رہا تھا میں خود سے نہیں کر رہا
تھا ہاتف غیب سے کوئی میرا ہاتھ پکڑ کر چلتا جا رہا تھا اور میں چلتا جا
رہا تھا۔ثانیہ ہماری اکلوتی اور لاڈلی بہن ہے ویسی ہی جیسی ایلیٹ کلاس کی
دیگر لڑکیاں ہوتی ہیں لبرل ،ماڈرن اور بولڈاسے بیس مرتبہ ٹوک چکا تھا کہ
آئندہ میں اسے فُل آستین کی شرٹ میں اور اسکارف میں دیکھوں رات لیٹ نہ آئے
میرا بس چلتا تو میں اپنی بہن کو کسی انوکھی جگہ چھپا دیتا سب کی ہوسی
نظروں سے دور کہیںلیکن میں خود ابھی گرد صاف کر رہا تھا اپنے سینے سےثانی
نے میری بات کو زیادہ سیریس نہیں لیاتھا تبھی مجھے سختی سے تنبیہہ کرنا پڑی
اور ثانی نے رو رو کر گھر سر پر اُٹھا لیا تھا پھر گھر میں بھونچال آگیا،سب
لوگ مجھ سے خفا تھے مجھے مولوی اور دقیا نوسی کہا جارہا تھا ۔میں خاموش ہو
گیا لیکن ایک دن جب میں عصر کی نماز پڑھ کر لوٹا تو ماما کو نیم برہنہ
ساڑھی میں دیکھ کر میراضبط ٹوٹ گیا میں نے مسزہاشمی کے سامنے مما کو ان کے
لباس پر ٹوک دیااور بتایا کہ عورت کی خوبصورتی جسم کی نمائش میں نہیں بلکہ
پردے میں ،ماں جیسی ہستی کے سامنے اس طرح کی بات کہنا میرے لئے کافی مشکل
تھا لیکن کہہ چکنے پر مما نے مسز ہاشمی کے سامنے رونا شروع کردیا کہ” میں
اول فول بولنے لگا ہوں،میری سوچ دقیا نوسی ہوگئی ہے،مولوی بنناکا جنون سوار
ہے اس لڑکے پرپہلے بے چاری ثانی کے پیچھے پڑا ہوا تھا اب دیکھو “مماکہتے
کہتے چپ ہوگئیںمیں اپنے کمرے میں آگیااس کی ایک وجہ یہ بھی تھی ماں ماں
ہوتی ہے اور اس کا رتبہ بنانے والے بہت اونچا رکھا ہے مما جیسی تھیں اس میں
ان کا نہیں پاپا کا قصور تھا جنہوں نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ عورت کو کیسے
رکھنا چاہئے مجھے اچانک حبہ طاہر یاد آگئی جس سے شروع میں میں نے فری ہونے
کی کوشش کی بٹ وہ اپنی نوعیت کی واحد تھی،تب مجھے اُس کے عبا سے وحشت ہوتی
تھی ،مجھے لگتا وہ خود کو نمایاں کرنے کے لئے حجاب کرتی ہے لیکن آج پتہ چلا
ہے کہ وہ حجاب خود کو نمایاں کرنے کے لئے نہیں کرتی تھی بلکہ ہم جیسے ہوس
پرستوں سے خود کو محفوظ رکھنے کو پردہ کرتی تھی آج جانا ہے کہ کعبہ اور
قرآن کوکیوں غلافوں میں لپیٹا جاتا ہے اور اللہ نے عورت کو پردے کا حکم
کیوں دیامیں دیر تک حبہ طاہر کے بارے میں سوچتا رہا کہ وہ بھی تو
کوایجوکیشن میں پڑھتی تھی،ہوسٹل میں رہتی تھی لیکن کبھی اسے کسی سے فالتو
بات کرتے نہیں دیکھا سنجیدہ ،بردبار اور بہت باوقار پیکر کی حامل تھی ۔
رات تک مما نے پاپا اور بھائیوں کو میری حرکت کے بارے میں بتا دیا تھاپھر
دیکھتے ہی دیکھتے گھر کا ہر فرد مجھ سے بے زار ہوتا گیا ہر ایک خفا تھا کہ
انھوں نے مجھے ایم بی اے کرنے بھیجا تھا ناکہ کسی مدرسے میں مولوی
بننےانسان کا اپنی اصل کو پہچاننا بھی ہماری سوسائٹی میں بگ پرابلم ہے لوگ
اسے ہر حال میں جینے دیں گے لیکن جب وہ جینے کا مفہوم ڈھونڈ لیتا ہے تو وہ
معاشرے خاص کر ایلٹ کلاس کو ہضم نہیں ہوتامیں نے سب کی باتوں کو اگنور کرنا
سیکھ لیا تھا اور اپنے اصل کی کھوج میں مسلسل سفر میں تھا درگاہوں ،درباروں
ہر جگہ میں اپنے اندر جو پیاس جل اُٹھی تھی کو بجھانے کو پھیرتا رہاکہ یہی
میری جستجو تھی۔مجھے پر جب جذب کی کیفیت طاری ہوتی تو میں خود کو بہت ہلکا
محسوس کرتامیرے اندر روشنی سی پھیلتی جاتی بیٹھا رہتا کسی سولی کی طرح۔
