ارشاد باری تعالیٰ ہے(اے نبی پاکﷺ) ”آپ سے یہ لوگ روح کے
بارہ میں سوال کرتے ہیں آپ ان سے فرمادیجئے کہ روح اللہ کے حکم سے ہے اور
تمہیں اسکا بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے“ (الاسراء 17:85)۔
ان آیات کریمہ میں بتایا گیا ہے کہ روح اللہ کے حکم سے ہے اور اس کی حقیقت
کے بارہ میں لوگو ں کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ روح کی ایک خاص بات یہ ہے
کہ جب وہ کسی جسم میں آ جاتی ہے تو وہ حرکت میں آجاتاہے اور اسکی تمام
حرکات کو دو حصّوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے یعنی نفع کے حصول کیلئے اور
نقصان سے بچنے کیلئے۔
آپ دنیا کے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام کی مثال ملاحظہ کریں ارشاد
باری تعالیٰ ہے ”او ر جب میں آدم علیہ السلا م کو برابر کرلوں (یعنی انکے
جسم کو ٹھیک کرلوں)اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دوں تو تم انکے سامنے
سجدہ میں گرِ جانا“ (Al-Hijr 15:29)۔
غور کی بات یہ ہے کہ جب تک حضرت آدم کا جب صرف پتلہ ہی تھا تو اس میں حرکت
نہیں تھی او ر جب اس میں روح پھونک دی گئی تو وہ ایک جیتے جاگتے انسان بن
گئے اور حرکت میں آ گئے اور اللہ تعالیٰ نے انھیں بے شمارعلوم عطار فرمائے۔
سوال یہ ہے کہ روح کی حقیقت کیا ہے کیونکہ اس بارہ میں ایک تجسس پایا جاتا
ہے یورپ میں کئی سوسائٹیاں ایسی ہیں جو روح کے بارہ میں تحقیق کر رہی ہیں
کہ یہ کیا چیز ہے کہ جب وہ جسم میں آتی ہے تو جسم حرکت میں آ جاتا ہے اور
جب یہ نکل جاتی ہے تو جسم مردہ ہو جاتا ہے؟
تو قرآن پاک میں روح کی اصل حقیقت کو بیان کیا گیا ہے ارشاد باری تعالیٰ
ہے”اللہ ہی کیلئے ہیں خلق اور امر“ اور دوسری جگہ فرمایا ”اللہ جب کسی کام
کو کرنا چاہتے ہیں تو اس سے کہتے ہیں کہ کُن یعنی ہو، اور وہ ہو جاتی ہے“
(سورہ یٰسین)۔
پہلی آیت میں امر کو خلق کے مقابلے میں رکھا گیاہے اور دوسری آیت میں یہ
تشریح کی گئی ہے کہ امر کی حقیقت لفظ ”کُن“ہے یعنی ہو جا، دوسرے معنی میں
یوں کہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس چیز سے یہ کہتے ہیں کہ”تمہیں جس کام
کیلئے پیدا کیاگیا ہے اس میں لگ جاؤ!“
علّامہ شبّیر احمد عثمانی ؒ ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ امر عبارت
ہے کلمہ کُن سے یعنی وہ کلام انشائی جس سے مخلوقات کی تدبیر و تصریف اس طرح
پر کی جائے جس سے غرض ایجاد و تکوین مرتب ہو، لہٰذا ثابت ہوا کہ روح کا اصل
مبدا حق تعالیٰ کی صفت کلا م ہے جو صفت علم کے ماتحت ہے اور یہ امر کُن
ممکن ہے کہ باری تعالیٰ سے صادر ہو کر جو ہر مجرد کے لباس میں ایک ملک اکبر
یا روح اعظم کی صورت پکڑے۔
لہٰذا ثابت ہو ا کہ روح کی اصل حقیقت اللہ تعالیٰ کا حکم یعنی کلمہ کن ہے
کیونکہ اللہ کے کلام میں اثر ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ مرنے کے بعد روحیں کہا ں جاتی ہیں اور ا نکا ٹھکانہ کیا
ہے؟
تو از روئے اسلام مرنے کے بعد روحوں کے دو ہی ٹھکانے ہیں علّیین اور سجّین،
نیک لوگوں کی روحوں کو مقام علّیین میں رکھا جاتاہے اور وہ سبز پرندوں کی
شکل میں جنت کی سیر کرتی پھرتی ہیں۔
اور کافر لوگوں کی روحوں کو مقام سجّین میں قید کر دیا جاتا ہے۔
بہرحال یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ روحیں موت کے بعد اس دنیا میں دوبارہ واپس
نہیں آتیں، کیونکہ جو نیک لوگوں کی روحیں ہیں وہ تو جنت کی سیر کرتی پھرتی
ہیں انھیں دوبارہ دنیا میں آنے کی ضرورت ہی نہیں اور جو کافر و مشرک لوگوں
کی روحیں ہیں انکو کو قید کر لیا جاتا ہے جو دوبارہ دنیا میں کبھی واپس
نہیں آسکتیں۔ از روئے قرآن گناہگار یہ عرض کرے گا کہ باری تعالیٰ مجھے دنیا
میں دوبارہ بھیج دیجئے تاکہ میں اچھے اعمال کروں تو ارشاد ہوگا کہ”ہرگز
نہیں ا نکے پیچھے برزخ یعنی آڑ ہے روز قیامت تک کہ جب انھیں دوبارہ زندہ
کیا جائے گا“(الموئمنون100:23)۔لہٰذا ہندو مذہب میں جو آوا گون یا تناسخ
یعنی ایک روح کا دوسرے جسم میں منتقل ہو جانا یا دوسرا جنم لینا بالکل بے
بنیاد حقیقت ہے اسکی کوئی دلیل نہیں۔
اب یہ بتایا جائے گا کہ روح کی بقا اسکی دائمی کامیابی اور اسکا امر ہوجانا
کیسے ممکن ہے؟تو ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ”ہم نے نفس انسانی میں اسکی نیک
بدی کو الہام کردیا ہے پس وہ شخص کامیاب ہوا جس نے اپنے نفس کو پاک کیا اور
وہ ناکام و نامراد ہوا جس نے اسکوخاک میں ملا چھوڑا‘‘ ّ(الشمس10:28)۔
لہٰذاقرآنی آیات کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ کہ ا نسان کی فلاح و بقا
اور دائمی کامیابی صرف دین اسلام اور اسکی تعلیمات پر عمل کرنے میں ہے اسکے
علاوہ کوئی اور راستہ نہیں، صرف اسی طریقہ پر روح کو امر کیا جاسکتا ہے۔
|