سردیوں کے دن تھے اور 1970 کا سال ،یہ سال پاکستان کے لیے
منفرد سال تھا وطن عزیز میں پہلی بار انتحابات ہونے جا رہے تھے گلی گلی
کوچے کوچے میں لوگ بحث مباحثے کرتے ایک جنون کی کیفیت تھے ہم لوگ گجرانوالہ
میں رہتے تھے ۔والد صاحب پچاس کی دہائی میں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ ا گئے
تھے جو آزادی سے پہلے لاہور قلعہ دیدار سنگھ کامونکی سے ہوتے ہوئے
گجرانوالہ میں آن بسے تھے ۔تائی اماں راجپوتوں کی منج فیملی سے تعلق رکھتی
تھیں یہ لوگ قلعے سے پہلے نوکریاں دیہات میں گرداس پور سے ا کر بسے تھے
تایا جان بڑے دبنگ قسم کے بندے تھے چوہدری ظہور الٰہی کے ساتھ پولیس میں
رہے اور جلن چوکی میں ان دو یاروں نے سکھوں سے سخت مقابلے کے بعد حکومت
انگلیزیہ کی رٹ قائم کی تھی ۔واہ ہم بھی کیا لوگ تھے جس کی وردی پہنی اس کے
گیت ہی نہیں اس کا راج بھی قائم کیا
میں پندرہ سال کا لڑکا اسلامی جمعیت طلبہ سے متاثر تھا اور ظاہر ہے جمعیت
جماعت ہی کی ایک شاخ تھی ۔ہمارے پورے محلے میں پیپلز پارٹی کے ترنگے لہرائے
نظر آتے تھے ان دنوں جس کسی نے پارٹی کا ساتھ دیا فورا جھنڈا لہرا کر اعلان
کیا کہ میرا تعلق اس پارٹی سے ہے کیسے صاف لوگ تھے پوری گلی میں پیپلز
پارٹی کا راج تھا چند ایک لوگ تھے جو مختلف پارٹیوں سے وابستہ اپنی منفرد
شناخت رکھتے تھے ۔انہی دنوں مولانا مودودی بھی گجرانوالہ آئے تھے ہماری
عادت تھی کہ ہم جس جلسے میں جاتے اپنی نوٹ بک کے جایا کرتے تھے میرے پاس
بھی ایک نوٹ بک تھے یہ در اصل آٹو گراف بک تھی ۔افسوس مرور ایم میں یہ کہیں
کھو گئی مجھے اس کا آج تک دکھ ہے کہ جس بک میں پندرہ سالہ افتخار نے نور
الامین۔ سید مودودی خواجہ رفیق مولوی فرید احمد نوابزادہ نصر اللہ خان قیوم
خان میجر جنرل سرفراز کے آٹو گراف لئے وہ مجھ سے کھو گئی ۔نقصاں تو ہوتا
رہتا ہے لیکن میں اسے نقصان عظیم قرار دیتا ہوں
گلی میں سرفراز بٹ یونس بٹ اور میرے علاؤہ چند اہل حدیث لوگوں کے علاؤہ
کوئی بھی جماعت اسلامی میں نہیں تھا چوہدری اسلم جماعت کے امیدوار تھے ان
دنوں دیواروں پر بھی لکھا جاتا تھا مجھے یہ اعزاز بھی ملا کی میں نے اپنے
گھر کی دیوار پر ،،ترازو،، کا نشان لکھوایا ۔گلی محلوں میں کمرے دو کمروں
کے مکان ہوا کرتے تھے ہمیں اللہ نے کوئی دس ساڑھے دس مرلے کا کارنر گھر دیا
تھا جو ایک حویلی کی طرز پر بنا ہوا تھا اس کی کرمچی رنگ کی دیوار پر ترازو
کا نشان ویسے بھی جب رہا تھا والد صاحب سندھ میں زمینوں پر تھے وہ ایوب دور
میں بی ڈی ممبر بھی منتحب ہوئے تھے اور مصالحتی کمیٹیوں کے چیئر مین بھی
تھے ۔ہماری گلی میں آرائیں برادری کی اکثریت تھے یہ لوگ یہیں کے رہنے والے
