میری مرحوم والدہ کا سونا بینک کے لاکر سے چوری ہو گیا۔۔۔ اینکر ماریہ میمن جیسا واقعہ اور کتنے لوگوں کے ساتھ پیش آیا

image
 
جب بھی بینک اور خاص طور پر اس کے لاکرز کا ذکر آتا ہے تو عمومی طور پر تحفظ کا احساس اور چیزوں کے محفوظ ہونے کا خیال آتا ہے۔ تحفظ کے اسی احساس کے تحت اکثر افراد اپنی زندگی کی جمع پونجی نہ صرف بینکوں میں جمع کراتے ہیں بلکہ زیورات اور قیمتی اشیا حتیٰ کہ اہم دستاویزات کو بھی بینک کے لاکر میں رکھتے ہیں۔
 
لیکن حال ہی میں پاکستانی سوشل میڈیا پر سامنے آنے والے کچھ واقعات نے لوگوں کے اعتماد کو نہ صرف ٹھیس پہنچائی ہے بلکہ یہ سوال بھی کھڑا کیا ہے کہ پاکستان کے بینکوں میں لاکرز کتنے محفوظ ہیں۔
 
اس بحث کا آغاز اس وقت ہوا پاکستان کی معروف ٹی وی اینکر ماریہ میمن نے گذشہ برس وفات پانے والی اپنی والدہ کے نام پر موجود لاکر سے زیورات کے چوری ہونے کا دعویٰ کیا۔ بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ماریہ میمن نے بتایا کہ بینک کے ریکارڈ میں موجود تفصیلات کے مطابق اُن کی والدہ نے یہ لاکر سنہ 2017 میں آپریٹ کیا تھا۔
 
انھوں نے بتایا کہ ’جوائنٹ لاکر ہولڈر کی صورت میں پہلا شک یہ کیا جاتا ہے کہ شاید دوسرے شخص یا پارٹی نے چیزیں نکال نہ لی ہوں یا گھر میں معاملات خراب ہوں لیکن الزام بینک پر عائد کیا جا رہا ہو۔ لیکن بینک کے ریکارڈ میں بھی یہ بات ثابت ہوئی کہ میرے والد نے لاکر استعمال نہیں کیا اور میری والدہ نے ہی آخری بار اس لاکر کو سنہ 2017 کے آخر میں آپریٹ کیا تھا۔‘
 
ماریہ میمن کے مطابق بینک نے انھی ایک تحریری جواب بھیجا ہے کہ اس معاملے کی انکوائری مکمل کر لی گئی ہے اور کسی دھوکہ دہی کا ثبوت نہیں ملا۔
 
11 ستمبر کو ماریہ میمن نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں دعویٰ کیا تھا: ’یہ میرے خاندان کے ساتھ کچھ دن پہلے ہوا۔ برائے مہربانی اپنے لاکرز پر سخت چیک رکھیں۔ میری مرحوم والدہ کا سونا بینک سے چوری ہو گیا۔‘
 
’میری والدہ کا گذشتہ برس انتقال ہو گیا۔ انھوں نے اپنے مرنے سے پہلے میری بہن کو بینک کے لاکر میں موجود سونے کے بارے میں بتایا اور اسے ہدایات دیں کہ اس سونے کا کیا کرنا ہے۔ میری والدہ کے انتقال کے کچھ ہفتوں بعد میرے والد لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں موجود اس بینک کی برانچ میں جوائنٹ لاکر آپریٹ کرنے گئے۔ بینک کے کسٹمر سروس کے نمائندے اور مینجر نے میرے والد کو لاکر آپریٹ کرنے کی اجازت نہیں دی۔‘
 
image
 
’میرے والد کو حق وراثت کا سرٹیفیکیٹ لانے کا کہا گیا۔ غم میں مبتلا اور جذباتی طور پر تناؤ کا شکار میرے والد نے بینک کا یقین کر لیا۔‘
 
’میری بہن بیرون ملک تھی لہٰذا ہم نے یہ معاملہ بعد کے لیے چھوڑ دیا لیکن سنہ 2021 میں صرف اب سے صرف دو ہفتے پہلے ہمیں بتایا گیا کہ آپ اب لاکر آپریٹ کر سکتے ہیں۔‘
 
’میرے والد فوراً لاکر آپریٹ کرنے کے لیے گئے اور سوچیں پھر کیا ہوا۔ اس میں جیولری کا صرف ایک خالی ڈبہ تھا۔ ہماری والدہ کا سونا چوری کر لیا گیا تھا جس کی جذباتی قیمت ہمارے لیے بہت زیادہ تھی۔‘
 
’بینک نے ہماری درخواست پر ردعمل دیا ہے اور جیسے کہ امید تھی کہ ان کی پہلی کوشش خود کو بچانا ہے۔ بینک والوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ہمیں گذشتہ برس لاکر تک رسائی دی جانی چاہیے تھی تاہم انھوں نے کسی دھوکہ دہی کی تردید کی ہے۔ اب ہم بینک کے خلاف کیس کا آغاز کر رہے ہیں۔‘
 
