سنہری یادیں، روپہلی یادیں

پورے پچاس سال گزر گئے، یہی دن تھے جب میں نے اسلام آباد یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا۔اس وقت میری عمر بیس سال تھی، نوجوانی کا زمانہ ، شاید زندگی کا خوبصورت تریں دور۔ اب ستر سال کی عمر میں عالم یہ ہے کہ بعض اوقات خود کو بھی آدمی بھول جاتا ہے۔ لیکن نوجوانی کا وہ خوبصورت دور بھلائے بھی نہیں بھولتا۔ آلام زمانی سے قدرے بے فکری ، جوانی کا خماراور ہر چیز سے بے پروائی، بڑا یادگار دور تھا۔ میں اب بھی کبھی کبھی آنکھیں بند کر کے اس دور کی مسرتوں میں کھو جاتا ہوں، اس عمل میں اس قدر چاشنی ہے کہ جس کا کوئی بدل نہیں۔لکھنا میری عادت ہے اور اسلام آباد یونیورسٹی میری محبت، میری چاہت، گو اب اس کا نام بدل کر قائد اعظم یونیورسٹی ہو چکالیکن میرے اندر وہی اسلام آباد یو نیورسٹی ہنستی بستی ہے۔کبھی کبھی میں اپنی وہ سنہری یادیں، روپہلی یادیں دوستوں میں بھی بانٹتا ہوں کہ محبت بانٹنے سے سوا ہو جاتی ہے۔ان پچاس سالوں میں حالات اور چیزیں اس قدر تبدیل ہوئی ہیں کہ پہچان مشکل ہو گئی ہے مگر پھر بھی جو یاد ہے اور جتنا یاد ہے پوری دیانت سے ایک امانت سمجھ کر دوستوں کی نذر کرتا ہوں۔

حال ہی میں ایک دوست کی تحریر نظر سے گزری، وہ کہتے ہیں کہ میری (تنویر صادق) کی ایک تحریر ان کی نظر سے گزری ، جو قائد اعظم یونیورسٹی کے بارے میں تھی، اس تحریر کے بارے میں چند چیزوں کی تصحیح کرنا ضروری ہے۔
1 ۔ یونیورسٹی 1966 میں شروع ہوئی تھی 1967 میں نہیں۔میری اپنی رجسٹریشن دسمبر 1966 کی تھی۔
2 ۔ یونیورسٹی سیکستھ روڈ پر نہیں بلکہ ہولی فیملی کے سامنے E بلاک میں تھی۔
3 ۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے طلباء کے ہوسٹل علیحدہ علیحدہ نہیں تھے۔یہ بات حالانکہ میرے علم میں تھی لیکن پھر بھی لکھنے سے پہلے میں نے اس کی تصدیق یونیورسٹی کے ایک معتبر صاحب سے کی جو کہ 1966 سے یونیورسٹی ایڈمنسٹریشن کے ممبر رہے۔

میرے یہ بہت ہی محترم دوست نے جو سوالات کئے ہیں بہت دلچسپ ہیں ان کا جواب بھی ضروری ہے۔ کہتے ہیں کہ آپ نے جو بات سنی ہو وہ آپ کو اس وقت تیس فیصد یاد رہتی ہے اور وقت کے ساتھ بھولتی جاتی ہے مگر وہ بات جو آپ نے خود کی ہو وہ اسی فیصد ہر صورت یاد رہتی ہے۔ میں نے جو لکھا اس سے خود گزرا ہوں اور ایسی چیزیں مجھے سو فیصد یاد ہیں۔ سنی سنائی ہوتی تواس میں کچھ فرق آ سکتا تھا۔

