وادیِ طُور اور جلوہِ نُور !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب {{{{ سُورَةُالقصص ، اٰیت 29 تا 42 }}}} . اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
فلما
قضٰی موسی
الاجل وسار باھله
اٰنس من جانب الطور
نارا قال لاھلهٖ امکثواانی
اٰنست نارا لعلّی اٰتیکم منہا
بخبر اوجذوة من النار لعلکم
تصطلون 29 فلمااتٰہا نودی من
شاطئ الوادالایمن فی البقعةالمبٰرکة
من الشجرة ان یٰموسٰی انی اناالله رب
العٰلمین 30 وان الق عصاک فلماراٰھا تھتز
کانھاجان ولّٰ مدبرا ولم یعقب یٰموسٰی اقبل و
لاتخف انک من الاٰمنین 31 اسلک یدک فی جیبک
تخرج بیضاء من غیر سوء واضمم الیک جناحک من
الرھب فذٰنک برھانٰن من ربک الٰی فرعون وملائهٖ انہم
کانواقومافٰسقین 32 قال رب انی قتلت نفسا فاخاف ان
یقتلون 33 واخی ھٰرون ھوافصح منی لسانا فارسل معی رد
ان یصدقنی انی اخاف ان یکذبون 34 قال سنشد عضدک باخیک
ونجعل لکماسلطٰنا فلایصلون الیکما باٰیٰتنا انتما ومن اتبعکماالغٰلبون 35
فلماجاءھم موسٰی باٰیٰتنابینٰت قالواماھٰذاالّا سحرمفتری وماسمعنابھٰذا فی اٰباء
ناالاولون 36 وقال موسٰی ربی اعلم بمن جاء بالھدٰی من عندهٖ ومن تکون له عاقبة
الدار انه لایفلح الظٰلمون 37 وقال فرعون یٰاھاالملاماعلمت لکم من الٰه غیری فاوقد لی
یٰھامٰن علی الطین فاجعل لی صرحا لعلی اطلع الٰی الٰه موسٰی وانی لاظنه من الکٰذبین 38 و
استکبرھو وجنوده فی الارض بغیر حق وظنواانہم الینا لایرجعون 39 فاخذنٰه وجنوده فنبذنٰہم
فی الیم فانظر کیف کان عاقبة الظٰلمین 40 وجعلنٰھم ائمة یدعون الی النار ویوم القیٰمة لاینصرون
41 واتبعنٰھم فی ھٰذه الدنیا لعنة ویوم القیٰمة ھم من المقبوحین 42
جب مُوسٰی مدین میں اپنی ملازمت کی مُدت پُوری کرنے کے بعد اپنی اہلیہ کے ہمراہ مدین سے مصر جا رھے تھے تو راستے میں ایک جگہ پر اُن کو دامنِ طُور میں نُور کی ایک تجلّی نظر آئی اور انہوں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ مُجھے ایک جگہ پر جلتی ہوئی آگ نظر آئی ھے ، تُم یہاں رُک کر میرا انتظار کرو ، میں وہاں جاتا ہوں کہ شاید مجھے وہاں سے کسی قریبی بستی کی خبر مل جاۓ یا پھر میں آگ ایک انگارا ہی وہاں سے لے کرآجاؤں جس سے تُمہارے جسم کو کُچھ حرارت مل جاۓ لیکن جب مُوسٰی اُس وادی کے قریب پُہنچے تو ایک نُورانی درخت سے اُن کو یہ آواز آئی کہ اے مُوسٰی ! میں جُملہ جہان و اہلِ جہان کا مالک اللہ ہوں ، تُم اپنے ہاتھ کی یہ لاٹھی اپنے سامنے زمین پر رکھ دو اور مُوسٰی نے جب وہ صوتی حُکم سن کر اپنی لاٹھی زمین پر رکھی تو وہ ایک زندہ سانپ کی طرح بَل کھانے لگی جس کو اِس طرح سے دیکھتے ہی مُوسٰی پلٹ کر بھاگنے لگے لیکن اُسی وقت اُس اَن دیکھی ہستی کی غیبی آواز نے کہا کہ تُم اپنے خوف پر قابو پاؤ کیونکہ تُم میری حفاظت میں ہو اور بالکُل محفوظ ہو ، اَب تُم اپنا سیدھا ہاتھ اپنے پہلو میں لے جا کر واپس لاؤ تو اُس کی چمک سے یہ تاریک ماحول روشن ہوجاۓ گا اور فورا ہی تُمہارا یہ خوف بھی دُور ہو جاۓ گا ، تُمہارا یہ دستِ نُور اور تُمہاری یہ دستی لاٹھی تُمہارے پاس ھمارے دو تعارفی نشان ہیں ، تُم ھمارے یہ دونوں نشان لے کر مصر کے سرکش فرعون اور اُس کے سر کش سرداروں کے پاس جاؤ اور وہاں جا کر پہلے اُن کو ھمارا فرمانِ توحید سناؤ اور پھر ھمارے اِس فرمان پر عمل کی دعوت دو ، مُوسٰی نے عرض کیا کہ میرے ہاتھوں سے تو پہلے ہی اُس قوم کا ایک آدمی مرچکا ھے اِس لیۓ وہ قوم تو شاید میری زبان سے آپ کا فرمان سننے سے پہلے ہی مُجھے قتل کر دے گی ، میں چاہتا ہوں کہ میرا بھائی ھارُون جو مُجھ سے زیادہ قادرالکلام ھے اُس کو بھی میرے مددگار اور میرے مُؤید کے طور پر میرے ساتھ بہیج دیاجاۓ تاکہ جب وہ لوگ میری تکذیب کریں تو ھارون میری تصدیق کرے ، اللہ نے فرمایا کہ ھم تیرے بھائی کے ذریعے تیرے ہاتھ ضرور مضبوط کریں گے اور ھم تُم دونوں کو ایسا رعب و دبدبہ دے دیں گے کہ تُم اُن سے نہیں ڈرو گے بلکہ وہ تُم سے ڈریں گے اور ھماری اِن نشانیوں کے باعث تُم اور تُمہاراساتھ دینے والے لوگ ہی اُن پر غالب آئیں گے لیکن جب مُوسٰی خُدا کے یہ خُدائی نشانات لے کر وہاں پُہنچے تو اُن لوگوں نے کہا یہ تو تُمہارا وہ جادُو ھے جو ھم نے بھی کبھی نہیں دیکھا ھے اور کبھی نہیں سنا ھے اور ھمارے آباو اجداد نے بھی کبھی نہیں دیکھا ھے اور کبھی نہیں سنا ھے ، مُوسٰی نے کہا کہ اُس شخص کا اَحوال میرے رَب سے زیادہ کوئی نہیں جانتا جو اُس کی طرف سے اُس کی ھدایت لے کر آیا ھے اور یہ بات بھی میرے رَب سے زیادہ کوئی اور نہیں جانتا ھے کہ تُمہارے اِس انکارِ حق کے بعد تُم میں سے کس کا اَنجام کیا ہو گا لیکن یہ بات تو بہر حال طے ھے کہ کسی ظالم کا اَنجام کبھی بھی اَچھا نہیں ہوا ھے اور کسی ظالم کا اَنجام بھی کبھی اَچھا نہیں ہو سکتا ، یہ سُن کر فرعون نے پہلے تو بظاہر اپنے سب دربایوں کو خطاب کرتے ہوۓ کہا کہ میں تو اپنے سوا یہاں پر تُمہارے کسی اور خُدا کو نہیں جانتا اور پھر ایک طنز بھرے اَنداز میں ہامان سے مُخاطب ہو کر کہا کہ تُم میرے لیۓ پکی اینٹوں کی ایک پکی بلند عمارت تو بنوا دو تاکہ میں اُس پر چڑھ کر مُوسٰی کے خُدا کو دیکھ سکوں اگرچہ میرے نزدیک وہ ویسے بھی ایک جُھوٹا آدمی ھے ، اُس کے اِس قول کی وجہ یہ تھی کہ اُس نے اور اُس کے لشکریوں نے اہلِ زمین میں اپنی بڑائی کا جو گمھنڈ قائم کر لیا تھا وہ اُس گمھنڈ کو بہر صورت قائم رکھنا چاہتے تھے کیونکہ وہ اس زعم میں مُبتلا ہو چکے تھے کہ اُنہوں نے کبھی بھی ھماری طرف پلٹ کر نہیں آنا ھے ، بالآخر ھم نےفرعون اور اُس کے اُس گمھنڈی لشکر کو پکڑ کر دریا بُرد کر دیا ، دیکھ لو کہ اِس دُنیا میں ظالموں کے ظلم کا کیا اَنجام ہوا ھے اور کیا اَنجام ہوتا ھے ، ھم نے اِن کو اہلِ جہنم کا پیش رو بنا دیا ھے اور ھم نے اُن پر وہ دُھتکار اور پِھٹکار مُسلط کردی ھے کہ اُن کو زمین میں گڑے ہوۓ لوگوں کے کھڑے ہونے کے دن تک کوئی مدد نہیں ملے گی اور کھڑے ہونے کے دن بھی وہ اپنی اسی گراوٹ مُبتلا ہوں گے جس گراوٹ میں وہ دُنیا میں مُبتلا ہوۓ تھے اور مُبتلا رھے تھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
