حضرت داتا صاحب۔علی بن عثمان ہجویری۔رحمتہ اللہ علیہ
(Pir Farooq Bahaul Haq Shah, Bhalwal)
حضرت مخدوم علی ہجویری جو داتا گنج بخش کے
نام سے معروف ہوئے آج سے قریب ایک ہزار سال قبل لاہور میں جلوہ گر ہوئے اور
کفر کے اندھیرے میں توحید کے نور کا وہ چراغ روشن کیا جس کی روشنی آج بھی
قلوب و اذھان کو منور کر رہی ہے۔ حضرت داتا گنج بخش کی تاریخ ولادت کے بارے
میں مورخین کا اختلاف ہے البتہ منشی دین محمد فوق نے ان کی سوانح حیات میں
تاریخ پیدائش 400ھ یا 401تحریر کی ہے۔ غزنی موجودہ افغانستان کا ایک معروف
شہر ہے اس کے قریب ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جس کا نام ہجویر تھا یہاں آپ کی
ولاد ت ہوئی۔ بزرگان لاہور نام کی ایک کتاب جو لاہور کے قدیم بزرگوں کے
مختصر حالات پر مشتمل ہے اس کے مصنف پیر غلام دستگیر نے آپ کا شجرہ یوں
بیان کیا ہے۔ حضرت مخدوم علی بن سید عثمان بن سید علی بن سید عبد الرحمن بن
سید عبد اللہ بن سید ابوالحسن علی بن حسن بن سید زید بن امام حسن رضی اللہ
عنہم۔
چار برس کی عمر میں قرآن کریم کی تعلیم سے اپنے تعلیم کا باقاعدہ آغاز
فرمایااور مختلف اساتذہ سے مختلف فنون کی تعلیم حاصل کی۔ کشف المحجوب میں
آپ نے اپنے چوالیس اساتذہ کا تذکرہ فرمایا ہے۔ آپ کے والد گرامی حضرت عثمان
جلالی اپنے دور کے صاحب کرامت بزرگ تھے اور ان کا مزار آج بھی غزنی میں
مرجع خلائق ہے۔آپ تصوف کے سلسلہ جنیدیہ سے تعلق رکھتے تھے اور آپ کا سلسلہ
طریقت حضرت علی شیر خدا سے جا ملتا ہے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد آپ اس دور کی
روایت کے مطابق سیاحت کے لئے نکل کھڑے ہوئے اور آپ نے بلاد اسلامیہ کی مکمل
سیاحت کی۔اس سیر و سیاحت کا احوال کشف المحجوب میں موجود ہے۔ لاہور تشریف
آوری کے متعلق ایک روایت یہ موجود ہے کہ آپ کے پیر و مرشد حضرت ابوالفضل
غزنوی رحمتہ اللہ علیہ نے ایک مرتبہ فرمایاکہ سلطان محمود غزنوی کئی مرتبہ
ہندوستان پر حملہ کر چکا ہے لیکن اس کو فتح نصیب نہیں ہو رہی۔ علی ہجویری!
آپ جائیں اور لاہور پر اسلام کا پرچم لہرائیں۔آپ اپنے مرشد کے حکم کے مطابق
لاہور تشریف لے گئے۔ روایات کے مطابق جب آپ لاہور میں داخل ہوئے تو اس وقت
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ایک جنازہ شہر سے باہر جارہا ہے۔ پوچھنے پر بتایا
گیا کہ حضرت حسین زنجانی رحمتہ اللہ علیہ قطب لاہور کا جنازہ ہے۔
قارئین کے لئے یہ بات دلچسپی کا باعث ہو گی کہ دنیاوی اور ظاہری حکومتوں کے
ساتھ ساتھ اہل تصوف کی اپنی حکومت ہوتی ہے۔ جب ایک قطب یا ابدال وفات پاتے
ہیں تو کسی اور بزرگ کی ڈیوٹی لگا دی جاتی ہے ادھر حضرت حسین زنجانی کا
وصال ہو ا تو دوسری طرف حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری کو قطب لاہور کے منصب
پر فائز کر دیا گیا۔آپ نے لاہور کے مغربی علاقے میں ایک مندر کے نزدیک
اسلامی جھنڈا نصب فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ یہ پرچم لاہور پر سایہ فگن
رہے گا۔آپ نے سب سے پہلے مسجد تعمیر فرمائی مسجد کی تعمیر کے وقت ہی ایک
ایسا معجزہ روپزیر ہوا جس نے اس وقت کے علماء و مشائخ پر آپ کے تقوی و علمی
وجاھت و کرامت کی دھاک بٹھا دی۔ آپ کی مسجد کے محراب پر اس وقت کے علماء نے
اعتراض کیا کہ اس کی سمت درست نہیں۔ حضرت داتا گنج بخش علی ہجوری نے تمام
علماء کرام کو مدعو کیا ان کا روزہ افطار کروایا، نماز مغرب کی جماعت