تھے چند گھر کشمیریوں کے تھے کچھ لوگ انصاری برادری کے باقی متفرق تھے جنوں
کے مہاجروں کی ایک خاصی تعداد بھی چھوٹے چھوٹے کوارٹروں میں رہتی تھی ۔ وہ
لوگ ڈوگرہ اور گوجری بولا کرتے تھے ۔ہم چوہدری کہلاتے تھے ۔واکد صاحب کا
کاغذی نام چوہدری برخودار خان تھا ۔ہزارہ اور صوبہ سرحد سے آنے والوں کو سب
خان صاحب ہی کہا کرتے تھے اس وقت کے پرتوں میں ہم چوہان راجپوت درج ہیں
۔ہماعت ہاس جو اس گھر کے کاغذ ہیں اس میں قوم کی مد میں راجپوت ہی لکھا ہے
جب کہ ہم ہزارہ ہریپور سے متعلق ہیں اور وہاں ہم گوجر ہیں اور چوہان ہماری
گوت ہے اور مزے کی بات ہے کہ ہم گوجری بولتے بھی ہیں میں تو گوجری میں تین
کالم بھی لکھ چکا ہوں
بہر حال بات 22 ستمبر سے چل نکلی ہے اور یہ دن مجدد وقت سید ابوالاعلی
مودودی کا یوم وفات بھی ہے ۔
میں چونکہ ان سے متاثر ہو چکا تھا ۔اس کالم کو لکھنے کا بنیادی سبب ان سے
جڑی ایک خاص یاد تازہ کرنے کا ہے ۔جو میری اس زندگی کا ایک انتہائی یاد گار
واقعہ ہے ۔ویسے سیاسی لوگوں کی زندگی میں ہر روز کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ
ہو گزرتا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ قیمتی ہو جاتا ہے مجھے پورا یقین ہے کہ آج
کے لوگ جو کسی بھی لیڈر کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں آنے والی نصف صدی کے بعد
یہ ایک کہانی بن جائے گی اور اگر وہ لکھنا جانتے ہیں تو لکھیں گے اور زمانہ
اسے پڑھے گا بھی فاروق عادل دوست ہیں یہ واقعہ ان کے کہنے پر لکھ رہا ہوں ۔
ہوا یوں کے محلے میں کوگ اخباری خبروں پر بحث کیا کرتے تھے اور شدید بحث
کرتے تھے
ایک اخبار شہاب ہوتا تھا اور ایک مساوات یہ دونوں پیپلز پارٹی کے ترجمان
اخبار تھے
ایک بات سب کو بتا دوں کہ اس وقت یحی خان کی حکومت تھی اور نوابزادہ شیر
علی خان ان کے وزیر اطلاعات تھے متحدہ پاکستان تھا ۔پارٹیوں کی تقسیم کچھ
اس طرح تھی کہ سب کی آپس میں نہیں بنتی تھی سارے سر پھٹول کرتے تھے لیکن
ایک بات مشترکہ تھی کہ سب جماعت اسلامی کے خلاف تھے
کیا جمعیت العلمائے اسلام کیا جمعیت علمائے پاکستان کونسل مسلم لیگ نیشنل
عوامی پارٹی پیپلز پارٹی ان کا ایک ہی بڑا مخالف تھا اور وہ تھا ایک عظیم
شخص جس کا نام سید ابوالاعلی مودودی ۔اس ہر سب لوگ تنقید کرتے حتی کے جگر
کے فتوے بھی لگائے جاتے اسکولں کالجوں میں لیفٹ کے لوگ بھی اسی کے مخالف
تھے ۔مجھے سچ پوچھیں ہوا کے مخالف چکنے کی عادت سید مودودی کی فکر نے دی ہے
میں کالج بھی آیا تو ایشیا سبز ہے کا نعرہ لگاتا تھا حتی کہ میرے پاس ایک
