ختم نبوت اور ہمارا رویہ۔

ختم نبوت کے قانون کی حفاظت ہر مسلمان پر فرض ہے۔
کیا جنگل کا قانون ہے یہاں ؟ دن دیہاڑے کوئ بھی بھری عدالت میں پستول لا کر اس طرح قتل کردے۔کیا عدالتوں کو تالے لگ چکے ہیں ؟ قانون نام کی چیز ہی نہیں ہے۔"

وہ غصے میں بھرا بیٹھا تھا اور منہ ہی منہ میں نظام کو کوس رہا تھا۔

"کیا صاحب۔ ایسا رویہ آپکا توہین رسالت کے وقت کہاں چلا جاتا ہے ؟ یہ قانون کی پاسداری کا خیال اسی وقت کیوں آتا ہے ؟ قوانین کو تو ملک میں کبھی نافذ ہونے دیا ہی نہیں گیا ہے۔ پھر یہ رویہ اس وقت میں کیوں ؟ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ اقدام درست ہے مگر یہاں تک کسی کے پہنچنے میں جو عوامل کارفرما ہیں کیا انکا جائزہ لینے کی فرصت ہے کسی کے پاس ؟ یہ بات میں تمام جرائم کے حوالے سے کررہا ہوں۔ اگر کسی کی جان لینا اسطرح درست نہیں ہے تو دوسری طرف کسی کے جذبات کیساتھ اس ضمن میں کھیلنا بھی درست نہیں۔ جائیے انکا قبلہ پہلے درست کیجیئے کے جنکا ایجنڈا ملک میں اس رویے پر نظر رکھنی ہے کہ ملک میں آج تک خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کس سطح پر ہے۔ انکا تو جھگڑا ان سے اور انکی شریعت پر عمل کرنے والوں سے ہے۔ آپ نیم "مغرب زدہ" لوگوں سے اللہ محفوظ رکھے جب نکل کر آتے ہیں تو سب ہی کچھ بھلا بیٹھتے ہیں۔ چار دن کی زندگی کو دنیا کو رونقوں سے مزین کرنے کے بجائے اسکو آخرت کا سامان کرنے کیلئے رکھیں۔ یاد رکھیں ! یہ دنیا اسی ذات کی مرہون منت ہے جس پر آپ کلام کرنے سے قبل سوچ نہیں رہے اور تف ہے ان لوگوں پر کہ جو انکے لیے ہمدردی رکھتے ہیں۔ خدا حفاظت کرے آپکی اور آپ کے ذہن کی کہ جس کو رب العالمین نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم کردیا ہے۔

ختم نبوت کے قانون کا وجود کفر کو برداشت نہیں۔اسکی بدنیتی اول دن سے عیاں ہے۔ وہ کمینگی میں طاق ہے اور فساد کے کسی موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ ہر فرد اپنی استطاعت میں اس کی حفاظت کررہا ہے اور کفر حسب استطاعت اس پر حملے بھی کررہا ہے۔کچھ ملکی عناصر بیرونی ایجنڈے پر بھی ہیں۔ کچھ کا اخلاص قابل دید ہے۔ کچھ نے اس کو سیاست کا مرکز بنالیا۔ کچھ نے اقتدار کو طول دینے کیلئے اسکو استعمال کیا۔ کچھ نے قابل ذکر کام کرکے اسکی حفاظت کو یقینی بنایا۔ کچھ نے اس کو جذبات کی آڑ میں قوم کو تقسیم کرنے کا ذریعہ بنایا۔ کچھ نے اپنے خون سے اس کی قیمت کو ادا کیا۔ کچھ نے جانوں کے نذرانے کو مذاق میں اڑادیا۔ کچھ نے صرف اس موضوع کو مباحثوں تک محدود کردیا۔ کچھ نے ایوانوں میں لڑ کر اس کا دفاع کیا۔"

یہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی آپس میں میرے نبی کی شان اقدس کے موضوع پر اس طرح کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔

اے زمین ! تیرے وجود کا باعث بننے والے کی شان میں گستاخی ہوتی رہی تیرے مالک کے حبیب کی شان اقدس کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ تو پھٹ جا اور اس میں ہم جیسے لوگ سما جائیں جو کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ آج اپنی بداعمالیوں کے سبب کسی جگہ اس مقدمے کو لڑنے کا قابل نہیں۔

وہ رب اپنے محبوب کی عزت کا مان رکھے گا۔ وہ ہم جیسے ضعف الوجود لوگوں کو اپنے حبیب کی شان اقدس کی حفاظت کیلئے نہیں چنے گا مگر۔۔۔

یا رب تیرے نبی کے امتی ہیں تیرے حبیب نے ہماری مغفرت تجھ سے طلب جاتے جاتے بھی کی ہے۔ ہماری عزت کا مان رکھ روز محشر کس طرح ان سے آنکھ ملا پائیں گے ؟۔

اے میرے مالک ! اگر کچھ کرنے کے قابل نہیں ہیں تو وجود ہمارا مٹادے اور ان لوگوں سے دنیا کو آباد فرما جو شان اقدس کی حفاظت کرنے کے قابل ہوں۔
(آمین)
متلاشی حق

 
Syed Mansoor Hussain
About the Author: Syed Mansoor Hussain Read More Articles by Syed Mansoor Hussain: 32 Articles with 22748 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.