کمپیوٹر پر میں اسلامی سائٹس سرچ کرتا اور اپنے آپ کو اس کے روبرو پیش ہونے
کے لئے تیار کرتامما پاپا نے شروع میں بہت واویلا مچایا دوسرے الفاظ میں
دنیا داری کا چلن سمجھایا لیکن بہرام نے اب دنیا کی بات سننا چھوڑ دی تھی
اب تو صرف ایک آواز میرے کانوں سے ٹکراتی تھی وہ تھی حق کی آوازآہستہ اہستہ
سب نے مجھے میرے حال پر چھوڑ دیاان کے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا چارہ بھی
نہیں تھا ہاتھ پکڑ کر مجھے نکال نہیں سکتے تھے سوسائٹی کا خوف آڑے آجا تا
تھا۔اس کے ساتھ میری وجہ سے چند نمایاں تبدیلیاں نا سہی تبدیلیاں بہرحال
آئیں تھیں مثلاََمما نے ساڑھی چھوڑ کر شلوار قمیض پہننا شروع کر دیا تھا
ساڑھی خاص تقریبات کے لئے مخصوص ہو گئی ثانی کے وڈروب سے جدید تراش خراش کے
لباس غائب ہوگئے تھے اب وہ بہت با پردہ ناسہی کچھ بہتر ڈریسنگ کرنے لگی تھی
مبادا کہ میں پھر انھیں ٹوک نا دوں،میرے گھر میں شراب کا استعمال کسی مشروب
کے طور پر کیا جاتا تھا کبھی میں بھی انگور کی بیٹی کے ہاتھوں بہت پامال
رہا تھا پاپا اور بھائی رات کو مجھ سے چھپ کر پیتے تھے ۔اس کیا تھی مجھے
نہیں پتہ!میری وجہ سے میری فیملی کو سوسائٹی کی باتیں سننی پڑی لیکن انسان
جب دوسروں کے خوف میں جیتا ہے تووہ بہت کچھ لوگو ں کے لئے کرنے لگتا ہے اور
اس ذات سے بیگانہ ہوتا جاتا ہے جس کے لئے جینا اور مرنا ہے ۔مجھے بھی اب
ادراک ہو اتھا کہ میں اپنی زندگی funکی دکان پر کھوٹے سکوں میں بیچنا چاہتا
تھا اگر اللہ کا فضل نا ہو تا تو شائد بیچ چکا ہوتا!پرواہ تو میں پہلے بھی
کسی کی نہیں کرتا تھا نہ لوگوں کی،نہ سوسائٹی کی ناہی اس کی جو میرامالک
تھا انسان ہے ہی خسارے میں ہے اور اللہ نے عصر کی قسم کھا کر انسان کو
بتایا ہے ۔شکر ہے کہ اس پاک ذات نے مجھے راہ دکھائی اور خسارے سے اپنی اماں
میں رکھا ،رحمت کی برکھا سے میرے دل سے ساری گرد ُدھو ڈالی۔
دوسال بعد بہرام اجتماع سے لوٹا تھا اس کے خوبصورت بال سبز عمامے میں چھپ
چکے تھی چہرے پر ڈارک براﺅن سنہری داڑھی سنت کے مطابق سجی ہوئی تھی وہ اس
ندامت سے آزاد ہو چکا تھا جس نے اسے آنسوؤں کے سوا کچھ نہیں دیا تھا ۔بہرام
کے لئے یہ سفر بہت صبر آزما تھاپر چلتے رہنے کا نام کامیا بی ہے۔آج اس کی
زندگی سنتوں کی آئینہ دار ہے ایک مکمل زندگی جس کاfunاُس زندگی کے ہنگاموں
،رونقوں سے بہت زیادہ ہے جو انسان کو بھولا دیتی ہے کہ”وہ انسان ہے ،اللہ
کا نائب اور تابعدار“
فواد سے اس کی ملاقات یونیورسٹی کے ٹھیک تین برس بعد ایک قافلے کے اجتماع
میں ہوئی وہ بہرام کو پہچان نہیں پایا،پہچانتا بھی کیسے وہ پہلے والا بہرام
رہا ہی نہیں تھاجو زندگی کوfunمیں گزارنا اپنا پیدائشی حق سمجھتا تھا ،جس
کی زبان پر انگریزی کے علاوہ کوئی دوسری زبان نہیں ٹھہرتی تھی لوگ اس کے
خوبصورت لب ولہجہ کی وجہ سے سرہاتے نہیں تھکتے تھے آج اسے عربی بولتے دیکھ
کر لگا کہ یہی وہ زبان ہے جو اس کے لبوں پر سجتی ہے باطن کا اجالا پن اس کی
ساری شخصیت کو سمیٹے ہوئے تھا۔فواد تقریر کرتے بہرام کو سننے سے زیادہ دیکھ
رہا تھا اور کھوج رہا تھا کہیں کوئی شبیہہ تک نہیں رہی ،وہ اس کی بات کو
اتنا سیریس لے گا اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھابس کبھی کبھی کسی کو
