جب پاکستان کی پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر منکرین ختم نبوت
قادیانیوں کو قر آن و سنت کی روشنی میں غیر مسلم اقلیت قرار دے کر ملک کے
قانون کا حصہ بنا دیا
7ستمبر 1974 ء کا دن اسلامیان پاکستان کی دیرینہ خواہش کی تکمیل کا دن ہے
اسی دن فتنۂ قادیانیت کو پاکستان کی نیشنل اسمبلی نے غیر مسلم اقلیت قرار
دے کر امت مسلمہ سے جدا کردیا اُسی دن سے عشاق ختم نبوت ہر سال اس دن
خوشیاں مناتے ہیں اور تحریک تحفظ ختم نبوت کے جانثاروں کا تذکرہ کرتے ہیں
اور مسٹر ذوالفقا رعلی بھٹو مرحوم کے لیے دعا ئے مغفرت کی جاتی ہے جی ہاں
مسٹر ذوالفقار علی بھٹو سے سیاسی اختلاف اپنی جگہ اور ان کی زندگی میں اگر
کسی کو ان سے اختلاف تھا بھی سہی تو کوئی بات نہیں سیاسی اختلاف کوئی کفر
واسلام کا اختلاف تو نہیں ہوتا لیکن یہ بات اپنی جگہ مسلّم ہے کہ اﷲ تعالیٰ
نے عقیدہ ختم نبوت کے دشمنوں کی رسوائی جنابذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں
کروائی، جی ہاں یہ وہی ذوالفقار علی ہیں جن کے وزیر اعظم بننے پر ربوہ(چناب
نگر) میں چراغاں کیا گیا ،لیکن بعد میں ان کے لیے بددعاؤں کی تسبیحاں کی
گئیں قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ موجود ہے کہ : اﷲ ولیّ الّذین اٰمنوا
یخرجھم مّن الظّلمٰت الی النّور (سورۃ البقرہ:۲۵۷)اﷲ ایمان والوں کا
رکھوالا ہے اور وہ انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے ۔(آسان
ترجمہ قرآن :۱۲۶)
جب عوامی طاقت نے جمہوری و سیاسی زبان سے صادر کیا۔ اس کا مختصر پس منظر یہ
ہے کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں
22 مئی 1974ء کو نشتر میڈیکل کالج ملتان کے کچھ طلبہ معلوماتی و تفریحی سفر
کے لیے چناب نگر کے راستے پشاور جا رہے تھے کہ چناب نگر ریلوے سٹیشن پر
قادیانیوں نے اپنا کفریہ لٹریچر تقسیم کرنے کی کوشش کی،جس پر طلبہ نے اس
لٹریچر کو لینے سے انکار کیا اور ایمانی غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے ختم نبوت
زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگائے۔ طلبہ کا یہ قافلہ 29 مئی کو واپس ہونے
لگا تو نشتر آباد اسٹیشن(جو کہ چناب نگر اسٹیشن سے پہلے آتا ہے)پر قادیانی
اسٹیشن ماسٹر نے چناب نگر کے قادیانی اسٹیشن ماسٹر کو بتلایا کہ فلاں بوگی
طلبہ کی ہے۔ چنانچہ خلافِ ضابطہ چناب نگر ریلوے سٹیشن پر گاڑی روک لی گئی
سینکڑوں مسلح افراد جس میں قادیانیوں کے قصر خلافت کے معتمدین، تعلیم
الاسلام کالج کے طلباء، اساتذہ اور بعض قادیانی دکانداروں نے
لاٹھیوں‘سریوں، ہاکیوں، کلہاڑیوں اور برچھیوں کے ساتھ حملہ کر کے 30 نہتے
طلبہ کو شدید زخمی کردیا۔ قادیانی اپنے ساتھ بازاری فطرت کی تین سو کے قریب
عورتیں بھی لائے جب قادیانی غنڈے مسلمان طلبہ کو مارتے تو وہ رقص کرتیں اور
تالیاں بجاتیں۔ دریں اثنا نشتر میڈیکل کالج یونین کے صدر ارباب عالم کو
اتنے زور سے مارا کہ وہ بے ہوش گئے۔ اِس واقعہ کا پورے ملک میں زبردست
ردِعمل ہوا۔30 مئی کو لاہور اور دیگر شہروں میں ہڑتال ہوئی۔31 مئی کو اس
