پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کاافسانہ ’’ دھار ‘‘ ایک مطالعہ


پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کے افسانے ’’ دھار ‘‘ میں پس نو آبادیاتی دور میں بھارت میں مقیم مسلمانوں کے سلسلۂ روز وشب کی لفظی مرقع نگاری کی گئی ہے ۔ کہانی میں ایک ایسے مسلمان ریٹائرڈسرکاری ملازم کا بیان ہے جس کاچودہ برس کی عمر سے ہر روز صبح آ ٹھ بجے شیو بنانا اس کا معمول تھا۔ اس کے بر عکس بوڑھے کا نو جوان بیٹا اپنے باپ کی مرضی کے خلاف اپنی ڈاڑھی بڑھا لیتاہے۔ ایک صبح بوڑھے کو اپنی شیونگ سیٹ مقررہ جگہ پر نہ ملاتو گھر میں ہر جگہ ڈُھنڈیاپڑ گئی مگر شیونگ سیٹ کا اتاپتا کسی کو معلوم نہ ہو سکا۔ یہ کہانی نو آبادیاتی دور میں حیدر آباد ( دکن)کے مکین ایک ایسے ریٹائرڈ مسلمان کے مزاج کی عکاسی کرتی ہے جو تقسیم ہند کے موقع پر بھارت ہی میں قیام کا فیصلہ کرتاہے اور پاکستان ہجرت نہیں کرتا۔افسانہ نگار نے نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد پس نو آبادیاتی دور کے حالات پر حقیقت پسندانہ انداز میں اپنے تاثرات لکھے ہیں:
’’ جب ملک تقسیم ہوا اس وقت وہ جوان تھا۔ہر شخص بھا گ رہاتھا،تحفظ کے لیے ،بہتر مستقبل کے لیے ،مفت میں جائیداد حاصل کرنے کے لیے ۔پاسپورٹ کی بھی ضرورت نہیں تھی ،بس سر حد پار کرنا تھا۔اُس کی ماں کا اصرار تھا کہ وہ اُدھر چلے جائیں لیکن وہ یہیں رہنا چاہتاتھا،اپنے ملک میں ۔ جب بھی فسادات ہوتے اُس کی ماں اُس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتی لیکن اُسے کوئی شرمندگی نہیں ہوتی ۔اُس کے اپنے خواب تھے ،انسانیت پر بھروسہ تھا۔جہالت دُور ہوگی لوگوں کو شعور آئے گاتو سب ٹھیک ہوجائے گا۔یہ سب مذہبی جنون ہے ۔ اُدھر بھی بہت چین اور سکون نہیں تھا۔‘‘
( بیگ احساس : افسانہ، دھار ، مشمولہ دخمہ ، صفحہ ، ۹۷ )
اس افسانے میں نئی نسل اور بزرگوں میں پائے جانے والے فکری اختلاف اور ذہنی ہم آ ہنگی کے فقدان کی نشان دہی کی گئی ہے ۔ اپنی ڈارھی بڑھا لینے کی وجہ سے بوڑھے شخص کا نوجوان بیٹاشکل و صورت سے مولوی دکھائی دیتاتھا۔بوڑھے شخص کا نو جوان بیٹا روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک چلا جاتاہے۔ہوس ِ زر کے بڑھتے ہوئے رجحان کے زیرِ اثر نوجوان نسل سات سمندر پار جانے کے لیے ہر وقت کمر بستہ نظر آ تی ہے ۔اس سوچ کے بارے میں پروفیسرڈا کٹر محمد بیگ احساس نے لکھا ہے :
’’ صارفیت کے طوفان میں سب بہہ رہے ہیں،زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کے لیے آدمی دُنیا کے کسی بھی کونے میں جانے کے لیے تیارہے ۔‘‘ ( افسانہ دھار ، مشمولہ، دخمہ ،صفحہ ۹۶)
ریٹائرڈ ملازم کا نو جوان بیٹا زر ِ کثیر خرچ کرکے بیروں مُلک روانہ ہو جاتاہے مگر وہا ں ڈاڑھی کی وجہ سے یورپ کی متعصب ایجنسیوں نے اُسے دھرلیا ۔ مغربی ممالک کے سفر میں اس کی ڈاڑھی اس کے عزائم کی راہ میں سدسکندری بن کر حائل ہو گئی ۔ نوجوا ن لڑکے نے اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک اور شقاوت آمیز ناانصافی کی و جہ یہ بتائی:
’ ’ اُن کاخیال ہے میری شکل بین الاقوامی دہشت گرد سے ملتی ہے ۔‘‘ ( بیگ احساس : افسانہ، دھار ، مشمولہ دخمہ ، صفحہ ، ۱۰۲ )
اس فرضی مشابہت اور موہوم اندیشوں کی بنا پر دیار مغرب کے مقتدر حلقوں کے اشارے پر چھان بین پر مامور سرکار ی عملے کے حکم پر نوجوان لڑکے کو واپس بھیج دیا جاتاہے ۔اپنے نو جوان بیٹے کے بے نیلِ مرام لوٹنے سے بوڑھا شخص بہت شخص بہت پریشان ہوتاہے اور وہ شیو بھی نہیں کرتا۔
