زرعی ملک کی زراعت زوال پذیر کیوں؟

میرب فاطمہ
سونا اُگلتی ہماری زمین بے شمار نعمتوں سے مالا مال ہے اور اس کے سینے پراس کائنات کا ہر حسن موجود ہے۔دریا،پہاڑ،ندی نالے،برف سے ڈھکی فلک شگاف پہاڑیاں اور ان پہاڑیوں کے اُوپر سے گزرتی یخ بستہ ہوائیں،اُونچے خوبصورت درخت،پھولوں، پھلوں سے لدی وادیاں اور ان وادیوں کا حسن ہر کسی کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے ’’اور اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا شکر ادا کروگے‘‘۔خوش قسمتی سے ہماری سرزمین دنیا میں زراعت کے حساب سے نمبر ون ہے۔ہم چاہیں تو اپنی اس سرزمین کو اور بھی زرخیز کر کے اپنے ملک میں معاشی انقلاب لا سکتے ہیں اس کے لیے ضرورت جدید مشینری،ماہرین زراعت،جدید افکار زراعت اور بہتر منصوبہ بندی کی ہے مگر ایک بات سب سے پہلے ’’مضبوط ارادے‘‘ کی ہے۔ہمارے پاس زرعی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل اور پیشہ ورانہ مہارت والے ماہرین موجود ہیں جو اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پرجدید تحقیق سے مدد لے کر چاول،گندم،مکئی، سبزیاں،گنّا اور پھلوں کے باغات میں مزید بہتری لا کرملک و قوم کو فائدہ پہنچاسکتے ہیں۔اس کام سے ہماری غذائی قلت پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے اور عالمی منڈی میں ہمارے منافع میں اضافہ بھی ممکن ہوگا۔بدترین اور کرپٹ سیاسی نظام کی وجہ سے ایک زرعی ملک کی حکومت نے زراعت پر کبھی توجہ ہی نہیں دی حالانکہ ایک پوری وزارت زراعت اور زرعی پیداوار موجود ہے مگر روایتی کرپٹ نظام اور افسر شاہی کے سست روی والے رویہ کی وجہ سے ہنوز معاملہ حل طلب ہے ۔اب اہم سوال یہ ہیں کہ ہمارا کسان کب خوشحال ہوگا ؟ کسان کے معاشی حالات کب ٹھیک ہوں گے؟کسان کی گولڈن فصل کب پکے گی جو اُن کے تمام مسائل کو حل کر دے ۔بڑے زمینداروں نے توکسی نہ کسی طریقے سے اپنی پیداوار کو بڑھایا ہے مگر چھوٹے کسان کو کوئی فائدہ نہیں ملتا، وہ بچارہ جو بوتا ہے چھ ماہ کے بعد منڈی میں دے کر خالی ہاتھ واپس گھر آجاتا ہے کیونکہ چھوٹے زمیندار نے اپنی فصل کے لیے بیج،تیل اور زرعی ادویات اُدھار پر لی ہوتی ہیں چنانچہ فصل پکنے پرپہلے وہ قرض اُتار تا ہے پھر دوبارہ اگلے سیزن کے لیے تیل،بیج اور زرعی ادویات اُدھار پر لے جاتا ہے۔پھر کہیں جا کر وہ زمین پر ہل چلانے کے قابل ہوتا ہے مگر افسوس نہ حکومت اور نہ علاقے کا بڑا سیاست دان ،اس سارے عمل میں کوئی بھی ان سے اُن کے مسائل نہیں پوچھتا ۔وہ ہماری بھوک مٹانے کے لیے گرمی اور سردی کے سخت موسم میں غذائی اجناس پیدا کرتے ہیں تو ہمارے دستر خوان پر ڈبل روٹی،کیک،دودھ،مکھن،پھل اور دیگر انواع و اقسام کی چیزیں ہمارے کھانے کے لیے موجود ہوتی ہیں۔ہمارا سیدھا سادا اور محنت کش کاشت کار بدلے میں کچھ نہیں مانگتا بلکہ وہ اپنے لوگوں کو دے کر خوش ہوتا ہے ۔