#العلمAlim علمُ الکتاب {{{ سُورَةُالعنکبُوت ، اٰیت 22
تا 27 }}} قُرآن اور قصہِ ابراھیم و لُوط !! اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ان
الذین کفروا
باٰیٰت اللہ ولقائهٖ
اولٰئک یئسوا من رحمتی
واولٰئک لھم عذاب الیم 23
فماکان جواب قومهٖ الّا ان قالوا
اقتلوه اوحرقوه فانجٰه اللہ من النار
ان فی ذٰلک لاٰیٰت لقوم یؤمنون 24 وقال
انما اتخذتم من دون اللہ اوثانا مودةبینکم
فی الحیٰوة الدنیا ثم یوم القیٰمة یکفر بعضکم
ببعض ویلعن بعضکم بعضا وماوٰکم النار ومالکم
من نٰصرین 25 فامن له لوط و قال انی مھاجر الٰی
ربی انه ھوالعزیزالحکیم 26 ووھبناله اسحٰق ویعقوب
وجعلنافی ذریته النبوة والکتٰب واٰتینٰه اجره فی الدنیا و
انه فی الاٰخرةلمن الصٰلحین 27
اے ھمارے رسُول ! معلوم انسانی تاریخ کی ہر ایک تاریخی تحقیق سے اِس اَمر
کی تصدیق ہو چکی ھے کہ جن لوگوں نے دُنیا میں دُنیا کی ھدایت کے لیۓ نازل
ہونے والی اللہ کی اٰیات کا اور آخرت میں اپنے اعمال کی جواب دہی کے لیۓ
اللہ کے ساتھ ہونے والی ملاقات کا انکار کیا تھا تو اُنہوں نے میری فکری آس
کے دل نشیں خواب کے ساتھ جینے کے بجاۓ اپنی قلبی یاس کے آتشیں عذاب کے ساتھ
مرنا ہی پسند کر لیا تھا ، یہ وہی بگڑے ہوۓ بد نصیب لوگ تھے جنہوں نے
ابراھیم کے لاجوب عقلی و مَنطقی سوالات کے بعد یہ بے عقلی کی بات کہی تھی
کہ یا تو بتوں کے اِس دُشمن کو مارنے کے کسی عام طریقے سے مار دیا جاۓ یا
آگ میں ڈال کر اپنے زندہ جلانے کے کسی خاص طریقے سے زندہ جلا دیا جاۓ لیکن
ھم نے ابراھیم کو اُن کی اُس مُجوزہ آگ سے بچالیا تھا ، اہلِ عبرت و بصیرت
کے لیۓ ھمارے اِس تاریخی بیان میں عبرتوں کا ایک پُورا جہان موجُود ھے اور
اِس واقعے کے بعد ابراھیم نے اُن لوگوں سے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ
دُنیا میں تُم لوگوں نے اللہ کی جس محبت پر اپنے بتوں کی محبت کو ترجیح دی
ھے تو قیامت کے روز تُم اپنی اِس ترجیحی محبت کو ایک دُوسرے کی کارستانی
کہہ کر ایک دُوسرے سے دُور بھاگو گے لیکن تُم لوگ اپنے اسی عمل کی بنا پر
اُس دہکتی ہوئی جہنم میں ڈالے جاؤ گے جس سے تُم کبھی بھی اپنے کسی سفاش کار
و مددگار کی سفارش یا مدد سے باہر نہیں آسکو گے ، ابراھیم کی یہ بات سُن کر
لُوط ہی وہ پہلے شخص تھے جو یہ کہہ کر ابراھیم پر ایمان لے آۓ تھے کہ اگر
قبولِ حق کی پاداش میں مُجھے اپنے رَب کی طرف ہجرت کرنی ھے تو میں ضرور
اپنے اُس حاکم و غالب رَب کی طرف ہجرت کروں گا اور پھر اِس کے کُچھ ہی عرصے
بعد ھم نے ابراھیم کے اِس کارِنبوت میں اُن کے بیٹے اسحاق و یعقوب کو بھی
شامل کر دیا تھا اور پھر ھم نے ایک زمانے سے ایک زمانے تک ابراھیم کی اِس
نیک نسل میں علمِ نبوت و کتابِ نبوت اور اٰیاتِ کتابِ نبوت کا ایک مربوط
سلسلہ قائم کر دیا تھا کیونکہ یہ وہ پاکیزہ سیرت لوگ تھے جن کو دُنیا میں
بھی ھم نے اِن کی اعلٰی کار گزاری کا اجر دیا تھا اور آخرت میں بھی ھم اِن
کو اپنے اعلٰی کردار لوگوں کی اعلٰی جماعت کے ساتھ ایک اعلٰی مقام دیں گے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم میں ابراھیم علیہ السلام کے ذکرِ ذات کے انفرادی حوالے سے
