قارُون کے خزانے اور خزانے کے دیوانے !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالقصص ، اٰیت 76 تا 82 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ان
قارون کان
من قوم موسٰی
فبغٰی علیھم واٰتینٰه
من الکنوز مآان مفاتحه
لتنوا بالعصبة اولی القوة
اذ قال له قومه لاتفرح ان اللہ
لایحب الفرحین 76 وابتغ فیمااٰتٰک
اللہ الدارالاٰخرة ولا تنس نصیبک من الدنیا
واحسن کمااحسن اللہ الیک ولا تبغ الفساد فی
الارض ان للہ لایحب المفسدین 77 قال انما اوتیته
علٰی علم عندی اولم یعلم ان اللہ قد اھلک من قبله من
القرون من ھو اشد منه قوة واکثر جمعا ولایسئل عن ذنوبھم
المجرمون 78 فخرج علٰی قومهٖ فی زینتهٖ قال الذین یریدون الحیٰوة
الدنیا یٰلیت لنا مثل مآاوتی قارون انه لذوحظ عظیم 79 وقال الذین اوتوا
العلم ویلکم ثواب اللہ خیر لمن اٰمن وعمل صالحا ولایلقٰہا الّاالصٰبرون 80 فخسفنا
بهٖ وبداره الارض فماکان له من فئة ینصرونه من دون اللہ وماکان من المنتصرین 81 و
اصبح الذین تمنوامکانه بالامس یقولون ویکان اللہ ہبسط الرزق لمن یشاء من عبادهٖ ویقدر
لولا ان من اللہ علینا لخسف بنا ویکانه لایفلح الکٰفرون 82
ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہو چکی ھے کہ قارون قومِ مُوسٰی کا ایک غدار تھا جو قومِ مُوسٰی کو چھوڑ کر فرعون سے مل گیا تھا ، ھم نے اِس کو اتنے خزانے دے رکھے تھے کہ ایک طاقت ور جماعت اِس کے اِن خزانوں کی کلید برداری کیا کرتی تھی یہاں تک ایک بار اِس کی قوم کے کُچھ لوگوں نے اِس کو سمجھایا کہ تُو اپنے اِن خزانوں پر اتنا نہ پُھول جا کہ تُو اللہ کی پکڑ میں آجاۓ ، تُجھے معلوم ہونا چاہیۓ کہ اللہ شیخی خور لوگوں کو پسند نہیں کرتا اور اللہ نے تُجھے جو مال دیا ھے اِس مال میں سے تُو کُچھ مال راہِ للہ میں صرف کر کے اپنی آخرت کا بھی کُچھ سامان تیارکر اور تُو انسانوں کے ساتھ اسی طرح مہربانی کیا کر جس طرح اللہ نے تُجھ پر مہربانی کی ھے اور تُو اپنی اِس دولت کے بل بوتے پر اللہ کی زمین میں فتنہ و شر بھی نہ پھیلا کہ اللہ اپنی زمین میں مال دارِ خیر کار کو پسند کرتا ھے مال دارِ فتنہ کار کو پسند نہیں کرتا لیکن اُس بے دانش نے اپنی قوم کے اُن دانش مند لوگوں سے کہا کہ میرے پاس جو مال ھے وہ میں نے اپنے علم و ہنر سے حاصل و جمع کیا ھے کیونکہ وہ یہ بات بُھول گیا تھا کہ اُس سے