شرٹ سبز رنگ کی بھی تھی جو میں اکثر پہنتا کالج میں اسلامی جمعیت طلبہ کی
بنیاد رکھی کالج یونین کا الیکشن بڑی اکثریت سے جیتا میرا کالج اس وقت
گورنمنٹ پولی ٹیکنک انسٹی ٹیوٹ ریلوے روڈ لاہور تھا ۔یہ دور اس دور کے بعد
کا ہے کالج کا زمانہ 1971 سے 1975 کا تھا اور کالج آف ٹیکنالوجی بنانے میں
بھی میرا بڑا ہاتھ ہے
خیر ابھی ہم 1970 میں ہیں ایک روز مولانا غلام غوث ہزاروی جو جمعیت
العلمائے اسلام کے لیڈر تھے اور آج کے مولانا فضل الرحمن کے والد مولانا
مفتی محمود کے ہمنوا تھے انہوں نے شہاب اخبار میں بیان دیا ،،مودودی مجھ سے
کشتی لڑ لو،، محلے میں ارشد بھٹی گلزار فاروق ان سب نے میرا مذاق اڑایا
۔میں نے سوچ لیا کہ میں سید مودودی کے پاس جائوں گا ۔گھر سے کرایہ کیا
لاہور ریلوے اسٹیشن آیا وہاں سے 5 نمبر ڈبل ڈیکر پکڑی اور ابھرے اتر گیا
۔میں بازار میں ایک دفتر تھا وہاں پہنچا دفتر بند تھا جب کھلا تو کسی نے
بتایا آپ سامنے والی گلی میں چکے جائو وہیں 4 اے ذیلدار پارک میں آپ کی
ملاقات سید مودودی سے ہو جائے گی ۔تڑپ بہت تھی اور غصہ بھی ۔میں جب پہنچا
تو جماعت ہو رہی تھی ۔میں بھی شامل ہو گیا کچھ لوگ وضو کر رہے تھے میں شاید
دورمسری رجعت میں شامل ہوا اس کے بعد درس قرآن شروع ہو ا یقین کریں مجھے
بلکل بھی نہیں پتہ کہ کیا ہو رہا ہے میں اس دوران وہ لفظ چنتا رہا کہ مجھے
موقع ملے تو بات کروں کیرا لین کی قمیض دھاری دار پائجامہ قینچی چپل بال
قدرے بڑے ہوئے میرا حلیہ بلکل ایک کھلنڈرے پندرہ سالہ لڑکے کا تھا جو
گجرانوالہ کی گلی سے اٹھ کر وقت کے عظیم شخص سے مکالمہ کرنے نکلا تھا پیسے
بھی جیب میں اتنے ہی تھے جو آنے جانے کا کرایہ تھا ۔مجھے سچ لکھنے دیجیئے
یہ وہ پیسے تھے جو میں روزانہ کے جیب خرچ سے پس انداز کر کے رکھا کرتا تھا
۔آہ سوچ لیجیے میں نے گجرانوالہ سے ناشتہ کیا تھا اور رات گئے گھر ا کر
کھانہ کھایا تھا خیر یہ بات ایسے ہی لکھ دی لیکن ان باتوں سے یہ مقصد تو
واضح ہوا کہ مجھے آج سے نصف صدی پہلے ایک جنون پیدا ہوا تھا کہ بڑے شخص سے
ملوں ان سے سوال جواب کروں ۔میں کوئی بڑا شخص نہیں ہوں لیکن یقین کیجئے میں
نے کم لوگوں کو اپنے سے بڑا تسلیم کیا ہے ۔مودودی میرا پہلا عشق تھا نہ اس
کے بعد کوئی جچا اور نہ جچے گا شاید یہی وجہ ہے کہ نواز شریف کے ساتھ بیٹھا
تو انہیں بھی اچھا مشورہ دیا کبھی قاضی حسین احمد جنرل حمید گل سے نشست
ہوئی تو انہیں بھی مدعی دل بیان کرتا رہا ۔اور یہی معاملہ عمران خان کے
ساتھ بھی رہا ۔لوگ اپنی مرضی کرتے ہیں لیکن ایک بات بتا دوں 2001 میں
اوبرائے مدینہ منورہ کے کھانے کی ٹیبل پر دیا گیا مشورہ اگر جناب نواز شریف
