کیسے کیسے لوگ

پاکستانی لوگ بھی عجیب ہیں۔ افغانستان کی بدلتی صورت حال کی شاید افغانوں کو اتنی تشویش نہیں جتنی ہمارے لوگوں کو ہے۔جہاں کوئی دوست ملتا ہے پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ افغانستان کے کیا حالات ہیں۔پھر تبصرے، تجزیے اور مشورے یوں دیتے ہیں جیسے مشیر خاص مقرر ہو گئے ہوں۔ میں سیاست اور سیاسی حالات پر کم بات کرتا ہوں مگر ایسے بے لاگ اور بے تکے تبصروں ، سمجھ نہ آنے والے تجزیوں اور حکومت افغانستان کو دئیے گئے ایسے مفت مشوروں کا ،جو دینے والے کی ذات تک ہی محدود ہوتے ہیں، کو پوری طرح سنتا اور مزے لیتا ہوں۔ایسی جاہلانہ ذہانت میں دلچسپی کا بہت سامان ہوتا ہے۔ٹی وی ٹاک شوز میں ایسی جہالت کا درجہ قدرے بلند ہوتا ہے مگر سڑکوں، گلیوں تھڑوں اور عام محفلوں میں ظرافت کا بہت اہتمام ہوتا ہے۔

نوے کی دہائی میں افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی۔ میں ایک مقامی کالج میں پڑھاتا تھا۔ ایک صاحب لاہور سے باہر کسی قصبے کے کالج سے تبدیل ہو کر ہمارے کالج آ گئے۔ کالج میں ہم تین چار ریاضی کے لوگوں کو جو کمرہ ملا تھا ایک تو وہ دوسرے کمروں سے نسبتاًبڑا تھا، دوسرا اس میں کچن اور اٹیچ باتھ بھی تھا۔ دس گیارہ بجے چائے کی محفل ہوتی اورکالج کے بہت سے استاد ہمارے شریک محفل ہوتے جن میں وہ نئے استاد بھی شامل ہوتے۔ قدرے چھوٹا قد، لمبی داڑھی ، عوامی سوٹ پہنے وہ پاس بیٹھے مسکراتے رہتے۔ میں نے بارہا کوشش کی کہ موصوف کوئی بات کریں مگر وہ میرے ہر وارسے خود کو بچا جاتے اور سب کو یہی لگتا کہ شاید گونگے اور بہرے ہیں۔ کچھ کہیں وہ مسکرا کر منہ دائیں بائیں کر لیتے مگر جواب دینے سے گریز کرتے۔میں بھی چھیڑ چھاڑ کا کوئی موقع نہ جانے دیتا مگر ان کے پر سکوں رویے سے ہمیشہ مایوسی کے سوا کچھ نہ ملتا۔

ایک دن ہم لوگ چائے پی رہے تھے کہ باہر سے ایک دوست ملنے آ گئے۔ باتیں کرتے پتہ نہیں انہیں کیا خیال آیا مجھے پوچھنے لگے کہ یار بتاؤ افغانستان کی کیا صورت حال ہے۔ میں ٹھہرا غیر سیاسی بندہ کیا جواب دیتا۔ اچانک میری رگ ظرافت پھڑکی ۔ میں نے کہا کہ بھائی مجھے تو اتنا نہیں پتہ لیکن آج خوش قسمتی سے افغانستان کے فلاں مشہور لیڈر کے چھوٹے بھائی ہمارے پاس بیٹھے ہیں۔ میں نے ان کے نام کے لاحقے کو بدل کر اس مشہور لیڈر کا نام کا لاحقہ ان کے نام سے جوڑ دیا۔ اور اپنے دوست کو کہا کہ ان سے پوچھو، یہ آپ کو زیادہ بہتر بتا سکتے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ موصوف روز کی طرح آج بھی چپ سادھے رہیں گے۔ مگر آج تو کایا ہی پلٹ گئی۔ میرے دوست نے پہلا سوال یہ کیا کہ آپ ان کے سگے بھائی ہیں۔ بڑے سنجیدہ ہو کر بولے ، جی سگا بھائی ہوں۔ میرے دوست نے سمجھا میں نے اسے بڑا ٹھیک آدمی ملا دیا ہے۔ اس نے کہا کہ آپ کچھ تازہ صورت حالات سے آگاہ کریں۔جواب ملا ۔ افغانستان میں کئی صوبے ہیں اور میرے بھائی کا گروپ کابل اور بہت سے علاقوں پر قابض ہے۔ مگر فلاں صوبے میں فلاں گروپ پریشانی کا باعث ہے۔ فلاں علاقے میں فلاں لیڈر کا تسلط ہے ۔ فلاں لوگ افغانستان کی تقسیم چاہتے ہیں۔ وہ دو گھنٹے بولتے رہے۔ میں حیران تھا کہ اس گونگے اور بہرے کی معلومات اس قدر زیادہ ہیں کہ افغان امور کا ماہر لگتا ہے۔دو گھنٹے بعد میرا دوست رخصت ہوا تومجھے کہنے لگے ۔ مجھے پوچھتا کہ وہ آپ کے سگے بھائی ہیں۔ انہیں یہ بھی نہیں پتہ کہ سچے مسلمان آپس میں سگے بھائیوں سے بھی بہتر ہوتے ہیں۔

