#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالقصص ، اٰیت 22 تا 28
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
لما توجه
تلقاء مدین
قال عسٰی ربی
ان یھدینی سواء
السبیل 22 ولما ورد
ماء مدین وجد علیه امة
من الناس یسقون ووجد من
دونھم امراتین تذودان قال ما
خطبکما قالتا لا نسقی حتٰی یصدر
الرعاء وابونا شیخ کبیرا 23 فسقٰی
لھما ثم تولّٰی الی الظل فقال رب انی
لما انزلت الیّ من خیر فقیر 24 فجائته
احداھما تمشی علی استحیاء قالت ان ابی
یدعوک لیجزیک اجر ماسقیت لنا فلما جاءه و
قص علیہ القصص قال لاتخف نجوت من القوم
الظٰلمین 26 قالت احدٰہما یٰابت استاجره ان خیر من
استاجرت القوی الامین 26 قال انی ارید ان انکحک احدی
ابنتی ھٰتین علٰی ان تاجرنی ثمٰنی حجج فان اتممت عشرا فمن
عندک وما ارید ان اشق علیک ستجدنی ان شاء اللہ من الصٰلحین
27 قال ذٰلک بینی وبینک ایماالاجلین قضیت فلا عدوان علیّ واللہ
علٰی مانقول وکیل 28
مُوسٰی جب افراتفری کے عالم میں مصر سے نکلے تو اُن کا رُخ قدرتی طور پر
مدین کی طرف ہوچکا تھا لیکن بذاتِ خود وہ ابھی تک یہ اندازہ نہیں لگا سکے
تھے کہ وہ مصر سے نکلنے کے بعد کس طرف جا رھے ہیں اِس لیۓ اُنہوں نے دل ہی
دل میں خود کو یہ تسلّی دے دی تھی کہ اللہ اُن کو ضرور کسی درست راستے پر
چلاکر کسی مُناسب جاۓ پناہ پر پُہنچا دے گا لیکن رستے میں جب اُن کو رستے
کی سمت کا یقینی طور پر اندازہ ہو گیا اور وہ منزل بہ منزل چلتے ہوۓ مدین
پُہنچ گۓ تو اُنہوں نے دیکھا کہ مدین کے ایک کنویں پر بہت سے لوگ اپنے اپنے
جانوروں کو پانی پلا رھے ہیں لیکن دو عورتیں اپنے جانوروں کو کنویں کی طرف
بڑھانے کے بجاۓ کنویں کی طرف سے ہٹانے کے کام میں لگی ہوئی ہیں ، مُوسٰی نے
جب اُن سے اُن کے اِس عمل کی وجہ پُوچھی تو اُنہوں نے بتایا کہ ھمارے گھر
میں ھمارے والد کے سوا کوئی اور مرد نہیں ھے اور ھمارے والد جو ایک سن
رسیدہ بزرگ ہیں وہ یہ مُشقت نہیں کرسکتے اور ھم تنہا اور کم زور عورتیں تب
تک اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلاتیں جب تک یہ سارے چرواھے اپنے سارے
جانوروں کو پانی پلا کر واپس نہیں چلے جاتے ، مُوسٰی نے اُن کی یہ رُوداد
سُن کر پہلے تو اُن بے بس عورتوں کے جانوروں کو پانی پلایا اور پھر ایک
درخت کے ساۓ میں بیٹھ کر سوچنے لگے کہ بارِ اِلٰہ ! تیری زمین کے ہر مُحتاج
کی طرح میں بھی ایک مُحتاج ہوں اور تیرے پاس ہر محتاج کے حصے کی جو خیر ھے
اُس خیر میں سے تُو میرے حصے کی خیر مُجھے عطا فرما دے ، مُوسٰی ابھی اسی
سوچ بچار میں گُم تھے کہ اَچانک ہی اُن کو اُن دو عورتوں میں سے ایک عورت
شرم و حیا کے ساتھ اپنی طرف آتی نظر آئی اور اُس نے ایک مُناسب فاصلے پر
رُک کر مُوسٰی سے کہا کہ میرے باپ نے آپ کو بلایا ھے تاکہ وہ آپ کو آپ کے
اُس کام کا معاوضہ دے دے جو آپ نے آج ھمارے لیۓ کیا ھے ، مُوسٰی نے جب اُس
مردِ بزرگ کے پاس پُہنچ کر اُس کو اپنا ماجرہِ رَفتہ سنایا تو اُس نے
مُوسٰی سے کہا کہ اَب تُم اپنے گزشتہ غموں سے بے غم ہو جاؤ کیونکہ اَب تُم
اُس ظالم شہر کے اُن ظالم لوگوں سے بہت دُور کے ایک بہت ہی محفوظ مقام پر
پُنہچ چکے ہو ، پھر اُس مردِ بزرگ کی ایک بیٹی نے اپنے باپ سے کہا کہ آپ
اِس جوان کو اپنے پاس ملازم رکھ لیں کیونکہ آپ کو اپنے باہر کے کاموں کے
لیۓ اسی طرح کے ایک جان دار اور دیانت دار ملازم کی ضرورت ھے ، بیٹی کی یہ
بات سن کر اُس مردِ بزرگ نے مُوسٰی سے کہا کہ اگر تُم چاہو تو میں اپنی دو
بیٹیوں میں سے ایک بیٹی تُمہارے نکاح میں دینے کا وعدہ کرتا ہوں لیکن اُس
کے لیۓ تُم کو آٹھ سال تک میری ملازمت میں رہنا ہو گا اور اگر تُم آٹھ سال
سے دو سال زیادہ میری ملازمت میں رہنا چاہو گے تو یہ تُمہاری مرضی پر
مُنحصر ہو گا ، میں تُم پر کوئی زور زبردستی نہیں کروں گا ، مُجھے اُمید ھے
کہ اِس دوران تُم کو مُجھ سے کوئی شکایت نہیں ہو گی ، مُوسٰی نے کہا کہ آپ
اِس بات کو ھم دونوں کے درمیان ایک طے شُدہ بات سمجھیں اور میں آپ کی
ملازمت کی دو مدتوں میں سے جو مُدت بھی پُوری کروں گا اُس پر کوئی اضافی
مُدت نہیں ہوگی اور ھمارے اِس قول و قرار پر اللہ کی نگاہ داری ہوگی !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم نے مصر سے مُوسٰی علیہ السلام کے آغازِ سفر کو اللہ تعالٰی کی
ذات سے اُمید کے ایک لفظ سے شروع کیا ھے اور مُوسٰی علیہ السلام کے اَنجامِ
سفر کو مدین پُہنچنے کے ایک لفظ پر ہی ختم کردیا ھے اور اُن کے آٹھ سے دس
روز کے اُس سفر کی دیگر تفصلات کو نظر انداز کر دیا ھے جو اختصارِ کلام کے
ساتھ ساتھ اِس بات کی بھی ایک قوی دلیل ھے کہ مُوسٰی علیہ السلام کے مدین
میں پُہنچنے کا پہلا دن اگرچہ وہی دن تھا جس دن مُوسٰی علیہ السلام نے اُن
دو عورتوں کے جانوروں کو پانی پلایا تھا اور اُس کے بعد اُن کے والد کے
بلانے پر اُن کے گھر جا کر اُن کے والد کے ساتھ ملاقات بھی کی تھی لیکن
مُوسٰی علیہ السلام کی ملازمت کے بارے میں اُس مردِ بزرگ کے ساتھ اُس مردِ
بزرگ کی بیٹی کی گفتگو اُس دن کے بعد کسی اور دن ہوئی ہوگی اور اُس مردِ
بزرگ نے مُوسٰی علیہ السلام کو اپنی ملازمت میں رکھنے کی اور اپنی بیٹی کا
رشتہ دینے کی بات بھی کسی اور دن ہی کی ہوگی کیونکہ کسی نۓ انسان کو ایک
مُناسب دیکھ بھال کے بعد ہی ملازمت دی جاتی ھے اور ایک اجنبی انسان کے ساتھ
اپنی بیٹی کا رشتہ دینے کی بات بھی ایک معقول مُدت گزرنے کے بعد ہی کی جاتی
ھے اِس لیۓ باور کیا جا سکتا ھے کہ مُوسٰی علیہ السلام چند دن یاچند ہفتے
