تنظیم و اُصول اور استعداد و صلاحیت کے ضمن میں تعلیماتِ اعلیٰ حضرت کی عصری افادیت

تنظیم و اُصول اور استعداد و صلاحیت کے ضمن میں تعلیماتِ اعلیٰ حضرت کی عصری افادیت
(عرسِ اعلیٰ حضرت پر فکر انگیز تحریر)

غلام مصطفیٰ رضوی
نوری مشن/اعلیٰ حضرت ریسرچ سینٹر مالیگاؤں

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ عالمِ اسلام کے عظیم نابغہ و عبقری تھے۔ آپ کی فکر و بصیرت نے اُمتِ مسلمہ کی رہبری کی۔ انگریزی اقتدار کے خلاف ذہن سازی کی۔ تمدنِ فرنگ سے نفرت کا اظہار کیا۔ فتاوے صادر فرمائے۔ مشرکین کی سازشوں سے پردہ اُٹھایا۔ مسلمانوں کی تنظیمی صلاحیتوں کو نکھارا۔ اجتماعیت کی فکر دی۔ استعداد و صلاحیت کی قدر دانی سکھائی۔ اُصولِ ارتقاے قومیت کو تفوق بخشا۔ اعلیٰ حضرت کی تعلیمات کے ذریعے اسلامی ذہن سازی ہوئی۔ مسلمانوں کی ترقی کے لیے آپ کی تجاویز بڑی افادیت کی حامل ہیں۔

تنظیم و اُصول:
اعلیٰ حضرت تحریر فرماتے ہیں: ’’شہروں شہروں آپ کے سفیر نگراں رہیں جہاں جس قسم کے واعظ یا مناظر یا تصنیف کی حاجت ہو آپ کو اطلاع دیں آپ سرکوبی اعدا کے لیے اپنی فوجیں، میگزین، رسالے بھیجتے رہیں۔‘‘
(فتاویٰ رضویہ، ج۱۲،رضا اکیڈمی ممبئی، ص۱۳۴)
یہ نکتہ جماعتی نظم و ضبط اور اتحاد و اتفاق، تحریک و تنظیم کے لحاظ سے کافی اہم ہے۔ اس رُخ سے کام کا آغاز آپ نے اپنی حیات میں ہی کر دیا تھا اور کئی تنظیموں کی ضرورت کے تحت بنا ڈالی۔ جن کی خدمات سے ہند کی تاریخ منور ہے۔ اس ضمن میں شدھی تحریک کے سدِ باب کے لیے آپ کے تلامذہ کی خدمات نیز جماعت رضائے مصطفیٰ بریلی کا قیام نمایاں ہیں، مشرکین کی شعائر اسلام کے خلاف سازشوں کی نقاب کشائی بھی اہم کارنامہ ہے۔ اقتصادی و سیاسی سطح پر ایمان سوز تحریکات نے آپ کے عہد میں جس تیزی کے ساتھ جنم لیا اس کی مثال نہیں ملتی؛ اور ان کا سدِ باب آپ کا عظیم کارنامہ ہے۔ آپ نے برصغیر کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کے حالات پر نظر رکھی اور ضرورت کے پیشِ نظر کام کے لائق افراد تیار کیے۔ ملک کے طول و عرض سے قابل افراد طلب کیے جاتے اور بارگاہ ِرضا سے علما بھیجے جاتے۔ یوں جمعیت کے لیے عملاً پیش قدمی کی-
ملک العلماء علامہ ظفر الدین قادری بہاری جو مصنف، محقق، مدقق، مناظر، مدرس، منتظم، ماہر علومِ ہیئت و فلکیات تھے اور حاجی منشی لعل محمد خاں (کلکتہ) جو اشاعتی و تنظیمی امور میں پیش پیش رہا کرتے تھے اُن کے تذکرے میں اعلیٰ حضرت کا قومی دَرد اور ملی کرب ملاحظہ ہو، ملک العلماء کے نام اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:
’’افسوس کہ ادھر نہ مدرس، نہ واعظ، نہ ہمت والے مال دار، ایک ظفرالدین کدھر کدھر جائیں اور ایک لعل خاں کیا کیا بنائیں۔‘‘
( حیاتِ اعلیٰ حضرت، از ملک العلماء، ادارۂ ترویج و اشاعت مسجد نورالاسلام بولٹن۲۰۰۳ء، ج۳، ص۳۹۱)
اعلیٰ حضرت کی تعمیری فکر سے ان کے تلامذہ کو وافر حصہ ملا، چناں چہ اتحاد اور احکامِ شرع پر عمل کے لیے دعوتِ فکر دیتے ہوئے تلمیذ رضا، صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی (مصنف: بہارِ شریعت) لکھتے ہیں:
’’بے جا ضد اور ہٹ سے باز آؤ اور اسلام کی مضبوط رَسی کو مضبوطی سے پکڑ لو۔ آپس میں خلوص و محبت سے پیش آؤ۔ ہماری عزت اسلام سے ہے۔ اور بہبودی و فلاح اتباع شریعت میں ہے۔‘‘
( پیغام عمل،یٰسٓ اختر مصباحی، دارالقلم دہلی ۲۰۰۲ء، ص۷۲)
آپ کے محبین، متوسلین، مریدین و خلفا اور تلامذہ نے مختلف بلاد و امصار میں حالات اور تقاضے کے تحت مسلمانوں کی رہنمائی کی۔ منصوبہ بندی کے ساتھ حوادثِ زمانہ کا مقابلہ کیا۔ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ سرکردہ افراد اعلیٰ حضرت کے نکتۂ مذکورہ پر غور و فکر کے ساتھ عمل کی راہ نکالیں۔

