ڈاکٹر غلام شبیررانا
صر صر ِاجل سے اردو ناول اور افسانے کے ہمالہ کی ایک سربہ فلک چوٹی زمیں
بوس ہو گئی ۔اردو صحافت میں حریت فکر و عمل کے ایک عہد کا اختتا م ہوا۔اردو
ادب میں عصری آ گہی پروان چڑھانے کی تحریک کوناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ پس
نو آبادیاتی دور میں بھارت میں ہندی کے غلبے کے باوجود اُردو زبان و ادب کے
روشن مستقبل کو یقینی بنانے کے خواب دیکھنے والا رجائیت پسند دانش ور اپنی
داستاں کہتے کہتے ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔ ادب اور فنون لطیفہ کے
موضوعات پر کالم نگاری کی درخشاں روایت اب ماضی کا حوالہ بن کر ر ہ گئی ہے
۔ روح اور قلب کے بدلتے ہوئے روّیوں کے زیر ِ اثر مہیب سناٹوں میں کلمۂ حق
بلند کرنے والا اور سفاک ظلمتوں میں راستہ دکھانے والا ستارہ افقِ ادب سے
ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ سماجی زندگی میں عدم برداشت ، معتبر ربط کی غیر
اُمید افزا صورت ِحال ،انکسار و ایثار کے فقدان اور دردمندی و خلوص کے عنقا
ہونے کے کرب پر واضح اسلوب میں لکھنے ولا جری تخلیق کار اب ہمارے درمیان
موجود نہیں۔ تہذیبی و ثقافتی ارتقا کی مظہر اخوت کے علم بردار اِس یگانۂ
روزگار ادیب کے رخصت ہونے کے بعد اب طلوع ِ صبح بہارا ں کے امکانا ت معدوم
ہونے لگے ہیں ۔ا جل کے ہاتھ آنے والے پروانے کے مشمولات اور مندرجات کے
بارے میں حقائق کی گرہ کشائی کرتے ہوئے ہے چشم کشا صداقتوں کی جانب متوجہ
کرنے والا مصلح اب ملکوں ملکوں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔ الم نصیب جگر
فگار خاک نشین گوشہ نشینوں کو عزت نفس کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا درس دینے
والے منکسر المزاج فلسفی کے نہ ہونے کی ہونی سُن دِل ہی بیٹھ گیا۔عا لمی
شہرت کے حامل ادیب اور اردو زبان و ادب کے ممتاز محقق ،نقاد اوردانش ور پر
وفیسر ڈاکٹرمحمد بیگ احساس نے عدم کے کُوچ کے لیے رختِ سفر باندھ لیاعلم و
ادب کا وہ آفتاب جو دس اگست ۱۹۴۸ء کو حیدر آباد میں مرزا خواجہ حسن بیگ کے
گھر سے طلوع ہوا وہ جمعرات نو ستمبر ۲۰۲۱ ء کی صبح کو حیدر آباد میں غروب
ہو گیا ۔ پیرا ماونٹ کالونی تریچوکی حیدر آبادکے شہر خموشاں کی زمین نے
اردو ادب کے اس آسمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چُھپالیا ۔سیلِ زماں
کے مہیب تھپیڑوں نے دیکھتے ہی دیکھتے تنقید و تحقیق ،تدریس و تخلیق ِ ادب
کے دبستانوں سے وابستہ حقائق کواس طرح خیال وخواب بنا دیا کہ دنیا بے بسی
کے عالم میں دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس عارضۂ
قلب اور کووڈ سے متعلقہ مسائل کے باعث گزشتہ سترہ روزسے گاچی باری انسٹی
ٹیوٹ کے انتہائی نگہداشت کے وارڈمیں زیر علاج تھے ۔
اپنے افسانے ’’ دخمہ ‘‘ میں پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس نے ایک کردار
سہراب کی موت اور اس کی آخری رسومات کا ذکران الفاظ میں کیا ہے :
’’ اور آج اطلاع ملی کہ سہراب مر گیا ۔
مجھے بار بار یہی خیال آتاتھاکہ ’’ مے کدہ ‘‘کے بند ہو جانے کا اس پر بہت
اثر ہوا ہو گا۔اس لیے شاید وہ زیادہ جی نہ سکا ہو۔میں Guilty محسوس کر رہا
تھا۔اس کا اپنا کوئی نہ تھا۔دُور کے رشتے دار اور چند احباب تھے ۔
پارسی باہر آ رہے تھے۔سہراب کی بر ہنہ نعش کو دخمہ کی چھت پر چھوڑ دیا
گیاہوگا۔میں بار بار آسمان کی طرف دیکھنے لگا۔بہت سے پارسی بھی رُک گئے
تھے۔اگر گدھ نہ آ ئیں تو؟کیا سہراب کی نعش دُھوپ میں سُوکھتی رہے گی؟کاش
سہراب نے الکٹرک بھٹی کو ترجیح دی ہوتی میں سوچ رہاتھا۔
میں نے غیر ارادی طور پر آسمان کی طرف دیکھا۔مجھے بچپن کا وہ منظر دوبارہ
نظر آنے لگا۔گِدھوں کا ایک جھنڈتیزی سے دخمہ کی طرف آرہاتھا۔
پارسیوں کے چہرے خوشی سے کِھل اُٹھے بیس برس بعد یہ منظر لوٹاتھا۔
’’ پتا نہیں کہاں سے آئے ہیں ؟‘‘ وہ ایک دوسرے سے سوال کر ر ہے تھے ۔
