سائنسی تحقیق

حال ہی میں سیارہ مشتری ہمارے چاند کے اوپر آیا تھا، بہت سارے لوگوں نے اسے دیکھا لیکن دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے اسے عام ستارہ سمجھنے لگے حالانکہ یہ سیارہ جوپیٹر تھا جسے جرمن لوگوں نے تھور اور رومن نے جوپیٹر نام دیا تھا۔

تین دن پہلے ہمارے چاند کے پاس سیارہ مشتری دیکھائی دئے رہا تھا، اس سیارہ کا نام جوپیٹر ہے۔ اور ہم سب نے آپنے آنکھوں سے اسے بآسانی دیکھا۔ لیکن آج سے کہی سو سال پہلے جب رومن لوگوں نے اسے دیکھا تو تڑپنے لگے ان کے اندر تجسس و تلاش تھی رومن لوگوں نے آپنی تلاش کو محدود کر دیا اور بے ساختہ کہہ دیا یہی چمکدار سیارہ ہمارا خدا ہے اس کا نام آج سے جیوپیٹر ہے، جو کہ ہمارا دیوتا ہے۔ پس اس کے بعد آج تک اس سیارے کا نام جیوپیٹر پڑھ گیا، لیکن یہ خدا نہیں تھا صرف آیک سیارہ تھا۔ اسی طرح جب ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام نے ستارے کو رب کہا پھر چاند کو پھر سورج کو صرف ان کی خصوصیات پہ، بلاخر کہنے لگا کہ یہ چیزیں جو ذمین سے انمول نظر آتی ہے ہمارے ہی ذمین کے جیسے ہے اسلیے میرا خدا وحدانیت میں ہے۔ یہی چیز ہے جسے تلاش کہتے ہے جو انجام تک پہنچا دیتی ہے۔ اس سیارے کے اوپر سرخ رنگ آپ کو نظر آرہا ہوگا یہ رنگ نہیں آیک طوفان ہے جو کہی سو سالوں سے اس سیارے پہ برپا ہے، اللہ پاک کا ہر کام حکمت سے برپور ہے پھر آتنا بڑا سیارہ اور اوپر سے تین سو سالوں کا طوفان اس پہ برپا ہونا کوئی نہ کوئی تو بات ہے، کوئی بھی چیز فضول نہیں ہر چیز میں حکمت ہے۔ جیوپیڑر سیارہ ہمارے سولر سسٹم کا سب سے بڑا سیارہ ہے جس کے پاس 79 چاند ہے۔

آپ مزید کائنات کی وسعت و خلقت پہ غور کرئیں کائنات وسیع ہے، یہ ذمین تو بہت چھوٹی سی چیز ہے، کہی اور کہکشائیں ہے ہوسکتا ہے کسی 'ملکی وئے' میں ذندگی کا تصور ہو، کوئی تو ایسا سیارہ ہوگا جہاں ذندگی ہے؟ آگر نہیں تو سوچو ہماری ذمین جنگل میں ماچس کی تیلی سے بھی چھوٹی ہے اور پھر اس پہ ذندگی کا ہونا عقل سے باہر ہے، سائنسدان خلاء تک پہنچے انہوں نے کہی 'ملکی ویز' کہی 'گلیگسیز' دیکھے وہ بھی حیران و پریشان ہے کہ اس ذمین پہ 'ارتقائی تھیوری' کہاں تک سچائی پہ مبنی ہے۔ کیا واقعی فوسلز کسی آیک قوم کے ہے یا انسان بندر سے شعور پا کے آیا ہے، آگر واقعی تصورِ ارتقاء سچائی پہ ہے تو دوسرے جاندر کیوں ویسے کے ویسے ہے؟ یہ سوالات کائنات پہ سوچنے پہ ہمیں مجبور کرتے ہے، اور جہاں سوچ پیدا ہوگی وہاں کھوج پیدا ہوگی اور پھر تحقیق ہوگا اور اس کا بہتر مثبت اور سچا نتیجہ نکلے گا۔ سیارہ مشتری ہمارے لیے دلچسپی کا باعث ہے، 2016 میں اس پہ سپیس شیپ بھی گیا، بس وہ ذندگی بیکار ہے جو تحقیق اور تجسس سے خالی ہے۔
 

PR Ali Sabeel
About the Author: PR Ali Sabeel Read More Articles by PR Ali Sabeel: 4 Articles with 3530 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.