تک تو اُس گھر کے ایک مہمان کے طور پر اُس گھر کے کام کاج کرتے رھے ہوں گے
اور اُس مردِ بزرگ کی اُس حیا دار بیٹی نے مُوسٰی علیہ السلام کی اٰعلٰی
سیرت و پاکیزہ بصیرت کو دیکھ کر ہی اپنے باپ کو مُوسٰی علیہ السلام کو ایک
مُستقل ملازم کے طور پر رکھ لینے کا مشورہ دیا ہوگا اور خود اُس مردِ بزرگ
نے بھی مُوسٰی علیہ السلام کے اَعلٰی اَخلاق و کردار کو دیکھ پرکھ کر ہی
اپنا داماد بنانے کا فیصلہ کیا ہوگا لیکن ستم ظریفی ملاحظہ کیجۓ کہ عُلماۓ
روایت نے پہلے تو اپنے اَندھے پَن میں شیخِ مدین اور ملازمِ شیخِ مدین کے
اِس کارو باری معاھدے کو بنتِ شیخ اور ملازمِ شیخ کے درمیان ہونے والا ایک
معاھدہِ ایجاب و قبول سمجھا ھے اور اُس کے بعد اپنے اَندھے مقلدوں کو یہ
سمجھایا ھے کہ مُوسٰی علیہ السلام کی ملازمت اُن کی منکوحہ خاتون کے مہر کے
بدلے میں تھی اور پھر اِس پر یہ فقہی مباحثے برپا کیۓ ہیں کہ کسی مرد انسان
کی ملازمت اُس کی اہلیہ کا مہر ہو بھی سکتی ھے یا نہیں ہو سکتی لیکن ظاہر
ھے کہ یہ عُلماۓ روایت کی وہ بناۓ علی الفاسد ھے جو عقل و اہلِ عقل کی
دُنیا کی وہ اَکلوتی مثال ھے جس مثال کی مُشکل ہی سے کوئی دُوسری مثال مل
سکے گی ، اِس مضمون کی دُوسری قابلِ ذکر بات یہ ھے کہ عُلماۓ روایت نے اپنی
تاریخی روایات کی بنا پر اِس بات پر خاصا اصرار کیا ھے کہ اِن اٰیات میں جس
شیخِ مدین کا ذکر کیا گیا ھے اُس سے مُراد شعیب علیہ السلام کی ذاتِ گرامی
ھے لیکن عُلماۓ روایت کے ایک دُوسرے سرخیل مولانا مودودی مرحوم نے عُلماۓ
روایت کے اِس اصرار کا مُکمل انکار کرتے ہوۓ یہ ارشاد فرمایا ھے کہ { اِن
خواتین کے والد کے متعلق ھمارے ہاں کی روایات میں یہ بات مشہور ہوگئی ھے کہ
وہ حضرت شعیب علیہ السلام تھے لیکن قرآن مجید میں اشارة و کنایتہ بھی کوئی
بات ایسی نہیں کہی گئی جس سے یہ سمجھا جا سکے کہ وہ حضرت شعیب ہی تھے ،
حالانکہ شعیب علیہ السلام کی شخصیت قُرآن میں ایک معروف شخصیت ھے ، اگر ان
خواتین کے والد وہی ہوتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ یہاں اِس کی تصریح نہ کردی
جاتی } ہر چند کہ قُرآنِ کریم نے جس بات کی کسی مقام پر تصریح نہ کی ہو تو
اُس سے یہ اَمر لازم نہیں ہوجاتا کہ اُس غیر مصرح شئی کا سرے سے کوئی وجُود
ہی نہیں ھے اور یہ بھی کوئی قاعدہ کلیہ نہیں ھے کہ علماۓ روایت نے جہاں پر
جو بات بھی کہی ہو وہ لازما جُھوٹ ہی کہی ہو کیونکہ کسی بات کے سچ یا جُھوٹ
ہونے کا معیار وہ نہیں ھے جو مولانا مرحوم نے اپنی اُس مُحوّلہ بالا راۓ سے
قائم کیا ھے جس کے حق میں کوئی دلیل بھی نہیں دی ھے لیکن ہمیں اہلِ روایت
کے اِس لفظی نزاع سے ایسی کوئی دل چسپی نہیں ھے کہ ھم اِس پر خواہ مخواہ کی
خواری اور بلا وجہ کی مغز ماری کرتے پھریں کیونکہ ھماری نظر کا محور انسانی