’’اگرفرش پر چینی گِر جائے تو چیونٹیاں کہاں سے آتی ہیں ؟‘‘ کوئی میرے کان
میں پھسپھسایا ۔‘‘
موت کے بارے میں اکثر یہی کہاجاتا ہے کہ یہ ہمیشہ زندگی کے تعاقب میں رہتی
ہے۔ادب اور فنون لطیفہ سے وابستہ با کمال ہستیوں نے اپنی موت کی آہٹ سُن کر
بھی زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کی مقدور بھر سعی کی ۔تخلیق فن
کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اُتر جانے والے پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ
احساس جیسے متعدد زیرک تخلیق کاروں نے خونِ دِل دے کے گلشنِ ادب کو اس طرح
سیراب کیا کہ اس کے معجز نما اثر سے گلشن ادب میں گل ہائے رنگ رنگ سے سماں
بندھ گیا اور ان کی عطر بیزی سے قریہ ٔجاں معطر ہو گیا ۔ پروفیسر ڈاکٹر
محمد بیگ احساس اس تلخ حقیقت سے آگاہ تھے کہ مشعلِ زیست کے گُل ہونے کے
خطرات کو کسی طور بھی ٹالا نہیں جا سکتا لیکن خوف اوراندیشوں کے سم کے
مسموم اثرات سے گلو خلاصی ممکن ہے۔ اﷲ کریم نے اُنھیں مستحکم شخصیت سے
نوازا تھا اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ زندگی کے سفرمیں جب بھی کوئی موہوم ڈر
یا اضطراب سد راہ بنتا تو وہ اپنے پاؤں کی ٹھوکر سے اسے دُور کر دیتے اور
کبھی دِل میں ملال نہ آنے دیتے۔اُنھوں نے موت کو کبھی دل دہلا دینے والا
لرزہ خیز سانحہ نہیں سمجھابل کہ وہ جانتے تھے کہ رخشِ حیات مسلسل رو میں
ہے،انسان کا نہ توہاتھ اس کی باگ پر ہے اور نہ ہی پاؤں رکاب میں ہیں۔ کسی
بھی وقت اور کسی بھی مقام پر اس کی روانی تھم سکتی ہے۔اُن کے افسانوں کے
مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ واضح کر نا چاہتے تھے کہ ماحول کی
سفاکی کے باعث جب آہیں اور دعائیں اپنی تاثیر سے محروم ہوجائیں جائیں تو
زندگیاں بھی مختصر ہو جاتی ہیں۔گلزارِ ہست و بُودمیں سمے کے سم کے ثمر سے
ایسی فضا پیدا ہو جاتی ہے کہ نرگس کی حسرت کی صدائے باز گشت کرگس کی کریہہ
صورت میں دکھائی دیتی ہے اور بقا کی تمنا اپنی ہر اداسے فنا کے سیکڑوں
مناظر سے آشنا کرتی ہے ۔خزاں کے اس نوعیت کے بے شمار تکلیف دہ مناظر کو
دیکھنے کے بعد طلوعِ صبحِ بہارا ں کی اُمید وہم و گُماں اور سراب سی لگتی
ہے۔پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کے افسانوں میں نُدرت ،تنوع اور جدت پر
مبنی خیال آفرینی اور کردار نگاری قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے ۔کورانہ
تقلید سے اُنھیں سخت نفرت تھی اس لیے وہ خضر کا سودا چھوڑ کر اظہار و ابلاغ
کی نئی راہیں تلاش کرنے پر اصرار کرتے تھے ۔اُن کی تخلیقی تحریریں کلیشے کی
آلودگی سے پاک ہیں۔افسانوں کے دل کش ،حسین اور منفرد اسلوب میں ہرلحظہ نیا
طُور نئی برق ِتجلی کی کیفیت یہ ظاہر کرتی ہے کہ تخلیق ِفن میں اُن کا
مرحلہ ٔ شوق پیہم نئی منازل کی جانب روا ں دواں رہتا ہے ۔ مثال کے طوروہ
نئی کہانیوں ،نئی صورت حال ،نئے کرداروں اور موقع و محل کے مناسب ستعمال سے
اپنی تخلیقات کو گنجینہ ٔ معانی کا طلسم بنا دیتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں
بھنورکے بھید ،خیال کی جوت ،جھرنے کا ساز،کوئل کی کوک ،گیت کی لے ،وقت کی
نے اور خوابوں کے سرابوں جیسے تذکرے اورزندگی کی کم ما ئیگی کا احساس قاری
پر فکر و خیال کے متعدد نئے در وا کرتا چلا جاتا ہے۔وہ اچھی طرح جانتے تھے
کہ موت کی دیمک ہر فانی انسان کے تن کو چاٹ لیتی ہے۔وہ چشمِ تصور سے زندگی
کی راہوں میں ناچتی ،مسکراتی اور ہنستی گاتی موت کی اعصاب شکن صدا سُن کر
بھی دِ ل ِ برداشتہ نہیں ہوتے تھے بل کہ نہایت جرأت کے ساتھ اپنے افسانوں
کو تزکیہ ٔ نفس کا وسیلہ بنانے پر توجہ دیتے تھے ۔۔ حرفِ صداقت سے لبریزاُن
کے افسانے اُن کے وسیع تجربات ،مشاہدات ، داخلی کرب اور سچے جذبات کے آئینہ
دار ہیں ۔موت کی دستک سُن کرانھوں نے موت کے بارے میں جن چشم کشا صداقتوں
