کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں دمشق کی شہرت عشق و محبت کے
گہوارے کی حیثیت سے تھی۔ خوشحالی کا دور دورہ تھا اس لیے لوگوں کے پاس پیار
کرنے کی فرصت بھی خوب تھی۔ روز و شب ان دلپسند مشغلوں میں گزارنا عوام کا
وطیرہ بن چکا تھا۔ ہر روز روز عید اور ہر شب شب برات کا منظر پیش کرتی تھی۔
جب یہ بدمستیاں حد سے گزرنے لگیں تو قدرت کی بے آواز لاٹھی حرکت میں آگئی
اور دمشق میں قحط کی صورت میں عذاب خداوندی نازل ہوا۔ اشیاء خوردونوش بازار
سے عنقا ہو گئیں اور لوگ گندم کے دانے دانے کو ترسنے لگے۔ نوبت یہاں تک آ
پہنچی کہ لوگ مردہ جانوروں کا گوشت کھانے لگے اور بسا اوقات زندہ انسانوں
پر بھی موقع ملنے پر ہاتھ صاف کرنے لگے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ایسے عالم
میں لوگوں نے اپنے وہ معشوق بھی فراموش کردئیے جن کی سنگت میں کبھی داد عیش
دیا کرتے تھے۔ جن کے حسین رخسار کے تل کے عوض ثمرقند و بخارا فدا کرتے تھے
ان کے ہاتھوں سے آ لو بخارا بھی چھین جھپٹ کر کھانے لگے اور نوبت ایں
جارسید کہ بقول شاعر
نہ تم آئے نہ ہم آۓ کہیں سے
پسینہ پونچھ لیں اپنی جبیں سے
اس صورتحال سے اہل دانش نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سارا فساد خوشہ گندم کا تھا۔
جب تک پیٹ بھر کر کھانے کو مل رہا تھا اس وقت تک سب کو ہری ہری سوجھتی تھی
لیکن جب روٹی کے ایک لقمہ کو بھی لالے پڑ گئے تو پھر کہاں کی محبت اور کون
سا عشق۔
فی زمانہ بھی اپنے گردوپیش پر نظر ڈالیں تو کچھ ایسی ہی صورتحال دکھائی
دیتی ہے۔ جس کو بھی ذرا مالی فراغت اور خوشحالی نصیب ہوتی ہے وہ اکثر اپنی
دولت ان بے مصرف مشاغل میں صرف کرنے لگتا ہے جن کا حاصل دنیا کی ذلت اور
آخرت کی رسوائی کے سوا کچھ نہیں۔ کوئی نام و نمود کی دوڑ میں آ گے نکلنا
چاہتا ہے تو کوئی عیاشی و بدمعاشی کے ریکارڈ توڑنا چاہتا ہے۔ اللّٰہ تعالٰی
کی عطا کردہ نعمتوں کی قدر دانی کرنے کے بجائے اسراف و تبذیر کا چلتا پھرتا
اشتہار بننے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ اسٹیٹس اور برانڈز کے پیچھے اپنا پیسہ
پانی کی طرح بہاتا ہے۔ دین کوپس پشت ڈال کر دنیا کی رنگینیوں میں سکون تلاش
کرتاہے۔ یہاں تک کہ موت آ کر اس کی تمام آرزوؤں کو سرد کردیتی ہے اور ہاتف
غیبی کی یہ صدا ہر طرف گونجتی سنائی دیتی ہے
بس اب اللّٰہ بس اللّٰہ بس ہے
سوا اس کے جو ہے باقی ہوس ہے
|