ارشادِ ربانی ہے: ’’ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا
دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو
(بطور) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا‘‘۔ یہاں پر دین
اسلام کی تین خصوصیات بتائی گئی ہیں۔ پہلی تو یہ دین کامل ہے یعنی اس میں
کسی کمی بیشی کی گنجائش نہیں ہے انگریزی میں اسے کہتے ہیں (full & final)۔
اس احسان عظیم کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے فرمایا کہ یہ دراصل تکمیل نعمت
ہے یعنی اس قدر دانی کی جانے چاہیے۔ اس کے لیے خداوند عالم کا شکر بجا لانا
چاہیےکیونکہ تمھیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنا پسندیدہ نظام حیات سے نواز
دیا ہے اور تم اس کی اتباع و پیروی کرکے اس کی رضا وخوشنودی حاصل کرسکتے
ہو۔ یہ آیت اہل ایمان کو دیگر تمام نظریات عالم سے بے نیاز کردیتی ہے۔ اس
لیے اول تو وہ نعمت کے بجائے زحمت ہیں ۔ وہ خود اپنے ارتقاء پذیر ہونے کا
یعنی دوسرے معنیٰ میں نامکمل ہونے کا اعتراف کرتے ہیں ۔ اسی کے ساتھ چونکہ
وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا پسندیدہ طریقۂ زندگی نہیں ہے اس لیے اس کے
پیروکار کو رب کائنات کا پسندیدہ بندہ نہیں بناسکتے ۔
اس آیت سے پہلے فرمان خداوندی ہے:’’آج کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے
پوری مایوسی ہو چکی ہے لہٰذا تم اُن سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو‘‘۔ رسول
اکرم ﷺ نے فرمایا:’’ شیطان اس سے تو مایوس ہوچکا ہے کہ نمازی مسلمان جزیرہ
عرب میں اس کی پرستش کریں، ہاں وہ اس کوشش میں رہے گا کہ مسلمانوں کو آپس
میں ایک دوسرے کے خلاف بھڑکائے۔ ‘‘گویا کافروں کی مایوسی کا ذکر قرآن اور
شیطان کی مایوسی کا مژدہ حدیث میں ہے مگر کچھ مرعوب مسلم دانشور یہ سمجھانے
کی کوشش کرتے ہیں کہ جمہوریت عین اسلام ہے۔ یہ رغبت بلا واسطہ اعتراف ہے کہ
دین اسلام میں نعوذ باللہ جو کمی تھی اس کو اس نظریہ نے مکمل کیا اور دلیل
کے طور پر جمہوریت میں اسلام سے مستعار شدہ شورائیت کا حوالہ دیا جاتا ہے۔
جمہوریت کو اسلام ثابت کرنے والوں کے جھانسے میں کچھ بھولے بھالے مسلمان تو
آجاتےہیں مگر خالص جمہوریت کے علمبرداراسلام کو اپنے نظریہ کا حصہ نہیں
تسلیم کرتے اور ان اسلام پسندوں سے ترک دین کا تقاضہ پر مُصر رہتے ہیں ۔
عیسائیوں اور یہو دیوں کی بابت فرمان ربانی ملحدین پر بھی صادق آتا ہے کہ
:’’ یہودی اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے، جب تک تم ان کے طریقے پر
نہ چلنے لگو ‘‘۔ اس کے بعد مومنین کو مطلوبہ رویہ کی تعلیم اس طرح دی گئی
کہ :’’ صاف کہہ دوکہ راستہ بس وہی ہے، جو اللہ نے بتایا ہے‘‘۔ اختتامی وعید
تو رونگٹے کھڑی کردیتی ہے:’’ اگراُس علم کے بعد، جو تمہارے پاس آ چکا ہے،
تم نے اُن کی خواہشات کی پیروی کی، تو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی دوست
اور مدد گار تمہارے لیے نہیں ہے‘‘۔
مداہنت کا یہ رویہ یا تو دوستی اور مدد کے لیے اختیار کیا جاتا ہے جس کا اس
آیت میں ذکر ہے یا خوف کے سبب ہوتا جس کی جا نب ابتدائی آیت میں اشارہ ہے
کہ’ لہٰذہ تم ان سے نہیں مجھ (اللہ) سے ڈرو‘۔ ان بیچاروں کا حال نہ خدا ہی
ملا نہ وصال صنم کا سا ہوتا ہے حالانکہ فرمان الٰہی تو یہ بھی ہے کہ : ’’جو
کوئی شخص اسلام کے سوا کوئی دوسرا دین اختیار کرنا چاہے گا تو اس سے وہ دین
قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ان لوگوں میں شامل ہوگا جو سخت
نقصان اٹھانے والے ہوں گے‘‘۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ آخر علم دین سے بہرہ
مند لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟اس کا جواب مرعوبیت ہے ۔ یہ لوگ چونکہ دین
اسلام کو غالب نظریات کی عینک لگاکر دیکھتے ہیں اس لیے انہیں دین حق کے
اندر کجی نظر آتی ہے ۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے؎
آج پھر تم نے کسی اور کی عینک پہنی
آج پھر تم کو میرے عیب دکھائی دیں گے
|