پہلے نمبر پر آپ کہتے ہیں کہ یونیورسٹی 1966 میں شروع ہوئی تھی 1967 میں نہیں اور آپ کی رجسٹریشن بھی دسمبر 1966 میں ہوئی تھی تو بات یہ ہے کہ یونیورسٹی ایک ایکٹ کے تحت معرض وجود میں آئی تھی اور وہ ایکٹ جولائی 1967 میں اسمبلی نے پاس کیا تھا۔یونیورسٹی یقیناً اس کے بعد وجود میں آئی۔آپ کا 1966 میں رجسٹریشن کا مسئلہ، مجھے سمجھ نہیں آ سکا۔ پہلے بھی ایسے ہی ایک مسئلے کے حل میں میں بہت پریشان ہوں، ایک دوست نے پوچھا ہے کہ پہلے مرغی آئی کہ انڈہ، آپ کی رجسٹریشن بھی ایسا ہی گہرا مسئلہ ہے،سوچیں پہلے یونیورسٹی آئی کہ آپ کی رجسٹریشن، چلیں یک نہ شد دو شد، آئیں مل کر یہ دونوں مسئلے کو حل کرتے ہیں۔ ویسے یونیورسٹی میں1970 سی پہلے تمام داخلے پی ایچ ڈی کے لئے ہوئے۔ میں جب 1971 میں یونیورسٹی آیا تو میرے دو استاد جناب ڈاکٹر منور مرحوم جو ہمیں مکینکس (Mechanics) اور جناب ڈاکٹر اختر انصاری جو ہمیں (Mathematical Statistics) پڑھاتے تھے اسلام یونیورسٹی ہی کے پی ایچ ڈی تھے۔آ پ1966 میں اگر رجسٹر ہوئے ، کہاں ہوئے یہ علیحدہ بحث ہے، تو آپ اس وقت اسی (80) سے زیادہ کے ہو ں گے میں ستر سال کا ہوں ۔ مجھے ابھی سے عجیب عجیب خواب دکھائی دینے لگے ہیں آپ کی عمر میں تو سب جائز ہے۔

1971 میں جب میں نے یونیورسٹی جائن کی تو یونیورسٹی ایک یونٹ کی صورت نہیں تھی۔ میرا ہوسٹل 464-D سکستھ روڈ پر تھا۔ قریب ہی کچھ فاصلے پر ہمارا ڈیپاٹمنٹ تھا۔ ہولی فیملی کے قریب ایڈمنسٹیشن اور شاید فزکس ڈیپاٹمنٹ تھے۔ کیمسٹری کہیں اور تھا۔ اکنامکس سب سے ہٹ کر کسی گلی میں تھا۔ ایک مہینے کے اپنے وہاں قیام کے دوران ہم ہوسٹل اور میتھ ڈیپارٹمنٹ کے علاوہ کچھ جان نہیں پائے۔میں نے جب بھی ذکر کیا ہے اسی حد تک کیا ہے جس حد تک میں پورا واقف ہوں۔سنی سنائی پر تو کوئی کچھ بھی کہہ سکتا ہے ۔مجھے ڈر ہے کہ اگلے چند سالوں میں میرا کوئی بھائی ایک نیا دعویٰ لے کر سامنے آئے گا کہ اسمبلی کا ایکٹ ایسے ہی افواہ ہے ۔ اس نے خود یونیورسٹی کو ہولی فیملی کی گائنی وارڈ میں پیدا ہوتے دیکھا ہے اور اس وقت اس نے زچہ اور بچہ کی خیریت بھی دریافت کی تھی۔گواہی کے لئے معتبر تلاش کرنا نہیں پڑتا کئی خدائی خدمت گزار ہمہ وقت اس کے لئے تیار ہوتے ہیں۔

ہمارے داخلے کے وقت کل چار ڈیپارٹمنٹ تھے۔ فزکس، کیمسٹری ، اکنامکس اور میتھ۔ فزکس اور اکنامکس کے طلبا ایک ہوسٹل میں تھے اور کیمسٹری اور میتھ کے دوسرے ہوسٹل میں۔ میتھ کا سٹوڈنٹ ہونے کے ناطے میں دوسرے ہوسٹل میں تھا۔ وہ ہوسٹل بنگالی طلبا کے لئے مخصوص تھا اور وہاں کا سارا سٹاف بھی بنگالی تھا۔ منان بھائی وہاں کے خانساماں تھے۔ انہوں نے ہمیں وہاں ایسے ایسے بنگالی کھانے کھلائے کہ اگر ہم ایک مہینہ اور وہاں رہ جاتے تو کافی حد تک بنگالی ہی ہو جاتے۔ آج بھی ہم اس ہوسٹل میں ٹھہرنے والے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں تو منان بھائی اور ان کے بنائے ہوئے کھانوں کوضرور یاد کرتے ہیں۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 442982 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More