ابھی وہ نیا شیونگ سیٹ خریدنے کے بارے میں سوچ رہاتھا کہ اس کا بیٹااس کے پاس آ یا اور شیونگ سیٹ واپس کرتے ہوئے کہا:
’’ نیا پاسپورٹ بنواؤں گا کلین شیوتصویر کے ساتھ ۔‘‘ ( بیگ احساس : افسانہ، دھار ، مشمولہ دخمہ ، صفحہ ، ۱۰۴ )
اپنے حقیقت پسندانہ اسلوب میں پروفیسرڈا کٹر محمد بیگ احساس نے مشرق و مغرب، سیاہ و سفید،شہری و دیہاتی،حاکم و محکوم ،ظالم و مظلوم،دیہات و قصبات،مضافات و نو آبادیات اور بڑے شہروں کی تہذیب،ثقافت اور معاشرت سے متعلق تلخ حقائق کو نہایت جرأت کے ساتھ زیبِ قرطاس کیا ہے ۔اُن کی دلی تمنا تھی کہ معاشرتی زندگی سے فرسودہ اور دقیانوسی تصورات کو بیخ و بن سے اُکھاڑپھینکنے میں تخلیق کار اپنا کردار ادا کریں۔ پروفیسر کٹر محمد بیگ احساس نے کسی مصلحت کی کبھی پروا نہیں کی اور جو فروش گندم نما استحصالی عناصر نے اپنے مکر کی چالوں ،عیاری اور خوشامد سے اپنا اُلو سیدھا کرنے اور دیار ِ مشرق کی پس ماندہ اقوام کو اپنا تابع بنانے کی جو روش اپنا رکھی ہے،اُسے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ایک حساس اور مخلص انسان کی حیثیت سے پروفیسرڈا کٹر محمد بیگ احساس نے اہلِ مغرب کی مسلط کردہ مصنوعی جکڑ بندیوں ،بے جا قدغنوں اور نا روا امتیازی سلوک پر اپنے رنج و غم اور کرب کا بر ملا اظہار کیااس کا پردہ فاش کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ۔مشرق کے مکینوں کو مغربی ممالک کے جابرانہ، گروہی اور متعصب ماحول سے نجات دلانے کے سلسلے میں پروفیسرڈا کٹر محمد بیگ احساس نے قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ رنگ اور نسل پرستی کی مظہر ان دو تہذیبوں میں جو بُعد المشرقین پایا جاتا ہے اس کے سمٹنے کے امکانات عنقا ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کی علمی ،ادبی اور تحقیقی خدمات کے بار احسان سے عالمی ادب کے طالب علموں بالخصوص اردو داں طبقے کی گردن ہمیشہ خم رہے گی۔ اُن کی وقیع تصانیف کی مقبولیت اور افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ ان معرکہ آرا تصانیف کے دنیا کی کئی زبانوں میں تراجم کیے گئے۔تخلیقِ فن کے لمحات میں پروفیسر ڈا کٹر محمد بیگ احساس نے خون بن کر رگِ سنگ میں اُترنے کی جو سعی کی ہے اس کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے ۔اُن کے اسلوب اور ڈسکورس کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ اُنھیں مانوس،مروّج و مقبول خیالات کی کورانہ تقلید سے شدید نفرت تھی اور ان سے مرعوب ہونے کے بجائے انھوں نے مخفی اور نامانوس تلخ حقائق کے احساس و ادراک پر زور دیا جو مغرب کے مفاد پرست استحصالی عناصر اور استبدادی طاقتوں کی اُڑائی ہوئی گَرد میں نہاں ہوتے چلے گئے ہیں۔ پروفیسر ڈا کٹر محمد بیگ احساس کا اسلوب زندگی بھر مائل بہ ارتقا رہا اور اپنے فنی سفر میں اُنھوں نے خوب سے خوب تر کی جانب پیش قدمی جاری رکھی۔ عہدِ جوانی میں کلیشے کے مظہر مروّج نظریات کے انکار اور استردا دکو شعار بنانے والے اس جری تخلیق کار کے اسلوب میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نکھار آتا چلا گیا لیکن ایک بات حیران کن ہے کہ آخری عمر میں بھی اُن کی تحریروں میں رجائیت کا غلبہ نظرآتاہے ۔
