عالمی موسمی تغیرات میں دنیا بھر میں درجہ حرارت کی کمی
کے لئے سنجیدگی سے کوششیں نہ ہونا عالمی برداری کے لئے ایک چیلنج بن چکا۔
دنیا کو اس وقت مختلف امور میں عالمی سطح پر چیلنجز کا سامنا ہے، جس میں دو
اہم معاملات کرہ ئارض کے لئے شدید خطرات میں سر فہرست ہیں، ایک عالمی وبا
کوویڈ 19 اور بھارتی کرونا، جو مختلف اشکال اور ہیت بدل کر ویکسین مہم کے
آگے دیوار بنتا جارہا ہے، تیزی کے ساتھ اپنی نئی اشکال کو تبدیل کرتے کرونا
وائرس، جس طرح بھارتی کرونا نے بھی لاکھوں انسانوں کو نقصان پہنچا یا وہ
کوویڈ 19کے بعد سب سے خطرناک حیاتیاتی وار ثابت ہورہا ہے، عوام میں آگاہی
مہم کا اثر پذیر نہ ہونا ایک الگ مسئلہ بنا ہوا ہے جس کی وجہ سے عالمی سطح
پر ویکسین مہم کو مشکلات کاسامنا ہے، بالخصوص عالمی مساوی اصولوں کے منافی
ویکسین کی تقسیم نے دنیا میں طبقاتی تفریق کو بڑھا دیا ہے، غریب اور ترقی
پذیر ممالک کے لئے ویکسین کا حصوؒل ان کے معاشی توازن کی راہ میں حائل ہے،
اور مایوس کن کیفیت یہ بھی سامنے آرہی ہے کہ عالمی سطح پر جب اقوام متحدہ
کے ادارے یہ کہیں کہ کرونا ابھی ختم نہیں ہوسکتا،اسے ختم میں مزید کئی برس
لگیں گے، ہوسکتا ہے کہ ایک دہائی یا کم ازکم پانچ برس، وہ بھی اُس صورت میں
اگر امیر ممالک امتیازی سلوک کے بغیر دنیا کی مدد کریں۔ افریقی جزیرے
مڈغاسکر کے صدر اینڈری راجویلینا کا کہنا ہیکہ، '' ایک ایسے وقت میں جب
دنیا کوویڈ 19 کی وبا کے خلاف لڑ رہی ہے، آب و ہوا کا بحران بھی پوری طاقت
سے حملہ آور ہو گیا ہے۔'' یہ پیغام بھی دنیا میں مایوسی پھیلا رہا ہے کہ
انسان کو کرونا کے ساتھ جینے کی عادت اپنانا ہوگی، کرونا کی چوتھی اور
پانچویں لہر کی آمد نے نئے خطرات کو بھی ابھارا ہے کیونکہ اس دوران کرونا
اپنی ہیت تبدیل کرچکا اور ایک اندازہ لگایا جارہا ہے کہ موجودہ ویکسین طاقت
ور کرونا کا مقابلہ کرنے کے لئے کافی نہ ہو، اس لئے کمزور صحت کا حامل و
بوڑھے افراد کو بوسٹر ویکسین لگانے کی منصوبہ بندی بھی سامنے آچکی ہے، جس
کا واضح مطلب یہی لیا جارہا ہے کہ موجودہ ویکسین بھی کرونا کو کنٹرول کرنے
کے لئے کافی نہیں، نیز دنیا میں جنگ زدہ علاقوں میں عالمی اداروں کی جانب
سے ویکسین کی عدم فراہمی اور صحت عامہ کی خراب ترین صورت حال میں غیر موثر
کردار بہت بڑا چیلنج ہے کہ کس طر ح اس امر کو یقینی بنایا جاسکے کہ مہاجرت
کی وجہ سے آنے والے آئی ڈی پیز اور مہاجرین سے کرونا کی نئی طاقت ور و
خطرناک شکل دنیا کو خطرے سے دوچار نہیں کرے گی۔
کرونا پرفتح پانے کے لئے کمزور قوت مدافعت نظام کو طاقت ور بنانے کا سرا
ماحولیات سے جڑا ہے، آب وہوا میں تبدیلی اور ماحول کو صحت مند بنانے کے لئے
عالمی بنیادوں پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے، صحت مند ماحول ہی انسانوں میں
کسی بھی بیماری سے لڑنے کی قوت فراہم کرتا ہے، لیکن دیکھنے میں یہی آرہا ہے
کہ صنعتی کثافت کی وجہ سے عالمی درجہ حرارت و موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف
عالمی کوششیں جمود کا شکار ہیں ، امریکہ نے پیرس معاہدے کو غیر فعال کرنے
کے بعد دوبارہ شمولیت تو کی لیکن کرونا کی وبا سے باہر نکلنے کے لئے انہیں
دیگر ترجیحات پر توجہ کم دینا پڑی۔ دو ماہ بعد اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسکو
میں 2015 کے پیرس معاہدے پر پیش رفت کے حوالے سے ایک بڑی بیٹھک ہونے کی
توقع کی جا رہی ہے، پیرس ماحولیات کا عالمی معاہدہ اپنی روح کے مطابق
روایتی طور پر آگے نہیں بڑھ پایا ہے، ابھی تک فنڈز کے تعین اور متاثرہ
ممالک کو ماحولیاتی کمی کے لئے تعاون کا باقاعدہ آغاز بھی دیکھنے میں نہیں
آرہا، چھ برس گذرنے کے باوجود عالمی قوتیں اور دنیا ماحولیاتی جنگ کا سامنا
اُس طرح نہیں کررہی، جو وقت کا اہم تقاضا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک عالمی درجہ
حرارت میں کمی کے لئے اپنی صنعتی پیدوار میں کاربن کے اخراج کو روکنے اور
مضر اثرات کی کمی کے لئے گرین ہاؤسز پر کماحقہ منصوبہ بندی کے مطابق عمل
پیرا نہیں، آب وہوا کی تبدیلی کی وجہ سے جنگلات میں آگ لگنا اور پانی کے
ذخیرے کی کمی سمیت زمینی اثاثہ گلیشئر کو پگھلنے سے روکنے کے لئے اُن ممالک
کے ساتھ عملی طور پر معاون کا کردار ادا نہیں کررہے، جس باعث پوری دنیا کو
ماحولیات و آب وہوا میں تبدیلی کا دوسرا بڑا چیلنج کا سامنا ہے۔ برطانوی
وزیر اعظم بورس جانسن نے اپنی ایک ٹوئٹر پوسٹ میں کہا کہ امیر ممالک نے
ترقی سے فائدہ اٹھایا ہے جس کے نتیجے میں آلودگی پیدا ہوئی ہے، اور اب یہ
ان کا فرض ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کو اپنی معیشت کو ماحول دوست اور
پائیدار طریقے سے آگے بڑھانے میں مدد دیں۔
کرونا یا صحت عامہ کے کوئی بھی امراض ہوں ایک اچھاصحت مند ماحول ہی طاقت ور
انسانوں میں قوت مدافعت کو بڑھاتا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک کے طرح پاکستان
کو بھی آب وہوا کی تبدیلی باعث دیرینہ مسائل کا سامنا ہے، اس کی بنیادہ
وجوہ میں جنگلات کا نہ ہونا اور جو جنگلات تھے، انہیں ٹمبر مافیا کی جانب
سے کاٹ دینے سے موسمیاتی تبدیلی کے بڑے مضر اثرات سے گزرنا پڑ رہا
ہے۔پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے، 24 فیصد سے زائد
آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں، ماحولیاتی حوالے سے پاکستان
کو دنیا کے بدترین ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔ تیزی سے بڑھتی آبادی اور بے
ہنگم و منصوبہ بندی کے بغیر پھیلنے والی آبادی کسی بھی حکمت عملی و لائحہ
عمل کو تہس نہس کردیتی ہے، مون سون، گلیشئر کے تیزی سے پگھلنے اور موسم کی
تبدیلی نے قدرتی ماحول کو تاراج کرکے رکھ دیا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے
صوبہ خیبر پختونخوا میں 2014 کو بلین ٹری منصوبے کی شروعات کیں، جسے عالمی
سطح پر سراہا گیا۔ اس منصوبے کی ابتدائی لاگت 169ملین ڈالر رہی اور درختوں
کی نرسری کو پودوں لگانے کے عمل میں ہزاروں لوگوں کو روزگار بھی ملا، مقامی
افراد کی آمدن میں قدرے اضافہ ہوا، اسے گرین نوکری کے نام سے تشبہ دی گئی۔
ورلڈ اکنامک فورم نے اپنے مضمون میں یہ بھی لکھا”کہ خیبر پختونخوا کی حکومت
نے عالمی ماحولیاتی کانفرنس یا بون چیلنج کے لیے لگ بھگ ساڑھے چار لاکھ
ایکٹر زمین کو درختوں کی کاشت کے لیے مختص کیا۔ یہ حکومت 2020 تک 150 ملین
ہیکٹر رقبے کوو دوبارہ درختوں کی کاشت کے لیے مناسب بنائے گی اور سن 2030
