۷ستمبر یوم دفاعِ عقیدہ ختم نبوت

پروفیسر شمشاد اختر

’’ عقیدہ ختم نبوت‘‘ ایک حساس مسئلہ ہے اور اس کی حساسیت کا اندازہ یوں لگا لیں کہ دور نبوی سے آج تک اس معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا گیا ۔ یمامہ کا ’’ مسیلمہ کذّاب ‘‘ ہو یا برصغیر میں انگریزوں کا خود کا شتہ پودا ’’ مرزا غلام احمد قادیانی ‘‘ ہو جس کسی نے حضورﷺ کی اس امتیازی خصو صیات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی جسارت کی تاریخ گواہ ہے کہ اس کے نا پاک وجود کو اس دھرتی پر قابل برداشت نہیں سمجھا گیا ۔حضور ﷺ نے فر مایا ’’ عنقریب میری امت میں تیس جھوٹے، کذّاب اور دجال پیدا ہوں گے اور ان میں سے ہر ایک یہ دعوی کرے گا کہ وہ نبی ہے ، حا لا نکہ میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کو ئی نبی نہیں ‘‘ ایک طرف فر مان نبوی کے مطا بق جہاں اس عقیدے پر ڈاکہ زنی کرنے والے موجود ہیں ، تو دوسری طرف ہر دور میں ،ہر محاذ پر ،ہر مقام پر ،ہر عمر اور ہر طبقے میں اس عقیدے کے محا فظ اور مجاہد بھی مو جود رہے ہیں ۔ مسئلہ ختم نبوت ہر مسلمان کو اس کی جان سے بھی زیادہ قیمتی ہے اس کے تحفظ کے لئے وہ جان کی بازی تو لگا سکتا ہے مگر اس عقیدے کا سودا نہیں کر سکتا ۔ مدعیان نبوت کی غلیظ فہرست میں جہاں بڑے بڑے نام نظر آئیں گے وہیں ایک سیاہ نام مرزا قادیانی کا بھی جلی حروف میں نظر آئے گا ۔ وقت کے اس طاغوت کو انگریز نے اپنے نا پاک عزائم کی تکمیل کے لئے بطور زینے کے استعمال کیا ۔ انگریز کی روزی ،روٹی پر پلنے والا یہ سر کش ، ملہم من اﷲ کے دعوے سے سفر شروع کر کے دعوائے نبوت تک پہنچا۔ اپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعے ہمہ جہت اسلام اور مسلما نوں کے خلاف بر سر پیکار رہا ۔ شاید ہی مقدس شخصیات میں سے کو ئی اس کی توہین سے بچ پا یا ہو ۔ لیکن تمام تر بد معاشی کے با وجود مسلمانوں کی بے مثال اور لا زوال قر با نیوں سے ۱۹۷۴ء کے سال آئین پاکستان میں اس دجالی فتنے کو غیر مسلم قرار دیا گیا ۔یاد رہے قادیانی کوئی فرقہ یا مذہب نہیں بلکہ کذب اور دجل سے بھر پور ایک فتنہ ہے ۔ دستور پاکستان میں غیر مسلم اقلیت پانے کے بعد اس دجالی گروہ نے آج تک اس فیصلے کو تسلیم نہیں کیا ۔حال ہی میں ٹو ئیٹر پر قادیانیوں کے آفیشل اکا ؤنٹ’’ ربوہ ٹائم ‘‘ پر نام نہاد جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان کی جانب سے یہ ٹوئیٹ کیا گیا ’’ ہم خود کو غیر مسلم تسلیم نہیں کرتے آئین پاکستان کی وہ شق جس میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ، ہم اس شق کو نہیں مانتے‘‘ ۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا آئین سے غداری کے بعدملک کی کسی بھی سرگرمی میں غداروں کا کوئی حق رہ جاتا ہے ؟ پھر طاغوتی طاقتوں کے سا منے یہ ڈھنڈورا پیٹا کہ پاکستان میں ہمیں اقلیتوں کے حقوق نہیں دیے جاتے کیا جواز رکھتا ہے ؟آخر کیوں حقوق دیے جا ئیں ؟ایک طرف آئین سے غداری اور دوسری طرف سینہ زوری ۔۔ اگر حقوق کی بات کریں تو اقلیتوں کے جتنے حقوق اس وطن عزیز میں محفوظ ہیں ،شاید ہی کسی اور ریاست میں ہوں ۔ مگر حقوق کی بات تو وہ کرے جو دستور پاکستان کو من و عن قبول تو کرے۔ ’’آئین پاکستان ‘‘میں غیر مسلم ڈکلیئر کیے جانے کے بعد اور امتناع قادیانیت آر ڈیننس کے مطا بق ، پاکستان میں قادیا نیت کی حیثیت بالکل واضح ہے لیکن اب صورتحا ل یہ ہے کہ بعض قادیا نیت نوازایک بار پھر اس متفقہ مسئلہ کو متنازع بنانے کی کو شش کر رہے ہیں ،کیا ۱۹۷۴ء کے متفقہ دستور کے بعد ا س بات کی گنجا ئش رہ جاتی ہے کہ اتنے سالوں بعد آج کوئی یہ سوال لے کر اٹھے کہ ’’ آیا ریاست کسی کو غیر مسلم قرار دے سکتی ہے یا نہیں ‘‘ قطع نظر اس بات کے کہ سائل کون تھا اور مقصد کیا تھا ، آخر ایک اتفاقی مسئلہ کو کیوں کر اختلاف کی راہ پر ڈالنے کی مذموم کو شش کی جا رہی ہے ؟ بات صرف یہاں تک محدود نہیں بلکہ اب تو قادیانیت نوازی اس قد بڑھتی جا رہی ہے کہ ٹی․وی چینلز، سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع کے توسط سے سادہ لوح مسلمانوں کیایمان کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے ۔آئے دن نت نئے شبہات کے ذریعے مسلمانوں کے ایمان کو متزلزل کرنے کی کو شش کی جا رہی ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ ان زمینی حقائق کا ادراک کرے اور قادیانیوں کے ساتھ کسی قسم کی ایسی ہمدردی نہ کرے جو آئین سے ٹکراتی ہو ناموس رسالت کا معاملہ ایک حساس معاملہ ہے،جو بھی اس سے الجھا اﷲ نے اسے خس و خاشاک کی طرح بے حیثیت کر کے دکھا دیا کہ جو میرے حبیب ﷺکی ناموس کے معاملے میں اغیار کی چاکری کرے گا ،وہ اﷲ کی پکڑ سے نہیں بچ سکتا ۔

اور آخر میں ایک خوش آئند قدم جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پا رلیمانی تاریخ میں ایک بڑا قدم ہے قومی اسمبلی نے متفقہ قرار داد منظور کر لی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نصابی کتب میں جہاں حضرت محمدﷺ کا اسم مبارک آتا ہے وہاں وہاں نام سے پہلے لفظ خاتم النبیین بولا ، پڑھا اور لکھا جا ئے گا کیونکہ بعض جگہ سے قادیانیت نے اس نام کو ہٹایا ، مٹایا اس وجہ سے یہ قرار داد منظور ہوئی ،جو کہ ایک ہمارا ایمانی تقاضا بھی تھا ۔
 

Attiya Rubbani
About the Author: Attiya Rubbani Read More Articles by Attiya Rubbani: 7 Articles with 5547 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.