’’ اُس کا خیال تھاتمام مذہب انسانوں کے لیے آئے ہیں ،انسانوں سے نفرت کے لیے نہیں۔‘‘ ( بیگ احساس : افسانہ دھار ، مشمولہ دخمہ ، عرشیہ پبلی کیشنز،دہلی، ۲۰۱۵ء، صفحہ ۹۶)
’’ اُس کے اپنے خواب تھے ،انسانیت پر بھروسہ تھا۔جہالت دُور ہو گی لوگوں کو شعو ر آئے گا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘( افسانہ دھار ، مشمولہ ،دخمہ ،صفحہ۹۷)
’’ جو قومیں کم زور پڑ جاتی ہیں اُنھیں سلمس میں دھکیل دیا جاتاہے ۔‘‘ ( افسانہ، دھار ، مشمولہ ،دخمہ ،صفحہ۹۹)
’’ پہلے جو تعیش کی چیزیں کہلاتی تھیں اب وہ ضرورت بن گئی ہیں جس کے لیے پیسہ چاہیے ۔‘‘ ( افسانہ، دھار ، مشمولہ ، دخمہ ،صفحہ۱۰۱)
دوسری عالمی جنگ ( 1939-1945) کے اختتام پر دنیا کے تمام ممالک میں عوام کے فکر و نظر کی کایا پلٹ گئی محکوم اقوام کا لہو سوزِ یقیں سے گرمانے والے قائدین نے ممولے کو عقاب سے لڑنے کا ولولہ عطا کیا ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سامراجی طاقتوں کو اپنا بوریا بستر لپیٹ کر اپنی نو آبادیات سے بادِلِ نا خواستہ کُو چ نا پڑا ۔ وقت کے اس ستم کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ جاتے جاتے سامراجی طاقتوں نے اپنے مکر کی چالوں سے یہاں فتنہ و فساد اور خوف و دہشت کی فضا پیدا کر دی ۔اس کے بعد گیارہ ستمبر 2001ء امریکہ میں ہونے والے حملوں میں 2750افراد لقمۂ اجل بن گئے۔امریکہ نے ان حملوں کی ذمہ داری القاعدہ پر ڈال دی اور افغانستان پر دھاوا بول دیا۔بیس سال تک افغانستان میں قیام کے باوجود امریکی افواج کو منھ کی کھانا پڑی اور سال 2021ء میں یہاں سے اپنا بوریابستر لپیٹناپڑا ۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کا خیال تھا کہ ساتا روہن اور گُرگ منش شکاری ہمیشہ نئے جال تیار کرتے رہتے ہیں ،زنجیریں بدلتی رہتی ہیں مگر الم نصیبوں کے روز و شب کے بدلنے کے امکانات معدوم دکھائی دیتے ہیں۔انھوں نے یہ بات ہمیشہ زور دے کر کہی کہ جب تک کسی قوم کے افراد احتسابِ ذات پر توجہ مرکوز نہیں کرتے اور حریتِ ضمیر سے جینے کی راہ نہیں اپناتے اس وقت تک اُن کی قسمت نہیں بد ل سکتی۔حریتِ فکر و عمل اور حریتِ ضمیر سے جینے کی روش وہ زادِ راہ ہے جو زمانۂ حال کو سنوارنے ،مستقبل کی پیش بینی اور لوح ِ جہاں پر اپنا دوام ثبت کرنے کا وسیلہ ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس ایک مر نجان ومرنج انسان تھے اور کسی کی دل شکنی و دِل آزاری سے اُسے کوئی غرض نہ تھی ۔ پس نو آبادیاتی دور میں ہوسِ زر نے ایک بحرانی کیفیت اختیار کر لی ہے ۔ان اعصاب شکن حالات میں سیرت و کردار کی تعمیر وقت کا اہم ترین تقاضا سمجھا جاتا ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس نے اس جانب متوجہ کیا کہ ہر فرد کو اپنی ملت کی تقدیر سنوارنے میں اہم کردار کرنا پڑے گا۔ایک ذمہ دار شہری کا یہ فرض نہیں کہ وہ اپنی ذات کے نکھار،نفاست،تزئین اور عمدگی کو مرکزِ نگاہ بنالے بل کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ حریتِ فکر و عمل کو شعار بنائے اور اپنے جذبات،احساسات،اور اظہار و ابلاغ کے جملہ انداز صداقت سے مزین کرے۔پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس نے پس نو آبادیاتی مطالعات پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ جہاں تک ادب میں پس نو آبادیاتی مطالعات کا تعلق ہے اس کے بارے میں یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ ان میں نو آبادیاتی دور کے محکوم باشندوں کے زوایہ ٔنگاہ ،وقت کے بدلتے ہوئے تیور ،فکر و خیال کی انجمن کے رنگ اور ان کے آ ہنگ پیشِ نظر رکھے جاتے ہیں۔