کا اظہار کیا ہے وہ زندگی کی حقیقی معنویت کو سمجھنے میں بے حد معاون ہیں۔ا
ُن کی تخلیقات کے مطالعہ کے بعدقاری کے لیے اپنے آنسو ضبط کرنا محال ہو
جاتا ہے۔اس حساس تخلیق کار کی دلی کیفیات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں جو موت
کی دستک زنی کے دوران بھی اپنے قلبی احساسات کوپیرایہ ٔاظہار عطا کرنے میں
پیہم مصروف رہا۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس نے اپنی تخلیقی فعالیت سے اردو ادب کی ثروت
میں بے پناہ اضافہ کیا ۔ معاشرتی زندگی میں افراد کے مذہبی ، ذاتی
،عمرانی،سیاسی، لسانی اور معاشی مسائل پر اُن کی گہری نظر تھی ۔ان کے
افسانوں میں صیاد کے مظالم اور صیدِزبوں کی حالتِ زار کا چشمِ تصور سے
مشاہدہ کر لیتاہے اور زندگی کے نشیب و فراز کا یہ حقیقی منظر نامہ پڑھ کر
قاری مسائلِ زیست سے آگاہی حاصل کر لیتاہے ۔ انھیں اس بات کا قلق تھا کہ
حرص وہوس کے بڑھتے ہوئے رجحان کے باعث افراد کی سوچ اور ادراک نے ایسی صورت
اختیار کر لی ہے کہ تعمیر میں بھی خرابی کی کوئی صورت سامنے آ ہی جاتی ہے ۔
اردو افسانے کے فرو غ کے سلسلے میں اُن کی خدمات تاریخ ِ ادب میں آب ِ زر
سے لکھی جائیں گی ۔ مخدوم محی الدین( ۱۹۰۸ء تا ۱۹۶۹ء) کی تصنیف ’’ بساطِ
رقص ‘‘ سال ۱۹۶۹ء ، جیلانی بانو اور گیان سنگھ شاطر ( ۱۹۹۷ء )کے بعدپر
وفیسر محمد بیگ احساس سر زمین حیدر آبادسے تعلق رکھنے والے چوتھے ادیب تھے
جنھیں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نواز اگیا۔
محمد بیگ احساس کے دادا اور پڑدادا مغل فوج میں ملازم تھے ۔ مطلق العنان
مغل بادشاہ اورنگ زیب نے جب ۱۶۸۷ء میں گول کنڈہ پر دھاوا بولا توپروفیسر
ڈاکٹر محمد بیگ احساس کے اسلاف بھی اس فوج میں شامل تھے ۔جب محمد بیگ احساس
کی عمر آٹھ برس تھی تو باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔
محمدبیگ احساس نے سال ۱۹۷۵ء میں عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد ( دکن ) سے بی
۔اے کی ڈگری حاصل کی او راسی جامعہ سے سال ۱۹۷۹ء میں ایم۔اے (اردو) کیا
۔حیدر آباد یونیورسٹی سے سال ۱۹۸۵ء میں پروفیسر گیان چند جین کی نگرانی میں
کرشن چندر پر پی ایچ۔ڈی کا مقالہ لکھ کر ڈگری حاصل کی ۔
پروفیسر ڈاکٹر محمدبیگ احساس نے اپنی عملی زندگی کا آغا ز تدریس سے کیا۔اس
کی تفصیل درج ذیل ہے :
لیکچرارعثمانیہ یونیورسٹی ( حیدر آباد دکن ) :۱۹۸۴ء ،ریڈرعثمانیہ یونیورسٹی
( حیدر آباد دکن )۱۹۹۲ء ،پروفیسر عثمانیہ یونیورسٹی ( حیدر آباد دکن )۲۰۰۰ء
،صدر شعبہ اُردو ، و ڈینعثمانیہ یونیورسٹی ( حیدر آباد دکن )سال ۲۰۰۰ء تا
سال ۲۰۰۶ء ،پروفیسر یونیورسٹی آف حیدر آباد ۲۰۰۶ء ،صدر شعبہ ٔ اُردو ،
مرکزی یونیورسٹی آ ف حیدرآباد ،سال ۲۰۰۷ء تا سال ۲۰۱۳ء
بھارت کی متعدد جامعات اور کالجز کی نصابی کمیٹیوں کے رکن کی حیثیت سے
انھیں شامل کیا گیا تھا۔انھوں نے دنیا کے کئی ممالک کا دورہ کیا جن میں
پاکستان (۱۹۸۹ء )،بر طانیہ ( ۲۰۰۵ء ) اور سعودی عرب ( ۲۰۰۸ء )شامل ہیں ۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس نے دنیا کے مختلف ممالک میں منعقد ہونے والے
متعدد اون لائن ادبی سیمینارز میں شرکت کی اور فروغِ علم و ادب کے سلسلے
میں گراں قدر خدمات انجام دیں ۔ افسانوں کی تخلیق کے سلسلے میں پروفیسر
ڈاکٹر محمد بیگ احساس نے تقلید کی روش سے بچ کر اپنے لیے ایک الگ راہ کا
انتخاب کیا ۔وہ کسی دبستان سے وابستہ نہیں تھے مگر اپنی ذات میں ایک انجمن
اور دبستان علم و ادب تھے ۔یہی وجہ ہے کہ اُن کی ذات ہی اُن کا اسلوب بن
گئی ۔ادب میں نئے تجربات کے وہ ہمیشہ حامی رہے،وہ سمجھتے تھے کہ نئے تجربات
سے یکسانیت کا خاتمہ ہوتاہے اور افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر جہان ِ تازہ
کی جانب سفر کے نئے امکانات سامنے آتے ہیں ۔سال ۱۹۳۶ء میں ترقی پسند تحریک