مانتے تو کھجل نہ ہوتے وہ مشورہ کیا تھا کہ حضور پوری فوج سے دشمنی نہ کیں
ایک حوالدار تو سنبھالا نہیں جاتا آپ چلے ہیں سب کی ستھن اترانے ۔قاضی صاحب
جو اللہ کروٹ کروٹ جنت بخشے ،قاضی ا گیا میدان میں ہے جمالو ،، پر کہا تھا
کہ عزت مآب یہ نعرہ ہم پر سجتا نہیں
زندگی ایسے ہی گزار دی ڈکٹیٹر کا ڈٹ کے مقابلہ کیا ۔اور اپنے قائد عمران
خان کو بھی مفید مشورے دئے بڑی کوشش کی کہ جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد ہو
لبیک والوں سے نرمی اختیار کریں ۔لیکن ضروری نہیں کہ آپ کی سنی جائے
نماز عصر ختم ہوتی ہے درس کا سلسہ شروع ہوتا ہے اور اب باری ہے سوال و جواب
کی ۔سوال کرنے کا مرحلہ بڑا عجیب ہوتا ہے یہ آپ اس صحافی سے پوچھیں جو نشست
میں بیٹھا ہوتا ہے اور اس نے سوال کرنا ہوتا ہے ۔میں نے بھی اپنی آواز بلند
کی ہاتھ کھڑا دیکھ کر مولانا نے اجازت دی اور میں سوال کا میزائل داغ دیا
مولانا غلام غوث ہزاروی نے کہا ہے کہ مودودی مجھ سے کشتی لڑ لو آپ ہیں کہ
جواب ہی نہیں دیتے اس سے محلے میں میری بے عزتی ہو گئی ہے ۔۔اچانک قہقہہ
لگا جس کا مولانا نے برا منایا انہوں نے نام پوچھا اور بلا کر اپنے ساتھ
بٹھا لیا اس کے بعد وہ لوگوں کے جواب دیتے رہے
اتنے میں مغرب کا وقت ہوا اور وہ نماز بھی شرکاء نے ان کی امامت میں پڑھیں
۔
مولانا مجھے اپنے ساتھ کے کر اپنے مطالعہ والے کمرے میں کے گئے سنگل سٹوری
عمارت کی سیڑھیاں چڑھ کر بائیں ہاتھ ایک چھوٹا سا کمرہ ہے یہاں اس وقت کا
عظیم شخص جس نے ایک نسل ہر اثرات مرتب کیے بلکہ عالم اسلام کو ایک روشنی دی
لٹریچر دیا اس کے مقابلے میں گجرانوالہ سے ایک نوجوان جس کے پاس سوائے ان
سے محبت کے کچھ نہ تھا ایک اہم شخص کی حیثیت سے بیٹھا ان سے سوال کر رہا
تھا مولانا نے اپنی صبح سے لے کر رات گئے تک کی مصروفیات بتائیں وہ ان دنوں
تفہیم القرآن لکھ رہے تھے سوری حجرات کہ وہ ائیر جس میں ایمان والوں کو
تلقین کی گئی ہے کہ اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند کرو ۔۔۔ کہنے لگے افتخار
صاحب مجھے یہ بتائیے یہ کام کروں کہ پریس کانفرنس کر کے مولانا غلام غوث
ہزاروی کا جواب دوں
میں مطمئن ہو گیا
میں اٹھا وہ میرے ساتھ گیٹ پر آئے میں نے اس جالی والے دروازے پر کھڑے ہو
کر کہا مولانا آپ اپنا کام جاری رکھئے
میں محلے والوں کو سنبھالوں گا
انہوں نے مجھے جماعت اسلامی کی ٹوپی کچھ لٹریچر دیا ۔میں اس کے بعد ایک دو
بار گیا سب کے سامنے کہا گجرانوالہ سے میرے ننھے دوست افتخار آئے ہیں
نہ ایسے ناصح ملے اور نہ ہی ایسے قائد ۔اللہ پاک ان کی قبر کو جنت کے باغوں
میں سے ایک باغ بنا دے آمین
|