تک 350 ملین ہیکٹر کو درختوں کی کاشت کے قابل بنایا جائے گا“۔ لیکن یہ فطری
امر ہے کہ اہم بڑے اور طویل المدت منصوبوں کو تعریف کے ساتھ تنقید کا سامنا
کرنا پڑتا ہے اور کسی بھی بڑے پراجیکٹ کے ابتدائی منصوبے میں تجربہ نہ ہونے
کے باعث بھی کئی کمزوریوں کا سامنے آنا، خارج از امکان نہیں، اسی طرح بلین
ٹری منصوبے کو تنقید کا سامنا بھیہوا اور سرکاری سطح پر اس پراجیکٹ میں
مالی بدعنوانی سے متعلق تحقیقات کا آغازہوا۔ تاہم ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ
پاکستان کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ ماحولیاتی، اقتصادی اور سماجی
لحاظ سے ایک کامیاب منصوبہ ہے۔
ماہرین نے حکومت کے10 ارب پودے لگانے کے منصوبے کو تکنیکی بنیادوں پر جانچا
اور کئی اہم امور کی نشان دہی کرتے ہوئے حکومت کی توجہ اس جانب بھی مبذول
کرائی ہے کہ جنگلات کے لئے ایک مخصوص ماحول کی ضرورت ہوتی ہے، ایک خاص
ماحول کی عدم موجودگی میں پودے اُس طرح بڑھ نہیں پاتے جس کے اندازے لگائے
جاتے ہیں، درخت بنانے کے لئے پودے لگانا ضروری ہے لیکن ان کی افزائش کے لئے
وہ ماحول اہمیت رکھتا ہے،جس طرح جڑی بوٹیاں، گھاس پھوس وغیرہ پھل پھول
سکیں۔ ماہرین نے منصوبے کا جائزتی عمل میں اظہار کیا ہے کہ منصوبے سے
متعلقہ ذمے داران نے اُن علاقوں میں بھی پودے لگائے جو پہلے ہی پانی کی کمی
کا شکار ہیں، آبی ذخائر کی کمی کے باعث ان کا مستقبل میں تناور درخت بننا
ممکن نہیں، پاکستان کے سابقہ انسپیکٹر جنرل آف فاریسٹریشن سید محمود ناصر
بھی اس بات سے متفق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے امپیریکل مطالعے کی
ضرورت ہے کہ کہاں پانی موجود ہے اور کہاں نہیں۔ اس وقت پودوں کے لیے
زیرزمین پانی نکالنا، پہلے سے دباؤ کے شکار آبی ذخائر پر اضافی بوجھ ہو گا۔
حکومت نے دس ارب پودے لگانے کے لئے 125ارب روپے کا تخمینہ لگایا ہے، لیکن
ماہرین کے مطابق حکومت کئی اہم اخراجات کو نظر انداز کردیا ہے جس کی وجہ سے
خدشہ ہے حکومت جو اعداد و شمار حاصل کرنا چاہتی ہے، اس کے اہداف پورے نہ
ہوسکیں اور طویل المدت منصوبے میں بھاری رقوم، جو کہ عوام کے ٹیکس کے پیسوں
سے استعمال ہورہی ہے بڑے نقصان کا باعث نہ بن جائیں۔ ڈاکٹر حسن عباس کے
مطابق خیبر پختونخوا کے صحرائی علاقے میں لگائے جانے والے ایک پودے کے لیے
مجموعی طور پر پندرہ روپے کے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ''اب آپ خود اربوں
درختوں کی اخراجات کا تخمینہ لگائیں۔ یہ پیسہ دریاؤں کے کناروں کی صفائی پر
خرچ کیا جانا چاہیے تھا تاکہ ان کا بہتر بہاؤ ممکن بنایا جائے۔ پاکستان کے
سابقہ انسپیکٹر جنرل آف فاریسٹریشن محمود ناصر کہتے ہیں کہ قدرتی ماحول کا
خیال رکھے بغیر اگائے جانے والے درخت نہایت مہنگے اور ماحولیاتی اعتبار سے
تباہ کن اثرات کے حامل ہو سکتے ہیں، ''کیا کسی نے ایمیزون جنگل میں کبھی
درخت لگایا؟ کیا ملک کے شمالی علاقوں میں حکومت نے درخت لگائے؟ قدرت کا
درخت لگانے کا اپنا نظام ہے۔ آپ کو درختوں کی دیکھ بھال کی ضرورت نہیں
ہوتی۔“
بلین ٹری منصوبے لگانے میں کئی مسائل کا بھی جائزہ لیا گیا، پودوں کی حفاظت
کے لئے موثر نظام موجود نہیں اسی طرح جنگلات کے مختص کئے جانے والے علاقوں
