#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالنمل ، اٰیت 45 تا 53
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ولقد
ارسلنا الٰی
ثمود اخاھم
صٰلحا ان اعبدوا
اللہ فاذاھم فریقٰن
یختصمون 45 قال یٰقوم
لم تستعجلون بالسیئة قبل
الحسنة لو لا تستغفرون اللہ لعلکم
ترحمون 46 قالوااطیرنابک وبمن معک
قال طٰئرکم عند اللہ بل انتم قوم تفتنون
47 وکان فی المدینة تسعة رھط یفسدون فی
الارض ولا یصلحون 48 قالواتقاسمواباللہ لنبیتنه و
اھلهٗ ثم لنقولن لولیهٖ ماشھدنا مھلک اھلهٖ وانالصٰدقون
49 ومکروا مکرا ومکرنا مکرا وھم لا یشعرون 50 فانظر
کیف کان عاقبة مکرھم انا دمرنٰھم وقومھم اجمعین 51 فتلک
بیوتھم خاویة بماظلموا ان فی ذٰلک لاٰیة لقوم یعلمون 52 وانجینا
الذین اٰمنواوکانوایتقون 53
ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہوچکی ھے کہ ھم نے صالح کو قومِ ثمُود کے
قومی بھائی چارے میں شامل کر کے مبعوث کیا تو قومِ ثمُود اہلِ حق و اہلِ
باطل کے دو دھڑوں میں تقسیم ہوکر ایک دُوسرے کے ساتھ لَڑ نے جَھگڑ نے لگی
اور صالح نے اُس سے کہا کہ تُم سب ایک اللہ کی غلامی میں آجاؤ اور ایک اللہ
کی ایک جماعت بن جاؤ ، آخر تمہیں یہ کیا ہو گیا ھے کہ تُم خیر کا بیج
اُگانے سے پہلے شَر کی فصل اُٹھانے کے لیۓ مچل رھے ہو ، اگر تُم اللہ سے
اپنی خطا پوشی کی درخواست کرو گے تو وہ تُم کو کفر و شرک کی تاریکی سے ضرور
نکال دے گا لیکن صالح کی اُس قومِ غیر صالح نے کہا کہ تُم جب سے ھمارے
درمیان میں آۓ ہوۓ ہو اور تُم جب سے ہمیں ھماری بربادی کی خبریں سنا رھے ہو
تب سے ھم تُمہاری لائی ہوئی اسی نحوست کا شکار ہیں جس میں تُم ہمیں دیکھ
رھے ہو ، صالح نے اپنی قوم کی یہ بیہُودہ بات سن کر کہا کہ تُم پر یہ جو
نحوست آئی اور چھائی ہوئی ھے وہ میرے پیغام کی لائی ہوئی نحوست نہیں ھے
بلکہ تُمہارے بُرے اعمال کے بُرے اَنجام کی لائی ہوئی نحوست ھے ، میں تمہیں
دوبارہ متنبہ کرتا ہوں کہ اگر تُم نے اپنی یہ بُری روش ترک نہ کی تو تُم پر
اِس بربادی کے بعد اِس سے بڑی بربادی آۓ گی ، صالح کے اِس دوٹوک جواب کے
بعد اِس شہر کے وہ نو بڑے فسادکار لیڈر میدان میں آگۓ جو شر کو کسی طور بھی
ترک اور خیر کو کسی طور پر بھی اختیار کرنے پر آمادہ نہیں تھے اور اُن
شرپسند لیڈروں نے ایک دُوسرے کے ساتھ اِس بات کا قول و قرار کیا کہ ایک شب
ھم سب مل کر صالح کے گھر پر حملہ کرکے اُس کو قتل کر دیں گے اور اِس کے
قبیلے سے کہیں گے کہ جس رات صالح اور اُس کے گھر والے مارے گۓ ہیں اُس رات
تو ھم اِس شہر میں موجُود ہی نہیں تھے اِس لیۓ ھم نے اُس رات صالح اور اُس