ماریہ کے مطابق ’امی کا سونا ملنے کے کے امکانات بہت کم ہیں لیکن یہ میرا فرض ہے کہ میں دوسروں کو اس بارے میں خبردار کروں۔ اگر آپ کے ساتھ ایسا ہوتا ہے تو کیا آپ واقعی بینک کو یہ ثابت کر سکیں گے کہ آپ کے لاکر میں قیمتی سامان موجود تھا۔ براہ مہربانی اپنے لاکر کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔ جائیں اسے چیک کریں۔‘
 
ماریہ کی اس پوسٹ کے جواب میں بہت سے لوگوں نے اپنے ذاتی تجربات بیان کیے جنھیں مختلف نجی بینکوں سے ایسی ہی شکایات تھیں۔
 
ایک صارف نے ماریہ کی پوسٹ کے جواب میں دعویٰ کیا ’میرے والد کا سنہ 1998 میں انتقال ہو گیا۔ میری والدہ کو بتایا گیا کہ انھیں حق وراثت کا سرٹیفیکیٹ چاہیے۔ کئی مہینوں بعد جب میری والدہ کو سرٹیفیکیٹ ملا اور انھوں نے لاکر کھولا تو وہ خالی تھا۔ میرا خیال ہے ہم میں سے کئی لوگوں کو ایسے لوٹا گیا لیکن آپ نے اس بارے میں بات کی۔‘
 
image
 
ایک اور صارف نے دعویٰ کیا: ’میرے والد کا سنہ 2010 میں انتقال ہوا، سنہ 2011 میں وراثت کا سرٹیفیکیٹ ملنے کے بعد جب ہم نے لاکر کھولا تو جیولری، پرائز بانڈ، وہاں سے غائب تھے۔‘
 
ایک اور صارف نے بھی کچھ ایسی ہی کہانی سنائی کہ ’سنہ 2015 یا 2016 میں ان کی والدہ کے لاکر سے جیولری غائب ہو گئی۔ ہم نے اپنی کھوئی چیزوں کا تعاقب کیا لیکن بینک نے نہ ہماری درخواست کو تسلیم کیا اور نہ ہی کوئی ذمہ داری لی۔ جب کہ اس چوری سے پہلے بینک میں جو لوگ موجود تھے وہ بھی ادھر نہیں تھے، جب ہمیں خالی لاکر ملا، ان کی ٹرانسفر کہیں اور کر دی گئی تھی۔ میرے خیال میں لاکر میں سونے کی 12 چوڑیاں، ایک چوڑا سیٹ، ایک چھوٹا ہار، کچھ انگوٹھیاں اور جھمکے تھے، جو کبھی برآمد نہیں ہو سکے کیونکہ لاکر کی انشورنس نہیں تھی اور ہمیں لاکر کی انشورنس کا پتہ بھی نہیں تھا۔‘
 
ایک اور صارف نے اپنی پوسٹ میں دعویٰ کیا ’میں نے دسمبر 2020 میں کووڈ کی وجہ سے اپنے والدین کو کھو دیا اور اس کے فوراً بعد ہم نے حق وراثت کا عمل شروع کر دیا۔ میری والدہ کے ایک ہی بینک کی مختلف برانچز میں دو لاکر تھے۔ جب میرا بھائی ایک بینک میں گیا تو مینجر نے کہا کہ آپ کے والدین کے نام سے کوئی لاکر نہیں کیونکہ کمپیوٹر ریکارڈ میں کچھ سامنے نہیں آ رہا تھا جبکہ ہمارے پاس دونوں لاکرز کی چابیاں تھیں، اور اس کے علاوہ ماضی میں اپنی والدہ کے ساتھ وہاں جا کر لاکر آپریٹ بھی کر چکی تھی۔‘
 
’انھوں نے میرے بھائی کو واپس بھیج دیا اور اگلے روز میں اپنے بھائی کے ساتھ گئی اور بینک والوں سے پوچھا کہ اگر میرے والدین کے نام پر کوئی لاکر نہیں تو میرے پاس یہ چابی کہاں سے آئی۔ تو بے شرم مینجر نے کہا کہ ’یہ تو آپ اپنے ماں باپ سے پوچھیں۔‘ ان کی آواز میں مرنے والوں کے لیے کوئی عزت نہیں تھی۔ میں نے بینک مینجر کو مجبور کیا کہ وہ رجسٹر میں چیک کریں کہ لاکر کس کے نام ہے۔ اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی رجسٹر کھولا اور وہاں میرے والدین کے نام درج تھے۔ وہ ذرا بھی شرمندہ نہیں ہوا۔‘
YOU MAY ALSO LIKE: