انسان کا پہلا اور آخری خود اِختیاری رشتہ !!

#العلمAlilmnعلمُ الکتابسُورَةُالرُوم ، اٰیت 20 تا 27 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
من اٰیٰتهٖ
ان خلقکم من
تراب ثم اذاانتم
بشر تنتشرون 20 و
من اٰیٰتهٖ ان خلق لکم من
انفسکم ازواجالتسکنواالیھا
وجعل بینکم مودة ورحمة ان فی
ذٰلک لاٰیٰت لقوم یتفکرون 21 ومن اٰیٰتهٖ
خلق السمٰوٰت والارض واختلاف السنتکم و
الوانکم ان فی ذٰلک لاٰیٰت للعٰلمین 22 ومن اٰیٰتهٖ
منامکم بالیل والنھار وابتغاؤکم من فضلهٖ ان فی ذٰلک
لاٰیٰت لقوم یسمعون 23 ومن اٰیٰتهٖ یریکم البرق خوفا وطمعا
وینزل من السماء ماء فیحی به الارض بعد موتھا ان فی ذٰلک لاٰیٰت
لقوم یعقلون 24 ومن اٰیٰتهٖ ان تقوم السماء والارض بامرهٖ ثم اذادعاکم
دعوة من الارض اذاانتم تخرجون 25 ولهٗ من فی السمٰوٰت والارض کل لهٗ
قٰنتون 26 وھوالذی یبدؤالخلق ثم یعیدهٗ وھواھون علیه وله المثل الاعلٰی فی
السمٰوٰت والارض وھوالعزیز الحکیم 27
خالقِ عالَم نے اپنے عالَم میں تُمہاری عقلی و فکری رہنمائی کے لیۓ جو بیشمار نشانیاں رکھی ہیں اُن بیشمار نشانیوں میں ایک قابلِ ذکر نشانی یہ ھے کہ اُس نے تُم کو اُس زمین کی اُسی مٹی سے پیدا کیا ھے جس زمین کی جس مِٹی پر آج تُم انسان بن کر چل پھر رھے ہو ، اُس کی اُن لاشمار نشانیوں میں ایک قابلِ فکر نشانی یہ ھے کہ اُس نے تُمہاری جنس میں تُمہارے لیۓ محبت و مہربانی کے وہ جنسی جوڑے بناۓ ہیں کہ تُم جن کے جوڑے بن کر اور تُم جن کو اپنے جوڑے بنا کر ایک دُوسرے سے جسمانی و رُوحانی تسکین حاصل کرتے ہو ، اُس کی اُن لاتعداد نشانیوں میں ایک علمی نشانی یہ ھے کہ اُس نے تُمہارے رنگ و نقش کو اور تُمہارے زبان و بیان کو ایک دُوسرے سے مُختلف بنایا ھے تاکہ تُم ایک دُوسرے کو دیکھ کر ایک دُوسرے کو جان پہچان سکو اور تُم ایک دُوسرے کو مزید جاننے پہچاننے کے لیۓ ایک دُوسرے کی زبان کو بھی سیکھ اور سمجھ سکو ، اُس کی اُن گونا گوں نشانیوں میں ایک قابلِ سماعت نشانی یہ ھے کہ اُس نے تُمہارے شب و روز میں نیند کی ایک لوری بھی ڈال دی ھے تاکہ کام کے بعد جب تمہیں آرام کی ضرورت ہو تو تُمہاری جان تُمہارے جسم کو آرام کا پیغام دے سکے ، اُس کی اُن ہی مُتعدد نشانیوں میں سے ایک قابلِ فہم نشانی اُس کا تُم کو اُس بجلی کی چمک دکھانا اور اُس بجلی کی گرج سنانا ھے جس بجلی کی چمک کو دیکھ کر اور جس بجلی کی گرج کو سن کر پہلے تُم خوف زدہ ہو جاتے ہو اور پھر اپنے اُس خوف کو اپنی خوشی میں بدلنے کے لیۓ اُمید و آس کا ساز و سامان جمع کرنے میں مصروف ہو جاتے ہو ، اُس کی اُن عام بصری نشانیوں میں ایک نظری نشانی خلاء کی وہ وسعت ھے جس میں تُم جا سکتے ہو اور ایک نشانی زمین کی وہ تُربت ھے جس میں تُم سما سکتے ہو اور جس روز تُمہارا وہ خالق تمہیں بُلاۓ گا تو تُم اُس کی پہلی آواز پر ہی زمین کی اُس خاموش آغوش سے باہر آجاؤ گے کیونکہ زمین و آسمان کی ہر چیز اُسی خالقِ عالَم کے قبضہِ قُدرت میں ھے اور ہر چیز اُسی کے فرمان کے تابع ھے اور وہی خالقِ عالَم ھے جس کا پہلی بار بھی مخلوق کو تخلیق کرنا ایک آسان تر عمل ھے اور جس کا بار بار مخلوق کو تخلیق کرنا بھی ایک آسان تر عمل ھے اور عالَم میں اُس کی اِن اعلٰی صفات کی مثال اُس کی حکمت کی وہ بلندی اور اُس کے اقتدار کی وہ سر بلندی ھے جو ہر دیکھتی آنکھ کو دُور دُور سے نظر آتی ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کی پہلی اٰیت گزشتہ اٰیات کی آخری اٰیت کے اُس مضمون کا تکملہ ھے جس مضمون میں کہا گیا تھا کہ اللہ تعالٰی وہ خالقِ عالَم ھے جو لَمحہ بہ لَمحہ موت کے حلق سے زندگی کو نکالتا ھے اور جو لَحظہ بہ لَحظہ زندگی کے حلقے سے موت کو نکال رہا ھے اور موت کے بعد وہ تمہیں اسی طرح زمین سے باہر لے آۓ گا جس طرح وہ تُمہارے زمانے کے انسانوں کو زمین سے باہر لا رہا ھے اور جس طرح وہ تُمہارے زمانے سے پہلے زمانوں کے انسانوں کو زمین سے باہر لاتا رہا ھے اور اَب موجُود اٰیات کی پہلی اٰیت میں اُس مضمون کی اُس تمہیدِ کلام کی تکمیلِ کلام کرتے ہوۓ یہ ارشاد فرمایا گیا ھے کہ اُس خالقِ عالم کی پہچان کی مُتعد نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ھے کہ ھم نے جس زمین کا ذکر کیا ھے تُم سب بھی اُسی زمین کی اُسی مٹی سے بننے کے بعد آج اُسی زمین پر انسان بن کر چل پھر رھے ہو ، اسی طرح موجُودہ اٰیات کی آخری اٰیت جو اٰیت 27 ھے وہ بھی اِس سُورت کی اُس اٰیت 11 کے اُس مضمون کا تکملہ ھے جس اٰیت کے جس مضمون میں یہ ارشاد فرمایا گیا تھا کہ اللہ ہی اپنی ہر مخلوق کو پہلی بار پیدا کرتا ھے اور اللہ ہی اپنی ہر پہلی مخلوق کو بار بار موت دے کر بار بار زندگی دیتا ھے اور اللہ ہی اپنی ہر پہلی مخلوق کو ایک حال سے دُوسرے حال تک لے جاتا ھے اور پھر دُوسرے حال سے پہلے حال پر واپس لے آتا ھے اور تُم سب نے مرنے کے بعد اُسی کے پاس جانا ھے ، رَبطِ اٰیات کے اِس رَبطِ مضمون کے بعد اٰیاتِ بالا کی پہلی اور آخری اٰیات کے درمیان میں وراد ہونے والی سات اٰیات میں انسانی زندگی کا جو جامع مضمون بیان کیا گیا ھے اُُس کی جو فلاسفی اُس کی پہلی اٰیت میں ھے وہ یہ ھے کہ انسان کا انسان کے ساتھ ایک رشتہ اُس کے باپ کے ساتھ اُس کے بیٹے اور اُس کہ بیٹی کے طور پر ہوتا ھے ، دُوسرا رشتہ اُس کی ماں کے ساتھ اُس کے بیٹے اور اُس کی بیٹی کی حیثیت میں ہوتا ھے ، تیسرا رشتہ اُس کے بھائی کے ساتھ اُس کے بھائی اور اُس کی بہن کی صورت میں ہوتا ھے اور اِن رشتوں کے اپنے فوقانی اور اپنے تحتانی رشتوں کے ساتھ جُڑے ہوۓ جتنے بھی رشتے ہوتے ہیں وہ تمام کے تمام رشتے قُدرت کے بناۓ ہوۓ وہ قُدرتی رشتے ہوتے ہیں جن کی بُنیاد وہی ایک رشتہ ہوتا ھے جو ایک انسان دُوسرے انسان کے ساتھ خود قائم کرتا ھے اور وہ رشتہ خاوند و بیوی یا بیوی و خاوند کے درمیان قائم ہونے والا رشتہ ہوتا ھے ، اگر انسان کا انسان کے ساتھ یہ ایک رشتہ قائم نہ ہو تو وہ تمام نسلی و نسبی رشتے قائم نہیں ہو سکتے جن کا ھم نے ذکر کیا ھے مگر سُوۓ اتفاق یہ ھے کہ اِن سب رشتوں میں یہی وہ واحد رشتہ ھے جس پر انسانی معاشرے میں کم سے کم توجہ دی جاتی ھے اور جو کم سے کم توجہ دی بھی جاتی ھے تو وہ توجہ اِس رشتے کے بارے میں نہیں ہوتی بلکہ اِس رشتے کے ساتھ جُڑی ہوئی حرص و ہوس کی اُن حریصانہ اغراض کے ساتھ ہوتی ھے جو نفسانی و شیطانی اغراض انسانی دلوں کے ساتھ جُڑی ہوئی ہوتی ہیں حالانکہ انسان کی وہ مالی و معاشرتی اغراض اُس شوہر و بیوی یا بیوی و شوہر کے قبضہِ قُدرت میں نہیں ہوتیں جن کی اُن سے یا اُن کے بزرگوں سے توقع کی جاتی ھے بلکہ وہ اللہ تعالٰی کے اپنے قبضہِ قُدرت میں ہوتی ہیں اِس لیۓ جب ایک انسان دُوسرے انسان کے ساتھ یہ رشتہ قائم کرتا ھے وہ بھی وہی غلطی کرتا ھے اور اُس کے ساتھ جُڑے ہوۓ وہ قُدرتی رشتے بھی وہی غلطی کرتے ہیں جو غلطی اِس رشتے کو اور اِس رشتے سے بننے والے اُن تمام نۓ رشتوں کو برباد کردیتی ھے جن سے ایک مہذب انسانی معاشرہ تشکیل پاتا ھے لیکن اگر قُرآنِ کریم کی اِن اٰیات کے اِس مضمون کو سمجھ کر پڑھا جاۓ اور اُس پر عمل کیا جاۓ تو اُس معاشرتی غلطی کا ازالہ کرنا مُمکن ہو سکتا ھے جس معاشرتی غلطی سے انسانی گھر کبھی بھی آباد نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ ہی برباد ہوتے ہیں ، قُرآنِ کریم نے اِس رشتے کو قائم کرنے کے لیۓ انسان کو جو تین سنہری اصول فراہم کیۓ ہیں اُن تین سنہری اصولوں میں پہلا سنہری اُصول { خلق لکم من انفسکم } ھے ، اُن میں دُوسرا سنہری اُصول { ازواجا لتسکنواالیھا } ھے ، اُن میں تیسرا سنہری اُصول { مودة و رحمة } ھے اور اُن میں چوتھا سنہری اُصول { یتفکرون } ھے ، اِن چار سنہری اصولوں میں سے پہلے اُصول کا مقصد یہ ھے کہ اَفرادِ مرد و زن کے درمیان جب بھی یہ رشتہِ ازدواج قائم ہو تو وہ تُمہارے اُس معاشرے کے دینی و اَخلاقی ضابطوں کے مطابق ہو جن کا { من انفسکم } میں ذکر کیا گیا ھے لیکن اِس معاملے میں اہلِ معاشرہ کی اپنی حیثیت اُس تجربہ کار مشیر سے زیادہ کُچھ بھی نہیں ہوتی جس مشیر کا مشورہ شادی کرنے والے مرد وزن قبول بھی کر سکتے ہیں اور رَد بھی کر سکتے ہیں کیونکہ فریقِ معاملہ صرف شادی کرنے والے وہ دو اَفراد ہی ہوتے ہیں جو ایک دُوسرے کے ساتھ عمر بھر کا ایک رشتہ قائم کر رھے ہوتے ہیں اور اُن دونوں میں بہر حال اتنی عقل تو ضرور ہونی چاہیۓ کہ وہ اِس رشتے کے درمیان نظر آنے والے اپنے اپنے نفعے اور اپنے اپنے نقصان کو دیکھ سکیں اور سمجھ سکیں ، دُوسرے اُصول کا مفہوم یہ ھے کہ ایک دُوسرے کے ساتھ شادی کرنے والے اُن دونوں افراد کے سرپرستوں کے لیۓ دیکھنے کی چیز صرف یہ ہونی چاہیۓ کہ وہ دونوں افراد اپنی تعلیم و تربیت اور اپنے عمومی مزاج کے اعتبار سے ایک دُوسرے کے لیۓ ایک مُناسب حد تک سکونِ دل اور سکونِ جان کا باعث