لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ
حَسَنَةٌ
بیشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے ‘‘ (الاحزاب21)
مذکورہ فرمان ربانی اس بات پر دلالت کرتاہے کہ سید المرسلین ، رحمۃ
للعالمین، خاتم النبیین جناب محمد ﷺ کی ذات اقدس ہی ہے جو تمام نوع انسانی
کے لیے ایک مکمل لائحہ عمل اور ضابطہ حیات ہے ، آپ ﷺ ہی وہ فرد کامل ہیں
جن میں اللہ رب العزت نے وہ تمام اوصاف جمع کردیئےہیں جو انسانی زندگی کے
لیے مکمل لائحہ عمل بن سکتے ہیں، کیونکہ آپ ﷺ اپنی قوم میں اپنے رفعت
کردار ، فاضلانہ اخلاق اور کریمانہ عادات کے سبب سب سے ممتاز تھے، مزید یہ
کہ نبی کریم ﷺ سب سے زیادہ بامروت سب سے زیادہ خوش اخلاق سب سے زیادہ معزز
ہمسائے ، سب سے بڑھ کر دور اندیش، سب سے زیادہ راست گو ، سب سے زیادہ نرم
پہلو ، سب سے زیادہ پاک نفس ، سب سے زیادہ خیر اندیش ، سب سے زیادہ کریم سب
سے زیادہ نیک ، سب سے بڑھ کر پابند عہد اور سب سے بڑے امانت دار تھے ۔ حتی
کہ آپﷺ کی قوم نے آپ ﷺ کا لقب ہی صادق و امین رکھ دیا تھا اور ام
المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپﷺ کی صداقت و دیانت و امانت سے
متاثر ہو کر ہی آپﷺ سے عقد فرمایا تھا۔
اس مختصر ست مضمون میں نبی اکرم ﷺ کی سیرت ِ مطہرہ کا احاطہ بہت مشکل ہے
چنانچہ چند ایک پہلو ہی پیش کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کا بچپن، جوانی اور
بڑھاپا یعنی آپﷺ کی مکمل زندگی ہی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے ، اللہ تعالی
ٰنے نبیﷺ کو بچپن ہی سے بری محفلوں اور منا ہی و منکرات کے کاموں سے بچائے
رکھا۔
نبیﷺ اپنے بچپن کے ایک و اقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ’’اہل
جاہلیت جو کام کرتے تھے مجھے دو دفع کے علاوہ کبھی ان کا خیال نہیں گزرا۔
لیکن اللہ ان دونوں میں بھی ہر بار اللہ تعالی نے میرے اور اس کام کے
درمیان رکاوٹ ڈال دی، اس کے بعد مجھے کبھی ان کا خیا ل نہیں گزرا یہاں تک
کہ اللہ نے مجھے پیغمبر ی سے مشرف فرمایا۔ ہو ا یوں کہ جو لڑکا میرے ساتھ
بالائی مکہ میں بکریاں چرایا کرتا تھا ایک رات اس سے میں نے کہا کیوں نہ تم
میری بکریں دیکھو اور میں مکہ جاکر دوسرے نوجوانوں کی طرح وہاں شبانہ قصہ
گو ئی کی محفل میں شرکت کرلوںاس نے کہا ٹھیک ہے میں نکلا ابھی مکہ کے پہلے
ہی گھر کے پاس پہنچا تھا کہ باجے کی آواز سنائی پڑی، میں نے پوچھا کیا ہے
؟ لوگوں نے بتایا فلاں کی فلاں سے شادی ہے میں سننے بیٹھ گیا اور اللہ نے
میرے کا ن بند کردیئے اور میں سو گیا ، پھر سورج کی تمازت سے میری آنکھ
کھلی اور میں اپنے ساتھی کے پاس آیا۔ اس کے پوچھنے پر میں ساری تفصیلات
بتائیں اس کے بعدایک رات پھر میں نے یہی بات کہی اور مکہ پہنچا توپھر اسی
طرح کا واقعہ پیش آیا اور اس کے بعد کبھی غلط ارادہ نہ ہوا‘‘(الرحیق
المختوم ص 114-15)
نبیﷺ کی نبوت سے پہلے کی اجمالی زندگی اور سیرت کا ایک پہلو دیکھئے اور
اندازہ کیجیےکہ آپﷺ کی پاکیزہ سیرت کیسی تھی لہٰذا نبی ﷺ کی عمر شریف جب
