معلم اِنسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں اہلِ علم کا مقام

اگر شرح خواندگی کا منصفانہ جائزہ لیا جائے تو یہ بات بالکل واضح طور پر ہمارے سامنے آئے گی کہ کسی بھی ملک، شہر اور قصبہ میں مسلم قوم دوسروی اقوام وملل کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے۔ مسلم وعرب ممالک کی بھی بات کی جائے؛ تو ان کی بھی صورت حال میدانِ تعلیم میں کوئی قابل ذکر نہیں ہے۔ ان ممالک میں کوئی بھی ایسی یونیورسیٹی یا کالج نہیں ہے، جسے عالمی سطح پر کوئی شناخت حاصل ہو۔ ان کی کوئی اپنی دریافت ہو۔ ہم جس دین اسلام کے ماننے والے ہیں، اس اسلام نے تعلیم وتعلم کو بڑی اہمیت دی ہے۔ ہم جس نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں، ان کی نظر میں تعلیم وتعلم اور اہل علم کو عظیم مقام ومرتبہ حاصل ہے۔ جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جہاں پوری انسانیت کے لیےآخری نبی ورسول بنا کر بھیجے گئے تھے، وہیں آپ ایک عظیم معلم، استاذ، ٹیچر اور گرو بھی تھے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع سے اپنے بارے میں فرمایا تھا: «إِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا» میں ایک معلم، استاذ اور گرو کی حیثیت سے بھیجا گیا ہوں۔ آپؐ نے جس موقع سے یہ بات فرمائی وہ پورا واقعہ اس طرح ہے کہ ایک دن آپ اپنے کسی حجرے سے باہر آئے۔ پھر آپؐ مسجد میں داخل ہوئے۔ وہاں دو حلقے لگے تھے۔ ان میں سے ایک حلقہ قرآن کریم کی تلاوت اور دعا میں مشغول تھا؛ جب کہ دوسرا حلقہ سیکھنے سکھانے میں مشغول تھا۔ اس پر نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ ہر حلقہ اچھے کام میں مشغول ہے۔ وہ سب قرآن کی تلاوت کر رہے ہیں اور اور دعا میں مشغول ہیں؛ لہذا اللہ چاہیں، تو انھیں عطا کریں گے اور اگر نہ چاہیں عطا نہیں کریں گے۔ اور وہ سب (دوسرا حلقہ)سیکھنے سکھانے میں مشغول ہیں اور میں بحیثیت معلم بھیجا گيا ہوں۔ پھر آپ ان (سیکھنے سکھانے والے) کے ساتھ بیٹھ گئے۔ (سنن ابن ماجہ: 229)

اس سے یہ سمجھ میں آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اپنے آپ کو معلم بتاکر، ایک معلم کی عظیم حیثیت کی طرف اشارہ کیا؛ بلکہ سیکھنے سکھانے ، معلم ومتعلم اور طلبہ واساتذہ والے حلقہ میں بیٹھ میں اس کی جماعت کی اہمیت وافادیت کو مزید اجاگر کیا۔ آپ نے یہ واضح کردیا کہ آپؐ کی نظر میں علم دین سیکھنے اور سکھانے والوں کا مقام ورتبہ عظیم و برتر ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپؐ کے اقوال وارشادات حدیث کی کتابوں میں محفوظ ہیں، جن سے معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں اہل علم معلم ومتعلم کا مقام و مرتبہ عظیم معلوم ہوتا ہے۔

ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم حاصل کرنےوالے اور علم سکھانے والوں کے مقام و مرتبہ کی عظمت کو واضح کرتے ہوئے، انھیں مجاہد فی سبیل اللہ سے تشبیہ دی ہے۔ آپؐ فرماتے ہیں: جو شخص میری اس مسجد میں اچھی بات سیکھنے اور سکھانے کی غرض سے آتا ہے؛ تو وہ اس مجاہد کے درجہ میں ہے جو اللہ کے راستے میں ہے اور جو شخص اس کے علاوہ کسی اور غرض سے آتا ہے؛ تو وہ اس شخص کے درجہ میں ہے جو کسی دوسرے کے سامان کی طرف نظر لگائے ہو۔ (سنن ابن ماجہ: 227)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طالبان علوم کی عظمت وبرتری کو بیان کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ جو شخص طلبِ علم کے لیے نکلے، اللہ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کردیتے ہیں۔ جو لوگ پڑھنے پڑھانے میں مشغول رہتے ہیں، ان پر سیکنت کا نزول ہوتا وغیرہ وغیرہ ۔ اس پوری حدیث کا ترجمہ یہ ہے: "جو آدمی حصول علم کے راستے پر نکلتا ہے، اللہ پاک اس کے لیے اس کے ذریعے سے جنت کا راستہ آسان کردیتے ہیں۔ اگر کوئی قوم اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہوتی ہے، اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتی ہے، ایک دوسرے کو پڑھاتے پڑھتے ہیں، تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے، رحمت ان پر چھاجاتی ہے، فرشتے انھیں ڈھانپ لیتے ہیں، اللہ پاک ان کا ذکر ان کے درمیان کرتے ہیں جو ان کے پاس ہیں"۔ (صحیح مسلم: 2699)

ایک روایت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اہل علم کی فضیلت اور ان کی قدر ومنزلت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: (ترجمہ) جو کوئی علم حاصل کرنے کے راستے پر نکلتا ہے؛ تو اللہ پاک اس کے لیے جنت کا راستہ نکال دیتے ہیں۔ بے شک فرشتے خوشی سے طالب علم کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں۔ عالم کے لیے آسمان وزمین کی مخلوقات اور مچھلیاں پانی میں ان کی بخشش کی دعا کرتی ہیں۔ بے شک ایک عالم کی فضیلت ایک عابد پر اسی طرح ہے جس طرح چوندھویں کے چاند کو بقیہ سارے ستاروں پر۔ بے شک علما انبیاء کے وارث ہیں۔ بے شک انبیا اپنی وراثت میں دینار ودرہم نہیں چھوڑتے، وہ علم وراثت میں چھوڑتے ہیں؛ چناں چہ جس شخص نے اسے حاصل کرلیا، اس نے بڑی دولت حاصل کرلی۔ (سنن أبي داؤد: 3641)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بہت سے حضرات علم حاصل کرنے اور شریعت کے احکام سیکھنے کے لیے آتے تھے۔ آپؐ ان کا خوشی خوشی استقبال کرتے تھے۔ حضرت صفوان بن عسال المرادی رضی اللہ عنہ بھی ایک بار اللہ کے رسولؐ کی خدمت میں علم حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوئے۔اس وقت آپؐ مسجد میں اپنی چادر پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ جب انھوں نے اپنا مقصد طلب علم بتایا، اس پر اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا: «مَرْحَبًا بطالبِ الْعِلْمِ، طَالِبُ الْعِلْمِ لَتَحُفُّهُ الْمَلَائِكَةُ وَتُظِلُّهُ بِأَجْنِحَتِهَا، ثُمَّ يَرْكَبُ بَعْضُهُ بَعْضًا حَتَّى يَبْلُغُوا السَّمَاءَ الدُّنْيَا مِنْ حُبِّهِمْ لِمَا يَطْلُبُ» (المعجم الكبير للطبراني: 7347) ترجمہ: میں طالب علم کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ فرشتے طالب علم کو اپنے پروں سے سایہ کردیتے ہیں۔ پھر ایک دوسرے کے اوپر پر پھیلائے رہتے ہیں، تا آں کہ وہ آسمان دنیا تک چلے آتے ہیں اپنی محبت کے باعث ان کے لیے جو علم حاصل کرتے ہیں۔

حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کے پاس جو کوئی علم سیکھنے آتا؛ تو آپ بھی ان کا اسی طرح خندہ پیشانی نے استقبال کرتے، جیسا کہ نبی اکرمؐ نے آپ کا استقبال کیا۔ پھر اس طالب علم کو مذکورہ حدیث بھی سناتے جس میں طالب علم کے لیے بشارت ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے اہل علم کو یہ بھی ہدایت فرمائی کہ مستقبل میں جب ان کے پاس لوگ علم سیکھنے آئیں؛ تو ان کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کرنا چاہیے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا: "لوگ تمھارے پاس طلب علم کی غرض سے آئیں گے، جب تم انھیں دیکھو تو ان سے کہو: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے مطابق آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں اور ان کو خوش رکھو (علم سکھاؤ)۔ (یہاں اقْنُوهُمْ کے معنی عَلِّمُوهُمْ ہے، جس کے معنی اردو میں ہوں گے، ان کو علم سکھاؤ۔) (سنن ابن ماجہ: 247)

تنگی، شدت وسختی کے مقابلے میں اسلام نے نرمی وآسانی کو پسند کیا ہے۔ نبی اکرمؐ نے داعی ومبلغ اور استاذ ومعلم کو نرمی و آسانی کی رہنمائی فرمائی ہے۔ ایک حدیث شریف میں آپ علم سکھانے کے ساتھ آسانی پیدا کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں: "لوگوں کو علم سکھاؤ، آسانی پیدا کرو، تنگی پیدا مت کرو، جب تم میں سے کوئی غصہ ہو، تو وہ خاموش ہوجائے۔" (مسند احمد: 2136)

اسلام میں استاذ کی حیثیت باپ کی سی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود کو صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کے سامنے ایک والد کی طرح پیش کرتے تھے۔ آپؐ کا فرمان ہے: «إِنَّمَا أَنَا لَكُمْ مِثْلُ الْوَالِدِ لِوَلَدِهِ، أُعَلِّمُكُمْ، إِذَا أَتَيْتُمُ الْغَائِطَ فَلَا تَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَةَ، وَلَا تَسْتَدْبِرُوهَا.» (سنن ابن ماجہ: 313) ترجمہ: میں تمھارے لیے والد کی طرح ہوں اپنے لڑکے کے لیے۔ میں تمھیں سکھاتا ہوں کہ جب تم قضائے حاجت کے لیے جاؤ؛ تو قبلہ کی طرف منھ یا پشت کرکے مت بیٹھو۔

ایک شخص جو خیر کی تعلیم دیتا ہے اور حق کی رہنمائی کرتا، اس کے لیے چیونٹی جیسی مخلوق بھی اپنے سوراخ میں رحمت کی دعا کرتی ہے۔ (ترجمہ) حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ کے سامنے دو ایسے شخص کا تذکرہ کیا گیا، جن میں ایک عابد اور دوسرا عالم تھا۔ آپؐ نے فرمایا: "عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے، جیسی میری فضیلت تم میں سے ایک ادنی آدمی پر۔ پھر آپؐ نے ارشاد فرمایا: "بیشک اللہ، اس کے فرشتے، آسمان وزمین والے؛ تا آں کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلیاں لوگوں کو خیر کی تعلیم دینے والوں کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔ (سنن ترمذی: 2685)

ایک معلم جو لوگوں کو دین کی تعلیم سے آراستہ کرتا ہے، اس کے اس عمل کو، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین صدقہ قرار دیا ہے۔ آپؐ فرماتے ہیں: «أَفْضَلُ الصَّدَقَةِ أَنْ يَتَعَلَّمَ الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ عِلْمًا ثُمَّ يُعَلِّمَهُ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ» (سنن ابن ماجہ: 243) (ترجمہ) بہترین صدقہ یہ ہے کہ مسلمان آدمی علم سیکھے، پھر اسے اپنے مسلم بھائی کو سکھائے۔