بن سکتے ہیں یا نہیں بن سکتے اور خود شادی کرنے والے اُن مرد و زن کو بھی اپنے اپنے ساتھی کی ذات میں یہی اعلٰی وصف دیکھنا چاہیۓ کہ وہ اپنی اِس ابتدائی جان پہچان سے حاصل ہونے والی معلومات کی روشنی میں واقعی دیانت داری کے ساتھ اِس نتیجے پر پُہنچ گۓ ہیں کہ وہ ایک دُوسرے کے ساتھ ایک پُرسکون زندگی گزار سکتے ہیں لیکن اٰیت ھٰذا میں بیان ہونے والے سکون سے اُن مرد و زن کا وہ جنسی و جسمانی سکون ہی مُراد نہیں ھے جس کی عمر چند ہفتے یا چند مہینے سے زیادہ نہیں ہوتی بلکہ اِس سکون سے اُن کا وہ اَخلاقی و رُوحانی سکون مُراد ھے جس سکون کی اُن کو اولاد پیدا ہونے کے بعد اور پھر اَولاد کے اپنی اپنی اولادوں کے ساتھ مصروف ہونے کے بعد اُس عمر میں ضرورت ہوتی ھے جس عمر میں وہ دونوں تنہا ہو جاتے ہیں ، اُن کے اِس دو طرفہ سکون کے لیۓ قُرآنِ کریم { ازواجا } کا جو صیغہ لایا ھے اُس میں وہ دونوں افرادِ مرد و زن شامل ہوتے ہیں جو قُدرتی اور قانونی طور پر ایک دُوسرے کے زوج ہوتے ہیں لیکن { لتسکنواالیھا } میں { الیھا } کی جو ضمیر واحد مؤنث لائی گئی ھے اُس کا مقصد یہ ھے کہ خالق نے عورت کو تخلیق کرتے وقت اُس کی تخلیق میں صبر وضبط کا وصف مرد کے مقابلے میں کُچھ زیادہ رکھا ہوا ھے جو زندگی کے جدلی و جذباتی مواقع پر عورت کو یاد بھی رکھنا چاہیۓ ھے اور زندگی کے جدلی و جذبات کے مواقع پر عورت کو اُس کا اظہار کر کے اپنے اِس خُدا داد وصف کی برتری بھی قائم کرنی چاہیۓ ، مرد و زن کے اِس رشتے میں پہلی خرابی اُس وقت پیدا ہوتی ھے جب لڑکے اور لڑی کا باپ اپنے لڑکے اور اپنی لڑکی کے لیۓ انسانی شخصیت میں قُدرت کی پیدا کردہ محبت کے بجاۓ اُس مال و جاہ کی حرص کرتا ھے جس کی ایک انسان دُوسرے انسان کو کبھی بھی کوئی قابلِ اعتبار و قابلِ عمل ضمانت نہیں دے سکتا ، مرد و زن کے اِس رشتے میں دُوسری خرابی اُس وقت پیدا ہوتی ھے جب لڑکے اور لڑکی کی ماں اپنے لڑکے اور اپنی لڑکی کو یہ دھمکی دیتی ھے کہ تُم نے میرے بھائی کے فلاں بیٹے یا فلاں بیٹی کے ساتھ شادی نہ کی تو تُم میرا مرا ہوا مُنہ دیکھو گے اور مرد و زن کے اِس رشتے میں تیسری خرابی اُس وقت پیدا ہوتی ھے جب لڑکے اور لڑکی کی بہنیں یہ اَڈہ لگاکر بیٹھ جاتی ہیں کہ ھم نے اپنے بھائی اور اپنی بہن کے لیۓ کوہ قاف کا ایک شہزادہ یا کوہ قاف کی ایک شہزادی لانی ھے ، اِن اُلجھی ہوئی خواہشات کا ہمیشہ ہی یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ اُس خیالی شہزادے اور اُس خیالی شہزادی کے انتظار میں لڑکا اپنے دادے کی عمر میں اور لڑکی اپنی دادی کی عمر میں داخل ہو جاتی اور اُن کے یہ بزرگ اپنی جہالت کے اِس قدرتی نتیجے کو اپنے لڑکے اور اپنی لڑکی کی بد قسمت قرار دے کر گھر کو ہر وقت ایک ماتم کدہ بناۓ رکھتے ہیں !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 463334 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More