پہلے بھی اللہ بہت سے اُن مالِ حرام جمع کرنے والوں کو ہلاک کر چکا ھے جو اِس سے زیادہ دولت رکھتے تھے اور اِس سے بڑی افرادی قوت کے مالک تھے اور اِس کی طرح اُن کا بھی یہی خیال تھا کہ جس کے پاس مال ہوتا ھے اُس سے اُس کے مالِ حرام و اعمالِ بے اِحترام کے بارے میں کوئی باز پرس نہیں ہوسکتی ، پھر ایک روز تو یہ بھی ہوا کہ جب قارون اپنی اس مالی و عالی شان کے ساتھ اپنی قوم کے درمیان آیا تو اُس کی قوم کے کُچھ مفلوک الحال لوگوں نے حسرت سے کہا اے کاش کہ ھمارے حصے میں بھی وہی جاہ و مال آیا ہوا ہوتا جو قارون کے حصے میں آیا ھے تو آج ھم بھی خوش حال ہوتے اور اُن کی اِس حسرت کو دیکھ کر اُن کی قوم کے دانش مند لوگوں نے اُن ترسے ہوۓ لوگوں سے کہا افسوس ھے تُمہاری اِس بے خبری پر کہ تُم اتنا بھی نہیں جانتے ہو کہ انسان کا ایک خیالِ خیر اُس کے اُس مالِ بے خیر سے کہیں زیادہ بہتر ہوتا ھے جو ایک انسان دُوسرے انسان کے لیۓ اپنے دل میں رکھتا ھے اور جو انسان اللہ کی ذات پر بھروسا کرکے صبر و صلاحیت کے ساتھ اپنے عزم و عمل کو جاری رکھتا ھے تو وہ اللہ کی مالی رحمت سے بھی ضرور مالا مال ہوتا ھے اور اللہ کی قلبی رحمت سے بھی محروم نہیں رہتا ، بالآخر قارون کو ھم نے اُس کی دولت کے اُس دولت خانے سمیت زمین میں دھنسا دیا جس دولت و دولت خانے سے وہ کم مایہ لوگو کو ڈرایا اور بے مایہ لوگوں کو ترسایا کرتا تھا اور اُس وقت اُس کا کوئی ایک بھی ایسا پرسانِ حال نہیں تھا جو اللہ کے مقابلے میں اُس کی مدد کو آتا اور وہ لوگ جو کَل تک قارون کی اِس قارونی دولت کی تمنا میں مرے جا رھے تھے آج وہ اِس بات پر خُدا کا شکر بجا لا رھے تھے کہ وہ قارون کی طرح خزانوں کے مالک نہیں تھے جو زمین کے پیٹ میں اُترجانے سے بال بال بچ گۓ ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قارون کی اُس اَندھی دولت مندی اور اُس اَندھی دولت سے پیدا ہونے والی اُس اَندھی خود پسندی کی یہ کہانی اُسی ایک زمانے کی ایک کہانی نہیں ھے جس ایک زمانے میں ایک قارون زمین پر موجُود تھا بلکہ یہ ہرگزرے ہوۓ زمانے ، ہر گزرتے ہوۓ زمانے اور ہر گزرنے والے زمانے کے بعد آنے والے ہر ایک زمانے کے اُس غیر منصفانہ نظام کی ایک ختم نہ ہونے والی ایسی کہانی ھے جس کو ہر نۓ زمانے کے ہر نۓ موڑ پر نۓ سے نۓ قارونی کردار ملتے رھے ہیں اور مل رھے ہیں ، بقول شخصے کہ ؏