اگر کوئی شخص دین کی ایک بات، ایک کلمہ بھی سیکھ کر، دوسروں کو اسے سکھاتا ہے؛ تو نبی اکرمؐ نے اس شخص کو جنت میں داخل ہونے کی خوش خبری دی ہے۔ آپؐ کا فرمان ہے: "جس کسی مسلمان نے وہ ایک بات، دو باتیں، تین باتیں، چار باتیں یا پانچ باتیں سیکھیں جن کا سیکھنا اللہ عز وجل نے فرض کیا ہے، پھر وہ انھیں سیکھتا اور انھیں سیکھا تا رہا؛ تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔ (ضعيف الترغيب والترہيب: 56)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں، سرخ اونٹ کی عربوں میں بڑی اہمیت تھی۔ یہ بہترین مال شمار ہوتا تھا۔ آپؐ نے اپنے داماد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اگرایک آدمی بھی آپ کے ذریعہ ہدایت کی راہ پر آجائے؛ تو وہ سرخ اونٹ سے بھی بہتر ہے۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ خیبر میں جب قلعہ قموص فتح نہیں ہو رہا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کل یہ جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا، جس کے ہاتھ پر اللہ پاک فتح عنایت فرمائیں۔ پھراگلے دن، وہ جھنڈا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیا گیا۔ آپؐ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جاتے وقت یہ ہدایت دی: )ترجمہ:( اطمینان سے چلو، یہاں تک کہ ان کے آنگن میں اترو، پھر ان کو اسلام کی دعوت دو، پھر انھیں اس بات سے باخبر کریں جو ان پر اللہ کے حق واجب ہوتے ہیں۔ اللہ کی قسم! اگر اللہ آپ کے ذریعے کسی ایک آدمی کو بھی ہدایت سے نواز دیں، تو یہ آپ کے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ (صحیح بخاري: 4210)

اب تک ہم نے جو کچھ عرض کیا، اس سے دینی علوم کے حاملین اور دینی تعلیمات کے سیکھنے سکھانے والوں کی فضلیت وعظمت آشکارا ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلام میں دینی علوم کے علاوہ مادی علوم کو اہمیت نہیں دی گئی ہے؛ بل کہ ہر وہ علم جس سے انسانیت کو نفع پہنچے، اسے جہاں سے بھی اور جس سے بھی حاصل کیا جاسکتا ہو، اسے ضرور حاصل کیا جانا چاہیے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اصولی طور پر ارشاد فرمادیاہے: «الكَلِمَةُ الحِكْمَةُ ضَالَّةُ المُؤْمِنِ، فَحَيْثُ وَجَدَهَا فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا» (ترمذی: 2687) (ترجمہ: حکمت کی بات مومن کی گم شدہ چیز ہے، جہاں بھی وہ اسے پائے، وہ اس کا زیادہ حق دار ہے۔) اس ارشاد نبوی کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کوئی بھی علم ہو، مسلمان کو سیکھنا چاہیے۔ ہاں، اتنی بات ضرور ملحوظ خاطر رہے کہ وہ انسانیت کے لیے مفیدہو اور سیکھنے والے کی نیت درست ہو۔

آج کی تاریخ میں وہ ممالک جنھوں نے تعلیمی اداروں کے قیام میں سرمایہ کاری کی، وہ قوم جنھوں نے اپنے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کیا،ان کی صورت حال کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ وہ ہر میدان میں ہم سے آگے ہیں۔ آج دنیا ان ممالک واقوام کی دست نگر بنی ہوئی ہے۔ وہ ممالک واقوام آج دنیا پر ایک طرح کی حکمرانی کر رہے ہیں۔ وہ لوگ جو تعلیم وتعلم میں پیچھے رہ گئے، آج ان ممالک واقوام کے ذہنی غلام ہیں۔ اگر آج بھی ہم تعلیم وتعلم کی طرف توجہ دیتے ہیں؛تو بہت جلد ہم اپنی بگڑتی صورت حال کو کنٹرول کرسکتے ہیں۔****

 

Khursheed Alam Dawood Qasmi
About the Author: Khursheed Alam Dawood Qasmi Read More Articles by Khursheed Alam Dawood Qasmi: 162 Articles with 181884 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.