آغازِ جان و جہان اور اَنجامِ جان و جہان !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالرُوم ، اٰیت 8 تا 10 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
اولم
یتفکروا فی
انفسھم ماخلق
اللہ السمٰوٰت والارض
وما بینھما الّا بالحق وان
کثیر من الناس بلقائ ربھم
لکٰفرون 8 اولم یسیروا فی الارض
فینظرواکیف کان عاقبة الذین من قبلھم
کانوااشد منھم قوة وآثارواالارض وعمروھا
اکثر مما عمروھا وجاءتھم رسلھم بالبینٰت فما
کان اللہ لیظلمھم ولٰکن کانواانفسھم ظالمون 9 ثم
کان عاقبة الذین اساءواالسؤاٰٗی ان کذبواباٰیٰت اللہ و
کانوابھا یستھزءون 10
اے ھمارے رسُول ! آپ کے عھدِ نبوت کے جو لوگ اپنے آج سے باخبر ہونا اور اپنے کَل سے بیخبر رہنا چاہتے ہیں آپ اُن سے یہ سوال تو پوچھیں کہ کیا اُنہوں نے کبھی بھی اپنی جان اور اِس جہان کی ساخت پر غور نہیں کیا ھے کہ اللہ نے زمین و آسمان اور اِن دونوں کے درمیان ہر ایک جان دار و بے جان چیز کو ایک مقصد کے تحت بنایا ھے اور اُس مقررہ مُدت کے لیۓ بنایا ھے جس مقررہ مُدت کے ختم ہونے پر ہر چیز کے وجُود نے نابُود ہو جانا ھے لیکن اِن لوگوں میں سے تو اکثر لوگ اپنے رَب کے پاس پُہنچ کر اپنے اعمالِ نیک و بد کا حساب دینے کے مُنکر ہیں ، اگر یہ لوگ اپنی جان اور اپنے جہان پر غور نہیں کرنا چاہتے تو کم از کم یہ اپنی اِس زمین پر چل پھر کر اِس زمین کے اُن آثار پر تو ضرور غور کر لیں کہ اِن سے پہلے اِس زمین سے گزرنے والی اُن اقوام پر کیا گزری ھے اور کیوں گزری ھے جو اپنی قوت و طاقت میں بھی اِس قوم سے برتر اقوام تھیں اور ان اقوام نے اِس زمین کو اِس قوم کے لوگوں سے زیادہ ادھیڑا اور زیادہ کھدیڑا تھا لیکن زمین کی اُن مُجرم اقوام کا ایک جُرم یہ تھا کہ اُنہوں نے ھمارے بہیجے ہوۓ نمائندوں کی نمائندگی کا انکار کیا تھا اور دُوسرا جُرم یہ تھا کہ اُنہوں نے ھماری اٰیاتِ بینات کے ساتھ تمسخر و استہزا کا ارتکاب کیا تھا ، یقین جانو کہ اُن اقوام کے ساتھ اللہ نے ہرگز کوئی ظلم نہیں کیا تھا بلکہ اُن اقوام میں سے ہر ایک قوم نے آپ ہی اپنے اُوپر وہ ظلم کیا تھا جس ظلم کے باعث وہ قوم تباہ و برباد ہو گئی تھی !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
سُورَةُالرُوم کا مقصدی موضوع اللہ تعالٰی کا ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ موجُود ہونا ، عالَمِ وراۓ نظر و عالَمِ ما وراۓ نظر کا خالق و مالک ہونا اور خالقِ عالم کے طور پر اپنے ہر عالَم میں ہر لَمحہ و ہر آن مُتحرک و فعّال ہونا ھے ، اٰیاتِ بالا سے پہلی اٰیات کی آخری اٰیت میں انسانی نفسیات کے اِس پہلو کا ذکر کیا گیا تھا کہ انسان اپنی