لاہور کے ایک کالج میں میرے ساتھ ایک صاحب ہوتے تھے۔ کمال آدمی تھے۔ صبح آپ دیکھیں تو گراؤنڈ عبور کرتے ہوئے تیزی سے بلڈنگ کی طرف آ رہے ہوتے۔سر پر بہت زیادہ تیل لگایا ہوا ۔ اتنا زیادہ کہ ٹپک کر کپڑے خراب ہو چکے ہوتے، میلا سا سوٹ وہ بھی تیل کے داغوں سے بھرا ہوا۔ پیر میں قینچی چپل۔ جو ساتھی سب سے پہلے نظر آتا اسے دیکھ کر رک جانے کا زور دار نعرہ لگاتا۔ وہ رک جاتا تو اسے پوچھتے بتاؤ، دو جمع سات، جواب ملتا نو۔ ایک جمع آٹھ ، جواب پھر نو ہوتا ۔ اس طرح کے دس پندرہ سوال وہ لگاتار پوچھتے سب کا جواب نو ہی ہوتا۔ آہستہ آہستہ سارے سٹاف کو اس بھید کا پتہ چل گیا۔ سوال پوچھتے ہوئے وہ یکدم کسی طرف چل دیتے ۔ صبح صبح کسی کلاس میں گھس جاتے اور موجود ٹیچر کو کہتے کہ میری کلاس کیوں لے رہے ہیں ۔ اس کے سمجھانے کے باوجود کہ یہ اس کی اپنی کلاس ہے وہ نہ مانتے ۔ پھر وہ ٹیچر اور لڑکوں کا ایک ہجوم انہیں نوٹس بورڈ تک لے جاتا ۔ پتہ چلتا کہ ان کا پیریڈ تو بارہ بجے ہے۔ تو معذرت کرتے کہ میں تو جلدی میں آ گیا ہوں ۔میرا خیال ہے کہ واپس گھر جاؤں اور نہا کر وقت پر لوٹ آؤں۔ لڑکے شغل میں انہیں کالج گیٹ پر چھوڑنے جاتے اور ہنستے ، مگر وہ سرکار کے وظیفہ خوار تھے اور ان حالات میں بھی پڑھا رہے تھے۔

ایک بزرگ استاد ہر دوسرے دن کالج میں کسی پلر کے ساتھ لگے تسبیح پر کچھ پڑھ رہے ہوتے ۔ ان سے اگر بات کرنے کی کوشش کی جائے تو اشارے سے منع کر دیتے کہ اس وقت مصروف ہوں۔ دوسرے دن ہر ایک کو بتاتے ،کل میچ تھا۔ دیکھا پاکستان جیت گیا۔ میں اس وقت اپنے موکل جن کنٹرول کر رہا تھا کہ میچ اپنی ٹیم کو جتوا دیں۔ دھیان بٹ جاتا تو وہ دائیں بائیں ہو جاتے ہیں پھر سنبھالنے میں وقت لگتا ہے اور میچ ہارنے کا خطرہ ہو جاتا ہے۔میں نے یہی دیکھا کہ کوئی الیکشن ہو کوئی میچ ہو، وہ کسی پلر کی طرف منہ کئے اپنی مرضی کے بندے یا ٹیم کی کامیابی کے لئے آنکھیں بند کئے وظیفے میں مصروف ہوتے۔ ایسے بہت سے بندے آپ کو سرکاری ملازمتوں میں نظر آئیں گے۔یہ سارے بندے کسی حد تک ذہنی مریض ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کی اداروں میں موجودگی وہاں کے ماحول کے لئے انتہائی نقصان دے ہے۔ مگر یہ وہ لوگ ہیں جو نظر آتے ہیں۔ جو بظاہر ٹھیک ہیں ان کا نقصان پہنچانے کا اندازلوگوں کو محسوس نہیں ہوتا لیکن آج کے حالات میں سرکاری نوکریاں ہوتی ہی قومی نقصان کے لئے ہیں۔ شازوناذر ہی کوئی ایماندار نظر آتا ہے اور ایماندار وہی ہیں جو عملاً ناکارہ ہیں۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500757 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More