بلی کو پھانسی

ہمارا معاشرہ اخلاقی پستی کی اس دلد ل میں دھنستا چلا جا رہا ہے کہ جہاں قوم کی بہو،بیٹیاں اور بچے بچیاں گھر کے باہر اور نہ ہی گھروں کے اندر محفوظ ہیں۔حتیٰ کہ معصوم بے زبان جانور بھی ہمارے ظلم اور درندگی سے محفوظ نہیں رہے ۔گذشتہ روز اسلام آباد کے بحریہ ٹاؤن کے علاقے میں راجہ عبدالقیوم نامی سفاک و ناہنجار شخص نے ایک بلی کو محض اس بات پر پھانسی دے کر مار ڈالا اور اس کی لاش اپنے گھر کے باہر لٹکا دی ۔کہ وہ اسے تنگ کر رہی تھی ۔بلی کی پھانسی کی وڈیو وائرل کئے جانے اور ایک خاتون انیلہ عمیر کی تحریری درخواست پر ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات نے فوری نوٹس لیا اور ملزم کو گرفتار کروا دیا ۔ملزم کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 429 اینیمل ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیاگیاہے ۔ ڈپٹی کمشنر نے ایک احسن اقدام اٹھایا ہے۔ایسے ملزم کسی معافی کے مستحق نہیں ہوتے۔جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی جانب سے بھی واقعے کی بھرپور مذمت کی گئی ہے۔

اس ظلم کا حساب تو راجہ صاحب کو دینا ہے ۔بیچاری یہ معصوم سی بلی اگر تنگ بھی کر رہی تھی تو ایک بے زبان کا یہ اتنا بڑا جرم نہیں کہ اسے مار ہی ڈالا جائے۔ اس معصوم اور کمزور سی جان کا اس’’ مرد مجاہد ‘‘سے کوئی مقابلہ نہ تھا کہ اس نے اس کی جان لے لی ۔ہمیں تو راجہ صاحب کی دماغی حالت پر ہی شک ہونے لگا ہے ۔ایساظلم کہ جس نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ۔اس ظلم پر ہمیں ایک اور واقعہ بھی یاد آیا ۔ایک خوبصورت عورت اپنے صحن میں کام کر رہی تھی ۔ایک بلی اسے بار بار تنگ کر رہی تھی ۔پاس ہی تندور پر روٹیاں لگائی جا رہی تھیں ۔اس خوبصورت خاتون کا پارہ چڑھاتو اس نے بلی کو پکڑ کر جلتے تندور میں ڈال دیا ۔بلی جل کر کوئلہ ہو گئی عزیز و اقارب نے اسے بہت لعن طعن کی لیکن جو ہونا تھا،وہ ہو گیا ۔رفتہ رفتہ اس خاتون کا حسن مانند پڑنے لگا اور بلی کو زندی تندور میں پھنکنے والی گاؤں کی اس سب سے حسین اور لمبے قد اور توانا جسم کی مالک عورت کا رنگ بھینس کی مانند کالا ہو نے لگا۔ وزن کم ہونے لگا ۔اس کے ناپ کے جوتے نہیں ملتے تھے ۔پھر اسے عام جوتا بھی پورا آ جاتا تھا ۔اس کا رنگ کالا ہوجا نا اﷲ کی پکڑ اور اہل علاقہ کے لئے باعث عبرت تھی ۔

اسلامی تعلیمات میں جانوروں سے صلہ رحمی سے پیش آنے کا حکم دیا گیا ہے۔بدنصیب ہے وہ شخص جو بے زبان جانوروں پر ظلم ڈھائے سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ایک بار ایک شخص راستے میں چلا جا رہا تھا، اس کو شدید پیاس لگی، اسے کنواں ملا، وہ اس میں اترا اور پانی پیا جب وہ باہر نکلا تو اس کے سامنے ایک کتا پیاس کی وجہ سے ہانپ رہا تھا اور کیچڑ چاٹ رہا تھا۔ اس شخص نے کہا’’ اس کتے کو بھی پیاس لگی ہے جیسے مجھے لگی تھی چنانچہ وہ کنویں میں اترا اور اپنے موزے کو پانی سے بھرا پھر اس کو منہ سے پکڑا یہاں تک کہ اوپر چڑھ آیا اس نے کتے کو پانی پلایا تو اﷲ تعالیٰ نے اس کی قدردانی کی اور اس کو بخش دیا۔

