بنگلورو پولیس نے ایران سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کو
ہائی بریڈگانجے کی پیدوار کرنے کے الزام میںگرفتارکیا ہے۔ بھارت میں ہائی
بریڈ گانجے کے تعلق سے یہ پہلا معاملہ ہے، گرفتار ہونے والے نوجوان کا تعلق
ایران سے ہے اوراسکا نام جاویدبتایا گیا ہے۔ بھارت کے مختلف علاقوں سے
نوجوانوں کو گرفتار کیا جاتا ہے کہ وہ پستول بناتے ہوئے پکڑے گئے، بم بناتے
ہوئے پکڑے گئے، سیدھے پیشانی نشانہ لگاکر کسی شخص کو ہلا ک کردیا، نشے کی
ادویات بناتے ہوئے پکڑے گئے۔ گروہی تشدد میں مار گرایا اسطرح کی خبریں وقتاً
فوقتاً اخبارات اورٹی وی میں پڑھتے اور سنتے ہیں۔ ان تمام وارداتوں کا
جائزہ لینے کے بعد کیا اب بھی آپ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مسلم نوجوانوں
کے پا س ٹیلینٹ کی کمی ہے؟۔ اگر ٹیلینٹ کی کمی ہوتی تو جرائم کی دنیا میں
اس قدر آگے نہیںہوتے۔ دراصل نوجوانوں کی صحیح رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے
وہ لیگل کو بھی الیگل طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔ اگر ان نوجوانوں کو نشانہ
بازی کے مقابلے میں تربیت دی جاتی تو وہ اچھے شوٹر بن سکتے، پھر پولیس یا
فوج میں بھرتی ہوسکتے تھے، نشے کے ادویات کے تعلق سے جو نوجوان کام کررہے
ہیں اگر انکی صحیح تربیت ہوتی تو وہ فارمیسی کی دنیا میں اپنا نام روشن
کرسکتے تھے۔ مار پیٹ کرنے والے نوجوانوں کی بات کریں تو یہ لوگ اچھے پہلوان
بن سکتے تھے یا پھر کبڈی کے کھلاڑی بن سکتے تھے۔ مگر انکی بھی رہنمائی نہیں
ہورہی ہے۔ آج ہرطرف اس بات کا چرچہ ہے کہ ہمارے نوجوان نسلیں تباہ وبرباد
ہورہی ہیں۔ اس تعلق سے سب پریشان ہیں اور نوجوانوں کی اصلاح کے سلسلے میں
کوئی لایحہ عمل تیار نہیں کرپارہے ہیں ۔ کرناٹک کے بھٹکل میں نوجوانوں کی
اصلاح کے سلسلے میں ایک طریقہ کار دیکھا گیا ہے، جوکافی مفید ثابت ہوا ہے۔
وہاں نوجوانوں کو خالی بیٹھنے ہی نہیں دیا جاتا ، ہر محلے میںتعلیم کے بعد
بچوں کو اسپورٹس کلب سے رجوع ہونا پڑتا ہے۔ جہاں پر ان بچوں کو کرکٹ ، کبڈی،
جیسے کھیلوں میں مصروف رکھا جاتا ہے۔ انہیں عبادتوں کیلئے براہ راست حکم نہ
سہی لیکن ایسا ماحول پیدا کیا جاتا ہے کہ نوجوان خود بخود عبادت کے اوقات
میں مسجد کا رخ کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ خالی دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے۔
ہمارے بگڑے ہوئے نوجوانوں کے ساتھ یہی ہورہا ہے۔ اسکول ، کالج کے اوقات سے
فارغ ہوتےہی نوجوان یہ سمجھ نہیں پاتے ہیں کہ وہ کیا کریں، اسلئے وہ گروہ
بناکر بے پرواہ اور بے راہ روی کا شکار ہوجاتے ہیںاوربری عادتوں کا شکار
ہوتے ہیں۔ کھیل کود انکی زندگی سے غائب ہوچکا ہے۔ کچھ ہوش آیا تو ہاتھ میں
موبائل آیا، کچھ اونچائی بڑھی تو ہاتھ میںگاڑی آئی، پھر کچھ پیسے آئے تو
ہاتھ میں سگریٹ آیا، پھر کچھ رات میں لیٹ آنے کی اجازت ملی تو سمجھ لیجئے
کہ بچہ گیا۔ لائو، ڈرگس اور کرائم سے بچہ جڑ گیا۔ اللہ کے رسول حضرت محمد
مصطفیٰ ﷺ نے نوجوانوں کو تفریح کیلئے بھی حکم دیا ہے۔ آج ہمارے خطبوں میں
مسواک، دھاڑی، ٹوپی، خوشبو، عطر ، سرمہ کی سنت کے تعلق سے کہا جاتا ہے لیکن
تیر اندازی، تیراکی، کشتی، گھڑ سواری کی سنتوں کے تعلق سے شاید ہی کہیں
تذکرہ ہوتا ہے۔ وہ کھیل تو پرانے ہوچکے ہیں ، لیکن موجودہ دور میں وقت کے
تقاضے کے ساتھ نوجوانوں کی تربیت کی جاسکتی ہے افسوس کی بات ہے کہ آج
نوجوانوں کی رات ہی 1 بجے سے شروع ہوتی ہے اور نیند صبح صادق 5 بجے لگتی ہے
تو ایسے میں نوجوانوں کی تربیت کیلئے کیسے شیڈول تیار کیا جاسکتا ہے؟۔ ہم
نے دین ، دنیا ، تفریح سب کو الگ کررکھا ہے۔ جبکہ دین میں ہی سب شعبے شامل
ہیں۔ عصری تعلیم ، دینی تعلیم ، کھیل کود، طب، سائنس، سماجیات، جغرافیہ ،
بیالوجی، زوالوجی،جیسےتمام علم قرآن میں ہے۔تواس قرآ ن سے ہی مسائل کا حل
نکالاجاسکتا ہے۔
|