کے گھر والوں کو تو دیکھا تک نہیں ھے لیکن ایک طرف تو اُن لوگوں کی صالح کی
جان لینے کی وہ پوشیدہ تدبیر موجُود تھی جس سے ھم باخبر تھے تو دُوسری طرف
ھمارے پاس صالح اور اُس کے اہلِ خانہ کو بچانے کی وہ نادیدہ تدبیر بھی
موجُود تھی جس سے وہ سب کے سب لوگ بے خبر تھے ، پھر دیکھنے والوں نے اپنی
کُھلی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ کس کی تدبیر کامیاب رہی اور کس کی تدبیر ناکام
ہوئی ، ھم نے اُن ظالم تدبیر کاروں کو اُن کے سارے ظالم ساتھیوں کے ساتھ
اِس طرح برباد کیا کہ اہلِ عبرت کے لیۓ اُن کے گھر اور اُن کے گھرانے زمین
پر زمین کے ویرانے بن کر رہ گۓ اور ھماری اِس سزا میں دیکھنے والوں کے لیۓ
جو نشانی ھے اُس نشانی کے ساتھ یہ نشانی بھی ھے کہ ھم اپنے ایمان دار و
فرماں بردار بندوں کو اُن بدترین حالات میں بھی بچالیتے ہیں جن حالات میں
کسی کو بھی کسی کے بچ جانے کی اُمید نہیں ہوتی !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
صالح علیہ السلام اور اُن کی قومِ ثمُود کا یہی ذکر اِس سے قبل
سُورَةُالاَعراف کی اٰیت 73 ، سُورَِہِ توبہ کی اٰیت 70 ، سُورَہِ ھُود کی
اٰیت 61 ، 68 ، 95 ، سُورَہِ ابراھیم کی اٰیت 9 ، سُورَةُالاَسراء کی اٰیت
59 ، سُورَةُالحج کی اٰیت 42 ، سُورَةُالفرقان کی اٰیت 38 ، سُورَةُ
الشعراء کی اٰیت 141 کے 10 مقامات پر بھی آچکا ھے اور اِس سُورت کے بعد
سُورَةُالعنکبوت کی اٰیت 38 ، سُورَہِ صٓ کی اٰیت 13 ، سُورَہِ غافر کی
اٰیت 31 ، سُورَہِ فُصلّت کی اٰیت 13 ، 17 ، سُورَہِ قٓ کی اٰیت 12 ،
سُورَةُالذٰریٰت کی اٰیت 43 ، سُورَةُالنجم کی اٰیت 51 ، سُورَةُالقمر کی
اٰیت 23 اور سُورَةُالحاقة کی اٰیت 4 ، 5 ، سُورَةُالبروج کی اٰیت 18 ،
سُورَةُالفجر کی اٰیت 9 اور سُورَةُالشمس کی اٰیت 11 کے 14 مقامات پر بھی
آۓ گا لیکن اِس سُورت کا یہ مقام اِس لحاظ سے سب سے اھم تر مقام ھے کہ اِس
سُورت کے اِس مقام پر صالح علیہ السلام کی دعوتِ حق کا وہ نقطہِ آغاز بیان
کیا گیا ھے جب آپ نے اپنی قوم میں دعوتِ حق شروع کی تھی اور آپ کی اِس دعوت
سے آپ کی قوم میں بھی اسی طرح کا اختلاف پیدا ہو گیا تھا جس طرح طرح کا
اختلاف سیدنا محمد علیہ السلام کی دعوتِ حق کا آغاز ہوتے ہی آپ کی قوم میں
بھی پیدا ہو گیا تھا اور جس طرح سیدنا محمد علیہ السلام کی اُمت کے شہ زور
لوگ اپنے ایمان دار اور کم زور لوگوں کو مارنے پیٹنے لگے تھے اسی طرح صالح
علیہ السلام کی قوم کے زور آور لوگ بھی اپنے زمانے کے ایمان دار اور بے زور
لوگوں کو مارنے پیٹنے میں لگے ہوۓ تھے اور جب صالح علیہ السلام نے اپنی قوم