پروفیسرڈا کٹر محمد بیگ احساس کے افسانے اس حقیقت کی جانب متوجہ کرتے ہیں کہ یہ موجِ نفس تلوار کے مانندہے اور یہاں خود ی کی سربلندی کے لیے کام کرنا تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے ۔ پس نو آبادیاتی مطالعات نو آبادیات کے باشندوں کی خاص سوچ پر محیط ہوتے ہیں۔ایک جری تخلیق کار کی حیثیت سے پروفیسرڈا کٹر محمد بیگ احساس نے اس جانب متوجہ کیا ہے کہ سامراجی طاقتوں کی نو آبادیات کے وہ مظلوم باشندے جو طویل عرصے تک سامراجی غلامی کا طوق پہن کر ستم کش ِ سفر رہے مگر سامراجی طاقتوں کے فسطائی جبر کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا،ان کا کردار ہر عہد میں لائق صد رشک وتحسین سمجھا جائے گا۔یہ دیکھا جاتا ہے کہ سامراجی طاقتوں کو جب اپنی نو آبادیات میں منھ کی کھانا پڑی اور ہزیمت اُٹھانے کے بعد جب وہ بے نیلِ مرام اِن سابقہ نو آبادیات سے نکلنے پر مجبور ہوئے تو اس کے بعد ان نو آبادیات کے با شندوں نے آزادی کے ماحول میں کس طرح اپنی انجمنِ خیال آراستہ کی۔ استعماری طاقتوں نے دنیابھر کی پس ماندہ اقوام کو اپنے استحصالی شکنجوں میں جکڑے رکھا۔سامراجی طاقتوں کی جارحیت کے نتیجے میں ان نو آبادیات کی تہذیب وثقافت،ادب،اخلاقیات،سیاسیات ،تاریخ ،اقدار و روایات اور رہن سہن کے قصر و ایوان سب کچھ تہس نہس ہو گیا۔ پس نو آبادیاتی مطالعات میں اس امر پر نگاہیں مرکوز رہتی ہیں کہ ان کھنڈرات کے بچے کھچے ملبے کے ڈھیر پر نو آزاد ممالک کے باشندوں نے آندھیوں اور بگولوں سے بچنے کے لیے صحنِ چمن کو کس طرح محفوظ رکھاتیسری دنیا کے ممالک کے مسائل اور اس کے نتیجے میں آبادی میں رونماہونے والے تغیر و تبدل کے بارے میں ایڈورڈ سعید نے اس موضوع پر حقیقت پسندانہ انداز میں لکھا ہے :
"The widespread territorial rearrangements of the post-World War Two period produced huge demographic movements,for example the Indian Muslims who moved to Pakistan after 1947 partition,or the Palestinians who were largely dispersed during Israel,s establishment to accomodate incoming European and Asian Jews; and these transformations in turn gave rise to hybrid political forms.(1)
اپنے افسانے ’’ دھار ‘‘ میں پروفیسرڈا کٹر محمد بیگ احساس نے دیارِ مغرب کے مکینوں کی اسلام دشمنی کے خلاف نہایت بے باکی سے اظہار ِ خیال کیا ۔اُن کے افسانے سے یہ حقیقت روز، روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ہومر کے زمانے ہی سے یورپی فکر پرجورو ستم اور جبر و استبداد کا عنصر حاوی رہا ہے ۔بادی النظر میں یہ تاثر عام ہے کہ ہر یورپی باشندے کا مزاج اسلام دشمنی کا مظہر ، جابرانہ اورآمرانہ ہے اور نسل پرستی،سامراج کی حمایت اورمریضانہ قبیلہ پرستی اہلِ یورپ کی جبلت اور سرشت میں شامل ہے۔پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کی زندگی شمع کے مانند گزری انھوں نے خبردار کیا کہ کوئی دیوتا،کسی قسم کے حالات،کوئی من گھڑت تجریدی تصوریا ضابطہ بے بس و لاچار اور بے گناہ انسانیت کے چام کے دام چلانے اور ان پر کوہِ ستم توڑنے اور مظلوم انسانوں کی زندگی کی شمع گُل کرنے کا جواز پیش نہیں کرتا ۔