سکول بند، ڈریس کوڈ اور میری گلی!


سکول بند رہیں گے؛
ہم نے آج تک کرونا جیسی سیانی، سخت جان اور ضِدی بیماری نہیں دیکھی، جو سب کو چھوڑ کر صرف تعلیم کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ پنجاب بھر میں کنٹونمنٹ کے الیکشن ہو رہے ہیں، امیدوار حسبِ توفیق اپنے ووٹرز کا قُرب حاصل کرنے کے لئے اُن کے گلے لگتے ہیں،اُن کی کارنرمیٹنگ ہو یا انفرادی ووٹ مانگنے کی کارروائی، کرونا قریب نہیں پھٹکتی، الیکشن کے دن جیسی مرضی قطاریں بنائیں، مجال ہے جو کرونا نزدیک آجائے۔ نادرا کے باہر دیکھ لیں، سائلوں کا ہجوم۔ کچہریوں میں قانونی جنگ لڑنے والوں کا مجمع۔ ہوٹل آباد، کھانا اندر کھائیں یا باہر، اجازت ہے۔ بازاروں میں وہی بھِیڑ، دکانوں پر وہی رَش، تِل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی، سڑکوں پر وہی ہنگامہ، بیکریوں پر ، سموسوں کی ریڑھیوں پر، سوڈا واٹر کی دکانوں میں، کسی جگہ بھی کرونا کی جرات نہیں ہوتی کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ سکے۔ ہاں البتہ سکول اور تعلیمی ادارے ایسے مقاماتِ آہ و فغاں ہیں، جن کے گیٹ کے باہر ہی کرونا انتظار میں کھڑا رہتا ہے، جونہی ادارے کا گیٹ کھلتا ہے، کرونا اندر داخل ہو کر اپنی تباہ کاریوں کا آغاز کر دیتا ہے۔ ستم ملاحظہ فرمائیں کہ پورے معاشرے سے مایوس ہونے کے بعد جب کرونا تعلیمی اداروں کا رُخ کرتا ہے، تو اپنی تمام تر توانائیاں یہاں جھونک دیتا ہے۔ اور ستم بالائے ستم یہ کہ کرونا سے ہم تو بچوں کو جان سے جاتے ہوئے نہیں دیکھا، اگر ایسا حادثہ ہوا بھی ہوگا تو نہ ہونے کے برابر۔ یہاں حکومت کے ساتھ بہت سے والدین بھی ایسے ہیں، جن کا قول ہے کہ ہمیں بچوں کی زندگیاں عزیز ہیں۔ لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ آیا یہ کرونا سکول میں ہی ہوتا ہے، گھر اور گلی محلے میں نہیں؟ گنجان آباد اور غریب آبادیوں میں کیا
احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں؟

کرونا کے سکولوں پر ہی حملہ آور ہونے کے راز سے تو اپنے وزیر تعلیم مراد ہی کچھ بتا سکتے ہیں، اُن کے یقینا مشیر بھی ہوں گے، وہ اپنے سے بڑے کسی حکومتی عہدیدار کے سامنے جوابدہ بھی ہوں گے، یا قشاید اُن سے کوئی پوچھنے والا نہیں، کہ وہ والدین اور عوام کو مطمئن کر دیں کہ آخر کرونا سے بچاؤ کے لئے صرف سکول ہی کیوں بند کئے جاتے ہیں؟ بچوں کے وقت ضائع ہونے کی کہانی الگ ہے،عام اور چھوٹے نجی سکول مالکان کے مسائل الگ، والدین کے فیس نہ دینے کے جواز الگ۔ بے بسی کی گہری دلدل ہے، قوم تعلیم کی تباہی کو اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتے دیکھ رہی ہے، کر کچھ نہیں سکتی۔ سوشل میڈیا جہاں بہت سی مثبت باتیں سامنے لاتا ہے، وہاں بے جا تنقید اور کسی بھی اہم ایشو میں قوم کی تقسیم کا موجب بھی بنتا ہے۔ بچوں کا وقت ضائع ہونے کی بات ہوتی ہے، تو اُن کی زندگی کا سوال کھڑا کر دیا جاتا ہے،جبکہ سکولوں میں آدھے بچے آنے سے ’ایس او پیز‘ پر بہتر عمل درآمد ہو رہا ہوتا ہے۔ ان حالات میں کرونا ہی اپنے پروگرام میں کوئی تبدیلی لائے تو لائے، ورنہ تو اِس کے ہوتے ہوئے پورے ماحول کی سرگرمیاں جاری رہیں گی، سوائے سکولوں کے کھلنے کے۔

ڈریس کوڈ؛
گزشتہ دنوں بہاول وکٹوریہ ہسپتال کے نئے تعینات ہونے والے ایم ایس محمد یونس وڑائچ نے ایک ڈریس کوڈ جاری کیا تھا، جس کے مطابق ہسپتال میں ملازمت کرنے والی خواتین کے لئے جینز اور ٹائٹس پر پابندی لگائی گئی تھی، گہرا میک اپ بھی ممنوع قرار پایا تھا، بھاری زیور بھی منع تھے، پازیب، زیادہ چوڑیاں، گلے سے آگے اور پیچھے کپڑا کھلا نہ ہو اور بال بھی کھلے چھوڑنے سے منع کیا گیا تھا، مرد حضرات کو بھی جینز اور ٹی شرٹ پہننے سے منع کر دیا گیا تھا، بہت سے لوگوں نے تو اِس عمل کو سراہا، اور کچھ نے اسے شخصی آزادی سلب کرنے کے مترادف قرار دیا۔ تاہم میڈیا پر کچھ اس انداز سے اِس ’’ظلم اور استحصال ‘‘ کو اچھالا گیا کہ اوپر والوں کے ہاتھ پاؤں بھی کانپنے لگے اور اِس حکم نامے کی تنسیخ کا حکم جاری کرنا پڑا۔ ابھی یار لوگ اس ستم ظریفی پر افسوس ہی کر رہے تھے وفاقی حکومت نے اپنے تعلیمی اداروں کے لئے ’’ڈریس کوڈ‘‘ جاری کر دیا۔ وہ بھی تقریباً وہی کچھ تھا جو بی وی ایچ کے ایم ایس کی جانب سے جاری کیا گیا تھا۔ چونکہ وفاقی حکومت نے یہ اعلان کر دیا ہے، اس لئے پنجاب حکومت نے حسبِ روایت اور حسبِ ضرورت اپنے بڑوں کے نقشِ قدم پر چلنے کا عندیہ دیا ہے، یعنی یہی ’ڈریس کوڈ‘ اب پنجاب کے تعلیمی اداروں میں بھی جاری ہوگا۔ بی وی ایچ کے ایم ایس ہمت کریں، حکومت کے ساتھ ہی دوبارہ کوڈ جاری کرکے اپنا فرض ادا کردیں۔ اب حکومتی سطح پر اس کا فیصلہ ہوجانے کے بعد دیکھنا یہ ہے کون اس کی مخالفت کرتا ہے اور کون حکم واپس لیتا ہے؟

تعلیمی ادارے تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ تربیت کا فریضہ بھی سرانجام دیتے ہیں، یہاں کا ماحول مثالی ہی ہونا چاہیے، اگر سب کو آزادی مل جائے کہ وہ جس طرح کے چاہیں کپڑے پہن آئیں، تو ڈسپلن نامی چیز کا وجود ختم ہو جائے گا، یونیفارم، وقت کی پابندی، امتحانات اور اسی طرح کی سرگرمیاں ہی بچوں کو مفید شہری بنانے میں مدد دیتی ہیں، یہ ادارے کوئی فیشن شو نہیں ہیں۔ جس قسم کے لباس سے ڈریس کوڈ میں منع کیا گیا ہے، یہ سکولوں اور کالجوں میں خوش لباسی کے زمرے میں نہیں، فساد کا باعث ہے۔ اگریہ کہا جائے کہ لباس جیسا بھی ہو ، حیا انسان کی نگاہ میں ہونی چاہیے، تو یہ قول گہرا خوفِ خدا رکھنے والے کسی درویش کے لئے تو قابلِ عمل ہوسکتا ہے، دنیا دار، جس کے سامنے چست اور کسی حد تک نامکمل لباس پہن کر خواتین چھ گھنٹے تک موجود رہیں، اور اُس پر منفی اثرات مرتب نہ ہوں، یہ ممکن نہیں۔ یہ ڈریس کوڈ تمام تعلیمی اداروں بلکہ ایسے دفاتر میں بھی لاگو ہونا چاہیے جہاں مرد و خواتین کام کرتی ہیں۔

میری گلی، سب سے بھلی؛
بہاول پور میں صفائی کے زبردست ریکارڈ قائم کرنے والے ادارے بی ڈبلیو ایم سی اور گرین بہاول پور ٹیم نے بہاول پور آبادیوں کو خوبصورت بنانے کے لئے ’’میری گلی ، سب سے بھلی‘‘ کے عنوان سے ایک سکیم متعارف کروائی ہے، جس کے لئے ماڈل ٹاؤن بی کی ایک گلی کا انتخاب بھی کر لیا گیا ہے، رہائشیوں کو صفائی کے لئے قائل اور آگاہ کیا جائے گا، پودے مفت دیئے جائیں گے، ترتیب اور سلیقے سے گلی سجانے اور پودوں کی آبیاری وغیرہ کا اہتمام گلی والے کریں گے۔ ہماری خواہش اور دعا ہے، کہ شہر کی ہر گلی ’’سب سے بھلی‘‘ ہو جائے، صفائی کے ساتھ خوبصورت پودے اور خوش رنگ پھول خوشبوئیں بکھیر دیں،آمین۔
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 427791 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.