ایک اور حدیث مبارکہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے، وہ رسول اﷲ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا’’ ایک عورت بلی کے معاملے میں جہنم میں ڈال دی گئی جسے اس نے باندھ رکھا تھا۔ نہ اس نے اس کو کھلایا اور نہ ہی اسے چھوڑا کہ زمین کے چھوٹے چھوٹے جانور کھا لیتی حتی کہ وہ لاغر ہو کر مرگئی۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ محکمہ اطلاعات میں ایک اعلیٰ آفیسر کے خلاف بعض حلقوں نے طویل مہم چلا ئی کہ انہیں ان کے عہدے سے ہٹا دیا جائے لیکن اس قدر مخالفت کے باوجود کوئی ان کا بال بھی بانکا نہ کر سکا ۔۔وہ کئی برس ایک ہی عہدے پر فائز رہے ۔ایک دن مجھے ان کے دوست نے بتایا کہ موصوف ایک دن آفس آئے تو باربار گھر فون کرتے اورپوچھتے کہ بتاؤ،بلی کسی ہے ۔تو دفتر والا دیگر سٹاف ان کا مذاق اڑاتا کہ یہ ظالم شخص پتہ نہیں کس بلی کی خیریت معلوم کر تا ہے ۔بعد ازاں انکشاف ہو اکہ موصوف صبح اپنی گاڑی پر آفس آ رہے تھے کہ انہیں ر استے میں ایک زخمی بلی نظر آ گئی ۔موصوف گاڑی سے اترے ،بلی کو اٹھا کر گاڑی میں ڈالااور اسے گھر لے گئے ۔اسے دودھ پلایا ۔اس کی مرہم پٹی کی اور آفس آگئے ۔بلی کی حالت چونکہ زیادہ خراب تھی اس لئے موصوف بے چینی میں باربار فون کرکے اس کی خیریت دریافت کرتے ۔یہ واقعہ جب ان کے ایک ساتھی نے مجھے سنایا تو میرے منہ سے بے اختیار نکلا کہ’’ واقعی گریٹ مین ‘‘۔۔اسی لئے اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔اس قدر مخالفت کے باوجود بھی یہ صاحب اپنے عہدے پر کام کرتے رہے ۔یہ سب اﷲ کا اس بندے پر کرم ہے ۔جو بندہ ایک زخمی بلی کے لیے اس قدر بے چین ہوسکتا ہے اس کا خیال رکھتا ہے ایسے انسان کا رکھوالا اﷲ ہے ۔بیشک ! انسانوں کے ساتھ ساتھ حیوانوں سے حسن سلوک کرنے والے زندگی کے کسی میدان میں ناکام نہیں ہوسکتے ۔ان کا نام اﷲ کے ہاں بہترین انسانوں ،انسانیت کے خدمت گاروں میں لکھا جاتا ہے ۔اور یہی وہ لوگ ہیں کہ جنہیں مرنے کے بعد بھی لوگ بھلا نہیں سکتے ۔

بلی پر تشدد کرنااور پھر پھانسی دے کر سرعام لٹکانا شاہد پاکستان کی تاریخ کا ایک المناک واقعہ ہے ۔کیتنے ہی لوگ اس قسم کے جرم کا ارتکاب کرتے ہوں گے لیکن راجہ صاحب کا جرم اس لئے سامنے آگیا کہ انہوں نے اس بے زبان پر ظلم بھی کیا اور اسے سرعام گھر کے باہر لگے جنگلے کے ساتھ لٹکا بھی دیا ۔اس ظلم کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ،اس بے زبان کی بددعایقیناً عرش تک جائے گی اورمکافات عمل کی صورت راجہ صاحب اس کی سزا دنیا میں ضرور بھگتیں گے ۔ڈپٹی کمشنر اور حکومت کے ذمہ داران کا فرض ہے کہ اس بے زبان پر ظلم کے بدلے اس شخص کو بھی اسی طرح بیچ چوہرائے میں لٹکا دیا جائے ،جس طرح اس نے اس بے زبان کو سرعام لٹکایا ہے ۔ایسا نہ ہو کہ یہ شخص بھی کچھ ’’چمک‘‘ کے زور پراور کچھ قانونی سقم کے باعث سزا سے بچ جائے ۔لیکن ملزم کو یہ نہیں بھولناچاہئے کہ وہ ربّ جو انسانوں پر ظلم سے بھی روکتا ہے ۔وہ کس طرح اپنی بے زبان اور کمزورمخلوق پر ظلم ڈھانے والے کو معاف کر دے گا ۔ساری قوم اس ظلم پر ہم آواز ہے کہ مجرم کو نشان عبرت بنا دیا جائے ۔اس بارے کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں ،یہی انصاف ہے ۔اور یہی ہماری ذمہ داری ہے ۔
 

syed arif saeed bukhari
About the Author: syed arif saeed bukhari Read More Articles by syed arif saeed bukhari: 126 Articles with 130440 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.