انھیں یقین تھا کہ ظلم کا پرچم بالآ خر سر نگوں ہو گا اور حریتِ ضمیر سے جینے والے عملی زندگی میں کامیاب و کامران ہوں گے۔پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس ان مظلوم انسانوں کے حقیقی ترجمان تھے جن کی زندگی جبر مسلسل برداشت کرتے کرتے کٹ جاتی ہے۔اُنھوں نے اس جانب متوجہ کیا کہ اقوام کی تاریخ اور تقدیر در اصل افراد ہی کی مرہونِ منت ہے ۔یہ کسی قوم کے افراد ہی ہیں جو اُس قوم کی تاریخ کے مخصوص عہد کے واقعات کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں اور ابہام کو دُور کر کے اِسے از سرِ نو مرتب کرتے ہیں۔افراد کی خاموشی کو تکلم اور بے زبانی کو بھی زبان کا درجہ حاصل ہے ۔اقوام کی زندگی میں وقت کلیدی کردار ادا کرتاہے ،تاریخ پیہم روا ں عمل کا نام ہے جو میزان صبح و شام اور پچیس پچاس برس کی حدود کوخاطر میں نہیں لاتا۔ افسانے ’’ دھار ‘‘ کا بوڑھا آدمی اپنی بیٹی اور نواسے سے مل کر رہتاہے مگر وہ کئی اندیشوں میں گھرا رہتا ہے ۔عصبیت اور انتہا پسندی کی لہر نے معاشرتی زندگی کے امن و سکون کو غارت کر دیا ۔ اس کے باوجود افسانہ ’’ دھار ‘‘ کا بوڑھا اپنی آزاد مرضی سے ضبط نفس کو شعار بناتاہے اور سداحقائق کی گرہ کشائی کو نصب العین بناتاہے ۔اپنے عہدکی تاریخ اور عمارات سے وابستہ حقائق کے بارے میں افسانہ نگار نے لکھا ہے :
’’ قدیم عبادت گاہ ہٹ دھرمی سے گرا دی گئی توبہت کچھ بدل گیاکتنے لفظ بے معنی ہو گئے اور کتنے لفظ نئے مفہوم لے کر آئے ۔‘‘ ( افسانہ، دھار ، مشمولہ ،دخمہ ،صفحہ۹۸)
’’ قدیم عبادت گاہ کے گرنے کے تقریباً دس برس بعدجدید طاقت ،تہذیب و معاشرت کی علامت دو عمارتیں اچانک گِرا دی گئیں اور پھر بہت کچھ بدل گیا۔ عمارتیں گرتی ہیں تو بہت کچھ بدل جاتاہے ۔پھر کچھ نئے لفظ آ ئے جن میں زیادہ شور تہذیبوں کاٹکراؤ اور دہشت گردی کے خلاف ردِعمل ،ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ممالک کا صفایا تھا۔‘‘ ( افسانہ، دھار ، مشمولہ ،دخمہ ،صفحہ۱۰۰)
سماجی زندگی میں محنت کشوں کی کٹھن زندگی کے نشیب وفراز ہی کچھ ایسے ہیں کہ انھیں تشکیل اور تشکیلِ نو کے متعد د مراحل سے گزرنا پڑتاہے ۔ایک ماہر نفسیات کی حیثیت سے پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس نے آئینہ ایام میں ان کی ہر اداکا بہ نظر غائر جائزہ لیاہے ۔ حریتِ فکر کی پیکار اور جبر کے خلاف ضمیر کی للکار سے تاریخ کا رُخ بدل جاتا ہے ۔حریتِ فکر کے مجاہد تاریخ کے اوراق سے فرسودہ تصورات اور مسخ شدہ واقعات کو حذف کر کے اپنے خونِ جگر سے قابل فخر نئی خود نوشت تحریر کرتے ہیں۔ جب جو ر و جفا کا بُر اوقت ٹل جاتا ہے توتاریخ میں مذکور ماضی کی بے ہنگم اور بد وضع قباحتیں جنھیں ابن الوقت مسخروں نے نظر انداز کر دیا ان پر گرفت کی جاتی ہے ۔افراد پر یہ ذمہ دار ی عائد ہوتی ہے کہ ایام ِگزشتہ کی کتاب کے اوراق میں مذکور تمام بے سرو پا واقعات کو لائق استردا دٹھہراتے ہوئے انھیں تاریخ کے طوماروں میں دبا دیں۔
افسانہ ’’ دھار ‘‘ میں واقعات کے بیان میں جزئیات نگاری کاجادو سر چڑھ کر بولتاہے :
’’ تیزدھار کی بلیڈ جب تک اُس کے گالوں پر نہ دوڑتی وہ خود کو تروتازہ محسوس نہیں کرتا تھا۔‘‘ ( افسانہ دھار ، مشمولہ ،دخمہ ،صفحہ ۹۵ )
’’ پنشن کے بعداُس کے بہت سے دوستوں نے شراب چھوڑ دی اور ڈاڑھی بڑھا لی تھی لیکن وہ آج بھی بہترین بلیڈ اورقیمتی شراب استعمال کرتاتھا۔‘‘ (افسانہ دھار ، مشمولہ ،دخمہ ،صفحہ ، ۹۶)