خودکرائی۔آپ نے خطبہ ارشاد فمرایا کہ میں نے سنا ہے کچھ لوگوں کو مسجد کے
محراب کی سمت پر اختلاف ہے میں آپ کو دکھاتا ہوں کہ کعبہ کس سمت میں ہے۔اس
وقت سینکڑوں علماء نے چشم ظاہری سے داتا صاحب کی مسجد کے محراب سے کعبۃ
اللہ کی زیارت کی اور سب ان کی عظمت کے قائل ہو گئے اور عقیدت کا دم بھرنے
لگے۔آپ کے کمالات کا کوئی شمار نہیں لیکن ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ
انہوں نے مخلوق کا رابطہ خالق سے بحال کروادیا۔ہندومت اور اس کے توہمات
بھرے مذہب اپنائے ہوئے لوگوں کو اللہ کی بارگاہ میں جھکا دیا۔آپنے صوفیاء
کے طریق کے مطابق لنگر شروع کیا جہاں پر کھانے کے لئے کسی مذہب ومسلک کی
قید نہ تھی۔اس حیران کن عمل کی وجہ سے کثیر ہندو،حلقہ بگوش اسلام
ہوئے۔خواجہ خواجگان حضرت معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اللہ علیہ کو دربار
رسالت سے ولایت عطا ہوئی تو ان کو یہی حکم ہو اکہ سب سے پہلے مخدوم سید علی
ہجویری کے مزار پر جا کر اعتکاف کرو۔حضرت خواجہ خواجگان نے 40روز تک حضرت
داتا صاحب کے مزار پر مراقبہ کے او ر جب روحانی فیوض و برکات کا در کھلا تو
بے ساختہ آپ کے منہ سے یہ نکلا
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما
آپ ایک صاحب کرامت ولی ہونے کے ساتھ ساتھ مستند عالم دین بھی تھے یوں تو
تاریخ میں اس کا تذکرہ ملتا ہے لیکن اب صرف کشف المحجوب ہی دستیاب ہے۔ اس
کتا ب کو وہ شہرت دوام حاصل ہوئی کہ جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ یہ کتاب
فارسی زبان میں لکھی گئی لیکن دنیا کی ہر زبان میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔
یہاں تک کہ سینئر صحافی جناب جی آر اعوان نے اردو میں ہی”آسان کشف المحجوب“
کے نام سے اس کو مزید سلیس کر کہ قوم کے سامنے پیش کیا۔اس کو تصوف میں سند
کا درجہ حاصل ہے۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الہی فرماتے ہیں کہ
جس کا کوئی مرشد نہ ہو اس کو کشف المحجوب کی برکت سے مل جائے گا۔ جبکہ بعض
مورخیں نے حضرت محبوب الہی کے اس فارسی فقرے کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ یہ کتاب
اس کو مرشد کی طرح راہنمائی دے گی۔پروفیسر خلیق نظامی تاریخ مشائخ چشت میں
فرماتے ہیں کہ حقیقی تصوف کو عوام تک پہنچانے میں کشف المحجوب کا بڑا حصہ
ہے۔کشف المحجوب مقدمہ کے علاوہ انتالیس ابواب پر مشتمل ہے۔ زیلی ابواب اس
سے علیحدہ ہیں۔ان ابواب پر نظر ڈالیں تو ان کی ثقاہت علمی مزید واضح ہو
جاتی ہے۔ اثبات علم، اثبات فقر، تصوف،خرقہ پوشی، ملامت، صحابہ کرام، اہل
بیت، اصحاب صفہ، ائمہ تابعین، تبع تابعین، صوفیاء متاخرین، صوفیا کے مختلف
مکاتب و مذاہب، توبہ، محبت، صحبت، اداب صحبت اداب سفر، کھانے کے آداب، چلنے
پھرنے کے آداب،سفر و حضر میں سونے کے آداب، بولنے اور چپ رہنے کے آداب،
سوال اور ترک سوال کے آداب، نکاح و تجرد،سماع قرآن، سماع شعر، سماع لحن و
نغمہ، احکام سماع، اختلاف سماع، مقامات سماع و جد و رقص، ادب سماع وغیرہ
جیسے موضوعات پر حضرت داتا صاحب نے تحریر فرمایا ہے۔ حضرت داتا گنج بخش علی
ہجویری نے ان موضوعات پر قرآن و حدیث اور اقوال صحابہ و اہل بیت کی روشنی
میں احکامات بیان فرمائے ہیں۔ اور زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والوں کے
لئے راہنمائی موجود ہے۔آ پ نے سب سے پہلے زیادہ علم پر زور دیاہے اس کی
اہمیت و حقیقت پر مفصل گفتگو فرمائی ہے۔ کشف المحجوب کے پہلے باب میں علم