نے اردو افسانہ کو نئی جہات سے آ شناکیا ۔اس کے بعد جدیدیت نے نئے امکانات
کی جستجو پر توجہ دی ۔جدیدیت کے علم بردار ادیبوں کے تجربات سے افسانے سے
کہانی کی ساخت پر جو کوہِ ستم ٹوٹاپروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کو اس سے
اختلاف تھا۔افسانے میں کہانی کے عنصر کی موجودگی کو وہ وقت کا اہم ترین
تقاضا سمجھتے تھے اس موضوع پر وہ گوپی چند نارنگ ،وارث علوی اور مغنی تبسم
کے خیالات سے متفق تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے سال ۲۰۰۶ء ایک
اون لائن مذاکرے میں ناظرین کو بتایا :
’’ بعض صورتوں میں جدیدیت کا دائرہ کار تنقیداور شاعری سے تو مِل جاتاہے
مگر فن افسانہ نگاری جدیدیت کی دسترس سے باہر ہے ۔فن افسانہ نگاری میں
تمثیل اور علامت کے استعمال کے باوجود جدیدیت اپنے قدم نہیں جما سکی اور
گزشتہ صدی کی ستر کی دہائی میں جدیدیت کوئی بڑا افسانہ نگار سامنے نہ لاسکی
۔پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس نے اردو افسانے کے یک طرفہ رُوپ اور ابہام
کی کیفیات پر گرفت کی اور متعدد ایسے کثیر الجہت عناصر کو اپنے افسانوں میں
شامل کیاجن کے معجز نما اثر سے کہانی گنجینہ ٔ معانی کا ایساطلسم بن گئی جس
میں اسرار ِ کائنات اور معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز کے بارے میں چونکا
دینے والی کیفیات سے متعدد حقائق کی گرہ کشائی کی گئی ہے ۔موضوعاتی تنوع کا
دھنک رنگ منظر نامہ ان افسانوں کا امتیازی وصف قرار یا جاسکتاہے ۔‘‘
پروفیسر حاجی احمد طاہر ملک نے افسانوی مجموعہ ’’ دخمہ‘‘کے بارے میں گفتگو
کرتے ہوئے بتایا :
’’ ہندی ادب اور وید پر کامل دسترس نہ ہونے کے باوجود پروفیسر ڈاکٹر محمد
بیگ احساس نے اپنے کئی افسانوں میں ان موضوعات پر بات کی ہے ۔ دخمہ در اصل
پارسیوں کے شہر خموشاں کی لفظی مرقع نگاری پر مبنی ہے ۔اس میں مختلف واقعات
کو اس فنی مہارت اور راز داری سے مِلا دیا گیا ہے کہ کہیں بھی تصنع کاشائبہ
نہیں ہوتا۔اپنی کئی کہانیوں میں دیو مالائی عناصر کے بر محل استعمال سے
پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس نے اپنے جن افسانوں میں حیران کن انداز میں
زندگی کے تلخ حقائق کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے اُن میں ’’ نمی دانم ‘‘ ،
’’ دھار ‘‘ ،’’ رنگ کا سایہ ‘‘ اور ’’شکستہ پر ‘‘ شامل ہیں ۔مجھے یہ کہنے
میں کوئی تامل نہیں کہ افسانہ ’’ دخمہ ‘‘ کی پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس
کے لیے وہی اہمیت ہے جو سعادت حسن منٹو کے لیے ’’ ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘‘ ،غلام
عباس کے لیے ’’ آ نندی ‘‘ ،اشفاق احمد کے لیے ’’گڈریا‘‘ ،محمد حسن عسکر ی
کے لیے ’’ چائے کی پیالی ‘ ‘ عصمت چغتائی کے لیے ’’ لحاف ‘‘ اور پریم چند
کے لیے ’’ کفن ‘‘ کی ہے ۔یہ افسانے ان تخلیق کاروں کے منفرد اسلوب کی پہچان
بن گئے ہیں ۔‘‘
حیدر آباد میں کئی تہذیبوں اور ثقافتوں کا جو پر کشش اجتماع ہے آج تک کسی
نے اِس پر توجہ نہیں دی ۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس نے اپنے افسانوں
میں حیدر آباد کی تہذیبی و ثقافتی اہمیت کا اُجاگر کرنے کی مقدور بھر سعی
کی ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کے افسانوں کا مطالعہ کرنے سے یہ
گمان گزرتا ہے کہ انھوں نے تخلیق ِ فن کے لمحوں میں شعور کی ر و اور طلسمی
حقیقت نگاری سے اثرات قبول کیے ہیں ۔
تصنیف و تالیف
۱۔ خوشۂ گندم ( افسانوی مجموعہ )،زیر اہتمام انجمن معمارِ ادب ،حیدر آباد
،۱۹۷۹ء
۲۔حنظل ( افسانوی مجموعہ ) مکتبہ شعر و حکمت ،حیدر آباد ،۱۹۹۳ء
۳۔ کرشن چندر : شخصیت اور فن ( تحقیقی مقالہ ) ،مکتبہ شعر و حکمت ،حیدر
آباددکن ،۱۹۹۹ء
۴۔شور ِ جہاں ( تنقیدی مضامین )،مکتبہ شعر و حکمت ،حیدر آباددکن،۲۰۰۵ء
۵۔ہزار مشعل بہ کف ستارے ( انتخاب ) ۲۰۰۵ء