استعداد کا استعمال:
اعلیٰ حضرت اپنے فکر پرور منصوبہ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’جو ہم میں قابلِ کار موجود اور اپنی معاش میں مشغول ہیں، وظائف مقرر کر کے فارغ البال بنائے جائیں اور جس کام میں انھیں مہارت ہو لگائے جائیں۔‘‘
(فتاویٰ رضویہ،ج۱۲، رضا اکیڈمی ممبئی،ص۱۳۴)
آپ نے کئی مقامات پر وظائف سے متعلق رہبری کی ہے، اِس اقتباس میں جو پہلو واضح کیا گیا وہ یہ ہے کہ با صلاحیت افراد کو ان کے متعلقہ شعبے میں مقرر کیا جائے تا کہ ان کی صلاحیت کا مثل ’’حق بہ حق دار رسید‘‘ عمدہ نتیجہ قوم کو حاصل ہو، اس کے لیے معاشی آسودگی ضروری ہے اور وظائف کے ذریعے اس مسئلہ سے نمٹا جا سکتا ہے۔یعنی فرد سے اس کی صلاحیت کے مطابق کام لیا جائے۔ جس سے قوم کی نئی نسل کو فائدہ پہنچے گا اور صلاحیتیں ضائع ہونے سے بچ جائیں گی۔
ماضی میں جب کہ علمی و تحقیقی امور کی انجام دہی کے لیے مسلم سلاطین نے بڑے بڑے جامعات و مدارس قائم کیے تھے، با صلاحیت علما کو وظائف دے کر معاشی ضروریات کا تصفیہ کیا جاتا تھا اس طرح وہ یکسوئی کے ساتھ علمی و دینی کام انجام دیا کرتے تھے اور قوم کی ترقی کا آفتاب نصف النہار پر پورے آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔
اعلیٰ حضرت نے اس میں قابل افراد کی قدر سکھائی ہے اور بیدار رہ کر قومی تعمیر کے فریضے کو بہتر طور پر انجام دینے کا ذہن دیا، یہ فکری نکتہ ہمیں جھنجھوڑ کر کہہ رہا ہے کہ ؎
دلوں میں وَلوَلے آفاق گیری کے نہیں اُٹھتے
نگاہوں میں اگر پیدا نہ ہو انداز آفاقی
٭٭٭

 
Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 281246 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.