چالیس سال ہو چکی اور اس طویل عرصےمیں آپ کے اب تک کے معاملات نے قوم سے
آپ کا ذہنی اور فکری فاصلہ بہت زیادہ کر دیا تھا تو آپ ﷺ تنہائی پسند
ہوگئے تھے اور آپ کو خلوت بہت محبوب ہوگئی تھی چنانچہ آپ ﷺ ستو اور پانی
لیکر مکہ سے دو میل کے فاصلے پر ایک غار میں چلے جاتے اس غار کو غار
حراکہتے ہیں ، وہاں آپﷺ اللہ کی عبادت کرتے اور کائنات کی تخلیق اور اس کے
پیچھے کار فرما قدرت نادرہ کے بارے میں غور و خوض فرماتےاور پھر جب اللہ نے
آپﷺ کو نبوت سے نوازا تو آپ ﷺ پہلے سے بھی زیادہ اللہ کی عبادت میں مشغول
ہوگئے ۔ صحیح البخاری میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ
رات کو تہجد کی نمازمیں اس قدرقیام فرماتے کہ آپﷺ کے قدم مبارک میں ورم
پڑجاتا اور آپﷺ ست اس بارے میں کہا جاتاتو فرماتے :
أَفَلاَ أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا(صحيح البخاري (2/ 50)
’’کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں‘‘
بنی ﷺ کے تقوی کا عالم یہ تھا کہ آپ ﷺ اکثر یہ دعا فرمایا کرتے تھے : ’’اے
اللہ میں ایک دن بھوکا رہوں اور ایک دن کھانے کو ملے ۔ بھوک میں تیرے سامنے
گڑگڑایا کروں اور تجھ سے مانگا کروں اور کھا کر تیری حمد و ثنا کروں (حلیۃ
الاولیاء جلد۸ص133)
سیدہ عائشہ ام المؤمنین rیان فرماتی ہیں کہ آپﷺ نے کبھی پیٹ بھر کر کھانا
نہیں کھایا اور اکثر فاقہ پر فاقہ کئے جاتے تھے ایک اور روایت میں اماں
عائشہ r فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ کے گھر والے ایک ایک مہینہ اس طرح گزار تے کہ
گھر میں آگ نہ سلگائی جاتی اور ہمارا کھانا یہی ہوتا کھجور اور پانی (ابن
ماجہ جلد سوم ص527)
اور بعض دفعہ نب ﷺ بھو ک سے کروٹیں بدلتے ، پیٹ کو الٹتے اور خراب کھجور
بھی نہ ملتی کہ اسی سے پیٹ بھرلیں۔ (ایضاًص528)
نبی کریم ﷺ ایک بار نماز پڑھانے کے لیےکھڑے ہوئے تکبیر ہو چکی تھی مگر آپ
ﷺ صحابہ yکو وہیں چھوڑ کر گھر تشریف لے گئے تھوڑی دیر کے بعد واپس آئے اور
مؤنماز پڑھائی کسی نے اس بے وقت گھر تشریف لے جانے کی وجہ پوچھی تو آپ ﷺ
نے فرمایا گھر میں ایک سونے کا ٹکڑا پڑا رہ گیا تھا میں نے خیال کیا کہ
ایسا نہ ہو کہ وہ گھر میں پڑا رہے اور میں فوت ہوجاؤں۔
اللہ رب العزت نے نبی ﷺ کو بڑے اعلی اخلاق سے نوزاتھا ، یہ آپ کا اعلی
اخلاق ہے تھا کہ جس نے دشمن کو دوست ، بیگانے کو اپنا سخت دل کو نرم خو
بنادیا تھا نبیﷺ کے اسی بلند اخلاق کی تعریف اللہ رب العزت نے ان الفاظ میں
فرمائی ہےکہ :
وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ (القلم: 4)
(اور بیشک تو بہت بڑے (عمدہ) اخلاق پر ہے)
مؤ طا امام مالک میں نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’میں بہترین اخلاق کی
تکمیل کے لیے بھیجا گیاہوں‘‘
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کے خدمت گزار فرماتے ہیں کہ میں نے دس برس
تک نبی ﷺ کی خدمت کی :’’اس مدت میں آپﷺ نے مجھے اُف تک نہ کہا اور نہ کبھی
یہ کہا کہ تونے یہ کام کیوں کیا یہ کام کیوں نہ کیا؟(صحيح البخاري (8/ 14)۔