۶۔مرزا غالب ( تعلیم بالغاں ) ۲۰۰۴ء
۷۔بوجھ کیوں بنوں ( تعلیم بالغاں )۲۰۰۴ء
۸۔شاذتمکنت ( مونو گراف)،ساہتیہ اکادمی ،نئی دہلی ،۲۰۱۰ء
۹۔دکنی فرہنگ( بہ اشتراک ڈاکٹر ایم ۔کے ۔کول ) ۲۰۱۲ء
۱۰۔دخمہ ( افسانوی مجموعہ )،عرشیہ پبلی کیشنز،نئی دہلی ،۲۰۱۵ء ۔ اُن کے
افسانوی مجموعہ ’’ دخمہ ‘‘ کو سال ۲۰۱۷ء میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا
گیا۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کے منتخب افسانوں کا انگریزی ترجمہ ٹوٹن مکھر
جی نے Twlight of the Mind کے نام سے سال ۲۰۰۹ء میں کیا :
بائیس دسمبر ۱۹۷۵ء کو پروفیسر محمد بیگ احساس کی شادی ہوئی ۔اُن کے تین
بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں ۔
اعزازات
۱۔ بھارتیہ گیان پیٹھ ایوارڈ کمیٹی کے رکن ( ۲۰۱۵ء تا ۲۰۱۲ء )
۲۔اردو اکادمی تلنگانہ کی طرف سے پروفیسر محمد بیگ احساس کو مخدوم ایوارڈ
سے نواز ا گیا۔
۳۔پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کی شخصیت اور اسلوب پر بھارت کی اہم جامعات
میں ایم ۔فل اور پی ایچ ۔ڈی سطح کے متعدد تحقیقی مقالات لکھے گئے۔
۴۔ اردو زبان و ادب کے فروغ کے سلسلے میں ساہتیہ اکادمی کی مشاورتی کمیٹی
کے رکن کی حیثیت سے پروفیسر محمد بیگ احساس نے گرا ں قدر خدمات انجا م دیں۔
۵۔حیدر آباد لٹریری فورم کے معتمد اور صدر کی حیثیت سے پروفیسر محمد بیگ
احساس کی خدمات کا ایک عالم معترف ہے ۔
۶۔ انٹر نیٹ پر عالمی سطح پر مقبولیت اور پذیرائی حاصل کرنے و الے پروگرام
’’ باز گشت آن لائن ادبی فورم ‘‘ کے سر پرست کی حیثیت سیپروفیسر محمد بیگ
احساس نے ادبی جمود کے خاتمے کی مقدور بھر کوشش کی اور ڈاکٹر فیروز عالم
،ڈاکٹر گل رعنا اور ڈاکٹر حمیرہ سعیدسے مِل کر اُردو زبان کے کلاسیکی ادب
کی تشریح کا لائق صدرشک وتحسین سلسلہ شروع کیا۔
۷۔بھارت کی بڑی جامعات کے ایم۔اے ،ایم۔فل اور پی ایچ ۔ڈی کے نصاب میں
پروفیسر محمد بیگ احساس کے افسانے،ناول اور مضامین شامل ہیں۔
۸۔سعودی عرب کی ادبی تنظیم نے پروفیسر محمد بیگ احساس کے اعزاز میں ایک
تقریب کا انعقاد کیا اور ڈیجیٹل سوونئیر کا اجرا کیا ۔
۹۔ جن ممتاز ادبی مجلات ،اخبارات اور جرائد نے پروفیسر محمد بیگ احساس کی
علمی و ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے خصوصی اپنی اشاعتوں کا
اہتمام کیا اُن میں سب رس ،حیدر آباد ۲۰۰۲ء ،ماہ نامہ استعارہ دہلی ۲۰۰۳ء
او رماہ نامہ چہار سُو، راول پنڈی جون ۲۰۱۸ء شامل ہیں ۔
۱۰۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساسحیدر آباد سے شائع ہونے والے رجحان ساز
ادبی مجلہ ’’ سب رس ‘‘کے مدیر تھے ۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کے افسانوں کا مطالعہ کرنے سے قاری اس نتیجے
پر پہنچتاہے کہ معاشرتی زندگی پر بے حسی کا عفریت منڈلارہاہے ۔ مفاد پرست
،کینہ پرور اور افترا پسندوں کے مکر کی چالوں کے باعث معاشرتی زندگی سے
سکون عنقا ہو چکاہے ۔ قدرت ِکاملہ نے پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کو اس
پیدائشی اور جبلی صلاحیت سے متتمع کیا تھا کہ وہ اپنے اشہبِ قلم کی
جولانیاں دکھاتے وقت منفرد نوعیت کی جمالیاتی و اخلاقی جہات پر توجہ مرکوز
رکھتے جو جامد و ساکت پتھروں اور سنگلاخ چٹانوں سے بھی اپنی تاثیر کالوہا
منوا لیتی تھیں ۔سمے کے سم کا ثمر یہ ہے کہ اس بلا کا سکوت چھایاہے کہ کوئی
ٹس سے مس نہیں ہوتا۔زاغ و زغن اور بوم و شپر اور کرگسوں نے پورے ماحول کو
سُونا کر دیاہے ۔افسانوی مجموعہ ’’ دخمہ ‘‘ میں سکندر آباد میں واقع قدیم
پارسی شہر خموشاں کے گرد ونواح میں مقیم لوگوں کی زندگی کی عکاسی کی گئی
ہے۔ قلعۂ خا موشی کے اسیروں اور معاشرتی زندگی میں اقدار کی شکست و ریخت کے
ذمہ دار اپنے تئیں عوج بن عنق سمجھنے والے مسخروں کو شہر خموشاں کے قدیم
