سیاست کر کے ملک کو برباد کرنے سے مسئلہ نہیں ہے۔۔۔ایک کے بعد ایک شرمیلا فاروقی کو شوبز نے دیئے جواب

image
 
سوشل میڈیا پر سب ہی تنقید کے خنجر کھولتے ہیں اور ایک دوسرے پر وار کرتے ہیں۔۔۔ایسا ہی خنجر آج کل شرمیلا فاروقی نے ڈرامہ انڈسٹری اور شوبز پر کھولا ہے ۔۔۔لیکن مزیدار بات یہ ہے کہ ستارے بھی کسی سے کم نہیں اور وہ انہیں ہر بات پر کوئی نا کوئی ایسا جواب دیتے ہیں جو منہ بند کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔۔۔
 
یاسر حسین اور اقراء پر تنقید کا جواب
اقراء یاسر نے اپنے شوہر کی تعریف میں سوشل میڈیا پوسٹ لگائی کہ کس طرح ان کے شوہر برابر سے بچے کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹارہے ہیں۔۔۔شرمیلا فاروقی نے اس پوسٹ کے جواب میں اقراء کو لکھا کہ اس میں کیا نئی بات ہے۔۔۔اور یہ تو مردوں کو کرنا چاہئے۔۔۔میرا شوہر بھی یہ سب کام کرتا تھا تو اسے بتا کر کچھ الگ کیوں دکھانا۔۔۔۔اقراء عزیز نے تو اس بات کا جواب کچھ اس طرح دیا کہ اس معاشرے میں جہاں مردوں کا راج ہے اور وہ اپنی بیویوں کو ایک تعریف کا بول بھی نہیں بولتے۔۔۔میرا شوہر میرے کام کرتا ہے اور جب وہ مجھے سپورٹ کرتا ہے، مدد کرتا ہے، تعریف کرتا ہے میری تو میں کیوں نہیں۔۔۔اور یاسر حسین نے تو یہ تک کہہ دیا کہ تعریف سے مسئلہ ہے ، ہر بات سے مسئلہ ہے لیکن سیاست کرکے ملک کو برباد کرنے سے مسئلہ نہیں ہے۔۔۔
image
 
گوہر کا تھپڑ والے پوسٹ پر جواب
ڈرامہ لاپتہ میں گوہر نے سارہ خان کو جب تھپڑ مارا اور بدلے میں دکھایا یہ گیا کہ سارہ خان نے بھی تھپڑ کا جواب ایک زوردار تھپڑ سے دیا تو گوہر نے ایک پوسٹ میں لکھا کہ میں اسکرین پر خواتین پر دکھائے جانے والے مظالم کے خلاف ہوں۔۔۔یہ تھپڑ کا سین بہت سارے مردوں کو یہ دکھانا ہے کہ جس طرح فلک نے دانیال کے منہ پر تھپڑ مارا وہ آپ کے لئے بھی تھا اور خواتین کو طاقت دینے کے لئے یہ ایک بہترین سین تھا۔۔۔شرمیلا فاروقی نے اس بات کا جواب دیا اور کہا دبنا کوئی چوائس نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے اور ہمارے معاشرے میں خواتین اس لئے نہیں دبتیں کیونکہ وہ دبنا چاہتی ہیں بلکہ ان کے پاس کوئی راستہ نہیں خود پر ظلم اور زیادتی روکنے کے لئے ۔۔۔یہ ایک نا ختم ہونے والا سرکل ہے۔۔۔گوہر نے اس کا جواب دیا کہ پھر کیسے ہم اس سرکل کو توڑیں گیں جہاں خواتین ڈر اور خوف کے سیارے یہ سب برداشت کرتی ہیں۔۔۔یہ تھپڑ سین ان خواتین کی نمائندگی کرتا ہے کہ وہ اپنے حق کے لئے اٹھیں اور ظلم برداشت نا کریں۔
image
YOU MAY ALSO LIKE: