قُرآن اور قصہِ قومِ لُوط و اہلیہِ لُوط !!

#العلمAlilmعلمُ الکتاب سُورَةُالعنکبُوت ، اٰیت 28 تا 35 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
لوطا اذقال
لقومهٖ انکم
لتاتون الفاحشة
ما سبقکم بھا من
احد من العٰلمین 28
ائنکم لتاتون الرجال و
تقطعون السبیل وتاتون
فی نادیکم المنکر فماکان
جواب قومهٖ الّا ان قالوا ائتنا
بعذاب اللہ ان کنت من الصٰدقین 29
قال رب انصرنی علی القوم المفسدین 30
ولما جاءت رسلنا بالبشرٰی قالوا انا مھلکوااھل
ھٰذه القریة ان اھلھا کانواظٰلمین 31 قال ان فیھا
لوطا قالوا نحن اعلم بمن فیھا لننجینه واھله الّاامراته
کانت من الغٰبرین 32 ولما ان جاءت رسلنا لوطا سئ بھم
وضاق بھم ذرعا وقالوالاتخف ولاتحزن انا منجوک واھلک الّا
امراتک کانت من الغٰبرین 33 انامنزلون علٰی اھل ھٰذه القریة رجزا
من السماء بما کانوایفسقون 34 ولقد ترکنا منھا اٰیة بینة لقوم یعقلون 35
لُوط منصبِ نبوت پر فائز ہو کر کارِ نبوت پر مامُور ہوۓ تو اُنہوں نے اپنی قوم سے کہا یہ کیا ما جرا ھے کہ تُم لوگ بحثیتِ قوم وہ بیہودہ عمل کر رھے ہو جو تُم سے پہلے دُنیا کی کسی قوم نے نہیں کیا ھے اور تمیں کیا ہو گیا ھے کہ تُم نے عورتوں کے ساتھ جنسی رابطہ قائم کرنے کے بجاۓ مردوں کے ساتھ جسمانی رابطہ قائم کر کے نسلِ انسانی کی ترویج کا راستہ بھی بند کردیا ھے اور تُمہاری اِس بد عملی کی انتہا یہ ھے کہ تُم دُوسرے انسانوں کو بھی اسی بد عملی کی دعوت دیتے ہو ، قومِ لُوط نے اپنے نبی سے کہا کہ اگر تُمہارے دعوے کے مطابق ھمارا یہ عمل ایسا ہی مُجرمانہ عمل ھے جس پر خُدا کی طرف سے سزا لازم ھے تو پھر تُم اپنے خُدا سے کہو کہ وہ ھم پر اپنا وہی عذاب نازل کردے جس کی تُم ہمیں دھمکی دیتے رہتے ہو اور لُوط نے اپنی قوم کا یہ فیصلہ کُن جواب سُن کر اللہ سے مدد اور مداوے کی درخواست کی جو قبول کر لی گئی ، پھر جب اُس قوم پر عذاب آنے کا مقررہ وقت آگیا تو اِس مقررہ عذاب کا اہتمام کرنے والے وہ خُدائی اہل کار پہلے اُس عذاب کی خبر لے کر ابراھیم کے پاس پُنہچے اور اُن کو بتایا کہ ھم وہ خُدائی اہل کار ہیں جو اِس بستی کو ہلاک کرنے کے لیۓ آۓ ہیں ، ابراھیم نے یہ سُنا تو پریشان ہو کر بولے کہ اِس بستی میں خُدا کے نبی لُوط رہتے ہیں جس پر اُنہوں نے کہا کہ ھم جانتے ہیں کہ وہاں کون کون رہتا ھے ، ھم لُوط کی بے بصیرت بیوی کے سوا لُوط کے سارے گھر والوں کو بچالیں گے اور ابراھیم سے ملنے کے بعد جب وہ خُدائی عذاب کے قاصد لُوط کی بستی میں پُہنچے تو لُوط اُن کو جان اور پہچان کر رنجیدہ ہوگۓ جس پر خُدا کے اُن قاصدوں نے کہا کہ آپ آزردہ و افسردہ دل نہ ہوں ، ھم آپ کی پیچھے رہ جانے والی بیوی کے سوا آپ کے دیگر اہل خانہ کو اِس عذاب سے ضرور بچالیں گے لیکن اِس بستی کے دیگر نافرمان انسانوں پر ھم جلدی ہی وہ عذاب اُتارنے والے ہیں جو رہتی دُنیا تک دُنیا کے لیۓ عبرت کا باعث ہو گا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
