واشنگٹن میں آئی ایس آئی کے
سربراہ لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا نے دورہ امریکہ کے موقع پر امریکی خفیہ
ایجنسی سی آئی اے کے قائمقام ڈائریکٹر مائیکل موریل، قومی سلامتی کے نائب
مشیر ڈک لوئٹ اور پاکستان اور افغانستان کے لئے امریکی صدر باراک اوبامہ کے
نمائندہ خصوصی مارک گراسمین سے الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں جس میں باہمی
تعلقات کے فروغ ، انٹیلی جنس شیئرنگ کے تبادلے، منفی پروپیگنڈا اور
بدگمانیاں ختم کرنے پر اتفاق کیا گیا جبکہ امریکی خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں
کی پاکستان میں کاروائیوں کے طریقہ کار اور قبائلی علاقوں میں جاری پاک فوج
کے آپریشنز، ڈرون حملوں، پاکستان کی فوجی امداد کی بندش، امریکی اہلکاروں
کے ویزوں کے معاملات اور دیگر اہم امور پر بھی بات چیت کی گئی، سی آئی اے
نے عسکریت پسندوں کیخلاف مشترکہ انٹیلی جنس آپریشن کا مطالبہ کیا ، پاکستان
نے سی آئی اے کی اپنی حدود میں یکطرفہ کاروائیوں کو مسترد کرتے ہوئے واضح
کیا کہ کسی بھی کاروائی سے پہلے آئی ایس آئی کو اطلاع دینی ہو گی۔جنرل پاشا
کی امریکی حکام سے ملاقات کا میاب رہی یا ناکام یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ
انہوں صلح حدیبیہ کا فارمولا تو نہیں اپنایا لیکن یہ بات روز روشن کی طرح
عیاں ہیں کہ عوام کو اس سے کو ئی خوشی نہیں ہو ئی کہ پاکستان کے امریکا سے
تعلقات بحال ہو گئے ہیں ۔عوام کا خیال ہے کہ پاکستان کی بقا اس میں ہے کہ
امریکا سے قطع تعلق کر لیا جائے اور اس سلسلے میں خواہ کتنا ہی نقصان ہو
ہمیں برداشت کر نا چاہیے۔ حکمرانوں اور عوام کو سادگی سے گزارہ کر نا ہو گا
تاکہ امداد کے بغیر بھی زندہ رہ سکیں پاکستان کے پاس اتنے وسائل موجو د ہیں
کہ انہیں کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہو گا توجہ دی جائے تو زراعت سے ہی ہم
اپنا سارانقصان پو راکرسکتے ہیں لیکن اس سب کے لیے پہلا قدم حکمرانوں کو
اٹھانا ہو گا ۔اور اپنی موجودہ روش کو ترک کر نا ہو گا حکمرانوں کی نااہلی
کی اس سے بڑی مثال کیا ہو گی کہ گورنر اسٹیٹ بینک شاہد کاردار نے اس لیے
استعفی دے دیا کہ حکومت اپنا خسارہ پوراکرنے کے لیے انہیں نوٹ شائع کرنے پر
مجبور کر رہی تھی آفرین ہے کہ انہو ں نے قوم کے وسیع تر مفاد میں اپنی
نوکری کو جوتے کی نوک پر رکھا اور مستعفی ہو گئے ۔
9/11کے بعد سے شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ سے جہاں ملک
بھر میں امن و امان کے مسائل پیدا ہوئے وہاں وفاق کے زیر انتظام تمام
قبائلی علاقوں میں حکومت کی کوئی رٹ نہیں رہی۔ سینکڑوں سکول اور ہسپتال
تباہ ہو گئے۔ فاٹا اور خیبر پختونخوا میں سماجی انفرا سٹرکچر ٹوٹ پھوٹ کا
شکار ہو گئے۔ فاٹا اور سوات میں حکومت کا وجود برائے نام رہ گیا۔ فاٹا میں
درجنوں نامی گرامی افراد قتل کر دیے گئے، 40 لاکھ کے قریب افراد اپنے گھروں
سے بے دخل ہوئے جبکہ 10لاکھ کو کیمپوں میں پناہ لینا پڑی۔ امریکی امداد کے
باوجود اندرونی و بیرونی قرض 5 سے 10 کھرب تک پہنچ گیا۔ فوجی آپریشن روز کا
معمول بن گیا۔ ایک لاکھ 40 ہزار فوج صرف فاٹا میں تعینات کرنا پڑی، جبکہ
سوات میں 20 ہزار فوجیوں کومستقل تعینات رکھنے کی ضرورت ہے۔ ایک کھرب 60
ارب کے مجموعی بجٹ میں 750 ارب روپے قرضوں کی واپسی اور 550 ارب روپے دفاع
پر خرچ کرنا پڑ رہے ہیں۔
اس طرح سماجی شعبہ کے لیے حقیر رقم باقی بچ جاتی ہے۔ سیاحت تباہ ہو چکی ہے
جبکہ پاکستان کے تمام بڑے شہر عموماً اور چھاﺅنیاں اور پولیس اسٹیشن قلعوں