مینارِ سکوت کے بارے میں متنبہ کیا گیا ہے۔حیدر آباد کی زندگی کے داستان گو
کی حیثیت سے پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس نے سدا اِس جانب متوجہ کیا کہ پس
نو آبادیاتی دور میں معاشرتی زندگی میں بڑھتی ہوئی خود غرضی اور افراتفری
کے باعث زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات پر اب جان کنی کا عالم ہے
۔اُن بونوں نے جن کی فضول اوربے مقصد خرافات سے لوگ عاجز آ گئے تھے اب وہی
باون گزے بن بیٹھے ہیں اور اپنی لاف زنی سے ساد ہ لوح لوگوں پر عرصۂ حیات
تنگ کر رکھا ہے ۔اب تو یہ حال ہے کہ بڑے بڑے فن کار بھی پریشاں حال اور
خوار و زوبوں پھرتے ہیں مگر کوئی اُن کاپُرسانِ حال نہیں ۔ شہرِ سنگ دِل کے
ظالم و سفاک مکینوں نے ہاتھوں پر دستانے چڑھا رکھے ہیں ۔ دِل کے مقتل میں
بے بس و لاچار مظلوم انسانوں کی حسرتوں کا خون ہو جاتاہے مگر قاتل کا کہیں
سراغ نہیں ملتا ۔ اس طرح خونِ خاک نشیناں رِزقِ خاک ہو جاتاہے اور چُھپ کر
وار کرنے والے یہ سمجھ کر کہ حساب پاک ہوا چُپکے سے نیا جال لے کر شکار گاہ
میں پہنچ جاتے ہیں ۔اپنے افسانوں میں پروفیسر محمد بیگ احساس روزمرہ زندگی
کے معمولات اور عام نوعیت کے واقعات کو اس فنی مہارت سے زیبِ قرطاس کرتے کہ
قاری اش اش کر اُٹھتا۔
اکثر کہا جاتاہے کہ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں اکثر تخلیق کار انا کے
حصار سے باہر نہیں نکلتے ۔اس کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ وہ خود ستائی کے اسیر
ہو جاتے ہیں ۔ کسی بھی تخلیق کار کے اسلوب کا جائزہ لیتے وقت قاری وقت کے
متعدد نمونوں سے آ شنا ہوتاہے ۔لوگ جب ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں
تو یہ طرفہ تماشا دیکھنے والا ششدر رہ جاتاہے۔ گزشتہ چار عشروں پر محیط
پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کا افسانوی اسلوب زندگی کے ایسے
تجربات،مشاہدات ،واقعات اور حالات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ ہے جو سرابوں کے
عذابوں سے ناخوش و بیزا قار ی کوحوصلے اور اُمید کا پیغام دیتاہے ۔بیزار کن
ماحول سے پس پائی اور حوصلے اور امید کا دامن تھام کر بہتر مستقبل کی جانب
پیش قدمی کو وہ آ ئین ِ جواں مرداں قررار دیتے ہیں ۔سفاک ظلمتوں کے مسموم
ماحول سے بچ کر روشنی کے مانند سفر میں رہنا انھیں مرغوب ہے ۔ جبر کے ماحول
میں جب مظلوم انسان سانس گِن گِن کر زندگی کے د ِن پُورے کرنے پر مجبور ہے
پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس نے حوصلے اور اُمید کی مشعل تھام کر آگے
بڑھنے پر اصرارکیا ہے ۔دریا کو سدااپنی موج کی طغیانیوں سے غر ض ہوتی ہے
کسی کی ناؤ منجدھار میں پھنس کر ہچکولے کھانے لگتی ہے تو اِس کے باوجوددریا
کی تلاطم خیز موجیں اس سے بے تعلق رہتی ہیں۔ شعور اور شعوری وقت کا تعلق
موجوں کی اسی روانی سے ہے اور شورِ دریا انفرادی اور اجتماعی شعور کی پیہم
روانی سے عبارت ہے ۔پس نو آبادیاتی دور میں بھارت میں مقیم مسلمانوں کی
زندگی اور اُن کو درپیش مسائل کا احوال پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کے
افسانوں کا اہم موضوع ہے ۔پروفیسر مغنی تبسم نے جب مابعد جدید یت کے زیر ِ
اثر کئی مضامین لکھے ۔پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کے اسلوب کا بہ نظر
غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ انھوں نے
جدیدیت کی تحریک کے ردِ عمل میں کہانی پر زور دیا ۔ افسانو ی ادب کی تخلیق
میں انھوں نے علامات ،استعارات اور تجرید کے بجائے تکنیک کے تنوع پر انحصار
کیا اور اِسی کو زادِ راہ بنایا ۔جہاں تک افسانوی اسلوب اور فکشن کے فن کا
تعلق ہے پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کے افسانے فن کی نزاکت اورنفاست کے
ارفع معیار پر پورا اُترتے ہیں۔اُن کے افسانوں میں المیہ کا سحر قاری کو