کسان کے ہل چلانے سے ساری قوم اپنی غذائی ضروریات پوری کر رہی ہے اور مزے کی بات کہ حکومت ان اجناس کو باہر کے ممالک میں بیچ کر منافع بھی کما رہی ہے لیکن ان سب باتوں کے باوجود کوئی بھی کسا ن کا پرسان حال نہیں ہے بلکہ اگر وہ اپنے جائز مطالبات کو منوانے کے لیے احتجاج کریں تو حکومت کی طرف سے آنسو گیس اور شیلنگ سے استقبال کیا جاتا ہے اور آکر میں صرف وعدے اور تسلیاں دی جاتی ہیں۔یاد رہے کہ صرف وعدوں اور تسلیوں سے فی ایکڑ فصل کی پیداوار نہیں بڑھے گی اور نہ کاشتکار کے قرضے اور قسطیں اُتریں گی۔بڑے زمینداروں کی بات اور ہے وہ تو کسی نہ کسی طریقے سے منافع کما لیتا ہے کیونکہ اُس کا رقبہ زیادہ ہوتا ہے مگر چھوٹا زمیندار فصل سے لے کر شیلر تک،جہاں غلہ اکھٹا کیا جاتا ہے،مشکلات کا شکار رہتا ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا کاشت کار ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن آج کل مہنگائی اورزرعی اخراجات بڑھنے سے اس ہڈی کے مہرے ہلنے لگے ہیں۔دنیا بدل گئی ہے مگر ہمارے کاشتکار کے حالات نہیں بدلے۔پتا نہیں! یہ کیا حکمت عملی ہے کہ کسان کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے اور اس نظر انداز کرنے میں اندر کی کہانی کیا ہے اور اس سے فائدہ اُٹھانے والے کون ہیں یہ تو وقت آنے پر پتا چل جائے گا لیکن ایک بات طے ہے کہ اگر زراعت کو ترقی دینی ہے تو کسان کو سبسڈی ملنی چاہیے۔موجودہ حکومت کے منشور میں کسان کی ترقی شامل تھی مگر افسوس اس حکومت کی طرف سے زراعت کی ترقی کے لیے مختلف اقدامات اُٹھانے کے باوجود خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوئے ۔کسان کو اصل مسئلہ یہ ہے کہ سرکار میں شامل افراد حکومتی فیصلوں سے فائدہ اُٹھاتے ہیں جبکہ چھوٹا زمین دار فوائد سے محروم رہ جاتا ہے اب یہ حکومتی اداروں کا فرض ہے کہ وہ چھوٹے کاشت کار کوسہولیات کی فراہمی یقینی بنائیں تاکہ پیداوار میں اضافہ ممکن ہوسکے۔یاد رہے!جب تک ہمارا کاشتکار آسودہ نہیں ہو گا تب تک ہم ترقی کا سفر مکمل نہیں کر سکتے۔ہم زرخیز زمینوں کے مالک ہیں،ہماری سونا اُگلتی زمینیں کسی مسیحا کی منتظر ہیں ۔ہماری زراعت میں تجارت کا ایک خزانہ چھپاہے۔اس خزانے کو نکالنا ہو گا ۔اس سلسلے میں ہمیں اُن ممالک سے بھی مشاورت کی ضرورت ہے جنہوں نے اس میدان میں ترقی کی اور اپنے ملکوں میں زرعی انقلاب لے کر آئے اور آج اُن کا کسان اور عوام دونوں خوشحال ہیں۔ہمیں زراعت سے پاکستان میں انقلاب لانا ہوگا اور اگرحکومت اس پر توجہ دے تو جلد ہی ہم دنیا کے خوشحال ممالک میں اپنا شمار کروا سکتے ہیں۔
 

Rasheed Ahmad Naeem
About the Author: Rasheed Ahmad Naeem Read More Articles by Rasheed Ahmad Naeem: 47 Articles with 40449 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.