کے فضائل پر گفتگو کرتے ہوئے آپ نے حضر ت شیخ حاتم کا قول نقل فرمایا ہے
”دنیا کے تمام علوم میں سے میں نے چار چیزیں حاصل کیں اور باقی تمام علوم
سے بے نیاز ہو گیا۔(۱) رزق کی مقدار متعین ہے اس میں کمی بیشی ہو سکتی ہے
اس لئے رزق میں اضافہ کی طلب سے بے نیاز ہو گیا۔(۲) اللہ تعالیٰ کی جانب سے
جو حقوق مجھ پر فرض ہیں ان کی ادائیگی میں مشغول ہو گیا۔(۳) موت میر ے
تعاقب میں ہے جس سے کسی طور بھی فرار ممکن نہیں۔لہذا اس سے ملنے کی تیاری
میں لگ گیا۔(۴) اللہ تعالیٰ ہر وقت مجھے دیکھ رہے ہیں اس حقیقت کی وجہ سے
اللہ سے شرم کرتا ہوں اور ممنوع افعال سے بچ جاتا ہوں۔
آپ نے علماء کی فضیلت اور علم کی اہمیت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ علماء سوء
کی خوب نشاندہی فرمائی اور ان کو علماء غافل کا نام دیا۔ علماء غافل وہ لوگ
ہیں جو اپنی تن آسانی کے لئے حکومتوں کے نزدیک رہتے ہیں اپنی خواہشات کے
مطابق دین کی من پسند شرع کرتے ہیں وہ تصنع اور بناوٹ کو پسند کرنے والے
ہوتے ہیں حضرت داتا صاحب نے علماء غافلین کے متعلق ایک اہم بات تحریر
فرمائی کہ علماء سو اور علماء غافل وہ ہیں جو اپنے اساتذہ کی شان میں زبان
طعن دراز کرتے ہیں۔ بزرگان دین اور سلف صالحین کے مقابلہ میں اپنی فوقیت
علمی کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ علماء غافلین ہیں۔ اس باب کا ایک ایک جملہ
موجودہ دور کے علماء اور عوام کے لئے راہ ہدایت ہے۔علماء سوکی وضاحت کرنے
کے بعد انہوں نے فقراء کی فضیلت کے متعلق فضائل بیان کئے ہیں۔اس کے ساتھ
ساتھ داتا صاحب نے رسم پرست صوفیاء کی شدید مذمت فرمائی ہے اور عوام کو ان
سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ ”تصوف تو تمام کا تما م مجاہدہ ہے
اور اس میں ہرگز لہو و لعب شامل نہیں کرنا چاہئیے۔ اپنے آپ کو رسم پرست
صوفیاء سے بچاؤ“۔ آپ مزید فرماتے ہیں کہ ایک دن وہ تھا کہ تصوف حقیقتاخالص
تصوف تھا نام ونمود نہ تھی یعنی عہد صحابہ کرام اور سلف صالحین میں صرف نام
کا تصوف نہ تھا بلکہ ہرکسی پر حقیقت تصوف کاعکس موجود تھا۔لیکن اب انحطاط
کا دور ہے۔ آپ جاھل عابد اور ان پڑھ صوفیاء کو ایمان او ر عقیدہ کے لئے
خطرہ سمجھتے تھے۔ آپ نے فرمایابعض لوگ ایسے ہیں جو علم کو عمل پر فضیلت
دیتے ہیں اور بعض لوگ وہ ہیں جو عمل کو علم پر فوقیت دیتے ہیں لیکن دراصل
یہ دونوں باطل ہیں۔کیونکہ علم کے بغیر عمل کی اہمیت نہیں سمجھی جا سکتی
بلکہ عمل ہوتا ہی اس وقت ہے جب علم اس کے ساتھ شامل ہو۔اس کو عمل کے جزئیات
سے آگاہی ہو۔ آپ نے نماز کی مثال دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جب تک انسان کو
طہارت، پاک پانی کی شناخت نہ ہو۔نماز کے ارکان کا علم نہ ہو وہ نماز، نماز
رہتی ہی نہیں ہے۔اس لئے عمل در حقیقت علم سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ آپ نے مزید
فرمایا کہ بے عمل عالم کا نام عالموں سے نکال دیا جاتا ہے اگر عالم کا عمل
اس کے علم کے مطابق نہ ہو تو اس میں اس کو کچھ ثواب نہیں ہے۔
اس لئے علم و عمل دونوں ہی تصوف کی بنیاد ہیں اور عملی زندگی گذارنے کا
طریقہ ہے۔ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری کے عرس مبارک کے موقع پر ہمیں یہ
عہد کرنا ہو گا کہ اپنی زندگیوں میں انقلاب لاتے ہوئے اللہ اور اس کے رسولﷺ
کی اطاعت کو شعار بنا کر صوفیاء کے طریق پر چلیں اسی میں دین دنیا کی نجات
ہے۔
|
|