روایات نہیں ہیں بلکہ صرف قُرآنی اٰیات ہیں اور قُرآنی اٰیات کی رُو سے
شہرِ مدین و شیعبِ اور شعیب و شہرِ مدین ایک دُوسرے کے ساتھ اِس طرح لازم و
ملزوم ہیں جس طرح مسجد الحرام اور کعبتہ الحرام ایک دُوسرے کے ساتھ لازم
اور ملزوم ہیں ، اِن میں سے کسی ایک چیز کا ذکر آتا ھے تو دُوسری چیز کا
وجُود خود بخود ہی خیال میں آجاتا ھے اور ھم دیکھتے ہیں کہ سُورَةُالقصص کی
اِس اٰیت 22 سے قبل سُورَةُالاَعراف کی اٰیت 85 ، 88 ، 92 ، سُورَہِ توبہ
کی اٰیت 70 ، سُورَہِ ھُود کی اٰیت 84 ، 87 ، 91 ، 94 ، 95 ، سُورَہِ طٰهٰ
کی اٰیت 40 اور سُورَةُ الشعراء کی اٰیت 177 کے گیارہ مقامات پر قُرآنِ
کریم نے جہاں شعیب علیہ السلام کا ذکر کیا ھے وہاں پر شہرِ مدین کا ذکر بھی
ضرور کیا ھے اور جہاں پر شہرِ مدین کا ذکر کیا ھے وہاں پر شعیبِ مدین کا
ذکر بھی ضرور کیا ھے اور اُن بارہ مقامات کے بعد جب سُورَةُالقصص کے اِس
تیرھویں مقام پر شہرِ مدین کا ذکر آۓ گا تو یہاں پر بھی ذکرِ شعیب علیہ
السلام کے سوا کسی اور ہستی کا ذکر نہیں سمجھا جاۓ گا الّا یہ کہ ھم حدیثِ
تلمود کی اُن واہیات روایات کو بھی درست مان لیں جن روایات کے مطابق شیخ
مدین نے مُوسٰی کی زبان سے مصر کے واقعات سنتے ہی سمجھ لیا تھا کہ یہی وہ
شخص ھے جو فرعون کا تختہ اُلٹنے کا اہل ھے اور یہ بات سمجھتے ہی اُس نے
مُوسٰی کو مُناسب وقت آنے پر فرعون کے پاس بیچ کر دام کھرے کرنے کا فیصلہ
کر لیا تھا اور اسی خیال کے تحت اُس نے مُوسٰی کو اپنے گھر میں قید بھی کر
دیا تھا اور مُوسٰی جو اُس شیخِ مدین کی بیٹی کے عشق میں مُبتلا تھا وہ
شیخِ مدین کی اُسی بیٹی کی وجہ سے ہی زندہ بچ گیا تھا ورنہ شیخِ مدین نے تو
اُس کی موت خیال کیۓ بغیر اُس کا کھانا پینا بھی بند کیا ہوا تھا ، اگر شیخ
مدین کی وہ بیٹی مُوسٰی کو چوری چُھپے کُچھ کھلاتی پلاتی نہ رہتی تو مُوسٰی
شیخ مدین کے اُسی قید خانے میں مرکھپ جاتا اور چونکہ شیخِ مدین نے اُس کا
کھانا پینا بند کیا ہوا تھا اور اُس کے خیال میں اَب مُوسٰی کے جسم میں چند
ہڈیوں کے سوا کُچھ بھی بچا ہوا نہیں تھا اِس لیۓ ایک بار جب وہ مُوسٰی کو
دیکھنے کے خیال سے اپنے اُس قید خانے میں گیا تو مُوسٰی کی حیرت انگیز اور
غیر متوقع صحت مندی کو اُس کا معجزہ جان کر اُس کو رہا کرنے پر مجبور ہو
گیا ، ظاہر ھے کہ ہمیں یہُود کی اِن مردُود روایات سے بھی کوئی دل چسپی
نہیں ھے اور اِن روایات کا ذکر بھی ھم نے صرف اِس خیال سے کردیا ھے کہ شاید
اُن لوگوں کو کُچھ شرم آجاۓ جو انتہائی بے شرمی کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ
محمد علیہ السلام نے اپنی اُمت کو جو قُرآن دیا ھے آپ نے وہ قُرآن تورات و
انجیل سے نقل کیا ھے !!
|