’’ دوسر ی بار پھر وہ ایک کڑے امتحان سے اُس وقت گزرا جب خلیج کے راستے کُھلے ۔اُس کے کئی دوست دولت سمیٹنے کے لیے بھاگے ،بیوی نے اُسے بہت سمجھایا لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوا۔وہ ایسے مُلک کو نہیں جائے گا جہاں اُسے دُوسر ے درجے کا شہری بن کر رہناپڑے ۔‘‘ (افسانہ دھار ، مشمولہ ،دخمہ ،صفحہ۹۷)
پس ماندہ اور نو آبادیاتی نظام کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ممالک کے مظلوم باشندوں کا لہو سوز ،یقیں سے گرمانے میں پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس نے نہایت خلوص اور دردمندی سے کام لیا ۔ وہ ایک ایسے دردِ دِل رکھنے والے اور درد آشنا مسیحا کے رُوپ میں سامنے آ ئے تھا جس نے نہایت خلوص سے دُکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی۔ یہ امر کس قدر لرزہ خیز اور اعصاب شکن ہے کہ کہ بے گناہ افراد کو محض حلیے کی مشابہت کی بنا پر جبر کے پاٹوں میں پِیس دیا جائے کہ ان کے آبا و اجداد نے ماضی میں شقاوت آمیز نا انصافیوں کا ارتکاب کیا تھا اور موجودہ دور کے ظالم ان کا نشانہ بنتے رہے ۔اپنے بلاجواز انتقام کے لیے یہ دلیل دی جائے کہ چونکہ ان کے خاندان نے ماضی میں ظلم سہے ہیں اس لیے اب وہ نسل در نسل ان مظالم کا انتقام لیں گے اور اپنے آبا و اجداد کے دشمنوں کی زندگی اجیرن کر کے انھیں ماضی کے تلخ سمے کے سم کا ثمر کھانے پر مجبور کر دیں گے۔پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس نے سادیت پسندوں پر واضح کردیاکہ کسی کو اذیت و عقوبت میں مبتلا رکھنے کی بھی حد ہونی چاہیے۔اس سے پہلے کہ مظلوموں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے فسطائی جبر کو اپنے انتہا پسندانہ روّیے پر غور کرنا چاہیے۔زندگی کا ساز بھی ایک عجیب اور منفرد آ ہنگ کا حامل ساز ہے جو پیہم بج رہا ہے مگر کوئی اس کی صدا پر کان نہیں دھرتا۔کُوڑے کے ڈھیر سے جاہ و منصب کے استخواں نو چنے اور بھنبھوڑنے والے خارش زدہ سگانِ راہ نے تو لُٹیاہی ڈبو دی ہے ۔اس قماش کا جو بھی مسخرہ درِ کسریٰ میں داخل ہوتا ہے طلوعِ صبح ِ بہاراں کی نوید عشرت آگیں لے کرغراتا ہے کہ ماضی کے فراعنہ کے برعکس اس کا مقصدلُوٹ مار،غارت گری،انسان دشمنی،اقربا پروری اور قومی وسائل پر غاصبانہ تسلط نہیں بل کہ وہ افراد کی آزادی،تعلیم،صحت اور خوش حالی پر اپنی توجہ مرکوز رکھنے کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتاہے۔ یہ ایک طرفہ تماشا ہے کہ فقیروں کے حال جُوں کے تُوں رہتے ہیں مگربے ضمیروں کے سدا وارے نیارے رہتے ہیں۔سادہ لوح عوام کو سبز باغ اور حسین خواب دکھانے والے بھی ماضی کی طرح حقائق کو سرابوں کی بھینٹ چڑھا کر اپنی اپنی راہ لیتے ہیں ۔اپنے مطالعات میں پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس نے تاریخ کے مسلسل عمل،ریاستوں اور سامراجی تناظر کو ہمیشہ پیش ِ نظر رکھنے پر زور دیا۔بوڑھا باپ اپنے نوجوان کویہ نصیحت کرتاہے کہ وہ قناعت اور شان استغنا کے ساتھ زندگی بسر کرنے پر توجہ مر کوز رکھے مگر نوجوان دیار ِ مغرب کو للچائی ہوئی نگاہ سے دیکھتاہے اور اپنی ضد پر قائم رہتاہے ۔افسانہ ’’دھار ‘‘ کے کردار ریٹائرڈ بوڑھے ملازم کا بیٹا جب مغربی ملک جانے کی ٹھا ن لیتاہے توباپ اور بیٹے میں ہونے والے تکلم کے سلسلوں کوپروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کی نفسیات دانی کی عمدہ مثال قرار دیا جا سکتاہے :
