پاکستان میں سرمایہ کاری کیوں نہیں ہورہی اور اس کو
بڑھانے کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہئیں۔
اسٹیٹ بینک نے اپنی حالیہ رپورٹ میں یہ تسلیم کیا ہے کہ ملک میں تمام تر
کوششوں (نمائشیں، کانفرنسز، سیمینارز، سمپوزیمز) کے باوجود بھی اندرونی اور
بیرونی سرمایہ کاری کا عمل بے انتہا سست ہے یا یوں کہیں کہ رکا ہوا ہے جبکہ
حکومت کا بلند و بانگ دعویٰ الگ یہ ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ
ہورہا ہے جی ڈی پی گروتھ ریٹ میں اضافہ ہورہا ہے مائیکرواکنامکس بہتر ہورہی
ہے ملکی معیشت ترقی کی جانب گامزن ہے تمثیل کے طور پر اسٹاک ایکسچینج کے
روز اکنامک بیریئر توڑنے کے ریکارڈ ہیں جبکہ عوامی سطح پر دیکھا جائے تو
ملک میں بیروزگاری بڑھ رہی ہے لوگ خودکشی کررہے ہیں غربت میں ایک دم بے
تحاشہ اضافہ ہورہا ہے تصویر کے ان دونوں رخ میں سے کس کو صحیح مانیں کس کو
غلط۔
آج ہم سرمایہ کاری کے فروغ کے بارے میں چند تجاویز دیں گے تاکہ اس کی روشنی
میں ارباب اختیار ملک کے اس سب سے بڑے مسئلے پر قابو پانے کی کوشش کرسکیں۔
موجودہ عالمی صورتحال میں ہمارا سب سے بڑا فوکس/ مرکز و محور ہمارا امیج ہے
بین الاقوامی سطح پر اس کو بنیادی طور پر بہتر کرنے کی کوشش کرنی چاہئے
چونکہ کچھ تو ہمارے دشمنوں کی مہربانیوں سے اور کچھ ہماری غفلت سے ہمارا
بین الاقوامی امیج مسلسل بڑا خراب چلا آرہا ہے جس کے باعث سرمایہ ملک میں
نہیں آرہا، امیج بڑھانے کے لئے سب سے پہلے حکومتی مشینری کو متحرک اور فعال
ہونا چاہئے اور تمام ممالک میں پاکستان کے سفارتخانوں کو ٹریڈ اور ایکسپورٹ
ڈیویلپمنٹ اینڈ ایگزیبیشن سینٹر کے طور پر استعمال کیا جائے اور پاکستان کے
سفیروں کو اس سلسلے میں خاص اہتمام اور ذمے داری دی جائے کہ وہ اس سلسلے
میں کام کرسکیں ہمارا امیج بلند کرنے میں ہمیں پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا کی
مدد بھی مؤثر ثابت ہوسکتی ہے یقین مانئے اپنا امیج بہتر بنائے بغیر ہم بین
الاقوامی سطح پر اپنے مال کو بہتر فروخت کے مواقع حاصل نہیں کرپائیں گے۔
دوسرا اہم پہلو یوٹیلیٹی اخراجات کا بے لگام ہونا ہے ہمارے ہاں یوٹیلیٹی
لاگت سب سے زیادہ ہے گیس بجلی فرنس آئل بہت مہنگا ہے اور روز بروز قیمت
بڑھتی رہتی ہے دوسری طرف نہ صرف عوام بلکہ تاجر برادری بھی اس کی وجہ سے
کافی پریشان نظر آتی ہے ہمیں 1993-94ء کے بعد کی صورتحال کو بتدریج اپنی
نگاہ میں رکھنا ہوگا جس میں ہمارے اکنامک انڈیکیٹر کھلے طور پر اشارہ دیتے
ہیں کہ غیرملکی سرمایہ کاروں کی نظر میں یہ سیکٹرز زیادہ سودمند ثابت ہوئے
ہیں جس میں سیمنٹ، پولیسٹر فائبر اور توانائی ان تینوں شعبوں میں بے تحاشہ
سرمایہ کاری ہوئی ہے اور ان ہی شعبوں میں یوٹیلیٹی اخراجات کا مکمل عمل دخل
ہے اگر ہم فری مارکیٹ تصور بھی ذہن میں لائیں تب تو مقابلے کی سطح کو
برقرار رکھنے کے لیے یہ سب سے اہم پہلو ثابت ہوگا۔
امن و امان کے واقعات دنیا بھر میں ہر جگہ ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں جس طرح
اس کی خبریں بہت نقصان دہ انداز میں پیش کی جاتی ہیں ہمیں ہر طور یہ بات
ضرور ذہن میں رکھنی چاہئے کہ جس ملک میں یوٹیلیٹی کے اخراجات کم ہوں امن و
امان کی صورتحال بہتر ہو وہاںہی ملٹی نیشنل کمپنیاں سرمایہ کاری کیا کرتی
ہیں یا ایکسٹینشن یونٹ لگایا کرتی ہیں۔
یاد رکھئے سرمایہ کاری کسی فوری عمل کا نام نہیں ہے سرمایہ کاری کا عمل
طویل المدت ہوتا ہے اگر آج کوئی سرمایہ کاری کرتا ہے تو تین سے 5 سال میں
اس کی پیداوار بازار میں گردش کرے گی تو اسے ممکنہ نتائج حاصل ہوں گے۔
ہمیں اپنی ایک غیرضروری عادت پر قابو پانا ہوگا وہ یہ کہ غیرضروری چھٹیوں
سے بھی ملکی معیشت کو نقصان پہنچتا ہے ہمیں اس پر بھی قابو پانے کی ضرورت
ہے۔
اسٹاک ایکسچینج میں تیزی آئی ہے مگر سرمایہ کاری اتنی زیادہ نہیں ہورہی ہے
یا جتنی ہونا چاہئے اتنی نہیں ہورہی ہے میوچل فنڈز کے حوالے سے ہماری رائے
یہ ہوگی کہ موجودہ دور میں اسلامی موڈ آف انوسٹمنٹ اور اسلامی بینکاری نے
خاصہ فروغ پایا ہے اور نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی بینکوں نے بھی اسلامک
پروڈکٹس متعارف کروائی ہیں جس کا بہت اچھا رسپانس آیا ہے تو عوامی حلقوں کو
راغب کرنے کے لیے اسلامک موڈ آف میوچل فنڈز کے اوپر کام کیا جائے ہمارے ہاں
میوچل فنڈز کے بہت قابل ماہرین موجود ہیں جو اس سلسلے میں رہنمائی بھی
کرسکتے ہیں اس طریقے سے وہ طبقہ بھی اسٹاک ایکسچینج کی طرف راغب ہوگا جو
اسٹاک ایکسچینج کو رسک روم سمجھتا ہے ایک عام آدمی اور قومی اور بین
الاقوامی سرمایہ کار بھی کو ہمارا ملک اسی وقت پرکشش محسوس ہوگا جب ہمارے
ملک میں پرکشش سرمایہ کاری کے مواقع باآسانی میسر ہوں یاد رہے سرمایہ وہاں
رہتا ہے جہاں اسے تحفظ حاصل ہو۔
|