میں چراگائیں نہیں، کیونکہ جانور گھاس او ر جڑی بوٹیاں کھا کر جنگلات کو آگ
سے محفوظ رکھنے کا کام کرتے ہیں تو دوسری جانب درخت اسی ماحول میں تیزی سے
بڑھتے ہیں جنہیں قدرتی ماحول فراہم کیا گیا ہو، پراجیکٹ والے علاقوں میں
چرنے والے جانوروں پر پابندی عائد ہے، جس کا مطلب ماہرین کے نزدیک مستقبل
میں جنگلات میں لگنے والی آگ کو نہ روکنے کی حکمت عملی قرار دی جا رہی ہے
جس کے مستقبل میں بڑے نقصانات ہوسکتے ہیں۔تمام تر تنقیدی جائزوں کا مقصد
حکومت کی مستقبل کی پالیسی کو ناکام ظاہر کرنا نہیں، جس طرح جرمن یونیورسٹی
ہائیڈل برگ سے ڈگری حاصل کرنے والی پروین کے مطابق یہ پہلی پاکستانی حکومت
ہے جس نے ماحولیات کے مسئلے کو سنجیدہ لیا ہے اور اس کے تدارک کے لیے قدم
اٹھایا ہے۔تو اسی طرح حکومت کے10ارب پودے لگانے کے منصوبوں کے تمام اعداد و
شمار و لاگت سمیت اہم امور کو تعمیری تنقید کے طور پر لینا چاہے کیونکہ
کوئی تو ایسا قدم اٹھایا گیا، جو کئی دہائیوں بعد مملکت کے ماحول و آب و
ہوا کی تبدیلی کے لئے موثر ثابت ہوسکتا ہے، تمام پودے درخت بن نہیں سکتے،
لیکن ایسا بھی نہیں کہ پورا پراجیکٹہی ناکام ہوجائے، یہ اداروں کا کام ہے
کہ اگر کرپشن ہو رہی ہے تو اس کو روکنے کے لئے حکومت عملی اقدامات کرے،
مصنوعی جنگلات اور مستقبل میں سیاحت کے حوالے سے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
اس سے آنے والی نسلوں کو کئی مسائل سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔
دنیا کو جنگی ہتھیاروں وخانہ جنگیوں کی دوڑ سے نکل کر کرہ ئارض کی حفاظت کے
لئے اپنی پالیسوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت، ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ
بڑھ گئی ہے۔کرہ ئارض کی تباہی اور وبا میں اگر امتیازی رویوں کا خاتمہ نہیں
کیا گیا تو اس سے دنیا میں طبقاتی خلیج بڑھتی چلی جائے گی اور احساس محرومی
و وسائل کی کمی کا شکار ممالک معاشرتی عدم توازن سے دنیا کے پر امن نقشے
میں جگہ نہیں پاسکیں گے۔ماحولیات اور کرونا وبا بلاشبہ انسانوں کا اجتماعی
مسئلہ ہے جسے کوئی ایک ملک حل نہیں کرسکتا۔ اعداد وشمار کے گنجلگ دائرے سے
باہر نکل کر دنیا کے اُن طبقوں کو امداد کی شدید ضرورت ہے، جن کو دَبا کر
ترقی کے منازل کرکے چند اجارہ دار ممالک امیر و ترقی یافتہ حکومتیں سمجھی
جاتی ہیں۔ عالمی موسمیاتی اور آب وہوا کی تبدیلیوں اور عالمی وبا کے خاتمے
کرنا اگر عالمی قوتوں کی ترجیحات ہیں تو اس کے نتائج خطرناک ہوں گے۔ امریکہ
مستقبل کی پیش بندی کے تحت نئے بلاک بنانے میں مصروف ہے،جس کا مطمع نظر
عوام کو محفوظ بنانے کے لئے دفاعی حکمت عملی کو اختیار کرنا ہے، امریکی صدر
جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ، ''ہم اس بحران کو تھوڑے بہت اقدامات یا درمیانی
راستے کے انتخاب سے حل نہیں کر سکتے۔ ہمیں اس پر قابو پانے کے لیے بڑے
پیمانے پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنے
کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے حکومتوں، نجی شعبے، سول سوسائٹی کے قائدین اور مخیر
حضرات کے آگے آنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک سنگین بحران ہے۔“
|