سنکیانگ میں زرعی جدت

چین کے علاقے سنکیانگ کی زرعی مصنوعات دنیا بھر میں جانی جاتی ہیں اور ان میں کپاس سرفہرست ہے۔ سنکیانگ مسلسل 25 سالوں سے چین میں کپاس کا سب سے بڑا پیداواری علاقہ چلا آ رہا ہے۔ گزشتہ برس سنکیانگ کی کپاس کی پیداوار پچاس لاکھ ٹن سے زائد رہی ہے ، جو چین کی مجموعی کپاس کی پیداوار کا 87 فیصد ہے۔

گزرتے وقت کے ساتھ سنکیانگ میں کپاس کی صنعت کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا ہے اور ایسی زرعی مشینری متعارف کروائی گئی ہے جس سے کپاس کی پیداوار میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے اور کاشتکاروں کی آمدن بھی بڑھی ہے۔ارمچی میں قیام کے دوران کپاس چنائی کے جدید ترین نظام کو سمجھنے کا موقع ملا جس سے پتہ چلتا ہے کہ چینی حکومت زرعی جدت کو کس قدر اہمیت دیتی ہے۔ یہ بات قابل زکر ہے کہ سنکیانگ میں اس وقت مشینوں کے ذریعے کپاس چنائی کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے چینی کمپنیاں خود مشینیں بنا رہی ہیں اور کپاس چنائی کی یہ مشینیں چین کے سب سے بڑے پیداواری علاقے میں لاکھوں مزدوروں کی جگہ لے رہی ہیں۔ چینی ساختہ زرعی مشینیں امریکہ یا دیگر ممالک میں استعمال ہونے والی مشینوں کی نسبت نہ صرف لاگت میں کم ہیں بلکہ ان کی افادیت بھی کئی گنا زیادہ ہے۔مشین ساز فیکٹری کے دورے کے دوران پتہ چلا کہ اس وقت کپاس چنائی کے لیے سنکیانگ بھر میں تقریباً چھ ہزار مشینیں فعال ہیں اور ایک مشین کی اوسطاً قیمت تقریباً ایک کروڑ اسی لاکھ روپے بنتی ہے۔ چینی ماہرین کپاس چنائی کے لیے ایک بڑی مشین صرف دو سے تین روز میں تیار کر سکتے ہیں ۔
اس مشین سے فی کلو کپاس چنائی کی لاگت پاکستانی بارہ روپے کے برابر ہے جبکہ ہاتھوں سے فی کلو کپاس چنائی کی لاگت ساٹھ روپے بنتی ہے ،جس سے مشین کی افادیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔چین میں تیار ہونے والی ان مشینوں کے لیے درکار لازمی میٹریل کا تقریباً پچانوے فیصد چین میں ہی مل جاتا ہے لہذا بیرونی وسائل پر کم ہی انحصار کرنا پڑتا ہے۔ ماضی میں کپاس کی چنائی کا موسم اکتوبر سے نومبر تک کم از کم 45 دن تک جاری رہتا تھا لیکن اب مشین کی مدد سے ایک دن میں پندرہ ہیکٹر رقبے سے زائد کی چنائی کی جا سکتی ہے۔اس طرح ایک کپاس چننے والی مشین روزانہ 2 ہزار لوگوں کے برابر کام کر سکتی ہے۔پہلے کپاس چننے کا موسم سال کا مصروف ترین وقت ہوا کرتا تھا۔ مقامی کاشتکاروں کو گانسو ، سی چھوان اور حہ نان صوبوں کے تارکین وطن مزدوروں کی خدمات حاصل کرنا پڑتی تھیں۔ لوگ صبح سے شام تک کھیتوں میں کام کرتے تھے۔ لیکن اب کاٹن چننے والی مشینیں کھیتوں میں گھومتی ہیں اور چنائی کا موسم کاشتکاروں کے لیے بہت آسان ہو چکا ہے۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ سنکیانگ میں کپاس کی کاشتکاری کا بیشتر حصہ اب مشینی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال سنکیانگ میں 70 فیصد کپاس کی چنائی مشینوں کے ذریعے کی گئی ہے۔ تاہم وسیع پیداواری صلاحیت کے باوجود سنکیانگ کپاس کی طلب اس کی رسد سے زیادہ ہے ، یہاں تک کہ صرف ملکی منڈی کے لیے بھی سنکیانگ کپاس کی مانگ کہیں زیادہ ہے ، جس کو پورا کرنے کے لیے جدید زرعی اصول کلید ہیں۔