یہ آپﷺ کا اخلاق ہی تھا کہ جس نے لوگوں سے ظلمت و جہالت کو نکال کر نور
صداقت اور معرفت الٰہی کو متمکن کردیا تھا آپﷺ کے اعلی اخلاق اور نرم خو
ہونے کی صفت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اے میرے نبیﷺ:
وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ (آل
عمران: 159)
’’اور اگر تند مزاج سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہارے گرد سے پریشان ہوجاتے
‘‘سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: لَمْ يَكُنِ النَّبِيُّ ﷺ سَبَّابًا،
وَلاَ فَحَّاشًا، وَلاَ لَعَّانًا كَانَ يَقُولُ لِأَحَدِنَا عِنْدَ
المَعْتِبَةِ: مَا لَهُ تَرِبَ جَبِينُه(صحيح البخاري (8/ 13)
’’نبیﷺ نہ گالی دینے والے اور نہ بے ہودہ گوئی کرنے والے اور نہ ہی لعنت
کرنے والے تھے اگر آپﷺ کو ہم میں سے کسی پر غصہ آتا صرف اتنا فرماتے اس
کو کیا ہو گیاہے اس کی پیشانی خاک آلود ہو‘‘
نبیﷺ شجاعت و بہادری میں بھی بہت بلند مقام رکھتے تھےآپﷺ سب سے زیادہ دلیر
تھے نہایت کٹھن اور مشکل حالات میں بھی جبکہ اچھے اچھے بہادر وں اور
جانبازوںکے پاؤں اکھڑ جاتے گئے مگر آپ اپنی جگہ ثابت قدم رہتےاور پیچھے
ہٹنے کے بجائے آگے بڑھتے، پائے ثبات میں زرا لرزش نہ آتی، سیدنا علی رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ جب زور کا رن پڑتا اور جنگ کے شعلے خوب بھڑک اٹھے تو
ہم رسول اللہ ﷺ کی آڑ لیا کرتے تھے آپ ﷺ سے بڑھ کر کوئی دشمن کے قریب نہ
ہوتا (شفاء قاضی عیاض1/89 بحوالہ الرحیق المختوم)
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک رات اہل مدینہ کو خطرہ محسوس
ہوا لوگ شور کی طرف دوڑے تو راستے میں رسول اللہ ﷺ واپس آتے ہوئے ملے ۔
آپ ﷺ لوگوں سے پہلے ہی آواز کی جانب پہنچ گئے تھےکہ (خطرے کے مقام کا
جائزہ لیں ) ۔ اس وقت آپ ﷺ ابو طلحہ کے بغیر زین کے گھوڑے پر سوار تھے،
گردن میں تلوارحمائل کر رکھی تھی اور فرمارہے تھے ڈرو نہیں (کوئی خطرہ
نہیں) (مسلم، جلد 6، ص:28)
اور کسی شاعر نے شاید آپ ﷺ ہی کے بارے میں کہاتھاکہ
مائیں ایسے بچے بہادر جنتی ہیں خال خال
اور اگر آج آقائے کائنات کے غلام اپنے سینوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کی شجاعت بھر لیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔ ان
شاءاللہ
سیدناجابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دریا دلی اور
سخاوت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں جس نے بھی کوئی چیز آپ صلی اللہ علیہ
وسلم سے مانگی ، آپ نے انکار نہ کیا بلکہ دے دی ۔ ( بخاری )
ایک شخص کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی بکریاں دیں کہ جس سے دو پہاڑوں
کے درمیان والی زمین بھر گئی ۔ وہ شخص اپنی قوم کے پاس جا کر کہنے لگا میری
قوم کے لوگو ! مسلمان ہو جاؤ کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اتنا کچھ
دیتے ہیں پھر محتاجی کا ڈر نہیں رہتا ۔ ( مسلم جلد 6 ص 31 )
اقرح بن حابس نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حسن رضی اللہ عنہ
