|
|
عام طور پر سیاسی میدان میں جب کسی ملک کی سربراہی کسی
ڈکٹیٹر کے ہاتھ میں آتی ہے تو ایک جانب تو وہ اپنے مخالفین کے لیے ظالم
ترین حکمران ہوتا ہے اور اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو بزور طاقت دبا
دینا ضروری سمجھتا ہے- تو دوسری طرف عام عوام کی ہمدردیاں لینے کے لیے خود
کو نیک اور شریف ترین انسان بنا کر پیش کرتا ہے یہاں تک کہ ضرورت پڑنے پر
مذہب کا سہارا لینے سے بھی نہیں چوکتے ہیں - |
|
صدام حسین کا شمار اپنے وقت کے بہت مضبوط اور طاقت ور
حکمرانوں میں ہوتا تھا جنہوں نے 1979 سے لے کر 2003 تک عراق پر ایک ڈکٹیر
کے طور پر حکومت کی اپنے دور اقتدار میں انہوں نے جہاں مختلف اچھے اور برے
کام کیے- وہیں پر 1990 میں ان کے بڑے فیصلوں میں سے ایک فیصلہ ایران عراق
جنگ بھی تھا جس کے اختتام کے بعد صدام حسین کو یہ محسوس ہوا کہ ان کی عوام
اور ان کی جماعت کے مختلف لوگ ایران کے مذہبی انقلاب سے بہت متاثر ہو رہے
ہیں- |
|
اس بات کو محسوس کر کے 1978 کے آزاد خیال صدام حسین نے اپنی سوچ میں تبدیلی
لانے کا فیصلہ کیا اور اپنے اقتتدار کو مضبوط رکھنے کے لیے مذہب کا سہارا
لینے کی کوشش کی- |
|
قرآن کا نسخہ اپنے خون سے لکھوانے کا اعلان
|
اس کوشش میں ایک جانب تو ملک بھر میں مساجد کی تعمیر کا سلسلہ شروع کیا اس
کے علاوہ قرآن کی تعلیم کے لیے ایک یونی ورسٹی بھی قائم کی اس کے ساتھ ساتھ
انہوں نے قرآن کے ایک نسخے کو اپنے خون سے لکھوانے کا بھی اعلان کیا- |
|
|
|
1990 میں صدام حسین نے ایک کیلی گرافر عباس شاکر جودی سے
رابطہ کیا اور ان سے درخواست کی کہ ان کے خون سے قرآن کا ایک نسخہ تحریر
کیا جائے۔ ماہرین کے مطابق صرف خون سے لکھنا ممکن نہیں ہے اس وجہ سے یقیناً
اس میں کچھ کیمیکل بھی شامل کیے گئے ہوں گے تاکہ خون لکھنے کے قابل ہو سکے- |
|
اس کہانی کے مطابق ہر ہفتے سیاہی کی تیاری کے لیے صدام
حسین اپنا خون پیش کرتے جس سے قرآن لکھا جاتا اور سرکاری حکام کے مطابق دو
سال کے دوران قرآن کے 605 صفحات اور 114 سورتوں کو تحریر کرنے کے لیے صدام
حسین کا 24 لیٹر خون استعمال میں لایا گیا- |
|
جس کے بارے میں صدام حسین کا یہ کہنا تھا کہ ان کو امید
تھی کہ ان کا یہ خون خدا کی راہ میں بہایا جائے گا اور جب ایسا نہ ہو سکا
تو انہوں نے اس کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا اور ان کو امید تھی کہ اللہ ان
کو اس نیکی کے سبب مصیبتوں سے محفوظ رکھے- |
|
خون سے قرآن کے نسخے کی
اصل حقیقت |
ماہرین کے مطابق ایک عام انسان سال بھر میں 470 ملی لیٹر
خون عطیہ کر سکتا ہے اس سے زيادہ خون کا عطیہ جسم کو سنگین مسائل کا شکار
کر سکتا ہے جب کہ قرآن کو لکھنے کے لیے جو خون درکار تھا اس کی مقدار اس سے
بہت زیادہ ہے- اس حوالے سے ماہر تاریخ ساسون کا یہ کہنا ہے کہ اس بات کی
امید کی جا سکتی ہے کہ صدام حسین سے کچھ خون کا عطیہ قرآن کی تحریر کے لیے
کیا ہو گا مگر مکمل طور پر خون کی ضرورت کو پورا کرنا صدام حسین کے لیے
ممکن نہیں تھا- |
|
|
|
قرآن پاک کا یہ نسخہ اب
کہاں ہے |
قرآن پاک کے اس نسخے کا افتتاح صدام حسین نے 25 ستمبر
2000 کو کیا اوراس نسخے کو بغداد کی جامع مسجد ام القری میں رکھا گیا- مگر
صدام حسین کی حکومت پر امریکی قبضے کے بعد سال 2003 میں اس نسخے کو چھپا
دیا گیا- |
|
اس نسخے کو مسجد ام القری میں ہی ایسی جگہ پر محفوظ کر
دیا گیا جس کی تین چابیاں تین مختلف لوگوں کے پاس تھیں اس وجہ سے جب تک وہ
تینوں افراد ساتھ نہ ہوتے تب تک اس کے کھلنے کا امکان نہ ہونے کے برابر تھا- |
|
اب اس قرآن کے نسخے کے حوالے سے کچھ افراد کا یہ ماننا
ہے کہ اس قرآن کے کچھ صفحات آج بھی اس مسجد میں ہیں جب کہ کچھ صفحات صدام
حسین کی بیٹی رغد حسین کے پاس محسوس ہیں جو کہ اس وقت اردن میں مقیم ہیں - |