چین کی اعلیٰ قیادت کی بھی یہ خوبی رہی ہے کہ اُس نے ہمیشہ زراعت میں جدت پر زور دیا ہے۔ابھی حال ہی میںتیئیس تاریخ کو چین میں فصلوں کی کٹائی کا چوتھا تہوار منایا گیا۔چینی صدر شی جن پھنگ نے بار ہا کہا ہے کہ اگر قوم کو خوشحال بنانا ہے تو سب سے پہلے دیہات کو خوشحال بنانا ہوگا، کسانوں کی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانا ہوگا۔ انہوں نے ہمیشہ دیہی علاقوں میں لوگوں کے حالات زندگی اور زراعت کے بارے میں اپنی تشویش ظاہر کی ہے۔ شی جن پھنگ نے اس بات پر ہمیشہ زور دیا ہے کہ چین کو طاقتور بنانا ہے تو، زراعت کے شعبے کو مضبوط بنانا ہوگا، چین کو خوبصورت بنانا ہے، تو دیہی علاقوں کو خوبصورت بنانا ہوگا، چین کو امیر بنانا ہے، تو سب سے پہلے کسانوں کو امیر بنانا ہوگا ۔ کسانوں کی فلاح کے حوالے سے بھی اُن کے نظریات بہت واضح ہیں کہ کسانوں کی اکثریت کے لیے خوشی حاصل کرنا ہمارا اہم مشن ہے۔چینی قیادت کے نزدیک کسی بھی صورت میں زراعت کی بنیادی حیثیت کو نظر انداز یا کمزور نہیں کیا جا سکتا ہے۔ زرعی اعتبار سے چین کی ترقی اور خود کفالت کا راز صدر شی جن پھنگ کی ان ہدایات میں پنہاں ہے کہ چینی لوگوں کو اپنے پیالے کو خود اپنے ہاتھوں میں رکھنا چاہیے اور پیالے میں اپنی پیدا کردہ اناج اور خوراک بھرنی چاہیے۔ چین نے کووڈ۔19کی موجودہ وبائی صورتحال میں بھی غذائی اجناس کی پیداوار اور قیمتوں میں استحکام کو یقینی بنایا ہے۔ چین دنیا میں زرعی مصنوعات کی برآمدات اور درآمدات کے حوالے سے بڑے ترین ممالک میں شامل ہے ، اسی باعث عالمی فوڈ مارکیٹ اور فوڈ سیکیورٹی میں چین ایک اہم شراکت دار ہے۔ خوراک میں چین کی خودکفالت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وبائی صورتحال اور چند علاقوں میں سیلاب جیسی آفات کے باوجود چین میں فصلوں کی بہترین پیداوار کو یقینی بنایا گیا ہے ،اناج کی پیداوار مسلسل کئی برسوں سے 650ملین میٹرک ٹن سے زائد چلی آ رہی ہے ، اہم فصلوں مثلاً گندم اور چاول وغیرہ کی مجموعی پیداوار مستحکم ہے ۔ ایک بڑے ذمہ دار ملک کی حیثیت سے چین نے دنیا کے کئی ممالک اور عالمی تنظیموں کے ساتھ کثیر الجہتی کے فروغ کے لیے زرعی شعبے میں تعاون کے معاہدے کر رکھے ہیں جو ظاہر کرتا ہے کہ چین گلوبل فوڈ سکیورٹی کو آگے بڑھانے کے لیے انتہائی فعال ہے۔

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1328 Articles with 616021 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More