یہ طُور وہی یہ نیل وہی

تاریخ کی ھے تَمثیل وہی

تَمہید وہی تَکمیل وہی

کردار وہی ہیں نام جُدا

قارون کی یہ قارونی کہانی ایک نا معلوم زمانے سے زمین پر چل رہی ھے اور اُس نامعلوم زمانے تک زمین پر چلتی رھے گی جب تک کہ اِس زمین کے بگڑے ہوۓ زمین دار اور اِس زمین کے بگڑے سرمایہ دار کو زمین میں زندہ گاڑ دینے کے بعد زمین کے وسائل پر تمام اہلِ زمین کا مُشترکہ حقِ استعمال تسلیم نہیں کیا جاۓ گا اور جب تک زمین کے تمام وسائل کو اَقوامِ عالم کے درمیان برابر تقسیم نہیں کیا جاۓ گا ، زمین میں وسائلِ زمین کی تَخلیق اللہ تعالٰی کا کام ھے لیکن زمین پر وسائلِ زمین کی تقسیم انسان کا اپنا کام ھے ، اگر زمین کے وسائل کی تخلیق کے بعد وسائلِ زمین کی تقسیم بھی اللہ نے خود کرنی ہوتی تو عھدِ فرعون کے بعد وسائل کی ابتدائی تقسیم عھدِ مُوسٰی میں کردی جاتی ، عھدِ مُوسٰی کے بعد اِس کی وسطی تقسیم عھدِ مسیح میں کردی جاتی اور عھدِ مسیح کے بعد اِس کی حتمی تقسیم عھدِ محمد علیہ السلام میں ضرور کردی جاتی لیکن تقسیم کا یہ کام چونکہ انسان کا اپنا کام ھے اِس لیۓ قُدرت نے یہ کام انسان کی عقل و دانش پر چھوڑا ہوا ھے تاہم اِس اَمر میں بھی شُبہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ھے کہ اگر فرعون کی تباہی کے بعد مُوسٰی علیہ السلام کی ساری قوم چالیس برس تک جنگلوں ، ویرانوں اور بیابانوں میں نہ بہٹکتی رہتی اور عھدِ مسیح علیہ السلام میں وہی بہکی اور بہٹکی ہوئی قوم مسیح علیہ السلام کو مارنے کی کوششوں کے بجاۓ اپنی حرص و ہوس کو مارنے کی کُچھ کوشش کر لیتی اور عھدِ محمد علیہ السلام میں اپنے قدیم سازشی ذہن کی سازشوں سے باز آجاتی تو نبوت کے اِن تین زمانوں میں وسائلِ زمین کے اہلِ زمین کے درمیان تقسیم ہونے کی کوئی نہ کوئی صورت ضرور پیدا ہو جاتی یا کم از کم سرمایہ دارانہ و جاگیر دارانہ نظام پر ایک ایسی فیصلہ کُن ضرب تو بہر حال لَگ ہی لگ جاتی جو کسی حد تک اِن کی کمر توڑ دیتی لیکن نبوت کے اِن تینوں قابلِ ذکر اَدوار میں سرمایہ دار و جاگیر دار نے نہ صرف یہ کہ اپنی ہمت نہیں ہاری ھے بلکہ اُس پر مُستزاد یہ بھی کہ اُس نے ہر زمانے کی معاشی اصلاحات کے سامنے اپنی سازشوں کا ایک بند باندھ کر رکھا ھے جس کے باعث ہر زمانے میں ہر زمین پر ہر پہلے قارون کے بعد جو بھی دُوسرا قارون آیا ھے وہ پہلے ہر قارون سے ایک بڑا قارون بن کر آیا ھے اور دُوسری جنگِ عظیم کے بعد قارون کا وہ انفرادی عھدہ مغربی اقوام نے اجتماعی طور پر سنبھال لیا ھے ، جب سے اَب تک یہ اقوام قارون کے اُسی قدیم قارونی نظام کے تحت زمین کے ہر خطے کے سارے وسائل کو مُسلسل اپنی طرف کھینچ رہی ہیں اور زمین کے چند قارونی حصوں کے سوا زمین کا بیشتر حصہ بالعموم اور زمین کی مُسلم آبادی کا رقبہ بالخصوص غربت و افلاس کے اُس آتشیں جہنم میں جلتا رہا ھے اور جل رہا ھے جس سے تب تک نجات کوئی صورت پیدا نہیں ہوسکے گی جب تک کہ انسان قُرآن کے مُحکمانہ اَحکام کے تحت وسائلِ تقسیمِ زمین کا وہ مُنصفانہ فیصلہ نہیں کرے گا جس کا نام عدلِ اجتماعی ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558084 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More