قُرآنِ کریم کا یہ 54 مقام ھے جہاں پر ابراھیم علیہ السلام کا یہ ذکر وارد
ہوا ھے اور ابراھیم علیہ السلام و لُوط علیہ السلام کے اجتماعی ذکر کے
حوالے سے قُرآنِ کریم کا یہ 28 واں مقام ھے جہاں پر اِن دونوں اَنبیاۓ کرام
کا مُشترکہ طور پر ذکر کیا گیا ھے لیکن لُوط علیہ السلام کے ایمان لانے کے
حوالے سے قُرآنِ کریم کا یہ سب سے پہلا مقام ھے جہاں پر اِس خاص پس منظر کے
ساتھ لوط علیہ السلام کے ایمان لانے کا ذکر کیا گیا ھے ، ابراھیم علیہ
السلام اور لوط علیہ السلام کا زمانہ مسیح علیہ السلام کے زمانے سے 1970
برس پہلے کا اور سیدنا محمد علیہ السلام کے زمانے سے 2540 برس پہلے کا
زمانہ ھے ، لُوط علیہ السلام ابراھیم علیہ السلام کے بھائی حران کے بیٹے
اور ابراھیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے ، ابراھیم علیہ السلام اور لُوط
علیہ السلام کے اِس مُشترکہ مضمون کا حرفِ اَوّل وہ مضمون ھے جو اِس سُورت
کی اٰیت 14 سے اٰیت 18 کے درمیان بیان ہوا ھے اور رَدِ شرک کے اُسی رَواں
مضمون کے ایک ضمنی زاویۓ کے طور پر اٰیت 19 سے اٰیت 22 تک عرب کے اُن تازہ
دَم مُشرکوں کا ذکر آیا ھے اور مُشرکینِ عرب کے اُس ذکر کے بعد اٰیاتِ بالا
میں اُسی پہلے مضمون کا وہ دُوسرا حصہ لایا گیا ھے جس کا یہاں پر لانا
مقصود ھے ، اِس مضمون کی پہلی اٰیت میں نُوح علیہ السلام ، ھُود علیہ
السلام اور صالح علیہ السلام کی اُن تین اُمتوں کے اُن لوگوں کا ذکر کیا
گیا ھے جو خُدا کے عذاب سے ہلاک ہوۓ تھے اور اِس جُرم کی بنا پر ہلاک ہوئے
تھے کہ اُنہوں نے دُنیا میں اللہ کی اٰیات کی صداقت اور آخرت میں اللہ کی
ملاقات کی حقیقت کا انکار کیا تھا ، اُن اُمتوں پر نازل ہونے والے اُس عذاب
کے بعد یہاں پر ابراھیم علیہ السلام کے ساتھ پیش آنے والے اُس مشہور واقعے
کا ذکر کیا گیا ھے جس کا اِس سے پہلے سُورَةُالاَنبیاء کی اٰیت 68 میں بھی
یہ بیان گزر چکا ھے کہ جب عتابِ ابراھیم سے ظاہر والی اُس بُت شکنی اور
خطابِ ابراھیم سے پیدا ہونے والے اُس انقلاب کے بعد اُن لوگوں نے اپنے بغضِ
باطن میں جل کر ابراھیم کو بھی جلا دینے کا فیصلہ کر لیا تو ھم نے ابراھیم
کو جلانے کے لیۓ جلائی جانے والی اُس آگ کو ابراھیم کے لیۓ سرد و سلامت ہو
جانے کا حُکم دے کر ابراھیم کے لیۓ بچھاۓ گۓ اُن کے دامِ فریب کو ناکام بنا
دیا ، یہ اہلِ شہر کا ایک ہجوم تھا جو اُس روز یہ دیکھنے کے لیۓ اُمڈ آیا
تھا کہ ابراھیم علیہ السلام اپنے حق میں کیا کہتے ہیں اور شہر کے اَربابِ
بست و کشاد اُن کے خلاف کیا کہتے ہیں ، قابلِ ذکر بات یہ ھے کہ یہ اجتماع
ابراھیم علیہ السلام کی خواہش پر جمع کیا گیا تھا اِس لیۓ جب سب لوگ مقررہ
مقام پر جمع ہوگۓ تو ابراھیم علیہ السلام نے اپنے خطاب میں اُن کے بڑے بُت
کو اپنی اِس دلیل کے ساتھ فریقِ مقدمہ بنایا کہ آج تُم لوگ میری بُت شکنی
کی جو تفصیلات مُجھ سے پُوچھنا چاہتے ہو وہی تفصیلات تُم اپنے اُس بڑے بُت
سے کیوں نہیں پُوچھ لیتے جس کے شانے پر وہ کُلہاڑا موجُود ملا ھے جس سے
تُمہارے بُت خانے کے وہ بُت توڑے گۓ ہیں اور ابراھیم علیہ السلام کی یہ بات
بہت آسانی کے ساتھ عام لوگوں کی سمجھ آگئی اور اُس اجتماع میں اُن کی اسی