گزشتہ اٰیات کا مرکزی مضمون مُوسٰی علیہ السلام کا مصر سے مدین جاناتھا اور موجُودہ اٰیات کا مرکزی مضمون مُوسٰی علیہ السلام کا مدین سے مصر واپس آنا ھے ، اِن اٰیات کے اِس مرکزی مضمون میں جو دُوسرا مقصدی مضمون بیان ہوا ھے وہ وہی مضمون ھے جو اِس سے قبل سُورَةُالنمل کی اٰیت 7 اور اٰیت 14 کے درمیان بیان ہوا ھے اور اِن دونوں مضامین کا مُدعاۓ کلام مُوسٰی و فرعون کے درمیان ہونے والا وہ فیصلہ کُن مکالمہ ھے جس مکالمے کے بعد انسانوں کو غلام بنانے والے فرعونِ مصر سے اپنا حقِ آزادی چھین کر مصر سے نکل جانے والے مظلوم انسانوں کے لیۓ اللہ تعالٰی نے سمندر کے درمیان گزرنے کے لیۓ راستے بنادیۓ تھے اور آزادی پانے والے اُن انسانوں کو دوبارہ اپنا غلام بنانے کے ارادے سے اُن کے تعاقب میں جانے والے فرعون و لَشکرِ فرعون کو اُسی سمندر کے درمیان بنے ہوۓ اُن ہی راستوں کے درمیان غرق کرکے اہلِ عبرت کے لیۓ نقشِ عبرت بنا دیا تھا ، مُوسٰی علیہ السلام کا وطنِ مالُوف مصر ہی تھا اِس لیۓ مُوسٰی علیہ السلام کا مدین سے مصر واپس آنا ہی اُن کے اِس سفر کا مقصدِ اَوّل تھا اور اٰیاتِ بالا کے مضمون سے بھی یہی ظاہر ہوتا ھے کہ مُوسٰی علیہ السلام اپنے جس سفر میں مدین سے مصر کی طرف جا رھے تھے اُسی سفر کے دوران وحی کا وہ پہلا منظر اُن کی نگاہ میں آیا تھا اور اُسی سفر میں وہ پہلی وحی اُن پر نازل ہوئی تھی جس پہلی وحی کے بعد آپ کو وہ دو نشانِ وحی بھی دیۓ گۓ تھے جن دو نشانِ وحی کو ساتھ لے کر اُنہوں نے فرعون و آلِ فرعون کے پاس جا تھا ، اِس مضمون کے نفسِ مضمون کے طور پر اگرچہ وہ پہلا مضمون ہی کا فی تھا جو سُورَةُالنمل میں بیان ہوا ھے لیکن اِس سُورت کی اِن اٰیات میں بیان کیۓ گۓ اِس مضمون کے ذریعے شاید مُوسٰی علیہ السلام کے مدین سے مصر کے اِس سفر کے بارے میں تورات کی کتابِ خروج کے باب 3 کی اٰیت 4 تا 8 میں بیان ہونے والی اُس روایت کی اصلاح و تطبیق مقصود ہو جس روایت کا مُختصر ماحصل یہ ھے کہ { مُوسٰی مدیان کے کاہن اور اپنے سُسر یترو کے گلے کی بکریاں چراتے ہوۓ گلے کو بیابان کی پرلی طرف لے گیا تھا جہاں حوراب کے پہاڑ کے نزدیک خُدا کا فرشتہ ایک جھاڑی کے بیچ سے آگ کے شُعلے میں اُس پر ظاہر ہوا } قُرآنِ کریم نے اِس واقعے کی جو اصلاح کی ھے وہ اصلاح یہ ھے کہ مُوسٰی کے ساتھ یہ واقعہ مدین میں پیش نہیں آیا بلکہ مدین سے مصر جاتے ہوۓ سفر کے درمیان میں پیش آیا ھے لیکن اگر مذہبی بدگمانی کے بجاۓ انسانی خوش گمانی سے کام