لُوط علیہ السلام ، ابراہیم علیہ السلام پر اُس وقت ایمان لاۓ تھے جب ابراھیم علیہ السلام ایک بہت بڑی آزمائش سے گزرکر سُرخ رُو ہوۓ تھے اور لُوط علیہ السلام جس وقت ابراھیم علیہ السلام پر ایمان لاۓ تھے اُس وقت یہ بات اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتی تھی کہ آنے والے وقت میں اللہ تعالٰی اُن کو بھی منصبِ نبوت پر فائز کرنے والا ھے اور جس عظیم نبی کی نبوت پر وہ ایمان لاۓ تھے اُس عظیم نبی کے وھم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ جو نوجوان اِس وقت اُن پر ایمان لایا ھے اُس نوجوان کو بھی اللہ تعالٰی نے اپنا نبی بنایا ہوا ھے اور اُن دونوں اَنبیاۓ کرام کے گمان میں نہ آنے والی یہ دونوں باتیں اِس بات کی دلیل ہیں کہ اللہ تعالٰی اپنے نبی کو بھی اتنا ہی علم دیتا ھے جتنا علم اُس کو دینے کی ضروت ہوتی ھے اور اُسی وقت اُس نبی کو وہ علم دیتا ھے جس وقت اُس نبی کو اُس علم کی ضرورت ہوتی ھے ، لُوط علیہ السلام کو اللہ تعالٰی نے جس وقت جس بستی کے باشندوں کی تعلیم کے لیۓ جو علمِ نبوت دیا تھا اور لُوط علیہ السلام نے اپنے اہلِ بستی پر اُس علمِ نبوت کا جس طرح اظہار کیا تھا اور اُن کے اہلِ بستی نے اُن کو جو غیر معقول جواب دیا تھا اُس کی پُوری تفصیل اٰیاتِ بالا میں موجُود ھے لیکن لُوط علیہ السلام کی اہلیہ کے بارے میں انسانی ذہن میں جو سوالات پیدا ہوتے ہیں اُن سوالات کو اللہ تعالٰی نے انسان کی عقل و بصیرت پر چھوڑ دیا ھے کیونکہ قُرآنِ کریم کے تعلیمی مقاصد میں اَوّلیں مقصد انسانی ذہن کے بند دروازوں کو کھولنا ھے تاکہ انسان اِس کُھلے عالَم کا اپنی کُھلی آنکھوں سے مشاھدہ کرے اور اِس کُھلے عالَم کے لیۓ نازل ہونے والی اِس کُھلی کتابِ ھدایت کا اپنے کُھلے ذہن کے ساتھ مطالعہ کر سکے اِس لیۓ اِس کتاب میں انسان کو اللہ تعالٰی نے اَمرو نہی کے جو اَحکام دیۓ ہیں اُن اَحکام پر تو انسان کو اُسی طرح عمل کرنا چاہیۓ جس طرح جس حُکمِ اَمر و نہی کی صورت میں وہ اَحکامِ نازلہ موجُود ہیں لیکن جن اُمور کو اللہ تعالٰی نے انسانی عقل و شعُور پر چھوڑا ہوا ھے اُن امُور پر انسان کو عُمر بھر غور و فکر کرتے رہنا چاہیۓ اور عمر بھر اُن اُمور سے قابلِ فکر و عمل نتائج اخذ کرتے رہنا چاہیۓ ، قُرآنِ کریم نے لُوط علیہ السلام کی بیوی واعلہ کے بارے میں سُورَةُالاَعراف کی اٰیت 83 ، سُورَةُالحجر کی اٰیت 60 ، سُورَةُالشعراء کی اٰیت 171 ، سُورَةُالنمل کی اٰیت 57 ، سُورَةُ العنکبُوت کی اٰیت 32 و 33 اور سُورَةُالصافات کی اٰیت 135 میں جو لفظی مُرکب استعمال کیا ھے وہ "الغابرین" ھے جو "غبرة " کی جمع ھے اور قُرآنِ کریم نے سُورَہِ عبس کی اٰیات کی اٰیت 40 میں "غبرة " کا جو معنٰی بیان کیا ھے وہ غُبار ھے اور اِس معنی کے مطابق لُوط علیہ السلام کی بستی میں جو لوگ رہتے تھے اُن کی نظروں کے سامنے ایک علمی و بصری غبار چھایا ہوا تھا جس کی وجہ سے اُن کی نظر میں آنے والی علمی و بصری چیزیں اُن کو دُھندلی نظر آتی تھیں اور لُوط علیہ السلام کی بیوی بھی اُن لوگوں میں شامل تھی جن کو یہ چیزیں دُھندلی نظر آتی تھیں ، اِن اٰیات کی اِس پہلی تفہیم کے مطابق سب سے پہلے انسانی ذہن اِس طرف جاتا ھے کہ جس معاشرے کے مرد اپنے مَردوں کے ساتھ اپنی جنسی تسکین کی تَکمیل کرنے لگتے ہیں اُس معاشرے کی عورتیں بھی اپنی جنسی تسکین کی تکمیل کے لیۓ عورتوں کی طرف ہی مائل ہوسکتی ہیں اور ہوتی ہیں جیساکہ سُورَةُالنساء کی اٰیت 15 میں اِس صورتِ حال کا بیان ہوا ھے لیکن لُوط علیہ السلام کی بیوی کے بارے میں یہ خیال کُچھ زیادہ مُعتبر نہیں ھے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو لُوط علیہ السلام اپنی اُس بیوی کو اپنے ساتھ نہ رکھتے اور اِس پہلے امکان کے بعد جو دُوسرا امکان سامنے آتا ھے وہ یہ ھے کہ جب کبھی بھی کسی قوم پر آسمانی عذاب آتا ھے تو اُس عذاب کا ایک مقررہ دائرہ عذاب ہوتا ھے اور اُس مقررہ دائرے میں عذاب سے پہلے اُس بستی پر ایک آندھی بہیجی جاتی ھے اور اِس کے ساتھ ہی اُس قوم کے نبی کو اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ عذاب کے اُس مقررہ دائرے سے باہر نکل جانے کی ھدایت کر دی جاتی ھے اور عین مُمکن ھے کہ لُوط علیہ السلام کی بیوی اُس وقت بوجوہ لُوط علیہ السلام کا ساتھ دینے کے قابل نہ ہو اور پیچھے رہ جانے کی صورت میں عذاب کے لپیٹ میں آنے والوں کے ساتھ اُسی عذاب کی لپیٹ میں آگئی ہو لیکن یہ بات بھی کُچھ زیادہ جان دار نظر نہیں آتی ، اِن دو امکانی صورتوں کے بعد ایک تیسری امکانی صورت یہ بھی ہو سکتی ھے کہ لُوط علیہ السلام کی بیوی بھی روایتی عورتوں کی طرح عذاب کی خبر کو اپنے شوہر کا وہم سمجھتی ہو اور اپنے شوہر کی سلامتی کے خیال سے اپنے شوہر کو اُس خوفناک آندھی کے دوران گھر میں روکنے کی کوشش کرتی رہی ہو لیکن لُوط علیہ السلام اللہ تعالٰی کے فوری حُکم کے مطابق فوری طور پر اپنی بیٹی ریث اور راریہ کو ساتھ لے کر بستی سے نکل گۓ ہوں اور اُن کی بیوی واعلہ اپنی کاہلی کی بنا پر اُن سے پچھے رہ گئی ہو تاہَم اِس کی وجہ کُچھ بھی رہی ہو بُنیادی بات یہ ھے کہ نبی کا جو حُکم ہوتا ھے وہ درحقیقت اللہ تعالٰی کا حُکم ہوتا ھے اور اُس حُکم کو کوئی چون و چراں کیۓ بغیر ماننا ہی اُس نبی پر اور اُس نبی پر نازل ہونے والی وحی پر ایمان لانا ہوتا ھے اور جو انسان اپنی کٹ حُجتی اور کَج بحثی کے باعث اُس حُکم کے ماننے میں پیچھے رہ جاتا ھے وہ خُدائی عذاب کی زد میں آجاتا ھے چاھے وہ اُس نبی کا کوئی قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو ، بہر حال قومِ لُوط پر جو عذاب آیا تھا اُس کا اَصل سبب اُس قوم کا عورت کے ساتھ اُس فطری رشتے کو توڑنا تھا جس سے اَولاد کا سلسلہ چلتا ھے اور مرد کے ساتھ اُس غیر فطری رشتے کو جوڑنا تھا جو غیر فطری رشتہ فسادِ جان و جہان کا باعث بنتا ھے اور سُورَةُالبقرة کی اٰیت 27 میں { الذین ینقضون عھد اللہ من بعد میثاقهٖ ویقطعون ماامراللہ بهٖ ان یوصل و یفسدون فی الارض اولٰئک ھم الخٰسرون } جو اَزلی و ابدی قانون بیان ہوا ھے وہ نسلوں کا یہی انقطاع ھے جو فساد فی الارض کا باعث ھے اور قومِ لُوط پر جو عذاب آیا تھا وہ اسی قانون شکنی اور اسی فساد فی الارض کی بنا پر آیا تھا !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 460034 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More