بات سے اُن کے بتوں کی بے جانی و بے زبانی کا وہ ذہنی بُت بھی چکنا چُور ہو
گیا کہ اُن کے یہ بُت اُن کے فریاد رس یا حاجت روا اور مُشکل کشا ہیں ،
چنانچہ اس ہجُوم میں جو آتش پرست تھے اور جو آتش کو اپنا اِلٰہ مانتے تھے
اُنہوں نے اپنا جوشِ انتقام ظاہر کرنے کے لیۓ یہ آواز لگائی کہ { حرقوہ
وانصروا اٰلھتکم ان کنتم فٰعلین } یعنی اگر تُم ابراھیم کے خلاف واقعی کوئی
عملی قدم اُٹھانا چاہتے ہو تو اِس کے خلاف ہماری جو معبود ہستی آگ ھے اُس
سے مدد لو ، اِس واقعے کے ساتھ نَتھی کی گئی جاھل واعظوں کی اُن کہا نیوں
سے قطع نظر کہ آگ کے اِس بڑے اَلاؤ کو کئی دنوں یا ہفتوں کی محنت سے دہکایا
گیا تھا اور ابراھیم علیہ السلام کو ایک بڑی منجنیق کے ذریعے دُور سے اُس
آگ میں پھینکا گیا تھا اور جس آگ کو تیز کرنے کے لیۓ چھپکلیاں پُھونکیں
مارتی تھیں اور ٹھنڈا کرنے کے لیۓ چڑیاں اپنی چُونچ میں پانی بھر بھر کر
لاتی تھیں اور اُس آگ کو بجھاتی تھیں کیونکہ ان کہانیوں کے برعکس قُرآنِ
کریم نے سُورَةُالاَنبیاء کی اٰیت 68 اور اِس اٰیت سے پہلی اور بعد کی
اٰیات میں اُس آگ کی جو تفصیلات پیش کی ہیں اُن تفصیلات میں سب سے اھم بات
مجوسی آتش پرستوں کی نقل کی گئی یہ بات ھے کہ { وارادوا بهٖ کیدا فجعلنٰھم
الاخسرین } یعنی اُن لوگوں نے ابراھیم کو آگ دکھانے اور آگ میں جلانے کے
لیۓ ایک فریب رچایا تھا اور اُس فریب کو ھم نے ناکام بنادیا تھا اور قُرآن
کی یہ اٰیت بظاہر آگ جلانے اور دہکانے کے کسی عملی اَقدام کی نفی کرتی ھے
لیکن انسان چونکہ اپنے ارادے پر عمل کرنے یا نہ کرنے میں قُدرت کی طرف سے
قُدرتی طور پر آزاد ہوتا ھے اور وہ مجوسی آتش پرست بھی اپنے ارادے پر عمل
کرنے یا نہ کرنے میں مُکمل طور پر آزاد تھے جو مِٹی کی چھوٹی چھوٹی وہ
اَنگیٹھیاں اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے جن کو کشمیر کے لوگ (کانگڑی) کہتے ہیں
اور وہ کانگڑی کشمیر میں آج تک موجُود بھی ھے اور استعمال بھی کی جاتی ھے
اِس لیۓ خالقِ عالَم نے آگ کو ٹھنڈی ہو جانے کا ایک پیشگی حُکم دے دیا تھا
تاکہ اگر کوئی بد فطرت آتش پرست مجوسی ابراھیم علیہ السلام کی طرف آگ کا
کوئی ایک انگارا بھی اُچھال بھی دے تو وہ انگارا ابراھیم علیہ السلام کو
کوئی گزند نہ پُہنچا سکے اور اللہ تعالٰی نے اُس سُورت کے اُس مقام پر اور
اِس سُورت کے اِس مقام پر ابراھیم علیہ السلام کو آگ سے بچانے کے اسی
خُدائی انتظام کا ذکر کیا ھے ، اٰیاتِ بالا میں لُوط علیہ السلام کی جس
ہجرت کا ذکر کیا گیا ھے اور اُس ہجرت کے لیۓ قُرآنِ کریم نے { مھاجر الٰی
ربی } کے جو الفاظ استعمال کیۓ ہیں وہ ایک اُسلوبِ کلام ھے جس کا مطلب اللہ
تعالٰی کے لیۓ اپنا گھر بار چھوڑنا نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالٰی کے لیۓ اپنی
جان دے دینے کا ایک جرات مندانہ اظہار ہوتا ھے اور لُوط علیہ السلام جن
مُشکل حالات میں ابراھیم علیہ السلام پر ایمان لاۓ تھے اُس وقت اُن کے
الفاظ سے یہی بات مراد ہو سکتی تھی کہ اگر ابراھیم علیہ السلام کے پیش کیۓ
ہوۓ اِس دینِ حق کے لیۓ مُجھے اپنی جان دینی پڑی تو میں اپنی جان دینے سے
بھی دریغ نہیں کروں گا !!
|