پنجاب حکومت نے حجام اور بیوٹی پارلرز کیلیئے رجسٹریشن
اور لائسنس لازمی قرار دے دیا ہے اور ان کو 31اگست تک اپنے لائسنس مکمل
کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں رجسٹریشن اور لائنسنس کا حصول اپنی جہگہ
درست اقدام ہے لیکن یہاں پر یہ سوال پید ا ہوتا ہے کہ کیا حمام کے کام کرنے
والوں کو صرف لائسنس جاری کر دینے سے تمام مسائل ختم ہو جائیں گئے نہیں
بلکہ یہاں سے مسائل کی شرح میں مزید اضافہ ہو گا سب سے پہلے تو ہیلتھ
انسپکٹر ان کو تنگ کریں گئے ان پر اپنا رعب جمائیں گئے کیوں کے حمام پر کام
کرنے والوں کی اکثریت غریب افراد پر مشتمعل ہوتی ہے ا ن کو ڈرانا دھمکانا
بہت آسان کام ہے صرف لائنسنس کے اجراء سے عوام کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو
گا پہلی تو بات یہ کہ محکمہ صحت نے حجام کرنے والے افراد کو تربیت دینے
کیلیئے کوئی عملی اقدامات سرے سے کیئے ہی نہیں ہیں آگاہی کے بغیر ان کو
کیسے شفافیت کا پابند بنایا جا سکتا ہے اس کیلیئے ضروری ہے کہ ہر بنیادی
مرکز صحت کے مقام پر تربیتی کیمپ منعقد کرائے جائیں جن میں حماموں اور
بیوٹی پارلرز پر کام کرنے والوں کوحفظان صحت کے اصول سکھائے جائیں اور ان
کو ضروری مواد بھی فراہم کیئے جانے کا بھی پورا بندوبست کیا جائے اور شرائط
و ضوابط ایسے مقرر کیئے جائیں جن پر عملدرآمد ممکن ہو ضوابط تو ہر سال بعد
بنائے جاتے ہیں شور مچتا ہے لیکن صرف دنوں میں ہی سب کچھ ختم ہو جاتا ہے جب
تک ان کو اس حوالے سے تربیت نہیں دی جائے گی تو ان سے حساب کس بات کا لیا
جا سکے گا ان کو کم از کم ایک ماہ کی ٹریننگ دی جائے ان کو سرکاری طور پر
وہ تمام اوزار مہیا کیئے جائیں جو حفظان صحت کے حوالے سے ضروری ہوں لائسنس
تو ہر کسی کو مل جاتے ہیں یہ کو نسا مشکل کام ہوتا ہے لائسنس دینے میں بھی
محکمہ صحت کا عملہ بھر تعاون فراہم کرتا ہے لیکن لائسنس کے حصول کیلیئے
کوئی معیار مقرر ہونا بہت ضروری ہے یہ گورنمنٹ کی طرف سے کوئی احسن اقدام
نہیں احسن اقدام تب سمجھا جائے گا جب لائسنس صرف ایسے حمام مالکان کو جاری
کیئے جائیں جو عوامی معیار پر پورے اترتے ہوں ان کے پاس حفظان صحت سے متعلق
تمام اوزار موجود ہوں بیماریاں پھیلانے کا سب سے بڑا زریعہ حمام اور بیوٹی
پارلرز ہیں یہ لوگ پورا پورا دن ہاتھ نہیں دھوتے ہیں ایک بندے کا کام کرتے
ہیں پھر بغیر ہاتھ دھوئے دوسرے کا کام شروع کر دیتے ہیں یہ سب کچھ محکمہ
صحت کی ناقص پالیسیوں کے باعث ہو رہا ہے حماموں اور بیوٹی پارلرز پر چھاپے
صرف لائسنس چیک کرنے کیلیئے نہ مارے جائیں بلکہ چھاپے مارنے کا مقصد یہ
ہونا چاہیئے کہ کہیں کوئی حمام پر کام کرنے والا کاریگر پرانا بلیڈ تو
استمعال نہیں کر رہا ہے کہیں وہ بغیر ہاتھ دھوئے دوسرے شخص کی شیو تو نہیں
کر رہا ہے اس کے پاس اوزاروں کو دھونے کے بعد ان کو گرم رکھنے کیلیئے تمام
ضروری مواد موجود ہے ان کی دکانوں میں صفائی ستھرائی کیسی ہے ان کے غسل
خانے گندے اور بدبودار تو نہیں ہیں عام عوام کیلیئے تو مسائل یہ ہیں جن سے
بے شمار بیماریاں پھیل رہی ہیں لائسنس کا اجراء یہ مسائل کبھی بھی حل نہیں
کروا پائے گا ہیلتھ انسپکٹر کسی بھی صورت شفافیت برقرار نہیں رکھ سکیں گئے
بلکہ اس کام کیلیئے قریبی مرکز صحت کے ڈاکٹرز کو زمہ داری سونپی جائے تو
بہت سی بہتری آ سکے گی آج تک کسی بھی حمام والے کے خلاف گندگی کے حوالے سے
کوئی مقدمہ نہیں بنا ہے بس صرف اتنا ہوتا ہے کہ نحکمہ صحت کے اہلکار سالوں
بعد کسی حمام پر جاتے ہیں اور بہت بڑا ہتھیار بھی اگر استمعال کرتے ہیں تو
محض تھوڑا سا جرمانہ عائد کرتے ہیں اس کے بعد ان کا کام ختم ہو جاتا ہے
حماموں اور بیوٹی پارلرز پر کام کرنے والے افراد کا ہر تین ماہ بعد میڈیکل
لازمی ہونا چاہیئے اور ایسا محض زبانی نہیں بلکہ عملی طور پر ہونا چاہیئے
حکومت کو حماموں میں بیماریاں پھیلانے والے اسباب کا سدباب کرنا چاہیئے نہ
کے لائسنس کے حصول کا پابند بنانا چاہیئے اس کے ساتھ ساتھ حمام مالکان کو
اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ گاہک کو کام کرنے سے پہلے اپنے اوزار چیک
کروائے اگر گاہک مطمئن ہو کر اجازات دے تو پھر وہ اپنا کام جاری کرے نیز
محکمہ صحت کو ہر حجام کی دکان میں ایسے بینرز آویزاں کرنے چاہئیں جن پر درج
ہو کہ اگر حمام پر کام کرنے والا کاریگر اوزار ٹھیک استمعال نہیں کر رہا ہو
تو وہ ان نمبرز اپنی شکایت درج کروا سکتے ہیں اگر محکمہ صحت دیانتداری کے
ساتھ اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے حمام اور بیوٹی پارلرز پر اپنا چیک اینڈ
بیلنس رکھے تو پچاس فیصد بیماریوں پر قابو پایا جا سکتا ہے
|