کو پیار کر رہے ہیں تو ایک صحابی نے کہا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم
میرے دس بچے ہیں میں نے کبھی ان کو پیار نہیں کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا جو رحم نہ کرے گا ۔ ( بچوں ، یتیموں ، عاجزوں اور ضعیفوں پر )
اللہ بھی رحم نہ کرے گا اس پر ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ متواضع اور تکبر سے دور تھے ۔ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم اپنے لئے صحابہ کرام y کو کھڑے ہونے سے منع فرماتے تھے ۔
مسکینوں کی عیادت کرتے تھے فقراءکے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے ، غلام کی دعوت
منظور فرماتے تھے ۔ صحابہ کرام y میں کسی امتیاز کے بغیر ایک عام آدمی کی
طرح بیٹھتے تھے ۔ اماں عائشہ صدیقہ عفیفہ کائنات رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں
کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جوتے خود ٹانکتے تھے ، اپنے کپڑوں خود
پیوند لگاتے تھے ، اور اپنے ہاتھ سے اس طرح کام کرتے تھے جیسے تم میں سے
کوئی آدمی اپنے گھر کے کام کاج کرتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی
انسانوں میں سے ایک انسان تھے ۔ اپنی بکری کا دودھ خود دوہتے تھے اور اپنا
کام خود کرتے تھے ۔ ( مشکوٰۃ 520/2 )
آخر میں نبی ﷺ کے چہرہ پرانور کا بھی تذکرہ کرتا جاؤں ۔ حضرت جابر بن
سمرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے ایک بار چاندنی رات میں آپ ﷺ کو
دیکھا آپ ﷺ پر سرخ جوڑا تھا ۔ میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھتا اور چاند کو
دیکھتا ۔ آخر ( اسی نتیجہ پر پہنچا کہ ) آپ ﷺ چاند سے بھی زیادہ خوبصورت
ہیں ۔
ایک بار آپ ﷺحضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف فرما تھے پسینہ آیا تو
چہرے کی دھاریاں چمک اٹھیں یہ کیفیت دیکھ کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے
ابوکبیر ہذلی کا یہ شعر پڑھا :
واذا نظرت الی اسرۃ وجھہ
برقت کبرق العارض المتھلل
” جب ان کے چہرے کی دھاریاں دیکھو تو وہ یوں چمکتی ہیں جیسے روشن بادل چمک
رہا ہے ۔ “( رحمۃ للعالمین جلد 2 ص172 )
نبی ﷺ جتنے صورت کے حسین تھے اتنے ہی سیرت کے خوبصورت ۔ اس لئے ہمیں بھی
چاہئے کہ ہم نبی ﷺ کی سیرت کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں ۔ صحابہ کرام رحم
مادر سے ( رضی اللہ عنہ ) کا لقب لے کر نہیں آئے تھے ۔ بلکہ انہوں نے نبیﷺ
کے اسوہ اور سیرت کو اپنایا تھا ۔ اور اللہ نے ان کو جنت کے سرٹیفکیٹ دے
دئے ۔ دنیا میں بھی کامیاب آخرت میں بھی کامیاب ۔
آج مسلمان ذلیل ہیں ، خوار ہیں ، بے کس ہیں ، بے بس ہیں مظلوم ہیں ، مجبور
ہیں ، تو اس کا سب سے بڑا سبب قرآن و حدیث سے بیگانگی اور اسوہ رسول سے ”
چشم پوشی“ ہے ۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن و حدیث پر عمل پیرا ہونے
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسوہ پر چلنے کی توفیق دے ۔ آمین یا رب
العالمین ۔
|