اپنی گرفت میں لے لیتاہے اور مطالعہ کے دوران میں کئی مقامات پر قارئیں کی
آنکھیں بھیگ بھیگ جاتی ہیں ۔تخلیق فن کے لیے اپنے طے شدہ کڑے تنقیدی معیار
کو پیش نظر ر کھتے ہوئے انھوں نے جو بھی افسانے لکھے ان میں تنقیدی بصیرت
اور اسلوبیاتی قرینے کاجادو سر چڑھ کر بولتاہے۔اُن کا شمار ایسے افسانہ
نگارو ں میں ہوتاہے جواپنے اسلوب کے عصا سے آستین کے سانپوں کا سر کچل کر
آگے بڑھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں ۔
میں نے پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کی سر پرستی میں پیش کیا جانے والے
ادبی پروگرام ’’ باز گشت آن لائن ‘‘کی کئی اقساط دیکھی ہیں۔اس پروگرام کا
لنک مجھے شعر و سخن ویب سائٹ کے مہتمم محترم سردار علی نے کینیڈا سے ای۔میل
کے ذریعے ارسال کیا تھا۔جو ماہرین ِ لسانیات ان کے ساتھ مصروف عمل رہے اُن
میں ڈاکٹر گل رعنا ،ڈاکٹر فیروز عالم اور ڈاکٹر حمیرہ سعید کے نام قابل ذکر
ہیں ۔یہ سب پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کے فیضان ِ نظر کا اعجاز تھا کہ
یہ ماہرین لسانیات جب بولتے تو ان کے منھ سے پھول جھڑتے اور جس موضوع پر
بھی اظہارِ خیال کرتے اس سے متعلق تمام امور کا تفصیل سے تجزیہ کرتے تھے ۔
دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم ذوق سلیم سے متتمع اُردو داں خواتین و حضرات
کی بڑی تعدادباز گشت آن لائن کے پروگراموں میں شرکت کرتی تھی ۔ماہرین
لسانیات ناظرین کے سوالات کے جوابات دیتے اور فکر و خیال کے نئے دریچے وا
ہوتے چلے جاتے تھے ۔ اردو زبان کے کلاسیکی ادب بالخصوص دکنی ادبیات پر ’’
باز گشت آن لائن ‘‘ کے زیر اہتمام جو پروگرام پیش کیے گئے وہ ان ماہرین ِ
لسانیات کی ایسی فقید المثال کامرانی کی داستان ہے جس میں کوئی ان کا شریک
و سہیم نہیں۔ملا وجہی کی تصنیف ’’ سب رس ‘ ‘ سے اقتباس کی قرأت کرتے وقت
پروفیسر ڈاکٹر گل رعنا نے ایسا سماں باندھا کہ ناظرین نے چشم تصور سے ملا
وجہی کے عہد کے حالات اور اس دور کے باشندوں کے تکلم کے سلسلوں کاسب احوال
جان لیا۔اس کے بعدجب پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس نے اپنا صدارتی خطبہ دیا
تورفتہ رفتہ تمام گرہیں کھلتی چلی گئیں ۔ جھنگ میں مقیم ممتاز ماہرین
لسانیات پروفیسرحاجی محمد ریاض ، پروفیسراحمد بخش ناصر ، پروفیسر حاجی احمد
طاہر ملک ،پروفیسر شیخ ظہیر الدین اور پروفیسر فیض محمد خان نے تمام ادبی
نشستوں میں شرکت کی اور ان نابغہ ٔ روزگار ہستیوں کے خیالات سے مستفید ہوئے
۔پروفیسر حاجی احمد طاہر ملک کاگاؤں خوشاب کے شہرہڈالی کے نزدیک واقع ہے
۔اسی گاؤں میں مشہور ادیب خشونت سنگھ ( ۱۹۱۵ء ۔۲۰۱۴ء )نے جنم لیا۔ان
پروگراموں کے بارے میں پروفیسرحاجی احمد طاہر ملک نے کہا:
’’ الفاط کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنا پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کا
شیوہ نہیں ۔وہ کفایت شعاری سے الفاظ کو استعما ل کرتے ہیں اور تھوڑے سے
الفاظ استعمال کرکے بہت زیادہ مطالب و مفاہیم کی ادائیگی ممکن ہے۔‘‘
کوثر پروین نے پروگرام ’’ بازگشت آن لائن ‘‘کے شرکا اور اِس کے منتظمین کے
اسلوب کے متعلق اپنی رائے دیتے ہوئے کہا:
’’ میں نے روح اور قلب کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والا دکنی زبان کا
یہ مسحور کُن لب و لہجہ اس سے پہلے کبھی نہیں سنا۔رنگ ،خوشبو ،حُسن و خوبی
کے یہ سبھی استعارے پروفیسر ڈاکٹر گل رعنا اور ڈاکٹر حمیرہ سعید کے دم سے
ہیں جنھوں نے پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کی رہنمائی میں قطرے میں دجلہ
اور جزو میں کُل دکھا کر دکنی زبان و ادب پر اپنی خلاقانہ دسترس ثابت کر دی
ہے ۔‘‘
ادب میں توارد اور سرقہ پر وہ بہت محتاط رائے دیتے تھے ۔ اپنی عظیم الشان
ادبی زندگی میں انھوں نے قلم فروش اجلاف و ارذال اور چربہ ساز ،سارق اور