روشنی یوں مل جا تی ہے اور کسی کو تاعمر نہیں ملتی اپنا اپنا نصیب ہوتا ہے۔
یہ سب کیسے؟؟فواد نے اسے گلے لگاتے ہوئے پوچھا بہرام دھیمے سے مسکرایا اور
گرم جوشی سے گلے ملا۔
”فواد یہ وہ ہے جو تیری دوستی نے مجھے دیا ہے!!“
”میری دوستی نے؟واﺅ امیزنگ یار میری قسم والی بات کو تو نے اتنا سیریس لیا
؟میں تو سمجھا کہ تو دوبارہ اپنی funوالی گردان میں پھنس گیا تبھی کوئی خیر
خبر نہیں دی یونی کے بعد!!“فواد اس کی بات پر حیرت سے بولا۔بہرام کے چہرے
پر تشکر تھا ۔”ہاںتیری دوستی نے ہی مجھے یہ راہ دکھائی ہے جو بہت مستحکم
ہےبہت پائیدار!!بہرام نے اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھ میں عقیدت سے لیتے
ہوئے تشکر سے کہا۔
”اچھا چل چھوڑمیری نہیں اللہ کی مہربانی نے تجھے یہ راہ دکھائی ہے،چلو
میراگھر یہاں سے قریب ہے تومیرٰ شادی پر بھی نہیں آیا،چل اپنی بھابھی سے
بھی مل لینا!“فواد نے دوستانہ درخواست کی۔
”نہیں فواد تم سے ملاقات ہوگئی یہی بہت بڑی بات ہے میں تو سوچ بھی نہیں
سکتا تھا کہ تجھ سے دوبارہ کبھی ملاقات ہو گی!!“بہرام کی بات میں بے شک
خلوص تھا لیکن انداز میں گریزبھی تھا۔
بہرام!!
فواد کو قطعی اچھا نہیں لگا ۔
”فواد ایکچولی میں نامحرم سے اب نہیں ملتا تومیرا ماضی جانتا ہے لیکن میں
نے اپنے ماضی کی پرچھائی سے خود کو بچایا ہے ۔“بلآخر فواد کی ناراضگی کی
وجہ سے اسے کہنا ہی پڑا۔
”یقین نہیں آتا بہرام!!بٹbest of luckاللہ ہم سب کا توفیق دے۔“وہ بہرام سے
اچھا خاصا متاثر نظر آتا تھا متاثر ہونا بھی چاہیئے تھا کہ ایک ایسا نوجوان
جو نامحرم عورتوں میں رہنے کا دلدادہ تھا اس کا یہ روپ کافی حیران کن
تھالیکن بہت خوشگوار بھی
”لے میری طرف سے بھابھی جان کو دینا“بہرام نے پانچ سو کا نوٹ فواد کی طرف
بڑھا تے ہوئے کہا۔
”نہیں اس تکلف کی ضرورت نہیں یار!!“فواد نے اپنائیت سے کہا۔
”ابے الّو یہ تیرے لئے نہیں ہیں یہ بھابھی کے لئے ہیں“یکدم ےونیورسٹی والا
بہرام بولا تو فواد کو روپے پکڑنے پڑے۔
”اچھا یہ نہیں پوچھا گا کہ تیری بھابھی کون ہے؟“فواد نے گفتگو کو آگے
بڑھایا۔
”نہیں!“بہرام نے قطعیت سے کہا۔
”کیوں؟؟“فواد کو بہرام کی سمجھ نہیں آئی۔
کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تیرے جیسے اچھے آدمی کی بیوی یقینا” بہت“اچھی ہو
گی!!بہرام نے اس کی حیرت کو کم کرتے ہوئے کہا۔
”ہمم تھینگس اپنی کلاس میں حبہ طاہر نہیں تھی شی از مائی وائف!“فواد نے اسے
یاد کرواتے ہوئے انکساری سے کہا۔
”ماشااللہ یو ار وری لکی فواد!Allah bless u boht“بہرام نے رشک سے کہا۔
”بہت شکریہ یارمیں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا وہ میری لائف پارٹنر ہوگی ویل
تم بتاﺅ کب شادی کر رہے ہو؟“
”پتہ نہیں فوادشاید ابھی میں اتنا اچھا مرد نہیں بنا کہ کوئی اچھی عورت
مجھے ملے!!“بہرام مایوسی سے بولا۔
”بہرام تجھ سے اچھا مرد کوئی اور ہو سکتا ہے؟؟نہیں یاراب تو یقین کر لے کہ
تو بہت اچھا ہے!!“فواد نے کہتے ہوئے بہرام کو ایک بار پھر گلے لگایا بہرام
کے آنسووں سے اس کے کمر بھیگ رہی تھی اور وہ تسلی کے بجائے سوچ رہا تھا
”وہ اپنی رحمت سے جس کو چاہتا ہے خاص کر لیتا ہے“بے شک خاص ہے جس پر اللہ
نے اپنے فضل کے دروازے کھول کر اسے اپنی پناہ میں لے لیا!! |