سانحے کی تحقیقات کے لیے صمدانی ٹربیونل کا قیام عمل میں آیا۔
3 جون کو مجلس عمل کا پہلا اجلاس راولپنڈی میں منعقد ہوا۔ 9 جون کو مجلس
عمل کا کنوینیئر لاہور میں مولانا سید محمد یوسف بنوری کو مقرر کیا گیا۔13
جون کووزیر اعظم نے نشری تقریر میں بجٹ کے بعد مسئلہ قومی اسمبلی کے سپرد
کرنے کا اعلان کیا۔14 جون کو ملک گیر ہڑتال ہوئی۔16 جون کو مجلس عمل تحفظ
ختم نبوت کا فیصل آباد میں اجلاس ہوا جس میں حضرت بنوری کوامیر منتخب کیا
گیا۔30 جون کو قومی اسمبلی میں ایک متفقہ قراردادپیش ہوئی جس پر غور کے لیے
پوری قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی میں تبدیل کردیا گیا۔24 جولائی کو وزیر
اعظم نے اعلان کیا کہ جو قومی اسمبلی کا فیصلہ ہوگا وہ ہمیں منظور ہوگا۔5
اگست سے23 اگست تک وقفوں وقفوں سے مکمل گیارہ دن مرزاناصر پرقومی اسمبلی
میں جرح ہوئی۔20 اگست کوصمدانی ٹربیونل نے اپنی رپورٹ سانحہ ربوہ کے متعلق
وزیر اعلیٰ کو پیش کی۔22 اگست کورپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی گئی۔24 اگست
کووزیر اعظم نے فیصلہ کے لیے7ستمبر کی تاریخ مقرر کی۔27، 28 اگست کولاہوری
گروپ پرقومی اسمبلی میں جرح ہوئی۔ یکم ستمبر کولاہورباد شاہی مسجد میں ملک
گیر ختم نبوت کانفرنس منعقد ہوئی۔ 5، 6 ستمبر کو اٹارنی جنرل نے قومی
اسمبلی میں عمومی بحث کی اور مرزائیوں پرجرح کا خلاصہ پیش کیا۔ 6 ستمبر کو
آل پارٹیز مجلس تحفظ ختم نبوت نے راولپنڈی میں وزیر اعظم سے ملاقات کا
فیصلہ کیا۔
اس ساری کارروائی میں قومی اسمبلی نے اڑھائی ماہ کے عرصے میں 28 اجلاس
بلائے اور 96 گھنٹوں پر مشتمل نشستیں ہوئیں۔تمام مسالک کی مذہبی و سیاسی
قیادت نے بھرپور کردار ادا کیا۔ خصوصاً مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ اور
آپ کے رفقاء کار نے قادیانیوں کا لٹریچر جمع کیا، مولانا سید محمد یوسف
بنوریؒ، مولانا محمد حیاتؒ ، مولانا عبدالرحیم اشعرؒ، مولانا تاج محمودؒ،
مولانا محمد شریف جالندھریؒ جیسے اکابرین نے قادیانیوں کے مذہبی و سیاسی
عزائم پر مبنی لٹریچر اکٹھا کیا۔ اس محنت میں قادیانیوں کی مذہبی حصے کی
ترتیب و تدوین مفتی محمد تقی عثمانی(سابق جسٹس سپریم کورٹ وفاقی شرعی
عدالت)نے جبکہ سیاسی حصے کی ترتیب مولانا سمیع الحق(سابق ممبر سینٹ آف
پاکستان)نے اپنے ہاتھوں سے کی۔7 ستمبرکو قومی اسمبلی میں دستور کی دفعہ 106
میں قادیانی و لاہوری گروپ کو اقلیتوں کی فہرست میں شامل کیا گیا، اور دفعہ
260 میں ایک نئی شق کا اضافہ کیا جس میں یہ طے کیا کہ’’ہر فرد جو حضورؐ کے
بعد کسی مدعی نبوت کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہو وہ آئین یا قانون کے
مقاصد کے ضمن میں مسلمان نہیں۔‘‘7 ستمبر 1974 ء شام30: 7بجے سینٹ کا اجلاس
ہوا، مرکزی وزیر قانون جناب عبدالحفیظ پیرزادہ نے قومی اسمبلی کا منظور شدہ
بل سینٹ میں پیش کیا۔ ایوان میں دوبار رائے شماری ہوئی۔ قومی اسمبلی کی طرح
سینٹ میں بھی سارے ووٹ مرزائیوں کے خلاف آئے اور ایک ووٹ بھی ان کے حق میں
نہ آیا۔ بالآخر 7 ستمبر رات 08:00بجے ریڈیو پاکستان نے یہ خبر نشر کی کہ