میں تبدیل کر دیے گئے ہیں جس کی وجہ سے عام شہریوں کو ضروری نقل و حرکت کے
لیے بھی شدید دشواریوں کا سامنا ہے۔ سال 2009ءسے اب تک 235 ڈرون حملوں میں
3 ہزار افراد مارے گئے۔دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پاکستان کے 3500 فوجی
شہید اور 6710 فوجی زخمی ہو چکے ہیں۔ اس جنگ میں فوجیوں کے علاوہ اب تک
52ہزار کے قریب بے گناہ شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور ایک
لاکھ سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ اقتصادی طور پر نقصان کا اندازہ35ارب ڈالر
سے زائد لگایا جا رہا ہے۔ جس جنگ کو ہم نے اپنا یا ناجانے یہ کیسی جنگ ہے
کہ نقصان کا اندازہ نہیں۔ نہ کسی ادیب نے انکی بہادری پر ادب تخلیق کیا ہے
نہ کسی شاعر نے ترانے لکھے ہیں۔ نہ کسی موسیقار نے دھنیں تربیت دی ہےں نہ
کسی مغنی نے ترانے گا کر اپنی آواز کا جادو جگایا ہے۔ نہ ظلم و ستم کے خلاف
نوحے اورمرثیے لکھے گئے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ قوم کے تمام طبقات نے کی
ڈالروں کے عوض لڑی جانی والی نام نہاد جنگ کو مسترد کر دیا ہے۔امریکہ نے
پوری قوم کے اعتماد کوکمزور کر نے کیلئے عسکری اداروں اور ایبٹ آباد پر
اسلئے حملے کرائے ہیں تاکہ قوم کو مایوسیوں کا شکار کیا جا سکے۔اگر جنگ
سرحدوں پر لڑی جا رہی ہوتی تو اسکی زیادہ تر ذمہ داری عسکری اداروں،انٹیلی
جینس ایجنسیوں پر ہوتی۔ مگر یہ جنگ تو عبادت گاہوں، تعلیمی اداروں،
ہسپتالوں، شاپنگ سینٹرز ، ہوٹلوں، شاہراہوں اور عسکری اداروں کونشانہ کر کے
لڑی جا رہی ہے۔ امریکہ کی مدد کر کے ہمیں چند سکے تو ملے جس کا فائدہ
حکمرانوں کو ر ملا لیکن پاکستانی عوام کو سوائے بد امنی، بے سکونی ، نیٹو
کے ڈرون حملوں، خانہ جنگی کے خطرات، سیاسی عدم استحکام، بیرونی سرمایہ کاری
میں کمی ، لوڈ شیڈنگ، مہنگائی اور بیشمار دوسری مشکلات کے کچھ نہیں ملاء۔آج
کی سپر پاور کے پاس انتہائی جدید قسم کے ہتھیا ر تو ہیں ہی، اقوام متحدہ ،
نیٹو ، آئی ایم ایف اور عالمی بینک جیسے ادارے بھی ہیں جن پر اس کا مکمل
کنٹرو ل ہے اور انہیں دنیا بھر میں استعمال کرتا ہے۔اس کے علاوہ سلامتی
کونسل کا مستقل رکن ہونے کی وجہ سے ویٹو کا اختیار ، اور اقتصادی پابندیاں
بھی اس کے بڑے مہلک ہتھیار ہیں ۔پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جس کے
خلاف آج کی اکلوتی سپر پاور ان ہتھیاروں کا استعمال سب سے زیادہ کر رہی ہے۔
ان حالات میں ہمارے رہنماﺅں کی پالیسی کیا ہونی چاہیئے ؟ وہ اس سے بخوبی
آگاہ ہیں لیکن افسوس کہ امریکہ کو ”ناں“کرنے کی جرات نہ تو پہلے کسی لیڈر
میں تھی اور نہ ہی موجودہ لیڈر شپ میں یہ حوصلہ ہے۔کتنی عجیب بات ہے کہ
امریکی عوام اور پاکستانی عوام اور دفاعی حکام بھی اس جنگ کے مخالف ہیں
لیکن وہ صرف ایک امریکی دھمکی پر امریکا بھاگے جاتے ہیں ؟آخر کیا وجہ ہے وہ
دہشت گردی کے خلاف اسی نام نہاد جنگ کو ختم کرنے پر تیار نہیںجبکہ امریکی
رویہ پاکستان کے خلاف دوغلا ہے اور وہ پاکستان کو درمیان سے نکال کر طالبا
ن سے براہ راست مذاکرات کرنا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں افغانستان کی
پارلیمنٹرین ہما سلطانی کی ملا عمر سے افغانستان میں ملاقات ہو ئی ہے جس سے
یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ طالبان لیڈر شپ پاکستان میں موجود نہیں ہے جس کو
بہانہ بنا کر پاکستان پر آئے روز ڈرون حملے کیے جارہے ہیں ۔ابھی بھی وقت ہے
کہ ہم سنبھل جائیں اور ہو ش کے ناخن لیتے ہو ئے امریکی چنگل سے نجات حاصل
کرنیکی کوشش کریں چاہے ہمیں اس کے لیے کتنی ہی بڑی قربانی کیوں نہ دینی
پڑے۔ |