’’ کیوں جانا چاہتے ہو؟ ‘‘
’’ ظاہر ہے بہتر مستقبل کے لیے۔‘‘
’’ کیوں کیایہاں تمھاراکوئی مستقبل نہیں ہے ؟‘‘
’’ نہیں پاپا ،ہمارے ملک کواعلیٰ تعلیم یافتہ سوچنے والے ذہن کی ضرورت نہیں ہے ۔‘‘
’’ وہاں بھی توا علیٰ تعلیم یافتہ لوگ چھوٹے چھوٹے کام کرتے ہیں ۔‘‘
’’ وہ عبور ی دور ہوتاہے پاپا ۔پیسہ بھی معقول ملتاہے ۔‘‘
’’ تو تم پیسہ کمانا چاہتے ہو؟‘‘
’’ہاں پاپا ! پیسہ موجودہ دور کی سب سے بڑی حقیقت ہے ۔‘‘ ( افسانہ، دھار ، مشمولہ ،دخمہ ،صفحہ۱۰۱)
مادی دور کی قباحتوں کے باوجود انسانیت نوازی پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کے مزاج کا اہم وصف تھا۔ اُن کے نزدیک انسانیت نوازی کاارفع معیار یہ تھا کہ جبر و استبداد کے خلاف بھر پور مزاحمت کی جائے،عوج بن عنق کو اس کی اوقات یاددلائی جائے اور مرگ آفریں استحصالی قوتوں کے مذموم ہتھکنڈوں اور بے رحمانہ انتقامی کارروائیوں کو ناکام بنانے کے لیے تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے کسی قربانی سے دریغ نہ کیا جائے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کوہر ظالم سے اسے شدید نفرت تھی اور وہ چاہتے تھے کہ معاشرتی زندگی سے ان تمام شقاوت آمیز ناانصافیوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا جائے جن کے باعث تاریخ ِ انسانی کا سارا منظر نامہ ہی گہنا گیا ہے ۔تاریخ اور اس کے پیہم رواں عمل پر اُن کا پختہ یقین تھا لیکن اس بات پر وہ ملول اور آزردہ تھے کہ تاریخ کے اس پیہم رواں عمل کو فاتح ،غالب،غاصب اور جارحیت کی مرتکب طاقتوں نے من مانے انداز میں مسخ کر کے اس کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے اور اس کے متعدد واقعات محض پشتارۂ اغلاط بن کر رہ گئے ہیں۔اُنھوں نے ذوقِ سلیم سے متمتع اپنے قارئین کی ذہنی بیداری کااس طرح اہتمام کیا کہ وہ اپنے حقو ق کے حصول کے لیے جہد و عمل پر مائل ہوگئے ۔ اپنے افسانوں میں پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس نے واضح کر دیا کہ قارئین کے دلوں کی بیداری اور فکر و نظر کو مہمیز کرنا وقت کا اہم ترین تقاضاہے ۔ اس کہانی کے بوڑھے کردار کے اعضا مضمحل ہو گئے ہیں اور عناصر کا اعتدال بھی رخصت ہو چکا ہے اس کے باوجود وہ اپنے مستقبل سے مایوس نہیں اور نئے امکانات کی جستجو جاری رکھتاہے ۔ ریٹائرڈسرکاری ملازم کا کردار صبر و تحمل ،محنت کی عظمت ،کفایت شعاری اور مستقل مزاجی کی مثال ہے ۔ انسانی زندگی ،معاشرے اور تہذیب و ثقافت کا کہانیوں سے گہر اتعلق ہے پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس نے کہانی کے اس معمر کردار کے بارے میں حقائق بیان کرتے ہوئے ایسا انداز اپنایاہے کہ صداقتیں اور حکایتیں اپنی معجز نما رنگ آمیزی سے قاری کو مسحور کر دیتی ہیں ۔افسانہ نگار نے اس ضعیف کردار کی جا نفشانی کا احوال اس انداز میں بیان کیا ہے کہ قاری چشم ِ تصورسے اُسے مصروف ِعمل دیکھ لیتاہے۔ :
’’ اُس نے دھیرے دھیرے زندگی جوڑی ۔شہر سے دُور ایک ہاؤزنگ سوسائٹی کے تحت زمین خریدی اور برسوں میں رفتہ رفتہ گھر بنایا ۔پندرہ بیس برس میں اس علاقے کی صورت بدل کر ہ گئی۔اب وہ شہر کا ایسا حصہ بن گیا تھاجس کی بے حد مانگ تھی ۔کالونی میں سب اُس کے جاننے والے تھے۔‘‘ (افسانہ دھار ، مشمولہ ،دخمہ ،صفحہ۹۷)