لیا جاۓ تو قُرآن کے اِس بیان میں مُوسٰی علیہ السلام کا شب کے اَندھیرے میں راستے سے بے راستہ ہونے کا یہ اشارہ اپنی اہلیہ سے کیۓ گئیے اِس کلام میں موجُود ھے کہ { مُجھے ایک جگہ آگ جلتی نظر آئی ھے ، تُم یہاں رُک کر میرا انتظار کرو ، میں وہاں جاتا ہوں ، شاید مُجھے کسی بستی کی خبر مل جاۓ یا میں وہاں سے آگ کا ایک اَنگارا ہی لے آؤں جس سے تُمہارے جسم کو کُچھ حرارت مل سکے } اَب ظاہر ھے کہ اگر مُوسٰی علیہ السلام راستہ نہ بُھولے ہوۓ ہوتے تو اُن کو کسی قریبی بستی کا اتا پتہ معلوم کرنے کی ضرورت ہی نہ ہوتی اور یہ بھی ظاہر ھے کہ مدین کوئی دو چار میل کا اتنا مختصر سا علاقہ بھی نہیں تھا کہ مُوسٰی علیہ السلام گھر سے نکلتے ہی مدین کی سرحد عبور کرکے فورا ہی مصر کی سرحد میں داخل ہو جاتے اور جہاں تک بکریوں کا تعلق ھے تو اُس زمانے میں پیدل سفر کرنے والے عموما سواری کے اونٹ اور گھوڑے کے علاوہ چند بھیڑ اور بکریاں بھی ساتھ لے کر نکلتے تھے جن سے اُن کی خوراک کی ضرورت بھی پُوری ہوتی تھی اور بیچنے بٹانے کی صورت میں دیگر ضروریات بھی پُوری ہوجاتی تھیں ، مُوسٰی علیہ السلام چونکہ اپنی اہلیہ کے ساتھ سفر کر رھے تھے اِس لیۓ عین مُمکن ھے کہ اُن پر آہستہ روی کے باعث مدین کی حدُود میں ہی پہلی رات آگئی ہو اور وہ اُسی رات بُھول کر اَصل راستے کے بجاۓ کسی اور راستے کی طرف نکل گۓ ہوں اوراسی دوران اُنہوں نے دامنِ طُور میں وہ جلوہِ نُور دیکھا ہو جس کا پہلے تورات نے تاریخِ انسانی کے حوالے سے ذکر کیا ھے اور بعد میں قُرآن نے وحیِ ربانی کے حوالے سے ذکر کیا ھے اور اِن دونوں حوالوں میں جو ایک مُشترک بات ھے وہ مُوسٰی علیہ السلام پر پہلی وحی کا نزول ھے اِس لیۓ اِن دونوں روایات میں ایک حقیقی تطابق تو موجُود ھے لیکن کوئی حقیقی تعارض موجُود نہیں ھے اور اِن میں الفاظ کا جو فرق ھے وہ قدرتی ھے کیونکہ تورات کے سارے نوشتے انسان نے تیار کیۓ ہیں اور قُرآن کا ایک ہی نوشتہ ھے جو خُدا تعالٰی نے خود تیار کیا ھے ، مُوسٰی علیہ السلام کی مُدتِ ملازمت ختم ہونے سے پہلے چونکہ اُن کا نکاح ثابت نہیں ھے اور مُدتِ ملازمت ختم ہونے کے بعد قُرآنِ کریم نے اُن کے سفر کے ساتھی کے طور پر اُن کی بیوی کا جو ذکر کیا ھے اِس لیۓ اُس سے مُراد صرف اُن کی ایک بیوی ھے اِس لیۓ ھم نے لفظِ { باھلہٖ } کے مفہوم میں صرف اُن کی اہلیہ کو شامل کیا ھے جو عربوں کے اُسلوبِ کلام کے خلاف نہیں ھے اور اور اسرائیلی تاریخ میں مُوسٰی علیہ السلام کے سیدہ صفورا کے بطن سے پید ہونے والے جن دو بیٹوں جیر سوم Gershom اور الیغرر Eleasar کے جو نام ملتے ہیں اگر وہ پیدا ہوۓ ہیں تو یقینا مُوسٰی علیہ السلام کے زمانہِ قیامِ مدین کے بعد ہی پیدا ہوۓ ہوں گے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 461084 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More