اُلجھی ہوئی نفسیات ، اپنی لامحدُود خواہشات اور اپنے حریصانہ خیالات کے حوالے سے کُچھ ایسا غرض مند واقع ہوا ھے کہ یہ ہمیشہ ہی اپنے فرض سے زیادہ اپنی غرض پر نظر رکھتا ھے ، اگر یہ اپنی غرض سے زیادہ اپنے فرض پر نگاہ رکھتا تو یہ اپنی جان و جہان کے اُس خالق کو ضرور جان جاتا ھے جس نے پہلے اِس کے لیۓ اِس جہان کو تخلیق کیا ھے اور پھر اِس جہان میں اِس کے اُس جسم و جان کو تخلیق کیا ھے جس جسم و جان کی بقاء و ارتقاء کے لیۓ وہ ہمہ وقت فکر مند رہتا ھے ، انسان کی دُوسری اُفتادِ طبع یہ ھے کہ یہ اپنی غرض کی چیزوں میں سے بھی زیادہ تر اُن چیزوں پر نظر رکھتا ھے جو اُس کے اریب قریب موجُود ہوتی ہیں اور اُس کے خیال کے مطابق اُس کے لیۓ وہ سہل الحصول چیزیں ہوتی ہیں لیکن جہاں تک دُور اَز خیال و بعید از نظر چیزوں کا تعلق ھے تو وہ اُن پر کم کم ہی توجہ دیتا ھے اور کبھی کبھی ہی توجہ دیتا ھے ، یہی وجہ ھے کہ قُرآنِ کریم نے سُورَةُ الرُوم میں ایران کو زمانہِ حال میں رُوم پر حاصل ہونے والی جس فوجی فتح کا اور زمانہِ مُستقبل میں رُوم کو ایران پر حاصل ہونے والے جس عسکری غلبے کا ذکر کیا ھے اُس میں سب سے پہلے قُرآنِ کریم نے { فی ادنی الارض } کا ایک جُملہ کہہ کر بظاہر تو انسان کو قریب کی زمین پر واقع ہونے والی ایک جنگ کی طرف متوجہ کیا ھے لیکن دَرحقیقت قُرآن نے قریب کا یہ ایک جُملہ کہہ کر انسان کو بعید کی اُس ساری زمین کی طرف متوجہ کیا ھے جو اُس کے ارد گرد موجُود ھے تاکہ انسان کنویں کے مینڈک کی طرح ایک ہی جگہ پر ٹکے رہنے اور ایک ہی جگہ پر نظر ٹکاۓ رکھنے کے بجاۓ باقی دُنیا کی طرف بھی اپنی نظر دوڑاۓ اور باقی دُنیا کی طرف بھی اپنے قدم بڑھاۓ اور پھر زمین کے اُن مقامات تک بھی جاۓ جن مقامات پر جابجا قدرت کی وہ تخلیقی اور انسان کی وہ تخریبی نشانیاں بکھری ہوئی ہیں جن کو دیکھ کر انسان خُدا کی ذات وصفات پر بھی ایمان لے آتا ھے اور خُدا کی جزا و سزا پر بھی اُس کا یقین پُختہ ہو جاتا ھے لیکن اِس سُورت کا ایران و رُوم کی جس جنگ کے واقعے سے آغاز کیا گیا ھے وہ جنگ خالقِ عالَم کی ہستی پر ایک خارجی دلیل ھے جو انسان کو یہ بات سمجھانے کے لیۓ لائی گئی ھے کہ خالقِ عالَم اِس عالَم کو تخلیق کرنے کے بعد اپنے عالَم اور اپنی تخلیق عالَم سے کنارہ کش ہو کر بیٹھ نہیں گیا ھے بلکہ وہ عالَم و اہلِ عالَم کو اپنے ایک منظم نظام و انتظام کے مطابق ہمیشہ سے چلا رہا ھے اور اِس دُنیا میں انسانی فتح و شکست کے جو واقعات رُونما ہوتے ہیں وہ اُس کی مرضی سے رُونما ہوتے ہیں ، اگر اِس سے پہلے رُوم پر ایران نے فتح حاصل کی تھی تو اُس کی مرضی سے حاصل کی تھی اور اِس کے بعد اگر رُوم