سفاک ظلمتوں میں ستارۂ سحر دیکھنے کی تمنا کرنے والے ایک رجائیت پسند ادیب کی حیثیت سے پروفیسر ڈاکٹر محمدبیگ احساس نے اس حقیقت کی جانب متوجہ کیا کہ یاس و ہراس کا شکار ہونے والے دراصل شکست خوردہ ذہنیت کے مالک ہیں۔ سعیٔ پیہم ، عزم صمیم اور امید کا دامن تھام کر نا ممکن کو ممکن بنایا جاسکتا ہے وہم و گمان کو صداقت میں بدلا جاسکتا ہے اور خواب کو حقیقت کا روپ دیا جاسکتا ہے ۔ کاروانِ ہستی کے تیز گام رہرو اپنی راہ میں حائل ہونے والی ہر رکاوٹ کو ضربِ کلیمی سے کچلتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔ یگانۂ روزگار فضلا کی زندگی کے مطالعہ سے اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ سیلِ زماں کے تھپیڑے اس عالمِ آب گِل کی ہر چیز کو تہس نہس کر دیتے ہیں مگر اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ریگِ ساحل پرنوشتہ وقت کی کچھ تحریریں لوحِ جہاں پر انمٹ نقوش ثبت کر کے اپنا دوام ثبت کر دیتی ہیں۔ایسے انسان نایاب ہوتے ہیں جن کی انسانیت سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت انھیں اہلِ عالم کی نظروں میں معزز و مفتخر کر دیتی ہے ۔ دُکھی انسانیت کے ساتھ بے لوث محبت دردمند اور درد آشنا انسان کو بے خوف و خطرنارِ نمرودمیں جست لگانے کا حوصلہ عطا کرتی ہے ۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مرگِ نا گہانی کے اندیشوں ،وسوسوں اور خوف کے سوتے زندگی کی ڈر سے پھوٹتے ہیں لیکن بھر پور زندگی بسر کرنے والے الوالعز م انسان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ مو ت پر ی کے منگیتر ہیں اور اجل کو چوڑیاں پہنانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔ زینہ ٔ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کر اں وادیوں کی جانب کسی کا سدھار جانا اتنا بڑا سانحہ نہیں بل کہ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہماری زندگی میں جس وقت درخشاں اقدار و روایات نے دم توڑ ا تویہ سانحہ دیکھنے کے بعد ہم کیسے زندہ رہ گئے ۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس نے زندگی کی حیات آفریں اقدار و روایات کے تحفظ کو اپنا نصب العین بنا رکھا تھا ۔ موت ایسے لوگوں کی زندگی کی شمع گُل نہیں کرسکتی بل کہ ان کے لیے تو موت ایک ماندگی کا وقفہ ہے جس کے بعد ان کے افکار کی تابانیوں کا ایک غیر مختتم سلسلہ
شروع ہوتا ہے جو جریدۂ عالم پر ان کی بقائے دوام کو یقینی بنا دیتا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جس طرح پرتوِ خور سے شبنم کے قطرے ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہیں مگر اگلی صبح لالہ و گُل کی پنکھڑیوں پر پھر شبنم کے قطرے موجود ہوتے ہیں ۔ اسی طرح طلوع صبح کے وقت شمع بالعموم گل کر دی جاتی ہے اور دن بھر کے سفر کے بعد شام ہو تے ہی پھر فروزاں کر دی جاتی ہے ۔ اُسی طرح پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کے خیالات کی شمع ہمیشہ فروزاں رہے گی اور اس کی شخصیت کی عنبر فشانی سے قریۂ جاں سدا معطر رہے گا ۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کے افکار کی باز گشت لمحات کے بجائے صدیوں پر محیط ہو گی۔
مآخذ

1 . Edward W Said:Representation of the Intellectual,Vintage Books,New York,1996,Page,50
Dr.Ghulam Shabbir Rana ( Mustafa Abad ,Jhang ,City )


 

Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 609971 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.