کفن دُزدسفہا کے خلاف قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا۔قرۃ العین حیدر (
۱۹۲۷۔۲۰۰۷) کی ۱۹۵۹ء کی تصنیف ’’ آ گ کا دریا ‘‘ اور ورجینا وولف (
۱۸۸۲۔۱۹۴۱)کی سال ۱۹۲۸ء میں شائع ہونے والی کتاب ’’ Orlando: A Biography
‘‘کے بارے میں انھوں نے اس امر کی صراحت کر دی ہے کہ بر گساں کے افکار سے
متاثر ہو کر شعور کی ر و کو متعددتخلیق کار وں نے اپنے فکر وفن کی اساس
بنایا ہے ۔جہاں تک قرۃ العین حیدر کا تعلق ہے اس کا ناول آگ کا دریا سیل
زماں کے تھپیڑوں کے بارے میں منفرد اندا زسامنے لاتاہے ۔اُردو ادب میں پرِ
زمانہ کے پرواز ِ نُور سے کہیں بڑھ کر بر ق رفتار ہونے اور زمانے کی رفتار
کے ساتھ ساتھ تخلیق کے معیار اور ساخت کی
تبدیلی کا یہ انداز اپنی مثال آپ ہے ۔ قرۃ العین حیدر اور ورجینا وولف کے
اسلوب کے متعلق پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس نے اپنے ذاتی تجربے کی بنا پر
لکھاہے :
’’ میں نے اپنی ایک سکالر ( جو انگریزی کی بھی ایم ۔اے تھی ) سے قرۃ العین
حیدر اور ورجینا وولف کے تقابلی مطالعے پر کام کروایا ۔دونوں میں بے پناہ
مماثلت ہے ۔حتیٰ کہ بعض اقتباسات تک حیرت انگیز طور پر ملتے ہیں ۔‘‘ مجلہ
چہار سُو راول پنڈی ،جلد ۲۷،شمارہ مئی، جون ۲۰۱۸ء ، ص۔ ۱۸)
پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کے اسلوب کے بارے میں یہی کہا جاسکتاہے ۔جس
طرح گلزارِ ہستی میں پیہم عنبر فشانی میں مصروف گلِ تر اپنی عطر بیزی کے
منابع سے ،ثمر ِ نورس اپنی حلاوت کے ذخیرے سے،بُور لدے چھتنار اپنی گھنی
چھاؤں کی اداؤ ں سے،دریا اپنی طغیانی سے ،حسنِ بے پروا اپنی حشر سامانی سے
،اُٹھتی جوانی اپنی طبع کی جولانی سے،سمندر اپنی گہرائی سے ،کلام ِ نرم و
نازک اپنی ہمہ گیر گرفت و گیرائی سے ، شعلہ اپنی تمازت سے ،گفتار اور رفتار
اپنے معیار اور نزاکت سے ،کردار اپنے وقار سے ،جذبات و احساسات مستقبل کے
خدشات اور اپنی بے کراں قوت و ہیبت سے ، نو خیز کونپلیں اپنی روئیدگی سے ،
سمے کا
سم کے اپنے ثمر سے ،قوتِ عشق اپنی نمو سے ، سادگی اپنے در پئے پندار حیلہ
جُو سے، گنبد نیلو فری کے نیچے طیور کی اُڑان گھات میں بیٹھے صیاد کی مچان
سے ،خلوص و دردمندی اپنی خُو سے ،حریت ِ ضمیر اپنے خمیر سے ،موثر تدبیر
سوچنے والے نوشتۂ تقدیر سے،ایثار و عجز و انکسار کی راہ اپنانے والے جذبۂ
بے اختیار کی پیکار سے ، حسن و رومان کی داستان جی کے زیاں سے ،جبر کی ہیبت
صبر کی قوت سے ،ظالم کی واہ مظلوم کی آہ سے ،چام کے دام چلانے والے مظلومو
ں کے ضمیر کی للکار سے اور تاریخ سے سبق نہ سیکھنے والے فراعنہ جاہ و حشمت
کے طومار سے وابستہ حقائق کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اسی طرح ایک تخلیق
کار کے قلزم ِ خیال کا پانی اس قدر گہرا ہوتا ہے کہ وہ زندگی بھر اس کی
غواصی کرنے کے باوجود تخلیقی عمل کے پس پردہ کا فرما محرکات کے تاب دار
موتی بر آمد کرنے سے قاصر ہے ۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کی وفات سے اردو زبان وا دب کو ناقابل تلافی
نقصان پہنچاہے ۔ ایک فطین دانش ور ،ماہر علم بشریات ،مفکراور فلسفی کی
حیثیت سے انھوں نے زبان کے تہذیبی و ثقافتی پہلووں کو ہمیشہ پیش ِ نظر
رکھا۔ انھوں نے ابلاغیات اور اردو ادبیات کو اس طرح مربوط کر دیا کہ نئے
لسانی تجربات کی راہ ہموار ہو گئی ۔اُن کی وفات سے جو خلا پیدا ہواہے صدیوں
تک اُس کے اثرات محسوس کیے جاتے رہیں گے ۔اس نابغۂ روزگار دانش ور نے اپنی
تخلیقی فعالیت سے اردو زبان و ادب کو عالمی ادبیات میں معززو مفتخر کر
دیا۔تنقید ،تحقیق ،ادبی صحافت اور افسانوی ادب کی تخلیق کے حوالے سے
پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کا نام افق علم و ادب پر تا ابد ضو فشاں رہے
گا۔
ہمارے بعد اب محفل میں افسانے بیاں ہوں گے
بہاریں ہم کو ڈھونڈیں گی نہ جانے ہم کہاں ہوں گے |