مرزائیوں کو قومی اسمبلی اور سینٹ نے متفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دے
دیا ہے 6ستمبر یوم دفاع پاکستان کے طور پر منایا جاتا ہے 1965 میں جب پوری
قوم دفاع وطن کیلئے اکٹھی اور متحد تھی اور 7ستمبر یوم دفاع ختم نبوت کے
طور پر ہے جب 1974 میں تمام مکاتب فکر کے علماء عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور
دفاع کیلئے متحد ہوکر ایک طویل جدوجہد اور بے مثال قربانیاں دینے کے بعد
سرخروہوئے تھے ۔ ’’جو شخص خاتم النبیین محمدﷺ کی ختم نبوت پر مکمل اور
غیرمشروط ایمان نہ رکھتا ہواور محمدﷺ کے بعد کسی بھی معنی مطلب یا کسی بھی
تشریح کے لحاظ سے پیغمبرہونے کا دعوی کرنے والے کو پیغمبر یا مذہبی مصلح
مانتا ہووہ آئین یا قانون کے مقاصد کے ضمن میں مسلمان نہیں‘‘۔یہ
قراردادسپیکر کی جانب سے منظور کرلی گئی۔ اس تاریخی اور ایمان افروز لمحے
میں فرط جذبات میں آنکھوں سے آنسو رواں تھے ،’’الحمد ﷲ‘‘مبارک مبارک‘‘’’اﷲ
اکبر‘‘ اور تہنیتی الفاظ سے مبارکبادی کا سلسلہ جاری تھا، اظہار مسرت کے
لئے مٹھائیاں اور شیرینیاں بانٹی جا رہی تھیں اور تمام عالم اسلام بالخصوص
پاکستان میں ایک جشن کا سماں تھا،یہ عظیم دن ہمیں نہ صرف شاندارماضی کی
یاددلاتاہے بلکہ ہمیں اپنے فرائض کی جانب بھی متوجہ کرتاہے کہ جو لوگ کسی
مادی غرض یاکسی غلط فہمی کی بنا پر اس مرزائیت سے وابستہ ہوئے، انہیں ختم
نبوت کاعقیدہ سمجھانے کی محنت کی جائے، ان کے شکوک وشبہات واعتراضات
کاازالہ کیاجائے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے اندر اور باہر جس قدر
لوگ دین سے نا آشناہیں انہیں پھر سے اسلام کی دعوت دی جائے۔ صرف شاندارماضی
کے تذکرے کافی نہیں،اپنے فرائض کی انجام دہی اس سے زیادہ ضروری ہے۔ 7ستمبر
کا دن فتح مبین کا دن ہے ۔امت مسلمہ اور اہلیان پاکستان کیلئے یہ دن مسرتوں
خوشیوں کا دن ہے ،انتھک محنت ، لازوال قر با نیوں کے بعد یہ دن امت کو نصیب
ہوا۔
اس دن کی یادمیں حسب سابق انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹ پاکستان کے زیر
اہتمام مرکز ختم نبو ت جامعہ عثمانیہ ختم نبوت مسلم کا لونی چناب نگر میں
34 ویں سالانہ انٹر نیشنل ختم نبوت کا نفرنس مورخہ 7ستمبر 2021 بروز منگل
صبح 10بجے تا رات گئے تک منعقد ہو رہی ہے جس میں اندرون و بیرون ممالک سے
تمام مکاتب فکر کے سر کردہ جید علماء کرام ،مشائخ عظام ،دانشور ،وکلاء و
صحافی حضرات تشریف لارہے ہیں ، انٹر نیشنل ختم نبوت کا نفرنس میں سعودی عرب
،مکہ مکرمہ ،مدینہ منورہ ،اور چاروں صوبوں گلگت بلتستا ن فاٹا آزاد کشمیر
سے رہنما یان و قافلے شرکت کریں گے ،کا نفرنس کی سر پرستی مولانا ڈاکٹر
سعید احمد عنایت اﷲ امیر مرکزیہ انٹر نیشنل ختم نبوت موومٹ ورلڈ(مکہ
مکرمہ)جبکہ نگرانی مجاہد ختم نبوت مولانا قا ری شبیر احمد عثمانی نائب امیر
انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹ و نگران و منتظم اعلیٰ انٹر نیشنل ختم نبوت کا
نفرنس چناب نگر ،کنوینئر مولانا قاری محمد سلمان عثمانی،نقابت مولانا احسن
رضوان عثمانی کررہے ہیں ۔ |