کے اُن طاقت ور لوگوں کو اپنی قوم کے کم زور لوگوں پر ظلم و ستم کرنے سے
منع کیا تھا تو اُنہوں نے اُن کو یہ بیہُودہ جواب دیا تھا کہ جس وقت سے تُم
ھمارے درمیان اپنا ایک نیا اور مؤحدانہ نظریہِ دین لے کر آۓ ہوۓ ہو اُس وقت
سے ھم پر اختلاف و مُخالفت کی یہ نحوست آئی ہوئی ھے اور صالح علیہ السلام
نے اُن کو یہ جواب دیا تھا کہ تُم پر یہ نحوست میرے لاۓ ہوۓ دینِ توحید کی
وجہ سے نہیں آئی ھے بلکہ تُمہارے اُن مُشرکانہ اعمال کے نتیجے کے طور پر
آئی ھے جن مُشرکانہ اعمال سے میں تمہیں روکتا ہوں لیکن تُم نہیں رُکتے ہو
اِس لیۓ میں تمہیں دوبارہ آگاہ کررہا ہوں کہ تُم اِس دینِ خیر کا بیج بونے
اور اُگانے سے پہلے اپنے اعمالِ شرک پر اصرار کر کے اللہ تعالٰی کے عذاب کو
دعوت نہ دو ، اگر تُم حق کی مُخالفت اور اہلِ حق پر ظلم و ستم کرنے سے باز
نہ آۓ تو آنے والے وقت میں تُم پر وہ بڑی بربادی آۓ گی جس کی تُم ہرگز تاب
نہیں لا سکو گے ، اِس سُورت کے اِس مقام پر صالح علیہ السلام کی اِس
ابتدائی دعوت کا ذکر خاص طور پر اِس لیۓ کیا گیا ھے کہ صالح علیہ السلام کے
اُن حالات کا ذکر کر کے اللہ تعالٰی کی طرف سے سیدنا محمد علیہ السلام کو
یہ حوصلہ و تسلّی دینا مقصود تھا کہ اِس طرح کے تکلیف دہ حالات کا پیش آنا
انبیاۓ کرام کی زندگیوں کا ایک ایک عام معمولِ رہا ھے اور آپ سے پہلے
ہُوبہُو یہی حالات صالح علیہ السلام کی زندگی میں بھی آچکے ہیں جو اِس وقت
آپ کی زندگی میں آۓ ہوۓ ہیں ، صالح علیہ السلام کی دعوتِ حق کی یہی وہ
صورتِ حال تھی جب صالح علیہ السلام کے شہر کے نو جَتھ بند سرداروں نے اُن
کی اور اُن کے اہلِ خانہ کی جان لینے کی وہ خُفیہ تدبیر کی تھی جس خُفیہ
تدبیر کا اللہ تعالٰی نے اپنی خُفیہ تدبیر کے ذریعے وہ فیصلہ کُن جواب دیا
تھا کہ جس جواب کے عذاب نے اُس قوم کو برباد کر دیا تھا اور یہی حال اہلِ
مکہ کا بھی ہوا تھا کہ اللہ تعالٰی نے اُن کی ہر سر توڑ کوشش کے باوجُود
محمد علیہ السلام کو مدینے کی اُس ریاست کا حاکم بنا دیا تھا اور کُچھ ہی
عرصے کے بعد سارے اہلِ عرب اُس ریاست کے تابع فرمان بننے پر مجبور ہو گۓ
تھے ، اِن اٰیات کے اِن بیانات سے قُدرت کا یہ اصول صاف صاف طور پر نظر آتا
اور سمجھ میں آتا ھے کہ حق کی دعوت کا آغاز مُشکلات سے شروع ہوتا ھے اور
مُمکنات کے راستوں سے گزرنے کے بعد اُس انقلاب میں تبدیل ہوتا ھے جو انقلاب
زمین پر کم زور کی تقدیر اور شہ زور کی تدبیر کو بدل دیتا ھے ، جس صاحبِ دل
نے بھی یہ کہا ھے بہت ہی خوب کہا ھے کہ ؏
نہ گھبرا کثرتِ غم سے حصولِ کامیابی میں
کہ شاخ گُل پہ پُھو آنے سے پہلے خار آتے ہیں
|