ایران پر غالب آۓ گا تو وہ بھی اُس کی مرضی اور اُس کی رضا کے بغیر غالب نہیں آۓ گا اور قُرآنِ کریم نے اپنی موجُودہ اٰیات میں انسان کو اللہ تعالٰی کی ذاتِ عالی کو جاننے اور سمجھنے کے لیۓ جو تین باتیں بیان کی ہیں اُن میں سب سے پہلی بات انسان کی وہ فطرت ھے جس میں خیر و شر میں فرق قائم کرنے کا ایک مَلکہ ودیعت کیا گیا ھے جو مَلکہ انسان کو کارِ شر سے ڈراتا ھے اور کارِ خیر کی خیر کی طرف بلاتا ھے لیکن انسان چونکہ اپنے بُرے معاشرتی ماحول کے باعث اپنی اُس فطری صلاحیت کو وقتی طور پر بُھول جاتا ھے اِس لیۓ اُس کو یاد کرایا گیا ھے کہ وقتا فوقتا اپنے فاطر کی طرف توجہ دیتا رھے تاکہ وہ اپنے فاطر فطرت کو بُھول کر اپنی فطرت سے دُور نہ ہو جاۓ ، دُوسری بات انسان کو یہ بتائی گئی ھے کہ انسان اگر اپنی جان پر نگاہِ بصیرت دوڑاۓ گا تو اِس کو لازما معلوم ہو جاۓ گا کہ اللہ تعالٰی کی ہستی کے موجُود ہونے کی ایک بڑی شہادت جو اِس کی ذات میں موجُود ھے وہ یہ ھے کہ وہ جس جہان میں موجُود ھے وہ اِس جہان میں خود بخود پیدا ہو کر خود بخود ہی موجُود نہیں ھے بلکہ اُس کو ایک خلّاق ہستی نے تخلیق کر کے ایک خاص وقت تک ایک خاص مقصد کے تحت اِس جہان میں زندہ و موجُود رکھا ہوا ھے اور انسان اپنی ذات کے حوالے سے یہ بات بھی پُورے یقین کے ساتھ جانتا ھے کہ اُس نے ایک نہ ایک دن مرجانا ھے اِس لیۓ اُس کا جینا اور مرنا بذاتِ خود اِس بات کی ایک قوی تر دلیل ھے کہ اِس کی اِس جان اور اِس کے اِس جہان میں ایک خالق و مالک موجُود ھے جو ایک طرف ہر روز اِس جہان میں مردہ جانوں کو زندگی دے رہا ھے اور دُوسری طرف وہ ہر روز اِس جہان میں زندہ جسموں سے جان بھی نکال رہا ھے ، قُرآنِ کریم نے اِس سلسلہِ کلام میں انسانی تعلیم کے لیۓ تیسری بات یہ بیان کی ھے کہ وہ خالق کی ہستی پر اَنفس کی اِس شہادت کے بعد آفاق کی طرف بھی متوجہ ہو اور زمین کے طول و عرض میں چل پھر کر اللہ تعالٰی کے تخلیقی اور اَقوامِ رَفتہ کے اُن تخریبی مقامات کو دیکھے جن مقامات پر جابجا عبرتوں کے وہ کُھلے نشانات بکھرے ہوۓ ہیں جن نشانات کو دیکھ کر انسان اللہ تعالٰی کی ذات پر ایمان بھی لاتا ھے اور اُس کی خلّاقی پر اُس کا یقین بھی پہلے سے زیادہ پُختہ ہو جاتا ھے اور اِن ساری باتوں کا مقصد یہ ھے کہ انسان کا اپنے آج کے ساتھ اپنے اُس کل کو بھی یاد رکھنا لازم ھے جب اُس کے جسم و جان نے زمین سے نکل کر باہر آنا ھے اور پھر اللہ تعالٰی کی عدالتِ انصاف میں پیش ہو کر اپنے اعمالِ نیک و بد کا حساب دینا ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 458884 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More