کراچی میں اے این پی سندھ کے رہنما شاہی
سید کی رہائش گا پر منعقدہ ایک تقریب میں سابق وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار
مرزا نے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو بھگوڑا اور
کرمنل قرار دیدیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے آفاق احمد کو مہاجروں کا حقیقی
لیڈر قرار دیدیا۔ انہوںنے اس خطاب کے دوران کئی دیگر باتیں بھی کہیں ۔ ان
کا یہ خطاب اور طرز خطابات کسی بھی طور پر قابل تعریف نہیں قرار دیا جاسکتا
اور انہوںنے انتہائی غیر پارلیمانی انداز میں یہ خطاب کیا۔
ان کے اس خطاب کے رد عمل میں ایم کیو ایم نے بھی جوابی بیان دیا اور فیصل
سبز واری نے کہا کہ ” ذولفقار مرزا کے لیڈر پاکستان توڑنے کی ساز ش میں
شریک تھے،سارا پاکستان جانتا ہے کہ ٹین پرسنٹ کون تھا اور اگر یہی روش جاری
رہی تو ہم پیپلز پارٹی کے رہنماﺅں کی بدعنوانیوں کا کچا چٹھا کھول دیں
گے۔جس کے لیڈر پر عالمی عدالتوں پر مقدمات قائم ہوں پھر تو وہ عالمی کرمنل
ہوا ،جنہوںنے طیارے ہائی جیک کیے ہوں،جنہوںنے اپنی زبان سے پاکستان توڑنے
کی بات کی ہو اس سے بڑی کم بختی کیا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ زبان
نہیں رکی تو پھر سارے راز،سارے راز سارےکچے چٹھےباہر آجائیں گے،ان کی امارت
کے ان کی بد عنوانیوں کےان کی بڑھتی ہوئی سازشوں کے۔ فیصل سبز واری نے اپنے
بیان میں بار بار ایک بات کہی کہ “اگر کوئی میرے قائد کے حوالے سے بات کرے
گا تو اس کو جواب دیا جائے“ کم و بیش یہی بات چند ماہ قبل مصطفیٰ کمال صاحب
نے بھی ایک ٹی وی ٹاک شو میں مسلم لیگ ن کے ایک مقامی رہنما کی بات کے جواب
میں کہی کہ ” میرے قائد کی شان میں اگر کوئی گستاخی کرے تو اس کو جواب دیا
جائے گا“ ۔
یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ ایم کیو ایم کے کارکنان و رہنما اپنے لیڈر سے
اتنی محبت کرتے ہیں ۔ لیکن کیا ایم کیو ایم کے ان سارے کارکنوں اور رہنماﺅں
کے نزدیک الطاف حسین کا مرتبہ اور عزت نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی
ناموس سے بھی زیادہ ہے۔ (نعوذ باللہ ثمہ نعوذ باللہ ) میری یہ بات شائد بہت
سے لوگوں کو بری لگی ہوگی کہ میں یہ کیا بات کہہ دی ہے لیکن میرے دوستوں
تھوڑا سا غور کیجئے اور سوچئے گا۔
کم و بیش آٹھ سال قبل ڈنمارک کے ایک گستاخ اخبار نے نبی مہربان صلی اللہ
علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ناپاک جسارت کی اور حضور پاک ﷺ کے گستاخانہ
خاکے شائع کئے،ان خاکوں کے شائع ہوتے ہی سارے عالم اسلام میں غم و غصہ کی
لہر دوڑ گئی اور پوری دنیا میں اس مذموم حرکت کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے۔
پاکستان میں اس حوالے سے مظاہرے کئے جاتے رہے اور اس میں تمام ہی مذہبی
جماعتوں نے مشترکہ اور انفرادی طور پر جلسے ،جلوس،ریلیاں ،مظاہرے کئے گئے۔
لیکن ایم کیو ایم نے اس پر چپ سادھ رکھی تھی۔ نہ صرف یہ کہ چپ سادھ رکھی
تھی بلکہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اس حوالے سے احتجاج کرنے والی
جماعتوں کو ہدف تنقید بناتے رہے اور ان کو روادی،صبر،برداشت تحمل کا درس
دیتے رہے ۔
لیکن اپنی ذات کے حوالے سے انہوں نے تمام روادری،صبر و تحمل کو ایک جانب
رکھ دیا۔ایم کیو ایم کے وہ کارکنان جو توہین رسالتﷺ اور توہین قرآن کے
معاملے پر بالکل خاموش بیٹھے رہے وہ اپنے قائد کے بارے میں ذوالفقار مرزا
کے نازیبا ریمارکس پر سڑکوں پر آگئے۔آٹھ سالوں متعدد بار یہودی و عیسائی
انتہا پسندوں کی جانب سے توہین قرآن و توہین رسالت کی گئی ،ناموس رسالت ﷺ
پر حملے کئے گئے لیکن ایم کیو ایم نے کبھی اس کا نوٹس نہیں لیا لیکن اپنے
نام نہاد قائد کے بارے میں ذرا سی بات سنتے ہیں آپے سے باہر ہوگئے ایک دن
کے احتجاج میں درجن بھر سے زائدلوگوں کو مارا گیا،چالیس سے زائد گاڑیوں اور
متعدد دکانوں کو جلایا گیا،صوبے بھر میں کاروبار زندگی معطل رہا۔یہ سب کس
کے لئے؟ ایک سیاسی لیڈر کے لئے ایم کیو ایم کے قائدین کہتے ہیں کہ ”الطاف
بھائی کروڑوں لوگوں کے لیڈر ہیں،“ میرا ان سے سوال ہے کہ کیا نبی مہربان ﷺ
اربوں لوگوں کے محبوب نہیں ہیں؟ اور کیا وہ تمہارے بھی محبوب نہیں ہیں؟ اگر
واقعی نبی مہربان ﷺ سے محبت ہوتی تو کم از کم کوئی ایک ریلی ،ایک مظاہرہ تو
کیا جاتا لیکن دراصل اس غیر اعلانیہ ہڑتال، پرتشدد احتجاج نے ایک بار پھر
ثابت کیا کہ ایم کیو ایم کا تعلق کس گروہ سے ہے۔
کیا اب بھی لوگوں کی آنکھیں نہیں کھلیں گی۔ |