کفار کی نئی چال

آج سے ہزاروں سال پہلے بھی کفار مکہ نے بہت سارے گستاخانہ اشعار لکھے جن میں حضورؐ کی گستاخی کی بار بار کوشش کی گئی ۔
لیکن وہ اشعار آج تک ہم تک نہیں پہنچے پاۓ۔
کیوں ؟
کیونکہ
صحابہ نے وہ اشعار نہ ہی یاد کیے اور نہ ہی کسی اور صحابی سے شیئر کیے ۔
اس طرح وہ سارے اشعار فنا ہو گئے
ختم ہو گئے ان کا نام و نشان مٹ گیا۔اور یوں ہم تک پہنچ نہیں پاۓ۔
آج کل جدید ٹیکنالوجی کا دور دورہ ہے فیس بک، واٹس اپ، وغیرہ پر بہت سارے گروپ ہیں ،جن کی مدد سے چند سیکنڈ میں مواد دنیا کے کونے کونے تک پھیل جاتا ہے اور یہ عام دیکھنے میں آرہا ھے کہ
گستاخانہ مواد کو بھی کفار سے زیادہ مسلمان پھیلا رہے ہیں ۔
اور وہ یوں کہ ،
کفار ایک گستاخانہ خاکہ یا تصویر بناتے ہیں اور اوپر لکھ دیتے ہیں کہ
لکھنے یا بنانے والے پر لعنت بیجھ کر شیئر ضرور کریں یا اگر آپ سچے مسلمان ہیں تو ضرور شیئر کریں گے۔اب ایک مسلمان اپنا فرض سمجھتے ہوئے وہ مواد شیئر کرتا ہے اس طرح وہ کفار کا کام اور آسان بنا دیتا ہے۔ان کے اتنا کہنے کی دیر ہے اور
کفار کا کام ختم
اور مسلمانوں کا کام شروع ہو جاتا ہے ۔
اس کے بعد مسلمان دھڑا دھڑ لعنت بھیجنے کے چکر میں ایسے شروع ہوتے ہیں کہ پوری دنیا تک یہ گستاخانہ مواد پہنچ جاتا ہے ۔
ہماری اس غلطی کی وجہ ایسا
کوئی بھی گستاخانہ مواد پوری دنیا تک پہنچانے میں شامل ہو جاتے ہیں۔ہمیں چاہیے کہ کوئی بھی کسی طرح کا گستاخ مواد ، خاکہ ،تصویر یا کسی فلم کا ٹکڑا
یا کوئی ایسی چیز آپ تک پہنچے
تو آپ خود اپنے ایمان کی حفاظت کرتے ہوئے
صحابہ کرام کے راستے پر چلیں ۔
بغیر دیکھے
بغیر کسی کو شیئر کیے ،
فوراً اسے ڈیلیٹ کر دیں ۔
لعنتی تو لعنتی ھے ،
اس کو لعنت بیجھنے سے کیا فرق پڑے گا ؟
البتہ ہماری بیوقوفی کی وجہ سے گستاخانہ مواد کی پوری دنیا میں تشہير ضرور ہو جاتی ہے اور
کفار کا مقصد پورا ہو جاتا ہے ۔

ہمیں چاہیے کہ ھم ایسا مواد آگے مزید شیئر کرنے کی بجائے اسے ڈیلیٹ
کردیں
تاکہ گستاخانہ مواد کی تشہير رک جائے اور کفار کا مقصد ناکام ہو جائے ۔
جیسے اب فرانس میں گستاخانہ خاکے شائع کئے گئے ہیں اس وقت پوری امت مسلمہ کو ایک جان ہو کر فرانسیسی اشیاء کا مکمل بائیکاٹ کرنا چاہیے۔
بائیکاٹ مہم میں حصہ لیجئیے اور ساتھ ہی فرانس کے سفیر کو پاکستان سے بے دخل کر دیا جائے۔اور تمام مسلمہ ممالک کو بھی چاہیے کہ فرانس کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کر دیں۔ ہمیں ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت ناموس اپنی جانوں سے زیادہ عزیز ہے۔

ترکی اور قطر نے فرانس کی تمام پروڈکٹ پر پابندی لگا دی۔

فرانس میں ہونے والے تنازعات خصوصا حضور نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی اور مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کسی صورت بھی قبول نہیں۔

ان سب باتوں کے بارے میں کسی نے فرانس کو دھشتگرد کیوں نہیں کہا۔ کیونکہ مسلمان آپس میں متحد نہیں۔ نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس کے لیے بھی متحد نہیں۔
جو ملک ہمارے پیارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخانہ مواد کو اہم نہیں سمجھتا تو ہمیں بھی اس ملک کو جوتے کی نوک پر رکھنا چاہیے حکومت پاکستان سے ہمارا مطالبہ ہے اسی وقت فرانس کے ساتھ تعلقات ختم کر کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کریں ۔

فرانس کی گستاخانہ حرکتوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ آج سے سو سال پہلے بھی ترک سلطان خلیفہ عبدالحمید ثانی کے دور میں بھی فرانس نے ایک اسٹیج ڈرامے میں نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کے لیے کام کیا جس کو نشر ہونے سے قبل سلطان عبدالحمید خان نے جنگ کا اعلان کر کے رکوایا۔ اب بھی 2003ء میں وہی کام کیا گیا۔ 2015ء میں وہی خاکے سامنے لائے گئے۔ پانچ سال بعد پھر فرانس کو خارش ہوئی اور ستمبر 2020ء کو دوبارہ پاگل کتے کی طرح مسلمانوں کے دینی عقائد پر حملہ آور ہوا۔ مسئلہ فرانس کے ساتھ نہیں ہے۔ آپ یہ سوچیں کہ ہر بار فرانس کو ہی آگے کیوں کیا جاتا ہے۔

فرانس میں یہودیوں کی حکومت ہے 2019ء میں نامعلوم افراد کی جانب سے یہودی قبروں کی بےحرمتی کے معاملے پر سب سے پہلا احتجاج فرانس میں ہوا۔ فرانس ہی جنگ کا طبل بجانے والا ملک ہے جو سب سے پہلے تیسری عالمی جنگ کا طبل بجائے گا اور فرانس سے ہی تمام یہودی اور مسیحی افواج یکجا ہو کر نکلیں گی۔
فرانسیسی تاریخ میں ہمیشہ یہی ہوتا آیا ہے۔
اس سے سفارتی تعلقات ہمیشہ کے لئے ختم کرنے چاہیے۔
ہمیں اپنے نفع نقصان سے بالاتر ہوکر سوچنا چاہئے کیونکہ یہ مسئلہ ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کا ہے۔اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان حفاظت ہماری اولین ترجیح ہونا چاہیے ورنہ روزِ قیامت اللہ پاک کے سامنے کیا جواب دیں گے؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کسی صورت قبول نہیں۔
اللہ پاک ہم سب مسلمانوں پر اپنی رحمت نازل فرمائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والوں پر اپنا عذاب نازل فرمائے
آمین ثم آمین۔
 

علیشہ چوہدری
About the Author: علیشہ چوہدری Read More Articles by علیشہ چوہدری: 4 Articles with 2625 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.