میں نے انتہائی مجبور ہوکر، زندگی میں ایک دفعہ کسی مٹھی
میں کچھ تھما دیا.دو صاحبان نے بڑی ملی بھگت کے بعد، میرا ایک ذاتی جائز
کام روک کر مجھے مجبور کیا تھا. لفافے میں ڈال کر دو ہزار روپے اس کو، آفس
میں تھما دیے تھے.(آج تک اس پر ندامت ہے اور توبہ بھی کیا ہے. اللہ معاف
کرے. آمین) انہوں نے فورا کام کرکے دیا.بعد میں جب لفافہ کھولا تو صرف دو
ہزار تھے جس پر اس کا "پارٹنر سہولت کار" بڑا سیخ پا ہوا تھا کیونکہ "صاحب"
پارٹنر سہولت کار غصہ ہوا تھا. یہی بات پارٹنر نے بتائی تھی اور خفگی کا
اظہار بھی کیا تھا اور آئندہ کام نہ ہونے کی نوید بھی سنائی تھی.
صاحب آج کل گلیوں میں پیدل گھوم رہا ہے. شاید واک کررہا ہے. کئی دفعہ گاڑی
میں بٹھا چکا ہوں.ریٹائرڈمنٹ کی زندگی گزار رہا ہے.شاید بڑا مال بنایا ہے.
کہہ رہا تھا گھر بھی بنایا ہے . میں نے اپنا تعارف نہیں کرایا مگر پورے
احترام کیساتھ اس کو گاڑی میں بٹھاتا ہوں.
یقین کیجے! اس کے چہرے سے نحوست ٹپک رہی ہے. اس پر پھیلی نحوست کوئی بھی
آدمی آسانی سے محسوس کرسکتا ہے. ارادہ ہے کسی دن اس سے پوچھ لوں کہ اس کے
بچوں کی تعلیم کیسی جارہی ہے. مجھے کامل یقین ہے کہ اس کے بچے نافرمان اور
نالائق ہونگے. کیونکہ جن بچوں کے پیٹ میں سود، رشوت اور حرام کا مال جائے
گا وہ یقیناً صالح نہیں ہوسکتے.
اگر صالح اولا چاہیے تو بے شک پیٹ پر پتھر باندھ لیں مگر انہیں حرام
بالخصوص رشوت اور سود سے بچائے.
یاد رہے! رشوت، کرپشن اور سود کھاکر آدمی کچھ نفلی و فرضی عبادات کرکے
عنداللہ و عندالناس بری الذمہ نہیں ہوسکتا.پورا پورا حساب لیا جائے گا.
علمی نکتہ: اگر کسی آدمی کا جائز کام یا حق چھینا جارہا ہے تو اس وقت کچھ
رقم دے کر اپنا حق لے تو امید ہے عنداللہ مواخذہ نہیں ہوگا.یہ نکتہ شاید
کافی سال پہلے بذل المجہود میں پڑھا ہے.
احباب کیا کہتے ہیں؟
|