پٹھان شاعرہ
جن شاعرات نے ہندوستان کی علمی و ادبی زبانیں یعنی فارسی اور پھر اردو زبان
میں شاعری کی ہے -ان شاعرات میں پٹھان / پختون / پشتون / افغان شاعرات کے
کلام بھی شامل ہیں -
افغانستان سے پٹھان قبائل ہندوستان میں کاروبار کی غرض سے جایا کرتے تھے -اور
پھر ان میں سے کچھ وہاں آباد ہونے لگے -
ہندوستان میں پٹھانوں کی حکومت آج سے نو سو سال پہلے قائم ہوئی تھی غزنی
حکمران پھر غوری حکمران اور پھر لودھی /لودی حکمران آئے - بہلول لودھی ،
سکندر لودھی ، ابراہیم لودھی تخت ِ دہلی پر حکمران ہوئے -
بنگال میں پہلی مسلم ریاست بھی پٹھانوں نے قائم کی -
ہندوستان میں پھیلی ہوئی پانچ سو سے زیادہ نوابی ریاستوں میں سے مسلمان
ریاستوں کے نوے فی صد حکمران پٹھان خاندان تھے - بھوپال جوکہ حیدر آباد کے
بعد دوسری بڑی مسلمان ریاست تھی اس پر پٹھان مردوں کے بعد نواب پٹھان
بیگمات نے بھی حکومت کی جن میں سے نواب شاہجہاں بیگم نے عمدہ شاعری کی اور
رباعیاں کہیں - ان پٹھان بیگمات نے امور ریاست کو بہت عمدگی سے چلایا یہاں
تک کہ انگریزوں سے بات تک منوائی- رام پور ریاست پر (روہیلہ پٹھان ) حکمران
ہوئے ان میں سے رفعت زمانی بیگم عصمت تخلص (راج ماتا ) بہترین شاعرہ تھیں
اور مالیر کوٹلہ پر (شیروانی پٹھان) حکمرانی کرتے رہے -پٹود ی ریاست ، پا
لن پور ریاست ،ٹانک ریاست پٹھان حکمرانوں کی قائم کردہ ریاستیں تھیں
راجھستانی پٹھانوں کا تعلق یوسف زئی قبیلے سے ہے گجراتی پٹھان بھی کئی
نسلوں سے گجرات میں آباد ہیں
جونا گڑھ پر شیر خان بابی نے پٹھان حکومت قائم کی -
دو جانہ ریاست اور ریاست لوہارو کے حکمران بھی پٹھان تھے -گوڑیانی ، جھجر ،
دوجانہ پٹھان ریاستیں تھیں جو کہ تقسیم ہندوستان کے نتیجے میں ہندوستان میں
ضم کردی گئیں -
جوش ملیح آبادی کے آباواجداد افغانستان سے آکر ملیح آباد میں سکونت پذیر
ہوگئے آپ کا اصل نام شبیر خان تھا آپ کا تعلق آفریدی پٹھان قبیلے سے تھا آپ
کی بھانجی صفیہ شمیم ملیح آبادی مشہور شاعرہ ہوئیں -
قیام پاکستان کے بعد بے شمار پٹھان خاندانوں نے انڈیا سے پاکستان اور
پاکستان سے انڈیا ہجرت کی - ان میں ایک پٹھان خاندان جس کا تعلق جالندھر(
دورگی)[Dhogri Jalandhar ]سے تھا -یہ گھرانہ نعت گو شاعر “یسین لودھی “کا
تھا -
یسین لودھی قادرالکلام نعت گو شاعر تھے -ہجرت کے بعد یسین لودھی اپنے
خاندان کے ساتھ پاکستان پنجاب میں آباد ہوگئے -
یسین لودھی کی پوتی دور حاضر کی باکمال شاعرہ اور ادیبہ ہیں - محترمہ
“نادیہ عنبر لودھی “صاحبہ اسلام آباد میں سکونت پذیر ہیں -
آپ پاکستان میں مقیم واحد پٹھان شاعرہ ہیں جن کے آباواجداد ہجرت کرکے
پاکستان آئے - آپ کا تعلق پٹھان لودھی / لودی قبیلے سے ہے - جو سن چودہ سو
میں ہندوستان پر حکمران ہوۓ -
محترمہ نادیہ عنبر لودھی صاحبہ کی کئی ادبی جہات ہیں - آپ کو اپنے آباو
اجداد سے صرف اعلی حسب نسب نہیں ملا - لیاقت ، متانت ، حس ِلطافت ، ُحسن
ِسیرت ُحسن ِصورت جیسی خوبیاں بھی ورثے میں ملی - آپ نے صرف نظمیں اور
غزلیں نہیں کہیں بلکہ تنقید کے میدان میں بھی خود کو منوایا افسانے بھی
لکھے - آپ اعلی تعلیم یافتہ ہیں-
ادب کی ڈگریوں سے مالامال ہیں -
محترمہ کے چندا اشعار
شوق تھا جس کو بہت، ٹوٹےمرے پر دیکھے
میری پرواز کو دیکھا ہے تو حیران ہوا
___
پابہ جولاں تو ہر اک شخص یہاں ہے عنبر
تری زنجیر ہی کیوں شور بپا کرتی ہے
———-
بس چند ہم خیال ہیں عنبر مجھے عزیز
بے حس جم ِ غفیر نہیں چاہیے مجھے
________
زندہ رہتے ہیں کیا یہ کافی نہیں
کوئی لازم ہے پھر کہ خوش بھی ہوں
_____
شعر
دل بھی پایا تو ِبلا کا زود رنج
اک اداسی گھیرے رہتی ہے ِاسے
_____
مانگ رہا تھا مجھ سے وہ اک آخری شام دسمبر کی
اُس کو کیا معلوم کہ میرا سارا سال اُسی کا تھا
—
عنبر اُس کے بیتے کل کا قصہ ہوں میں
پھر کاہے کا شوق کہ اسکو یاد بھی ہوں میں
—————
غزل
کہیں تو رقص ِبسمل کوئی دیوانہ دکھائی دے
دو عالم میں مجھے پھر حسن ِ جانانہ دکھائی دے
تجلی حسن ِیُو سُف کی سمجھنا دیکھ لی میں نے
اگر مجھ میں بھی خُو کوئی زلیخانہ دکھائی دے
اُسے حاصل ہوئی ہیں شہرتیں ایسی محبت میں
حقیقت ہوکے بھی وہ شخص افسانہ دکھائی دے
غریبی میں بھی انکے ٹھاٹ ہوتے ہیں امیروں کے
فقیروں کا ہر اک انداز شاہانہ دکھائی دے
کبھی تم وصل کا جو گوشوارہ کھول کر دیکھو
بچت کا ہجر سے شاید کوئی خانہ دکھائی دے
شراب ِلطفُ ہے میرے لیے نظر ِکرم اُس کی
مجھے تو چشم ِ جانانہ بھی مہ خانہ دکھائی دے
وہ عنبر اجنبیت سے اگر میری طرف دیکھے
تو میرا اپنا سایہ مجھ کو بیگانہ دکھا ئی دے
____
نادیہ عنبر لودھی کے شعری و ادبی سفر کے لیے دعائیں -
|